Business & employment
Ref. No. 39/1069 In the name of Allah the most gracious the most merciful The answer to your question is as follows: It is permissible. You can do it. And Allah Knows Best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 919/41-37

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام  مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس  رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی  کو شریعت نے  حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1574/43-1100

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ euthanasia کا مطلب: لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ بیماری یا ناقابل واپسی کوما میں مبتلا مریض کو بلا کسی تکلیف و درد کے بذریعہ انجکشن یا دوا جان سے مارڈالنااور قتل کرنا۔

زندگی اللہ کی امانت ہے، اللہ نے دی ہے اور وہی اس کا مالک ہے، اپنی حیات کو ختم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا اس لئے خود کشی حرام ہے اور احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگرخدا نخواستہ کوئی بقول ڈاکٹر  لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے تو  بھی  خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خودکشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز کسی آدمی کا  خودکشی کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے، دونوں حرام ہیں۔کوئی کسی ناقابل برداشت تکلیف میں ہو اور  اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہے تو یہ ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ بلاوجہ خودکشی کرنا  حرام ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو موت  کا سبب بن جائے وہ بھی بحکم خودکشی کے ہے۔ان سب کی ممانعت بہت صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔تاہم  اگر دوا سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو اور دوا چھوڑدی جائے تو یہ قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح اگر مصنوعی آلہ  تنفس کو اگر ہٹادیاجائے اور سانس رک جائے اور موت واقع ہوجائے تو یہ بھی قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا۔  قتل نفس کے لئے انجکشن لینا یا دینا دونوں حرام ہے اور بعض صورتوں میں لگانے والے یا دوا دینے والے پر دیت بھی لازم ہوسکتی ہے۔ جو صورت پیش آئے اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کرلیا جائے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جاسکے۔ 

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورۃ الانعام 151) یکرہ تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین أحدکم الموت لضرّ نزل بہ(شامی 5/270) استعجالا للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی 1/73) وان قیل: لا ینجو أصلا لا یتداوی بل یترک، کذا فی الظہیریة“ ((الھندیۃ 6/239) الأسباب المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس محظورا“ ((الھندیۃ کتاب الکراہیة باب الثامن عشر) بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“(شامی 5/512) من تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا (مسلم مع فتح الملہم 1/265)  ن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ قولہ فحدیدتہ فی یدہ، قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ (فتح الملہم: 1/562)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ السوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کیا مال کے بدلے کافروں کی لاش دینا جائز ہے یا نہیں؟؟؟ مسلمانوں کے ساتھ کافروں کے لاشیں موجود ھوں اس لاشیں کے مقابلے میں کافروں سے پیسے وصول کرناں جائز ہے یا نہیں؟؟؟؟جناب محترم ومکرم اس سوال کا جواب نہے ہے اگر دوبارہ ہ جواب تحریر کرے تو مہربانی ہوگی شکریہ جناب محترم ومکرم

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا(۱)، ایمان و نکاح باقی ہے(۲)۔ تاہم یہ روش ترک کر دینی چاہئے، ورنہ یہ صورت ایمان کے لئے ضرور خطرہ بن سکتی ہے، گناہ تو ہے ہی۔

(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخلہ في الکفر…(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)

 

دار الافتاء

 دار العلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

Ref. No. 2256/44-2411

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے میں تواضع کی ہیئت اختیار کرنی چاہئے، لہذا جس طرح تشہد میں دو زانو بیٹھتے ہیں، اس طرح کھانے کے لئے  دو زانو بیٹھنا یا دو نوں قدموں کے بل اکڑوں ہوکربیٹھنا یا دائیں پیر کو اٹھاکر اور بائیں پیر کو بچھا کر بیٹھنا سنت  طریقہ ہے۔ تاہم اگر کسی کو کوئی عذر ہو تو وہ حسبِ سہولت جس طرح چاہے  بیٹھ سکتاہے، اس معاملے میں کسی پر سختی سے نکیر کرنا ہر گز درست نہیں، بلکہ ترغیب سے کام لینا چاہیے۔

2۔ مولانا سعد صاحب کا نسب نامہ مجھے معلوم نہیں، براہِ راست ان سے ہی اس کو معلوم کرنا چاہئے، یا پھر اس طرح کی غیرمفید بحث سے اجتناب کرنا چاہئے۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اٰکل کما یأکل العبد، وأجلس کما یجلس العبد؛ فإنما أنا عبد۔ (شعب الإیمان للبیہقي ۵؍۱۰۷ رقم: ۵۹۷۵)

عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُقعِیًا یأکل تمرًا۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب استحباب تواضع الآکل وصفۃ قعودہ ۲؍۱۸۰ رقم: ۲۰۴۴)

عن أپی جحیفة قال: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا أکل متکئًا ۔ رواہ البخاری (مشکاة المصابیح: ۳۶۳، کتاب الأطعمة الفصل الأول)

فالمستحب في صفۃ الجلوس للآکل أن یکون جاثیًا علی رکبتیہ وظہور قدمیہ، أو ینصب الرجل، یجلس علی الیسریٰ۔ (فتح الباري، کتاب الأطعمۃ / باب الأکل متکأً، الجزء التاسع ۱۲؍۶۷۶ تحت رقم: ۵۳۹۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2473/45-3740

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے اعمال صالحہ پر جمنے کی کوشش کریں ۔ ہر فرض نماز کے بعد داہنا ہاتھ سر پر رکھ کر 'یاقوی' گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں، سوتے وقت گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ ، اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کریں،اور خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا خاص ہمدرد کا اور خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا دونوں برابر مقدار میں صبح کو پانچ گرام گرم پانی سے لے لیا کریں، انشاء اللہ جسم میں طاقت رہے گی اور حافظہ بھی قوی ہوگا، اس کے علاوہ ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:علم لدنی یا وہبی اس علم کو کہتے ہیں، جو بغیر سیکھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت خاصہ سے عطا فرمادیتے ہیں اور جو علم سیکھا جائے، خواہ مدارس سے یا خانقاہوں سے یا کسی پیر ومرشد سے وہ علم کسبی کہلاتا ہے۔ (۱)

(۱) {فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ أٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِّنْ لَّدُنَّا عِلْمًاہ۶۵} (سورۃ الکہف: ۶۵)
یا موسیٰ اني علی علم من علم اللّٰہ علمنیہ لا تعلمہ وأنت علی علم من علم اللّٰہ علمک اللّٰہ علماً لا أعلمہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’تحت تفسیر آیۃ: ۶۵‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۶)
ثم إن الذي أمیل إلیہ أن موسیٰ علیہ السلام علم بعلم الحقیقۃ المسمیٰ بالعلم الباطني والعلم اللدني إلا أن الخضر أعلم بہ منہ، وللخضر علیہ السلام سواء کان نبیاً أو رسولاً علماً بعلم الشریعۃ المسمیٰ بالعلم الظاہر إلا أن موسیٰ علیہ السلام أعلم بہ منہ فکل منہما أعلم من صاحبہ من وجہ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ کہف‘‘۶۵: ج ۹، ص: ۴۷۸)
فإن حصل بواسطۃ البشر فہو کسبي، وإلا فہو العلم اللدني الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱، رقم: ۱۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص168

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان تمام سوالات کے جوابات مختلف کتابوں میں موجود ہیں ان کو یہاں باحوالہ نقل کیا جاتا ہے:
(۱) بالقصد حضور اکرم B کا تصور نماز میں اس طرح جمانا کہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دھیان رہے کسی دوسری چیز کا خیال دل میں نہ آئے، قطعاً منع ہے؛ بلکہ ایہام شرک ہے، کیونکہ اس صورت میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہ رہے گی، کیونکہ سجدہ وغیرہ سب کچھ حضرت نبی اکرم B کے لئے ہوگا، اور اس کا موہم شرک ہونا ظاہر ہے۔
اور اگر خنزیر وغیرہ کا تصور آئے گا، تو حقیر وذلیل ہوکر آئے گا، اس کی کوئی تعظیم دل میں نہ ہوگی، لہٰذا شرک کا شائبہ نہیں، بخلاف حضور اقدس B کے تصور کے کہ وہاں تعظیم ملحوظ ہوتی ہے، جس میں شرک کا قوی اندیشہ ہے۔ (۱)
(۲) کوئی امتی کسی نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، ولایت کے اونچے مقامات پر پہنچنا بعید نہیں، مگر جو حضرات پہنچتے ہیں وہ دعویٰ نہیں کرتے، اور تکبر نہیں کرتے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ صرف بھائی کے درجہ میں ہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی فضیلت نہیں یہ غلط ہے، انبیاء علیہم السلام کی شان میں توہین اور گستاخی کرنا کفر ہے۔
بلا تحقیق کسی کی طرف کوئی غلط عقیدہ منسوب کرنا درست نہیں تہمت ہے۔ (۲)
حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’أنا سید ولد آدم ولا فخر‘‘ (۳) حضرت نبی اکرم B کا  مرتبہ اللہ پاک کے نزدیک اتنا بلند ہے کہ نہ کوئی فرشتہ اس کو پا سکتا ہے، نہ کوئی پیغمبر، پھر بڑے بھائی کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ البتہ حضور مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بلند مرتبہ کے باوجود حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کو بھائی فرمایا ہے، اور امت کو بھی بھائی فرمایا ہے، جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔ (۱)
(۳) تحذیر الناس میں ہے کہ: ’’صورت اعمال میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں، بلکہ بڑھ بھی جاتے ہیں‘‘۔
’’بظاہر‘‘ کی قید اس لیے ہے کہ امتی کا عمل دیکھنے میں کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو، انبیاء علیہم السلام کی ایک حرکت وسکون سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ہمارے سارے اعمال، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی اس دھول کے برابر بھی نہیں ہو سکتے، جو دھول انہیں نبی کریم B کی رفاقت میں لگی ہوگی۔ جب صحابہؓ اور تابعین میں مقام کا یہ فرق ہے، تو نبی اور امتی کا فرق اسی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہاں! بظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کسی نے دس حج کر لئے، اور آپ علیہ السلام نے صرف ایک حج کیا؛ مگر حقیقت میں آپ کے ایک قدم کے برابر بھی نہیں۔(۲)
(۴) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم متبع سنت، شیخ طریقت بزرگ تھے، انہوں نے ہر گز حضور اکرم B کے علم مبارک کو پاگلوں اور جانوروں کے مثل نہیں فرمایا ہے۔
چنانچہ اس کتاب میں جس پر بریلوی حضرات نے کفر کا فتویٰ دیا ہے، یہ عبارت موجود ہے، نبوت کے لئے جو علوم لازم اور ضروری ہیں وہ آپ کو بتمامہا حاصل ہو گئے، غور کا مقام ہے کہ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سرور کائنات B کے لیے تمام علوم نبوت کو حاصل مانا، اور صراحۃً تحریر فرما دیا، مگر یہ بریلوی حضرات ایسے بہتان تراش رہے ہیں، اس مسئلہ اور عبارت پر متعدد کتابیں تفصیل کے ساتھ لکھی گئیں، ’’بسط البنان، توضیح البیان، تکمیل العرفان، وغیرہ چونکہ بریلوی حضرات نے حضرت رسول مقبول B کو عالم الغیب تسلیم کیا اور لکھا ہے ان کے مذہب پر دو شقیں پیدا ہوتی ہیں، ایک شق پر حضرت نبی اکرم B کا علم، اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر قرار پاتا تھا، جو کہ شرک ہے،  دوسری شق پر حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی تنقیص وتوہین ہوتی تھی؛ اس لیے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عالم الغیب کا اطلاق اللہ تعالیٰ
کے سوا کسی پر جائز نہیں،کیونکہ نہ شرک کی گنجائش ہے، نہ حضرت رسول مقبول سید الانبیاء والمرسلین B کے کے علم مبارک کی توہین وتنقیص کی گنجائش ہے، یہ دونوں چیزیں اسلام کے خلاف ہیں، لہٰذا حضرت امام المرسلین سید الاولین والآخرین شفیع المذنبین B کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہے، بریلوی حضرات علم اور دلائل کی روشنی میں اس کا رد نہیں کر سکے، اور بات کو بگاڑ کر عوام کو مشتعل کرنے کے لئے یہ عنوان اختیار کیا اور کفر کا فتویٰ دیا ہے۔ ’’ہداہم اللّٰہ تعالیٰ إلی صراط مستقیم‘‘۔ (۱)
(۵) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت ہے کہ:
امکان کذب کے جو معنی آپ نے سمجھے ہیں وہ تو بالاتفاق مردود ہیں یعنی اللہ تعالی کی طرف وقوع کذب کا قائل ہونا باطل ہے اور خلاف نص صریح ہے، نص صریح ہے: {ومن أصدق من اللّٰہ قیلا} وہ ذات پاک مقدس شائبہ نقص وکذب وغیرہ سے منزہ ہے، رہا خلاف علماء کا جو در بارۂ وقوع وعدم وقوع خلاف وعید ہے، جس کو صاحب براہین قاطعہ نے تحریر کیا ہے وہ در اصل کذب نہیں صورت کذب ہے اس کی تحقیق میں طول ہے۔
الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قوت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جووعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے، اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو، امکان وقوع لازم نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شئ ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو؛ پس مذہب جمیع محققین اہل اسلام وصوفیائے کرام وعلماء عظام کا اس مسئلہ میں یہ ہے کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ ہے، پس جو شبہات وقوع کذب پر متفرع ہوں وہ مندفع ہو گئے، کیونکہ وقوع کا کوئی بھی قائل نہیں ہے {قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی أَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا}(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْط} (۳) اس آیت ثانیہ میں ہے معنی عذاب کا وعدہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ اگر اس کے خلاف ہو، تو کذب لازم آئے گا،  مگر آیت اول سے اس کا تحت قدرت باری تعالیٰ داخل ہونا معلوم ہوا، پس ثابت ہوا کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ جل وعلیٰ ہے، کیوں نہ ہو کہ{وہو علی کل شیء قدیر} (القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی شان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت نازل کی {لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ}(۱) فرمایا کہ ’’واللّٰہ ما أدري وأنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما یفعل بي ولا بکم‘‘ اور ’’کما قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَہ۴}۔ (۲)
(۶) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت لکھی ہوئی ہے کہ:
مٹی میں ملنے کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ مٹی ہوکر، مٹی زمین کے ساتھ خلط ملط ہو جائے، جیسا کہ سب اشیاء زمین میں پڑ کر خاک ہو کر زمین ہی بن جاتی ہیں۔ دوسرے مٹی سے ملاقی ومتصل ہو جانا یعنی مٹی سے مل جانا، تو یہاں مراد دوسرے معنی ہیں اور جسد انبیاء کے خاک نہ ہونے کے مولانا بھی قائل ہیں، چونکہ مردہ کو چاروں طرف سے مٹی احاطہ کر لیتی ہے اور نیچے مردہ کی مٹی سے جسد مع کفن ملاحق ہوتا ہے، یہ مٹی میں ملنا اور مٹی سے ملنا کہلاتا ہے، کچھ اعتراض نہیں۔ (۳)
(۷) مذکورہ عبارت فتاوی میں نہیں ملی، فتاوی رشیدیہ میں عبارت یہ ہے: محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنا اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا، یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست ہے اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہیں۔ (۴)
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے پیشتر بہت سے حنفی فقہاء نے اس تعلق سے لکھا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: ’’والغراب الذي یأکل الحب والزرع ونحوہا حلال بالاجماع‘‘ یعنی جو کوا دانہ، اناج اور اس جیسی چیزیں کھاتا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے۔ اس کے علاوہ بدائع الصنائع، کنز البیان، قدوری، در مختار، شامی، شرح وقایہ، فتاویٰ سراجیہ،  ہدایہ اور احکام القرآن للجصاص وغیرہ کتب معتبرہ مستندہ میں بھی لکھا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ وہ کوا جو صرف نجاست کھاتا ہے وہ حرام ہے۔ اور جو صرف دانہ کھاتا ہے یا دانہ ونجاست دونوں کھاتا ہے وہ حلال ہے۔(۱)
(۹) یہ محفل چوں کہ زمانہ فخر عالم علیہ السلام میں اورزمانہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورزمانہ تابعین اور تبع تابعین اور زمانہ مجتہدین میں نہیں ہوئی اس کی ایجاد بعد چھ سو سال کے ایک بادشاہ نے کی اس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں، لہٰذا یہ مجلس بدعت ضلالہ ہے اس کے عدم جواز میں صاحب مدخل وغیرہ علما ء پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور اب بھی بہت رسائل وفتاوی طبع ہو چکے ہیں زیادہ دلیل کی حاجت نہیں عدم جواز کے واسطے یہ دلیل بس ہے کہ کسی نے قرون خیر میں اس کو نہیں کیا زیادہ مفاسد اس کے دیکھنے ہوں، تو مطولات فتاویٰ کو دیکھ لیں۔
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
مجلس مولود مجلس خیر وبرکت ہے در صورت کہ ان قیودات مذکورہ سے خالی ہو فقط بلا قید وقت معین وبلا قیام وبغیر روایت موضوع مجلس خیر وبرکت ہے صورت موجودہ جو مروج ہے بالکل خلاف شرع ہے اور بدعت ضلالہ ہے۔ ’’ہکذا سمعت من أبي مولانا الحاج المحدث السہارنفوری المولوی احمد علي برد اللّٰہ مضجعہ وبہذا أفتی مولانا المرحوم محمد خلیل الرحمن مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور‘‘ مجلس میلاد شریف بہیئت معلومہ مروجہ لاریب بدعت وممنوع ہے فقط۔(۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص265

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2642/45-4043

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علامہ تفتازانی ایک صحیح العقیدہ شخص ہیں اہل سنت والجماعت میں سے ہیں شافعی المسلک ہیں امام ابو الحسن اشعری بھی اہل سنت والجماعت میں سے ہیں۔ بلا کسی تحقیق کے ان کو گمراہ قرار دینا درست نہیں ہے، ان کی جن باتوں سے اختلاف ہو اس کا دلیل کی روشنی میں تعاقب کیا جا سکتا ہے تاہم ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

’’لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر الارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذلک‘‘ (کتاب الادب، ’’باب ما ینہی من الباب واللعن‘‘: ج ٨،ص: ١٥،رقم: ٥٠٠٤٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند