طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں ذکر کا اگلا حصہ، یعنی: حشفہ فرج کے اندر داخل ہو گیا؛ انزال ہو یا نہ ہو، غسل دونوں پر واجب ہو جائے گا(۱) ’’والتقاء الختانین من غیر إنزال لقولہ علیہ السلام إذا ’’التقی الختانان و توارت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل و بھذا اللفظ في مسند عبد اللّٰہ بن وھب و في مصنف من أبي شیبۃ ’’إذا التقی الختانان و توارت الحشفۃ فقد وجب الغسل‘‘(۲)

(۱) و عند إیلاج حشفۃ آدمي أو قدرھا من مقطوعھا في أحد سبیلی آدمي۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ ج۱، ص:۹۸-۲۹۹) ؛ وإذا التقی الختانان و غابت الحشفۃ فقد وجب الغسل أنزل او لم ینزل۔ (أبویوسف، الآثار، ’’باب الغسل من الجنابۃ‘‘ ج۱، ص:۱۲، رقم: ۵۶) ؛ ومن غیر إنزال یعني الإنزال لیس بشرط في التقاء الختانین في وجوب الغسل۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل التقاء الختانین من غیر إنزال‘‘ ج۱،ص:۳۳۳)
(۲)ابن الھمام، فتح القدیر، ’’فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۶-۲۷-۲۸(مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص291

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جس شخص کی آمد صرف ناجائز ہی ہو مثلاً صرف سود ہی کی آمد ہو تو معلوم ہونے کے باوجود اس کے یہاں کھانا کھانا جائز نہیں(۱) اگر امام صاحب ایسا ہی کرتے ہوں تو ان کو سمجھایا جائے باز نہ آئیں تو امامت سے معزول کیا جائے اور اگر کسی کی آمد مخلوط ہو تو اس کے یہاں کھانے کی گنجائش ہے اگرچہ احتیاط بچنے ہی میں ہے۔(۲)

(۱) أکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام، لایقبل ولایأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لابأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج۵، ص: ۳۴۳)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۸)
اجعلوا أئمتکم خیارکم۔ (أخرجہ قطني في سننہ،  ’’باب تخفیف القراء ۃ لحاجۃ‘‘: ج ، ص: ،  رقم: ۱۸۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص174

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بچہ بالغ ہے، تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے اگر امام بطور قائم مقام اس بالغ بچہ سے نماز پڑھواتا ہے، تو اس کا مقصد بچہ کو نماز پڑھانا بھی اور سکھانا بھی ہو سکتا ہے، بہر صورت امام کا تنخواہ لینا جائز ہے، الا یہ کہ انتظامیہ کے ضابطے کے خلاف ہو۔(۱)

(۱) وإمام قوم: الإمامۃ الکبریٰ أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ) وفي نسخۃ لہا أي الإمامۃ (کارہون) أي لمعنی مذموم في الشرع، وإن کرہو لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أمّا إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم وأمّا من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا فیتغلب فإن کان مستحقا لہا فاللوم علی من کرہہ قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو إثنان أو ثلاثہ فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ رواہ الترمذی وقال: ہذا حدیث غریب۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۳، ص: ۱۷۹، رقم: ۱۱۲۲)
ویبدأ من غلتہ بعمارتہ ثم ماہو أقرب لعمارتہ کإمام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون بقدرکفایتہم ثم السراج والبساط کذلک إلی آخر المصالح وتمامہ في البحر۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب  یبدأ بعد العمارۃ بما ھو أقرب إلیھا‘‘: ج۶، ص:۵۶۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں آکر نماز باجماعت میں اقتداء کرنے سے جماعت اسلامی کے لوگوں کو نہ روکنا چاہئے اور اختلاف کو کسی بھی طرح بڑھاوا نہ دے کر اتحاد و اتفاق کی فضاء ہموار کرنی چاہئے، مسجد میں وہ لوگ بھی نماز پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان سے شادی بیاہ وغیرہ بھی درست ہے۔ اور حق پر رہنے والے فرقہ سے اہل سنت والجماعت مراد ہیں۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا وأکل ذبیحتنا فذلک المسلم الذي لہ ذمۃ اللّٰہ وذمۃ رسولہ فلا تخفروا اللّٰہ في ذمتہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب فضل استقبال القبلۃ‘‘: ج۱، ص: ۷۲، رقم: ۳۹۱)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ  قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلّٰی صلاتنا و استقبل قبلتنا و أکل ذبیحتنا فذلکم المسلم۔ (أخرجہ النسائی، في سننہ، کتاب الإیمان و شرائعہ، باب صفۃ المسلم، ج۲، ص۵۵۰، رقم:۴۹۹۷)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص375

اسلامی عقائد

Ref. No. 2758/45-4288

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سور نجس العین ہے، اس کی ماہیت کسی طرح بھی تبدیل کرکے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں نجس العین نہیں ہیں ان میں تبدیل ماہیت کے بعد خریدوفروخت اور استعمال کی اجازت ہے۔

وَالظَّاھِرُ أنَّ مَذْھَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَاللہ اعلم․ (رد المحتار: ۱/۲۳۹، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)

"(و) يطهر (زيت) تنجس (بجعله صابونا) به يفتى للبلوى

(قوله: ويطهر زيت إلخ) قد ذكر هذه المسألة العلامة قاسم في فتاواه، وكذا ما سيأتي متنا وشرحها من مسائل التطهير بانقلاب العين، وذكر الأدلة على ذلك بما لا مزيد عليه، وحقق ودقق كما هو دأبه - رحمه الله تعالى -، فليراجع.

ثم هذه المسألة قد فرعوها على قول محمد بالطهارة بانقلاب العين الذي عليه الفتوى واختاره أكثر المشايخ خلافا لأبي يوسف كما في شرح المنية والفتح وغيرهما. وعبارة المجتبى: جعل الدهن النجس في صابون يفتى بطهارته؛ لأنه تغير والتغير يطهر عند محمد ويفتى به للبلوى. اهـ. وظاهره أن دهن الميتة كذلك لتعبيره بالنجس دون المتنجس إلا أن يقال هو خاص بالنجس؛ لأن العادة في الصابون وضع الزيت دون بقية الأدهان تأمل، ثم رأيت في شرح المنية ما يؤيد الأول حيث قال: وعليه يتفرع ما لو وقع إنسان أو كلب في قدر الصابون فصار صابونا يكون طاهرا لتبدل الحقيقة. اهـ". فقط والله أعلم (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 315)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہو یا خارجِ نماز باریک اور ایسا چست لباس جس سے جسم کی ساخت نظر آئے ایسا لباس کو پہننے کو فقہائے کرام نے ممنوع لکھا ہے، اگر کوئی شخص ایسا لباس پہنتا ہے جس سے اس کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو تو ایسے لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم ایسے لباس میں اگر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوگئی اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اتنا باریک لباس پہنے ہوا ہو کہ ناف کے نیچے گھٹنوں تک کا حصہ یعنی سرین شرمگاہ اور ران وغیرہ نظر آرہی ہوں تو اس صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی، نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔
’’(قولہ: لایصف ما تحتہ) بأن لایری منہ لون البشرۃ احترازا عن الرقیق ونحو الزجاج (قولہ: ولایضر التصاقہ) أي بالألیۃ مثلا، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب۔ وعبارۃ شرح المنیۃ: أما لو کان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۱)
’’أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  حذر أہلہ وجمیع المؤمنات من لباس رقیق الثیاب الواصفۃ لأجسامہن بقولہ: کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ، وفہم منہ أن عقوبۃ لابسۃ ذلک أن تعری یوم القیامۃ‘‘(۲)
’’في تکملۃ فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمرأۃ لاتقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ … وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذي یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذي یجب سترہ، فہو في حکم ماسبق في الحرمۃ وعدم الجواز‘‘(۳)
’’إذا کان الثوب رقیقًا بحیث یصف ماتحتہ أي لون البشرۃ لایحصل بہ سترۃ العورۃ‘‘(۱)
(۱)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘ج۲، ص: ۸۴۔
(۲) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب ماکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتجوز من اللباس‘‘: ج ۲۲، ص: ۲۰۔(شاملۃ)
(۳) مفتي محمد تقي عثماني،  تکملۃ فتح الملہم شرح المسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ‘‘: ج ۴، ص: ۸۸۔
(۱) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص274

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2781/45-4363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بالغ لڑکا وبالغ لڑکی دو بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلیں تو شرعاً نکاح منعقد ہو جاتا ہے، تاہم اگر لڑکی نے غیر کفو میں نکاح کیا تو لڑکی کے والد کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے تاہم اولاد کو ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جو والدین یا خاندان کے لئے بد نامی یا شرمندگی کا باعث ہو۔

عن سماك بن حرب قال: جاء رجل الي علی فقال امرأة أنا وليها تزوجت بغير اذن، فقال علي رضي الله عنه: تنظر فيماصنعت ان كانت تزوجت كفوا أجز نا ذلك لها وان كانت تزوجت من ليس لها كفوا جعلنا ذلك اليك‘‘ (سنن دار قطني)

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين عاقلين بالغين مسلمين الخ أما اشتراط الشهادة فلقوله عليه السلام لا نكاح الا بشهود‘‘ (فتح القدير: ج 3،ص: 199، زكريا)

وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی بكرا كانت أو ثبيا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية‘‘ (الهداية: ج 2، ص: 335)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1100 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مائک دینے والے نے یہ صراحت کردی  ہو کہ اذان ہی کے لئے خاص ہے، اذان کے علاوہ کوئی کام اس سے نہ لیاجائے تو دوسرا کوئی کام درست نہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور منشاء دینی کام  ہے تو مذکورہ تمام امور درست ہیں۔ کذا فی الاوقاف من الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Re. No. 39 / 837

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہنوئی غیرمحرم ہے ، سالی اگر بالغہ ہے تو بہنوئی کے سامنے اس کا آنا اور باتیں کرنا جائز نہیں ۔اس سے احتراز لازم ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 40/917

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر تقرری کے وقت ایسا ہی طے ہوا تھا تو متولی کو اس کا اختیا ر ہے، البتہ متولی کو نرمی اختیار کرنی چاہئے اور مسجد و مصلیان کے فائدے کو سامنے رکھ کر کوئی فیصلہ لینا چاہئے، محض کسی دنیاوی غرض  کی وجہ سے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند