Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اولاً دیکھا جائے کہ اس سانپ میں بہنے والا خون ہے کہ نہیں، اگر بہنے والا خون ہے، تو اس کے مرنے اور گلنے سڑنے سے کنواں ناپاک ہو جائے گا، لہٰذا پانی کا اندازہ کر کے اس کو نکال دیا جائے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے سانپ میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، تو اس سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا اور اگر یہ سانپ خشکی کا نہیں ہے؛ بلکہ پانی کا ہے، تو اس کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’أو مات فیہا حیوان دموی غیر مائي لما مر وانتفخ أو تمعط أو تفسخ ینزح کل مائہا الذي کان فیہا وقت الوقوع بعد إخراجہ … وانتفخ ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفارۃ والأدمي والفیل لأنہ تنفصل بلتہ وہي نجسۃ مائعۃ فصارت کقطرۃ خمر‘‘(۱)
’’وإن ماتت فیہا شاۃ أو کلب أو آدمي نزح جمیع ما فیہا من الماء فإن انتفخ الحیوان فیہا أو تفسخ نزح جمیع ما فیہا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء‘‘(۲)
’’فیفسد في الأصح کحیۃ بریۃ إن لہا دم وإلا لا … کحیۃ بریۃ أما المائیۃ فلا تفسدہ مطلقا‘‘(۳)
’’ومثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لادم فیہا في إناء لا ینجس وإن کان فیہا دم ینجس‘‘(۴)
’’أما المائیۃ فلا تفسد مطلقاً کما علم مما مر‘‘(۵)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷، ۳۶۸۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔
(۴) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل فی الغسل باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۵) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص67
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت جنابت میںمرجانے سے اس کے غسل دینے میں کچھ فرق نہیں ہوگا، جس طرح دیگر میتوں کو غسل دیا جاتا ہے، اسی طرح جنبی میت کو بھی غسل دیا جائے گا(۱)
(۱) و یجرد من ثیابہ کما مات و یوضأ من یؤمر بالصلاۃ بلا مضمضۃ و استنشاق للحرج و قیل یفعلان بخرقۃ و علیہ العمل ولو کان جنبا أو حائضا أو نفساء۔۔۔۔ أي في شرح القدوري من أن الجنب یمضمض و یستنشق غریب مخالف لعامۃ الکتب۔ قلت: و قال الرملی: اطلاق المتون والشروح والفتاوی یشمل من مات جنبا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في القراء ۃ عند المیت،‘‘ ج ۳، ص:۸۶-۸۷)؛ و قول المصنف بلا مضمضۃ واستنشاق: ھذا لو کان طاھرا أما لو کان جنبا أو حائضا أو نفساء فعلا تتمیما للطاھرۃ کما في الإمداد عن شرح المقدسي، و في حاشیۃ الرملي إطلاق المتون والشروح یشمل من مات جنبا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز، تلقین الشھادۃ للمحتضر،‘‘ ج۲، ص:۳۰۱دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ والتوفیق:حاملہ عورت کا حمل وقت سے پہلے ضائع ہونے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضا میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر، انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو، تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا؛ لیکن اگر بچے کے اعضا میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو، تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔
بچے کے اعضا کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے؛ تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا؛ لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے، تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (کم از کم پندرہ دن پاکی) بھی گزر چکا ہو، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا؛ لیکن اگر تین دن سے کم ہو یا اس سے پہلے پندرہ دن پاکی نہ رہی ہو، تو پھر یہ خون استحاضہ (بیماری) کا شمار ہوگا۔
’’(ظہر بعض خلقہ کید أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولایستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً (ولد) حکماً (فتصیر) المرأۃ (بہ نفساء والأمۃ أم ولد ویحنث بہ) فی تعلیقہ وتنقضی بہ العدۃ، فإن لم یظہر لہ شیء فلیس بشیء، والمرئی حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’فإن رأت دما قبل إسقاط السقط ورأت دما بعدہ، فإن کان مستبین الخلق فما رأت قبلہ لا یکون حیضاً وہي نفساء فیما رأتہ بعدہ وإن لم یکن مستبین الخلق فما رأتہ بعدہ حیض إن أمکن‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: أقل النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص389
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: راگ باجے کے ساتھ جانے والا امام و خطیب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے حتی الامکان اس کی امامت سے پرہیز کرنا چاہئے کسی دیندار پرہیز گار کے پیچھے نماز ادا کرنے کی سعی کریں۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس کی امامت میں نماز عید یا کوئی اور نماز ادا کرلی تو وہ ادا ہوگئی اعادہ ضروری نہیں ہوگی۔(۲)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ …بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا وتمام، ومراء ومتصنع) قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: ’’مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتوی معلوم کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے لیے مسئلہ معلوم کیا جاتاہے۔ وہ قاری صاحب آپ کے امام نہیں ہیں؛ اس لیے آپ کی نماز کی صحت وفساد بھی اس سے متعلق نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں نہ ہمارے پاس تحقیق ہے اور نہ ہی اس قاری صاحب کا اقرار ہے؛ اس لیے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال واحوال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاہم اگر اس کو امام بنایا جائے تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے۔(۱)
(۱) عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصل الدین الصلاۃ خلف کل بر وفاجر۔ (أخرجہ الدار قطني في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۱ ، ص:۴۱۶، رقم: ۱۷۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص260
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ میں بھی نماز جمعہ اور دیگر نمازیں باجماعت درست ہیں؛ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) المسجد الجامع لیس بشرط لہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلي في فناء المصر، (محمد بن محمد، کبیری، ’’حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ‘‘:ص: ۵۵۱، مطبع اشرفي دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص373
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھائیں کہ انگوٹھوں کے سرے کانوں کی لو سے ملے ہوئے ہوں اور عورت اس طرح اٹھائے کہ انگلیوں کے سرے کندھوں کے برابر ہوں، شامی میں ہے۔
’’ورفع یدیہ ماسًا بإبہامیہ شحمتي أذنیہ ہو المراد بالمحاذۃ‘‘ عورت کے متعلق ’’والمرأۃ ترفع بحیث یکون رؤوس أصابعہا حذاء منکبیہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في حدیث ’’الأذان جزم‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۲، ۴۸۳۔
وکیفیتہا إذا أراد الدخول في الصلوۃ، کبر ورفع یدیہ حذاء أذنیہ حتی یحاذي بإبہامیہ شحمتي أذنیہ وبرؤوس الأصابع فروع أذنیہ، کذا في التبین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث، في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، زکریا دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 416
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1052
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ام المومنين حضرت عائشہ رضي اللہ عنھا نےنبی اکرم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ ميں شب قدر ميں كون سى دعا مانگوں؟ تو آپ نے فرمایا اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ (اے اللہ ، تو معاف كرنے والا ہے ، معافى كو پسند كرتا ہے ، تُو مجھے معاف فرما دے)۔ سنن الترمذی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1647/43-1229
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ، اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔
إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)
(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)
المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند