Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 39/1047
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
In Hanafi Maslak, it is sunnah to raise hands in first takbeer only while in Shafiee and Hambali Maslak the raising hands in each takbeer is sunnah.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
Ref. No. 41/841
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ زمین پوری مسجد کے لئے وقف ہے اور مسجد بنائے جانے سے پہلے ہی نیچے یا اوپر کرایہ کے لئے مکان یا دوکان بنائی جائے اور اس کا کرایہ مصالح مسجد میں استعمال ہو تو اس طرح کرنے کی گنجائش ہے۔ اگر زمین مسجد کے لئے وقف نہیں ہے یا اوپر کی دوکان مصالح مسجد کے لئے نہیں ہے تو یہ نماز گاہ کے حکم میں ہے ،یہ شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔
لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح ، اما لو تمت المسجدیۃ ثم اراد البناء منع (شامی ۴/۳۵۸ فرع بناء بیتا للامام فوق المسجد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
Ref. No. 1022/41-193
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
Then answer to your question is as follows:
(1) More than one person can participate in the big animal for isale sawab to (to reward) the deceased. But no more than one person can participate in a small animal. And if you aim to reward multiple people, then you could do so by making a voluntary sacrifice on your behalf. (2) If you want to just send reward to more than one deceased person in small animal, you can do. (3) Regardless of whether sacrifice is obligatory on a living person or not, he can depute someone else (make wakeel) to make sacrifice on his behalf. The sacrifice made by the wakeel from him will be valid.
One can also make sacrifices to reward the living people. This can be done by sacrificing a goat on one's behalf and passing on its reward to the living people.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
عائلی مسائل
Ref. No. 1127/42-358
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کسی صاحب نسبت بزرگ سے رابطہ کریں، اور اہل خانہ کو بھی جوڑیں، پھر ان کی ہدایتوں پر عمل کریں ، ان شاء اللہ تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
اسلامی عقائد
Ref. No. 1751/43-1469
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچہ کی ولادت کے فورا بعد جلد ازجلد اس کے کان میں اذان کہنی چاہئے، دیر کرنا مناسب نہیں، اور اگر فورا اذان نہیں کہی اور بچہ کا انتقال ہوگیا تو اب اذان کی ضرورت نہ رہی، اور بچہ کے انتقال کے بعد اس کے کان میں اذان دینے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اذان نہ دی جائے۔( البتہ اگر ولادت کے وقت زندہ تھا تو اس کا نام رکھا جائے گا اور جنازہ کی نماز پڑھی جائے گی۔)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691)
"وعن أبي رافع -رضي الله عنه- قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".
(بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح)
ومن ولد فمات یغسل ویصلیٰ علیہ إن استہل۔والا یستہل غسل وسمي وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ ۔ (درمختار:۳؍۱۳۱،مکتبہ زکریا)
"من استهل بعد الولادة سمي، وغسل وصلي علیه". (الهندية، الباب الحادي العشر في صلاة الجنازة، الفصل الثاني في الغسل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 1967/44-1899
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The finger is a sign of pointing, which means that you have been pointing the finger at others, i.e. judging the person as good or bad without knowing the truth. Due to which others may harm you, so you have to leave this habit at earliest and give Sadaqa and charity.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اکراماً سجدہ تعظیمی بھی غیر اللہ کو حرام ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ سجدہ تعظیمی کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے یا نہیں؛ لہٰذا سجدہ تعظیمی فسق ہے؛ لیکن موجب کفر نہیں ہے اور بعض کے نزدیک موجب کفر بھی ہے۔(۱)
(۱) عن الحسن قال بلغني: أن رجلا قال: یا رسول اللّٰہ علیہ نسلم علیک کما یسلم بعضنا علی بعض، أفلا نسجد لک؟ قال: لا، ولکن أکرموا نبیکم وأعرفوا الحق لأہلہ فإنہ لا ینبغي أن یسجد لأحد من دون اللّٰہ۔ (جلال الدین سیوطي، الدر المنثور ’’ماکان لبشر أن یؤتیہ اللّٰہ الکتاب‘‘ ’’سورۃ آل عمران: ۷۹‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۲)
إن السجدۃ لا تحل لغیر اللّٰہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح ’’کتاب النکاح: باب عشرۃ النساء وما لکل واحدۃ من الحقوق، الفصل الثاني‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۹، رقم: ۳۲۵۵)
من سجد للسطان علی وجہ التحیۃ أو قبل الأرض بین یدیہ لا یکفر، ولکن یأثم لارتکابہ الکبیرۃ ہو المختار قال الفقیہ: وإن سجد للسطان بنیۃ العبادۃ أو لم تحضرہ النیۃ فقد کفر…(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثامن: والعشرون في ملاقاۃ الملوک‘‘: ج ۵، ص: ۴۲۵)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2186/44-2303
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے سوال کو بغور پڑھا، سوال غیرواضح اور مبہم ہے، البتہ سوال پڑھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایفیلیٹ مارکیٹنگ درحقیقت آن لائن کورس میں لوگوں کو شامل کرانے پر کمیشن لینے کی ایک شکل ہے، اس کورس کو خرید کر آگے فروخت کرنے سے تعبیر کرنا اور اس پر کمیشن لینا بھی محل نظر ہے، اس لئے کہ آپ کی تعبیر میں کورس خریدنے والا جب آگے کورس فروخت کرتاہے تو کمپنی اس کو کمیشن بھی دیتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کورس خریدنے والا کورس کا مالک ہی نہیں ہوتاہے بلکہ ملکیت کمپنی کی ہی ہوتی ہے، اس لئے کہ نیا گاہک کمپنی کو براہ راست کورس کی قیمت ادا کرتاہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اس طرح بیچنا اور بیچنے پر جوکمیشن ملتاہے وہ کمیشن لینا درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تفصیلات ہوں تو تحریری شکل میں ارسال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمیع ما کان وما یکون یعنی ہر چیز کا علم یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں کوئی بھی مخلوق بشمول انبیاء علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم دیا گیا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا ذاتی علم نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں؛ کیونکہ عالم الغیب ہونا یہ خدا تعالیٰ کی خاص صفت ہے؛ لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے والا گمراہ اور کھلی ہوئی بدعت میں ہے اس طرح کے عقیدہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (۱) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (۲) {إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَھِیْدًاہ۵۵}(۳) {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ أَحَدًاہلا ۲۶ إِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ}(۴)
(۱) سورۃ الأنعام: ۵۹۔ (۲) سورۃ النمل: ۶۵۔
(۳) سورۃ الأحزاب: ۵۵۔ (۴) سورۃ الجن: ۲۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص225