Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس طرح اقتداء کرنا کہ کوئی شہر میں نماز پڑھائے اور گھر میں اسکائپ کے ذریعہ اقتدا کی جائے یا گھر میں نماز ہو اور مائک لگادیا جائے اور چار پانچ گھروں میں لوگ نماز پڑھ لیں، ایک بلڈنگ میںمائک سے نماز ہو اوربازو کی بلڈنگ میں لوگ اس کی اقتداء میں نماز پڑھیں یا امام حرم کی ٹیلی ویزن پر نشر ہونے والی نماز کی اقتدا کریں یا مسجد میں تراویح ہو اور نیٹ کے ذریعہ لائیو اس کو چلایا جائے اور لوگ گھر میں تراویح پڑھ لیں اقتدا کی یہ سب صورتیں درست نہیں ہیں ان صورتوں میں نماز نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں ضروری ہے کہ اقتداء کے شرائط کو معلوم کرلیا جائے کہ کوئی شخص کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں ؟ علامہ شامیؒ نے اقتداء کی دس
شرطیں ذکر کی ہیں (۱) مقتدی اقتداء کی نیت کرے کہ میں اس امام کے پیچھے یہ نماز پڑھ رہا ہوں (۲) دونوں کی نماز ایک ہو اگردونوں کی نماز الگ الگ ہوگی مثلا امام ظہر کی نماز پڑھا رہا ہو اور مقتدی عصر کی نیت کرے یا امام نے نفل کی نیت کی اور مقتدی فرض کی نیت کرے تو نماز نہیں ہوگی (۳)مکان متحد ہو (۴) امام کی نماز صحیح ہو ، (۵) عورت ،مرد کے محاذات میں نہ ہو ، (۶) مقتدی امام سے آگے نہ ہو اگر مقتدی امام سے آگے ہوگیا تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی (۷) مقتدی کو امام کے حرکات و انتقالات کا علم ہو(۸) مقتدی کو امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا علم ہو (۹) مقتدی امام کے ارکان میں شریک ہواگر امام کسی رکن میں ہو اور مقتدی دوسرے رکن میں ہو تو مقتدی کی نماز درست نہیں ہوگی ، (۱۰)مقتدی امام کے برابر ہو یا اس سے کمتر ہو مثلا اگر تندرست آدمی نے معذور کی اقتداء کی تو نمازدرست نہیں ہوگی یا رکوع سجدہ کرنے والا شخص اگر اشارہ سے نماز پڑھنے والے کی اقتداء کرے تو اقتداء درست نہ ہوگی۔
’’والصغری ربط صلاۃ المؤتم بالإمام بشروط عشرۃ نیۃ المؤتم الاقتداء واتحاد مکانہما وصلاتہا وصلۃ بإمامۃ وعدم محاذاۃ لإمرأۃ وعدم تقدمہ علیہ بعقبہ وعلمہ بانتقالاتہ وبحالہ من إقامۃ وسفر مشارکۃ في الأرکان وکونہ مثلہ أو دونہ فیہا‘‘(۱)
یہ اقتدا کی شرطیں ہیں ان میں ایک شرط بہت اہم ہے جس کا تفصیلی تذکرہ مسئلے کو حل کرنے میں معاون ہوگا ۔وہ یہ کہ امام اور مقتدی کی جگہ کا ایک ہونا ضروری ہے یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو ۔مثلا مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے، اقتداء کی یہ صورت درست ہے۔
اتحاد مکان کی شرط، سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ مکہ کے ہوٹلوں میں رہ کر کوئی حرم شریف کے امام کی اقتداء کرے تو سوائے امام مالک کے تمام ائمہ کے یہاں نماز درست نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ اقتداء، تابع ہونے کا تقاضا کرتا ہے اوراتحاد مکان تابع
ہونے کے لیے لازم ہے جب مکان مختلف ہوگا تو تبعیت ختم ہوجائے گی ، اور تبعیت کے ختم ہونے سے اقتداء ختم ہوجائے گی ۔
احناف کے یہاں اتحاد ِمکان کی تفصیل یہ ہے کہ امام او رمقتدی کے مکان کا مختلف ہونا یہ مفسد نماز ہے، خواہ مقتدی پر امام کی حالت مشتبہ ہو یا نہ ہو ، اسی وجہ سے اگر پیدل چلنے والا سوار شخص کی اقتداء کرے تو نماز درست نہیں ہوگی ، یا دو لوگ الگ الگ سواری میں ہو ں اور ایک دوسرے کی اقتداء کریں تو نماز درست نہیں ہوگی ، اسی طرح امام اور مقتدی کے درمیان میںراستہ ہو جس میں لوگ گزرتے ہوں یا نہر ہو جس میں کشتی چلتی ہو، تو ان تمام صورتوں میں اقتداء درست نہیں ہوگی، اس سلسلے میں ایک دلیل حضرت عمرؓ کا قول ہے۔
’’من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ‘‘(۱)
مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے لہذ۱ اگر دیوار وغیرہ حائل ہو اور امام کے انتقالات کا علم ہورہا ہو تو ااقتداء درست ہے اگر امام کی حالت مشتبہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ۔اگر مقتدی مسجد کی چھت پر ہو یا مسجد سے متصل مکان کی چھت پرہو اور اس مکان اورمسجد کے درمیان کوئی راستہ وغیرہ حائل نہ ہو تو اقتداء درست ہوجائے گی؛ اس لیے کہ اتحاد مکان حکما موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اقتداء کی شرطوں میں اہم شرط مکان کا متحد ہونا ہے خواہ امام کی حالت کا علم ہو یا علم نہ ہو ، علامہ شامی ؒلکھتے ہیں:
’’فقد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک‘‘(۱)
اس تفصیل کی روشنی میں آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں؛ اس لیے کہ اقتداء کی بنیادی شرط اتحاد مکان مفقود ہے۔
اگر امام مسجد میں نماز پڑھائے او رآواز گھر وں میں آرہی ہو تو اگر گھر مسجد سے متصل ہے اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے تو اقتداء درست ہے؛ لیکن اگر درمیان میں کوئی فاصلہ ہو تو پھر اقتداء درست نہیں ہے ، اسی طرح ،ایک گھر میں نماز ہو اور مائک کے ذریعہ دوسرے گھر وں میں اقتداء کی جائے تو یہ بھی درست نہیں ہے ،اس لیے کہ مکان مختلف ہے۔
اسکائپ کے ذریعہ اقتداء کرنے میں مذکورہ خرابی کے علاو ہ دوسری بہت سی خرابیاں ہیں، مثلانیٹ میں بعض مرتبہ کنکشن کٹ سکتا ہے اور امام کے انتقال کا علم نہیں ہو پائے گا، اسی طرح اسکائپ میں یا انٹر نیٹ کے ذریعہ جو آواز آئے گی وہ عکس ہوگی، تصویر کے سامنے نماز پڑھنا لازم آئے گا،عام طور پر لائیو میں بھی پہلے تصویر محفوظ ہوتی ہے؛ پھر ٹیلی کاسٹ ہوتی ہے ہم دیکھتے ہیںکہ کوئی پروگرام دو ٹی وی چینل پر لائیو چلتا ہے لیکن دونوںکے درمیان فرق ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لائیوپروگرام پہلے محفوظ ہوتا ہے پھر نشر ہوتاہے اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امام رکوع سے واپس آجائے او رلوگ ابھی قیام میں ہی ہوں؛ اس لیے اسکائپ؛ بلکہ آن لائن کی تمام صورتیں ناجائز ہیں اس سے نماز صحیح نہیں ہوگی۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶، مکتبہ زکریا دیوبند۔
(۱) ابن بطال، شرح صحیح البخاري: ج ۲، ص: ۳۵۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص475
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چار مؤذن تھے۔
(۱) حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (۲) حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ یہ دونوں تو مدینہ منورہ میں اذان دیتے تھے۔
(۳) حضرت سعد القرظ رضی اللہ عنہ مسجد قبا میں اذان دیتے تھے۔
(۴) حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں اذان دیتے تھے۔(۲)
(۲) أما مؤذنوہ فأربعۃ: اثنان بالمدینۃ: بلال بن رباح، وأمہ حمامۃ، مولی أبي بکر الصدیق، وہو أوّل من أذن لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولم یؤذن بعدہ لأحد من الخلفاء، إلّا أنَّ عمر لما قدم الشام حین فتحہا أذَّن بلال، فتذکَّر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال أسلم مولی عمر بن الخطاب: فلم أر باکیًا أکثر من یومئذ، وتوفي سنۃ سبع عشرۃ، أو ثمان عشرۃ أو عشرین بداریا بباب کیسان، ولہ بضع وستون سنۃ، وقیل: دفن بحلب، وقیل: بدمشق، وعمرو بن أم مکتوم القرشي الأعمی، وہاجر إلی المدینۃ قبل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وأذَّن لہ علیہ الصلاۃ والسلام بقباء، سعد بن عائد أو ابن عبد الرحمن المعروف بسعد القرظ وبالقرظي، مولی عمَّار، بقی إلی ولایۃ الحجَّاج علی الحجاز، وذلک سنۃ أربع وسبعین، وبمکۃ أبو محذورۃ، واسمہ: أوس الجمحی المکي، أبوہ: معیر بکسر المیم وسکون وفتح التحتانیۃ، مات بمکۃ سنۃ تسع وخمسین، وقیل: تأخَّر بعد ذلک۔ (أبو عبد اللّٰہ بن عبد الباقي، الزرقاني المالکي، شرح الزرقانيؒ، ’’الفصل السابع: في مؤذنیہ وخطبائہ وحدائہ وشعرائہ‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، ۷۴(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص122
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر اس کے کفر پر سوائے اقرار کے اور کوئی دلیل نہیں ہے تو اس کو وقت اقرار سے مرتد قرار دیا جائے گا؛ لہٰذا گزشتہ زمانہ میں اس کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں درست ہیں، ان کی قضاء لازم نہیں۔
’’ولو زعم أنہ کافر لم یقبل منہ لأن الصلاۃ دلیل الإسلام أي دلیل علی أنہ کان مسلما وأنہ کذب بقولہ إنہ صلی بہم وہو کافر، وکان ذلک الکلام منہ ردۃ فیجبر علی الإسلام‘‘(۱)
اوراگر وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے دس سال تک بے وضو نماز پڑھائی اور مقتدی حضرات کو اس کی بات کے صحیح ہونے کا ظن غالب ہے تو ان نمازوں کا اعادہ ضروری ہوگا اور اگر ظن غالب ہو کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تو اعادہ کی ضرورت نہیں۔
’’(وإذا ظہر حدث إمامہ) أي بشہادۃ الشہود أنہ أحدث وصلی قبل أن یتوضأ أو بإخبارہ عن نفسہ وکان عدلا وإلا ندب کما في النہر عن السراج۔ (قولہ: وکذا کل مفسد في رأي مقتد) أشار إلی أن الحدث لیس بقید؛ فلو قال المصنف کما في النہر: ولو ظہر أن بإمامہ ما یمنع صحۃ الصلاۃ لکان أولی، لیشمل ما لو أخل بشرط أو رکن، وإلی أن العبرۃ برأي المقتدي حتی لو علم من إمامہ ما یعتقد أنہ مانع والإمام خلافہ أعاد، وفي عکسہ لا إذا کان الإمام لا یعلم ذلک: (بطلت فیلزم إعادتہا) لتضمنہا صلاۃ المؤتم صحۃ وفسادا (کما یلزم الإمام إخبار القوم إذا أمہم وہو محدث أو جنب)(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الموضع التي تفسد صلاۃ الإمام دون المؤتم‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص254
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز اس صورت میں درست ہوگئی ہے سجدہ سہو یا اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس لیے کہ تسبیحات کو الگ الگ مواقع پر پڑھنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔(۱)
(۱) سننہا رفع الیدین للتحریمۃ … وتکبیر الرکوع وتسبیحہ ثلاثا وأخذ رکبتیہ بیدیہ وتفریج أصابعہ وتکبیر السجود والرفع وکذا الرفع نفسہ وتسبیحہ ثلاثا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۳۰)
کذا في الدر المختار للحصکفي مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص401
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اور مغرب کی تیسری رکعت اور چار رکعت والی نماز کی اخیر کی دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھنا سنت ہے، ہر رکعت مستقل نماز ہے اس لیے تکرار لازم نہیں آتا ہے۔
’’وتسن قراء ۃ الفاتحۃ فیما بعد الأولیین یشمل الثلاثي والرباعي‘‘(۱)
’’واکتفی المفترض فیما بعد الأولیین بالفاتحۃ فإنہا سنۃ علی الظاہر‘‘(۲)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ، …فصل في بیان سننھا‘‘: ص: ۲۷۰۔
(۲) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ، مطلب مہم في عقد الأصابع عند التشہد‘‘: ج۲، ص:۲۲۱، زکریا۔
أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ في الظہر في الأولیین بأم الکتاب۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب : یقرأ في الأخریین بفاتحۃ الکتاب‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷، رقم:۷۷۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص199
نکاح و شادی
Ref. No. 1001 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ذات برادری اور خاندان کا لحاظ اس لئے کیا جاتا ہے کہ میاں بیوی کےآپسی رہن سہن اور مزاج میں یکسانیت ہو تاکہ دونوں ایک خوشگوار زندگی گزارسکیں۔ ذات برادری میں تقسیم ،تفاخر اور دوسرے کو نیچا سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ تعارف کے لئے ہے کہ اگر ایک نام کے دوشخص ہیں تو خاندان کے فرق سے امتیاز ہوجائے؛ والدین کو جوڑا تلاش کرتے وقت دینداری کا خیال کرنا چاہئے نہ کہ محض ذات پات کا۔ اسلئے اگر لڑکے یا لڑکی کا باپ دوسری برادری میں شادی کرادے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دینداری چھوڑ کر ذات پات میں لگ جانا مزاج شریعت کے خلاف ہے، اور محض جاہلانہ باتیں ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۔ (الحجرات13)۔ اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرسکو، اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جوسب سے زیادہ پرہیزگار ہو، اللہ تعالی خوب جاننے والا پورا خبردار ہے۔حدیث شریف میں ہے : تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (متفق علیہ) ۔ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے: مال، حسب نسب، حسن و جمال، یا دین کی وجہ سے۔ تم دیندار عورت کا انتخاب کرو۔(بخاری) اسی طرح نبی ﷺ نے نیک عورت کو دنیا کی سب سےبہتر متاع قرار دیا ہے۔(مسلم) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 37 / 1112
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسا کرنا درست ہے، اس سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 38 / 1194
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو سو ڈالر دے کر چار سو ڈالر حاصل کرنا کھلا سود ہے، اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی اور تفصیل ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ استفتاء بھیجیں۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 40/1120
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چارتھنوں میں سے دو تھن پیدائشی طور پر نہ ہوں ، یا کسی آفت سے غائب ہوگئے ہوں ، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔ و فی الشاۃ والمعز اذا لم تکن لھما احدی حلمتیھا خلقۃ او ذھبت بآفۃ وبقیت واحدۃ لم تجز۔ و فی الابل والبقر ان ذھبت واحدۃ تجوز وان ذھبت اثنتان لاتجوز کذا فی الخلاصۃ (ہندیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 978/41-138
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے سکھانے کو نہ صرف مباح کہا ہے بلکہ مصالح عظیمہ و منافع یعنی صحت کی حفاظت اورامراض کے ضررسے بدن کو بچانے کی بنا پر فرض کفایہ قرار دیاہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم معاشرے کو خاتون معالج اور لیڈی ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے جو کہ مسلم خواتین کا چیک اپ کریں، ان کا علاج و معالجہ کریں۔ مسلمانوں کو اپنی بیوی بیٹی اور بہن کا چیکپ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنی کوئی لیڈی مسلم ڈاکٹر میسر نہیں ہوتی صرف مرد ڈاکٹر ملتے ہیں اس لئے مسلمان لڑکیوں کا اس شعبے سے وابستہ ہونا شریعت کے ایک بڑے ہدف کو پورا کرنا ہے۔
آپ ولادت، آپریشن دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کر سکتی ہیں اگر آپ گائنالوجسٹ بن رہی ہیں تو یاد رکھیے کہ اسقاط حمل کی نہ مطلقا اجازت ہے اور نہ مطلقا ممانعت ہے۔ بلکہ اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہے اور اس بچہ کی پیدائش سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کا تحمل نہیں کر سکتی تو اسقاط حمل کی گنجائش ہے، اگر کثرت اولاد کی وجہ سے معاشی خوف ہو تو اسقاط حمل ناجائز ہے اگرچہ حمل چار ماہ سے کم مدت کا ہو اور اگر حمل چار ماہ کا ہوجائے تو اسے ضائع کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ؛ اسقاط کرانے والی اور کرنے والی دونوں گناہ گار ہیں۔ حضورﷺ نے تخلیق کو بیان فرمایا: ان احدکم یجمع فی بطن امہ اربعین یوما ثم علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیومر باربع برزقہ واجلہ وشقی او سعید (بخاری شریف)۔
چار ماہ سے قبل مجبور ی کی حالت میں اسقاط کراسکتی ہے۔ ھل یباح الاسقاط بعد الحبل یباح مالم یتخلق شیئ منہ ثم فی غیر موضع ولایکون ذلک الا بعد مائۃ وعشرین یوما انھم ارادوا بالتخلیق نفخ الروح (کذا فی الشامی و فتح القدیر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند