Frequently Asked Questions
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 39 / 825
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مکمل پردہ کا اہتمام ہو اور غیروں کے ساتھ اختلاط بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر اول کے طلاق دئے بغیربیوی کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوا، دوسرے شوہر کے ساتھ حرام کاری ہوئی، عورت پر توبہ لازم ہے۔ مرد کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوا۔ بہر حال ان دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے۔ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے پاس بغیر تجدید نکاح کے واپس آسکتی ہے۔ البتہ اگر تجدید نکاح کرلیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں 'نویر' لفظ کا کوئی مناسب معنی نہیں ملا۔ اس لئے کوئی دوسرا مناسب نام رکھ لیں۔ نوراللہ، نورالہدی، نعمان، وغیرہ نام میں سے کوئی نام رکھ لیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1019
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is follows:
A woman in period cannot perform Namaz and recite Quran, but she can do zikrs. It is better for her to sit on her Musalla at the time of each prayer and recite wazaif and make dua. n
Note: We searched but could not come across the authenticity of the reward you mentioned in the question.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1119/42-345
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1344/42-729
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو حدیث میں استخارہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالی اس کے لئے خیروالا راستہ واضح فرمادے۔ استخارہ خود کرنا چاہئے اور درپیش معاملہ میں خود اللہ تعالی سے تعلق قائم کرکے خیر کا طالب ہوناچاہئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورہ سکھاتے تھے۔ حدیث پاک میں کسی جگہ دوسروں سے استخارہ کرانا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنا چاہئے اور خود سے استخارہ کرنا چاہئے۔ تاہم دوسروں سے استخارہ کو حرام بھی نہیں کہا جاسکتاہے، بعض مرتبہ آدمی کسی بزرگ کو نیک سمجھ کر اس سے استخارہ کراتاہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ خود سے بھی استخارہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر معاملہ واضح نہ ہو تو سات دن کرتا رہے۔ کسی بھی مناسب وقت یا سونے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے: "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به"۔ جب "ھذا الامر" پر پہونچے تو اپنے کام کو دھیان میں رکھے۔
مطلب في ركعتي الاستخارة: (قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/26)
وإذا استخار يمضي لا ينشرح له صدره وينبغي أن يكررها سبع مرات لما روي عن أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات ثم انظر إلى الذي يسبق إلى قلبك فإن الخير فيه". (مراقی الفلاح، فصل فی تحیۃ المسجد 1/149)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1658/43-1239
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف بالائی منزل وقف کرنا درست ہے۔ البتہ مسجدشرعی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیچے سے اوپر تک مسجد یا مصالح مسجد کے لئے ہو،مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، اس لئے صرف بالائی منزل مسجد کے لئے وقف کرناگوکہ درست ہوگیا مگر یہ مسجد شرعی نہ ہوگی ، اور مسجد شرعی کا ثواب اس سے حاصل نہ ہوگا۔
و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقاً بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلايجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولاتطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره وينبغي لداخله تعاهد نعله وخفه، وصلاته فيهما أفضل (لا) يكره ما ذكر (فوق بيت) جعل (فيه مسجد) بل ولا فيه؛ لأنه ليس بمسجد شرعاً. (و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الاقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقاً بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع.
قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتاً للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحاً، نعم سيأتي متناً في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سرداباً بالمصالحة جاز تأمل ... (قوله: لايكره ما ذكر) أي من الوطء والبول والتغوط نهر (قوله: فوق بيت إلخ) أي فوق مسجد البيت: أي موضع أعد للسنن والنوافل، بأن يتخذ له محراب وينظف ويطيب كما أمر به صلى الله عليه وسلم، فهذا مندوب لكل مسلم، كما في الكرماني وغيره قهستاني، فهو كما لو بال على سطح بيت فيه مصحف وذلك لايكره كما في جامع البرهاني معراج... (قوله: وأسواق) أي غير نافذة يجعلون مصطبة للصلاة فيها ح وذلك كالتي تجعل في خان التجار". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص اپنے مذکورہ قول و فعل کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوگیا ہے، اس سے اسلامی تعلق باقی رکھنا درست نہیں اور ضروری ہے کہ ہر طرح سے رابطہ منقطع کرلیا جائے۔ تاہم اگر وہ توبہ کرلے او راگر شادی شدہ ہے، تو اپنے نکاح کی تجدید کرے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا معاملہ کیا جائے گا۔ (۱)
’’إذا أنکر آیۃ القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أوعاب شیئاً من القرآن … أو سخر بآیۃ منہ کفر‘‘(۲)
(۱) إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
دارالافتاء
دار العلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں کسی معتبر ادارہ سے علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کوپڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عالم کہا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں عالم اسے کہتے ہیں جس کے اندر علم دین کی وجہ سے خشیت الٰہی پیدا ہو جائے؛ اس لئے عالم بننے کے لئے کسی ادارے سے فارغ ہونا ضروری نہیں ہے۔(۲)
(۲) {إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌہ۲۸} (سورۃ الفاطر: ۲۸)
وأفادت الآیۃ الکریمۃ أن العلماء ہم أہل الخشیۃ وأن من لم یخف من ربہ فلیس بعالم: ابن کثیر۔
ولہٰذا قال شیخ الإسلام عن الآیۃ: وہذا یدل علی أن کل من خشي اللّٰہ فہو عالم وہو حق ولا یدل علی أن کل عالم یخشاہ۔ (ابن تیمیہ، انتہی من مجموع الفتاویٰ: ج ۷، ص: ۵۳۹)
قال الذہبي رحمہ اللّٰہ: لیس العلم عن کثرۃ الروایۃ ولکنہ نور یقذفہ اللّٰہ في القلب وشرطہ الإتباع والفرار من الہوی والابتداع۔ (جامع بیان القرآن: ج ۲، ص: ۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں اندیشۂ کفر ہے۔ تاہم تاویل کی گنجائش ہے؛ اس لئے ان کو مشرک نہیں کہیں گے(۱)۔ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سمجھائے جائیں کہ اسلام میں اصل شرک وبت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ دین کی بنیادی باتوں کا انکار کفر ہے۔ (۲) البتہ جو بریلوی حضرات شرکیہ اعمال میں مبتلا ہیں اور ان کے اعمال کی کوئی مناسب تاویل کی جا سکتی ہے، تو ان کو مشرک قرار دینے سے گریز کریں گے، ہمارے اکابر کا مزاج؛ بلکہ اصول یہ ہے کہ وہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں عجلت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔
(۱) {لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَہ۳۷} (سورۃ حٓم سجدۃ: ۳۷)
لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)
(۲) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص263