Frequently Asked Questions
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ گروپ جو حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں اور وحی کو صحیح مقام تک پہونچانے میں ان کی غلطی کا قائل ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کو صحیح مانتا ہے اور حضرات صحابہؓ اور خصوصاً شیخین کی توہین کرتا ہے تو صراحتاً قرآن کا منکر ہونے کی وجہ سے اس گروپ پر فتویٰ کفر کا ہے؛ لیکن ہمارے علاقوں میں شیعہ عام طور پر ایسے نہیں ہیں؛ اس لئے مفتیان کرام ان کو مسلمان مانتے ہیں؛ کیونکہ ان کے عقائد پہلے گروپ جیسے نہیں ہیں، پس دوسری قسم کے شیعوں سے تعلقات، سلام وکلام اور ان کی دعوت قبول کرنا درست ہے، اگر وہ اپنے چند خاص پروگراموں میں بلائیں، تو قبول کرلینے کی صورت میں ان کے کسی غیر شرعی یا کسی بدعتی عمل میں شرکت نہ کی جائے اور صحیح بات تک لانے کی سعی کی جائے۔
اور اہانت شیخین جب کہ تمام صحابہؓ کا ان کی فضیلت پر اجماع ہے اور متعدد احادیث ان کی فضیلت میں ہیں اور اگر کوئی گروپ اس طرح کا ہے جو ان کی اہانت کا مرتکب ہو، تو مفتیان کرام نے ایسے گروپ کو فاسق وفاجر کہا ہے۔(۱)
(۱) بہذا ظہر أن الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: فصل في المحرمات، مطلب مہم في وطئی السراري‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۳)
فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃ … أما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص274
Usury / Insurance
Ref. No. 2647
Answer:
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In areas where there is such a high probability, it is permissible for Muslims of those areas to adopt this policy for their protection, but in general, it cannot be allowable under normal circumstances.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مجنون شریعت کا مکلف نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إن القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
پانی کے مستعمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجاست کو زائل کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہو، مجنون اگر کسی پانی سے وضو کرے ، تو چونکہ وہ شریعت کی نظر میں ثواب کی نیت کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور اس کے وضو کرنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔
بچہ اگر سمجھ دار ہے، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل شمار ہوگا اور اگر وہ سمجھ دار نہیں ہے اور اس کے بدن یا کپڑے وغیرہ پر کوئی نجاست وغیرہ بھی لگی ہوئی نہیں ہے، تو بچہ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے یا پانی میں گرنے کی وجہ سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ایسے پانی کو وضو، غسلِ جنابت اور کپڑے وغیرہ پاک کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اگر بچہ سمجھدار نہیں ہے، تو اس کا حکم بھی مجنون کی طرح ہے یعنی وہ ماء مستعمل شمار نہیں ہوگا۔
’’وإذا أدخل یدہ الصبي في إناء علی قصد إقامۃ (القربۃ)؛ ذکر في ہذہ المسألۃ في شيء من الکتب، وقد وصل إلینا أن ہذہ المسألۃ صارت واقعۃ فاختلف فیہا فتوی الصدر الشہید حسام الدین عمر، وفتوی القاضي الإمام جمال الدین … قال رحمہما اللّٰہ: والأشبہ أن یصیر مستعملا إذا کان الصبي عاقلا؛ لأنہ من أہل القربۃ، ولہذا صح إسلامہ وصحت عباداتہ حتی أمر بالصلاۃ إذا بلغ سبعا ویضرب علیہا إذا بلغ عشرا‘‘(۱)
’’ولو توضأ الصبي یصیر الماء مستعملًا‘‘(۲)
’’وإذا أدخل الصبي یدہ في الإناء علی قصد القربۃ فالأشبہ أن یکون الماء مستعملًا إذا کان الصبي عاقلًا؛ لأنہ من أہل القربۃ‘‘(۳)
خلاصہ:
مجنون یا وہ بچہ جو سمجھدار نہ ہو، پاکی اور ناپاکی کو نہ سمجھتا ہو ایسا بچہ یا مجنون اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے، اور دوسرا پانی دستیاب ہو، تو بہتر ہے کہ اس نئے پانی کو وضو، غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے میں استعمال کرے؛ اس لئے کہ عام طور پر بچہ اور مجنون پاکی اور ناپاکی میں احتیاط نہیں کر پاتے ہیں۔
علامہ حصکفيؒ نے لکھا ہے: پانی کو اگر حدث اصغر یا اکبر کو دور کرنے یا ثواب کے حصول کے لیے یا فرض کو ساقط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ پانی بھی ماء مستعمل شمار ہوگا۔
’’(أو) بماء (استعمل لأجل (قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ أو عبادۃ أو غسل میت أو ید لأکل أو منہ بنیۃ السنۃ (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ کوضوء محدث ولو للتبرد، فلو توضأ متوضئ لتبرد أو تعلیم أو لطین بیدہ لم یصر مستعملًا اتفاقًا کزیادۃ علی الثلاث بلا نیۃ قربۃ وکغسل نحو فخذ أو ثوب طاہر أو دابۃ تؤکل (أو) لأجل (إسقاط فرض) ہو الأصل في الاستعمال کما نبہ‘‘
’’(قولہ: أو من ممیز) أي إذا توضأ یرید بہ التطہیر کما في الخانیۃ وہو معلوم من سیاق الکلام، وظاہرہ أنہ لو لم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملًا، تأمل‘‘ (۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز، ومما یتصل بہذا الفصل، بیان حکم الأسار‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔(دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
(۲) عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: المقصود بالماء المستعمل وأقسامہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸ - ۳۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص78
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہو، تو اس طرح دھویا جائے کہ بالٹی میں وہ پانی نہ گرے، اس لیے کہ نجاست ملا ہوا پانی ناپاک ہے اور اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، یا نجاست دور کردی گئی ہو، تو بدن پر جو پانی لگ کر گر رہا ہے وہ مستعمل تو ہے لیکن ناپاک نہیں، فقہاء کی اصطلاح میں اسے طاہر غیر مطہر کہتے ہیں، اگر اس کی چھینٹیں بالٹی میں گر جائیں، تو بالٹی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ نیز جنابت کی حالت میں جو نجاست ہوتی ہے وہ حکمی نجاست ہے، حقیقی نجاست وہ ہے جو بدن پر لگی ہو، خواہ جنابت والی نجاست ہو یا دیگر کوئی نجاست لگی ہو، تا ہم بہتر یہ ہے کہ بالٹی اس طرح رکھی جائے کہ اس میں چھینٹیں نہ جائیں اور بیٹھ کر حدیث کے مطابق غسل کرنا چاہیے۔(۱)
(۱) وھو (الماء المستعمل) طاھر ولیس بطھور (علاء الدین الحصکفي، تنویر الأبصار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ج۱، ص:۳۵۲) ؛ و قال الشامی : قولہ : (وھو طاھر) رواہ محمد عن الإمام، و ھذہ الروایۃ ھی المشھورۃ عنہ، واختارھا المحققون: قالوا: علیھا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث (ایضاً)
اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ : أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز…التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمدؒ: ھو طاھر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ، وعلیہ الفتویٰ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ‘‘ج۱،ص:۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص294
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ان کی نماز ادا ہوگئی۔ ایسی صورت میں جو عورت امام ہو اس کو چاہیے کہ مردوں کی طرح آگے نہ کھڑی ہو؛ بلکہ اگلی صف میں معمولی سی آگے بڑھ کر کھڑی ہو، لیکن تنہا عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اس لیے یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- إنہا کانت تؤذن وتقیم وتؤم النساء وتقوم وسطہن۔ (الحاکم المسند: ج ۱، ص: ۳۲۰، رقم: ۷۳۱)
ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء ولو في التراویح فإن فعلن تقف الإمام وسطہن …فلو قدمت أثمت۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۰۵)
ویکرہ للنساء أن یصلین وحدہن الجماعۃ فإن فعلن قامت الإمام وسطہن لأن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا فعلت کذلک وحمل فعلہا الجماعۃ علی ابتداء الإسلام۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص503
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں ناپاک پانی سے وضو بناکر جو نوافل شروع کی گئی ہیں تو ان کا شروع کرنا ہی متحقق نہیں ہوا اورتحریمہ منعقد نہیں ہوئی اس لیے ان کی قضاء واجب نہیں ہوگی بخلاف فرائض وواجبات کے، اس لیے کہ وہ اصل سے ہی فرض اور واجب ہے، لہٰذا اس کی قضا بھی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الإحرام أو بقیام الثالثۃ شروعاً صحیحاً قصداً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۴،۴۷۵)
(أما) شرائط أرکان الصلاۃ: (فمنہا) الطہارۃ بنوعیہا من الحقیقیۃ والحکمیۃ، والطہارۃ الحقیقیۃ ہي طہارۃ الثوب والبدن ومکان الصلاۃ عن النجاسۃ الحقیقیۃ، والطہارۃ الحکمیۃ ہي طہارۃ أعضاء الوضوء عن الحدث، وطہارۃ جمیع الأعضاء الظاہرۃ عن الجنابۃ۔
(أما) طہارۃ الثوب وطہارۃ البدن عن النجاسۃ الحقیقیۃ فلقولہ تعالٰی: {وثیابک فطہر} المدثر: ۴)، وإذا وجب تطہیر الثوب فتطہیر البدن أولی۔
(وأما) الطہارۃ عن الحدث والجنابۃ فلقولہ تعالٰی: {یا أیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم} (المائدۃ: ۶) إلی قولہ: {لیطہرکم} (الأنفال: ۱۱)
وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بطہور، وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا صلاۃ إلا بطہارۃ، وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور۔ وقولہ تعالٰی: {وإن کنتم جنباً فاطہروا} (المائدۃ: ۶) وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تحت کل شعرۃ جنابۃ ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرۃ، والإنقاء ہو التطہیر، فدلت النصوص علی أن الطہارۃ الحقیقیۃ عن الثوب والبدن، والحکمیۃ شرط جواز الصلاۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع’’کتاب الصلاۃ، بیان شرائط أرکان الصلاۃ، ج۱، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
وحدیث رفع عن أمتي الخطأ محمول علی رفع الإثم۔ (قولہ: رفع عن أمتي الخطأ) قال في الفتح: ولم یوجد بہذا اللفظ في شيء من کتب الحدیث، بل الموجود فیہا: إن اللّٰہ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ، رواہ ابن ماجۃ وابن حبان والحاکم، وقال: صحیح علی شرطہما ح ، (قولہ: علی رفع الإثم) وہو الحکم الأخروي، فلا یراد الدنیوي وہو الفساد؛ لئلا یلزم تعمیم المقتضی، ح عن البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الفرق بین السہو والنسیان‘‘: ج۲، ص: ۳۷۱، ۳۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص2282
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2814/45-4400
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not mandatory to have sexual intercourse after marriage, therefore your marriage is valid, and however, if the husband is not able to fulfill the woman's desire, he should contact a specialist and have a proper treatment.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حدیث و سنت
Ref. No. 2821/45-4419
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ 'اللہ خالق کل شیئ' جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہرچیز کے خالق اللہ تعالی ہیں۔ عوام میں مشہور بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1056 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے، تاہم اگر ملازمت کا کام جائز ہے تو اس ملازمت کی تنخواہ جو کہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے وہ درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند