Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 2345/44-3530
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفاس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے اور مذکورہ عورت کی عادت بھی مختلف ہے، اس لئے اگر خون بیس دن پر بند ہوگیا تو اکیسویں دن بیوی سے ملنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔
" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط". الفتاوى الهندية (1/ 37):
ویحلّ وطوٴہا إذا نقطع حیضہا لأکثرہ ، مثلہ النّفاس بلا غسل وجوباً بل ندباً ، وإن لأقلّہ لا یحلّ حتّی تغتسل أو تیمّم بشرطہ أو یمضي علیہا زمن یسع الغسل ولبس الثّیاب والتحریمة یعني من آخر وقت الصّلاة ، لتعلیلہم بوجوبہا في ذمتہا ۔ (الدر مع الرد، کتاب الطہارة: ۱/۴۹۰، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2373/44-3587
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال کی نوعیت واضح نہیں ہے ، نفع لینے کی صورت کیا ہوتی ہے، اگر قربانی کرنے والا لوگوں کا وکیل ہے اور وہ لوگوں کی قربانی کرتاہے تو بتاکر اجرت لینا درست ہے لیکن لوگوں کو بتانا کہ 1300 فی حصہ ہے اور 1100 فی حصہ کی قربانی کرنا اور 200 روپئے نفع سمجھ کر رکھ لینا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے مراد استقرار حمل کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ابتداء میں وہ صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اس وقت اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے کہ مذکر ہوگا یا مؤنث، گویا کیسی شکل وصورت ہوگی، اس وقت ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ سے کچھ معلوم نہیں ہوتا، البتہ جب اعضاء بننے شروع ہوجاتے ہیں تب معلوم ہوسکتا ہے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؛ اس لیے اس آیت سے کوئی تعارض نہیں۔ اس کی مزید تحقیق فن کے ماہرین (ڈاکٹر اطباء) سے کی جاسکتی ہے۔(۱)
(۱) ویعلم ما في الأرحام، أی: وہو یعلم تفصیل ما في أرحام الإناث من ذکر… أو أنثیٰ، وواحد ومتعدد، وکامل وناقص، ومؤمن وکافر، وطویل وقصیر، وغیر ذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۳)
وفي موضع أخر، وأبیض، وأسود، وطویل، وقصیر، وسعید وشقي وغیر ذلک۔ (’’أیضاً:، باب في الریاح والمطر‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۷،رقم: ۱۵۱۴)
قولہ تعالیٰ: اللّٰہ یعلم ما تحمل کل أنثی ذکراً أو أنثی، ویعلم ما في الأرحام، سویاً أو غیر سوي۔ (أبو اللیث نضر بن محمد، بحر العلوم: ج ۲، ص: ۲۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص37
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات کے واضح جوابات سمجھنے کے لئے حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر کی کتاب عبارات اکابر مطبوعہ مکتبہ مدنیہ دیوبند کا مطالعہ مفید ہوگا، اس تعلق سے کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ جو مخالفین کی الزام تراشیوں کو قطع کرنے کے لئے مفید ہیں، مذکورہ کتاب ’’عبارات اکابر‘‘ سہل اور مفید ہے۔ اسی طرح مولانا منظور نعمانیؒ صاحب کی کتاب ’’فیصلہ کن مناظرہ‘‘ بھی بڑی مفید ہے
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص273
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2646/45-4006
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے، کہ نماز کا رکن فوت ہونے کی وجہ سے نماز درست نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اگر ڈھیلوں یا پتھروں کا ناپاک ہونا معلوم نہ ہو، تو کنواں حسب سابق پاک رہے گا اور اگر ڈھیلوں یا پتھروں پر نجاست غلیظہ لگی ہوئی ہو، تو کنواں ناپاک ہوگا اور سارا پانی نکالا جائے گا۔
’’ولو وقع في البئر خرقۃ أو خشبۃ نجسۃ ینزح کل الماء‘‘(۱)
’’الیقین لا یزول بالشک، الأصل بقاء ماکان علی ماکان‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۷، ص: ۸؛ وہکذا في الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔
(۲) ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ’’القاعدۃ الثالثۃ، الیقین لا یزول بالشک‘‘: ص: ۱۸۳؍ ۱۸۷۔(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص75
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح شہوت کی وجہ سے نکلنے والا پانی مذی کہلاتا ہے اس سے وضو واجب ہوتاہے، غسل واجب نہیں ہوتا ہے۔(۲)
(۲) أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، فصل فيعشرۃ أشیاء، لا یغتسل منھا‘‘ ج۱، ص:۱۰۱)؛ وللجمھور حدیث علي رضي اللّٰہ عنہ أن النبي ﷺ قال في المذي: یغسل ذکرہ و یتوضأ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱، ص:۲۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص292
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو یا سنت میں مشغول نمازیوں کی رعایت کرتے ہوئے جماعت میں تاخیر کی گنجائش ہے تاہم امام صاحب کا تاخیر کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اگر کبھی اتفاقاً چار، پانچ منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر مقتدیوں کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے۔(۲)
(۲) وینتظر المؤذن الناس ویقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:ج۱، ص: ۵۷)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ فإن رآہم اجتمعوا أقام وإلا انتظرہم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۴۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص377
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت سے پہلے نماز نہیں ہوتی اگرکسی نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)
(۱) (ومنہا) الوقت لأن الوقت کما ہو سبب لوجوب الصلاۃ فہو شرط لأدائہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا حتی لا یجوز أداء الفرض قبل وقتہ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: الصلاۃ في جوف الکعبۃ، ج۱، ص:۳۱۵)
قولہ: بأنہ سبب للأداء من حیث تعلق الوجوب بہ وإفضاؤہ إلیہ قولہ: وظرف للمؤدی لأنہ یسعہ ویسع غیرہ قولہ: وشرط للوجوب من حیث توقف وجوب فعل الصلاۃ علی وجودہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵)
(اعلم) أن الصلاۃ فرضت لأوقاتہا قال اللہ تعالی: {أقم الصلاۃ لدلوک الشمس} (سور الإسراء: ۷۸) ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتؤدی في مواقیتہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص279