Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/840
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص آنکھ کے علاوہ چہرہ کے دیگر حصہ کو دھوئے گا یا تر ہاتھ اس طرح پھیرے گا کہ چہرہ پر پانی بہنے لگے، البتہ آنکھ پر اگر ممکن ہو تو مسح کرلے گا اور اگر مسح باعث تکلیف ہو تو مسح بھی ترک کردے گا۔ واذا رمد وامر ان لایغسل عینہ ۔۔۔ جاز لہ المسح وان ضرہ المسح ترکہ۔ (نورالایضاح ص ۳۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 1124/42-348
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Physical contact requires sexual arousal. Hence the husband has the choice to reduce physical contact with her, and in this regard he cannot be forced. However, it is mandatory for a husband to maintain equality with all his wives meeting all requisites of their life and spending nights not necessarily having physical relationship. Sometimes physical contact with the wife and the fulfillment of her sexual desire is obligatory upon her husband in accordance with the Islamic conscience.
یجب ان یعدل ان لا یجور فیہ ای فی القسم بالتسویۃ فی البیتوتۃ وفی الملبوس والماکول والصحبۃ لا فی المجامعۃ کالمحبۃ بل یستحب ویسقط حقھا بمرۃ ویجب دیانۃ احیانا۔ (ردالمحتار 4/378)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1225/42-536
الجواب وباللہ التوفیق:۔ بہشتی زیور کا مذکورہ مسئلہ درست ہے۔ قول صحیح یہی ہے کہ جب امام بعد کی دورکعتوں میں سورہ ملائے گا تو جہری قرات کرے گا۔ اور آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔
(الفصل الثاني في واجبات الصلاة ) يجب تعيين الأوليين من الثلاثية والرباعية المكتوبتين للقراءة المفروضة حتى لو قرأ في الأخريين من الرباعية دون الأوليين أو في إحدى الأوليين وإحدى الأخريين ساهيًا وجب عليه سجود السهو، كذا في البحر الرائق". (الھندیہ 3/38)
لوترک سورۃ اردا بھا ما یقرآ مع الفاتحۃ فی اولی العشاء قید بہ وان کان غیرہ کذلک لبیان الجھر بذلک قضاھا وجوبا فی الاخریین مع الفاتحۃ لوجوب قضاء الواجب وہجھر بھا (سکب الانھر 104/ بحوالہ اختری بہشتی زیور 11/39)
ویجھر بھا وھو الصحیح لان الجمع بین الجھر والمخافۃ فی رکعۃ واحدۃ شنیع وتغیرالنفل وھو الفاتحۃ اولی (ھدایہ 1/117)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1576/43-1270
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی مل کر دوکان چلاتے تھے، تو اس کی کیا صورت تھی؟ کیا دونوں نے پیسے لگائے تھے یا ایک نے؟ اگر دونوں نے پیسے لگائے تھے اور معاملہ صاف طور پر طے نہیں کیا تھا یہ معاملہ فاسد ہے،دونوں میں نصف نصف تقسیم کردیں گے، اور اگر کسی ایک کے پیسے تھے تو دوسرا فریق اس میں بطور اجیر ہوگا اور معاملہ جو طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے گا، اور اگر کچھ طے نہیں ہوا تھا تو جس نے پیسے نہیں لگائے اس کو اجرت مثل دیاجائے گا، اور باقی سب کچھ اس کا ہوگا جس نے پیسے لگائے تھے۔
والكسب بينهما ما إذا شرطاه على السواء أو شرطا الربح لأحدهما أكثر من الآخر، وقد صرح به في البزازية معللا بأن العمل متفاوت، وقد يكون أحدهما أحذق فإن شرطا الأكثر لأدناهما اختلفوا فيه. اهـ. والصحيح الجواز؛ لأن الربح بضمان العمل لا بحقيقته (البحر الرائق، اشتراک خیاط و صباغ 5/195)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1855/43-1687
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انعام کے معنی ہیں عطیہ اور بخشش، اور حسن کے معنی ہیں عمدہ اور بہتر۔ لہذا انعام الحسن کے معنی ہوئے بہت عمدہ عطیہ اور بخشش۔ (القاموس الوحید ج 1 ص 339 و ج 2 ص1674 مطبوعہ حسینیہ دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1953/44-1870
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ جوا، اور قمار ہی کی ایک شکل ہے، جس میں لاٹری کی طرح کوپن فروخت ہو گا پھر اس کے بعد کسی کے کوپن ڈرا کرنے پر کم یا زیادہ قیمت کا سامان ملے گا۔ چونکہ یہ کام جائز نہیں ہے اس لئے آپ کا اس طرح کا کوپن فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عقیدہ حرام کو حلال سمجھنے کا نہ تھا، اور ایسے ہی حرام کو حلال کہہ دیا تو ایمان ونکاح باقی ہے؛ لیکن ٹخنوں سے نیچے پائجامہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، اس سے اجتناب کریں۔(۳)
(۳) {یاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِيْ} (سورۃ تحریم: ۱)
وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
عن عبد الرحمن عن أبیہ، قال: سألت أبا سعید الخدريّ عن الإزار فقال: علی الخبیر سقطت، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إزارۃ المسلم إلی نصف الساق ولا حرج -أو لا جناح- فیما بینہ وبین الکعبین، ما کان أسفل من الکعبین فہو في النار، من جرَّ إزارہ بطرا لم ینظر اللّٰہ إلیہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في قدر موضع الإزار‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۶، رقم: ۴۰۹۵)
دار الافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں کی زیارت و ایصال ثواب جائز ہے، فقہاء نے اس کو مستحب بھی کہا ہے، شامی میں ہے ’’وبزیارۃ القبور أي لابأس؛ بل ندب‘‘ بلکہ فقہاء لکھتے ہیں کہ ہر ہفتہ جانا مناسب ہے اور جمعہ کے دن، اور بعض روایات کے اعتبار سے جمعرات اور جمعہ کا دن افضل ہے، بعض نے پیر اور ہفتہ کا دن ’’أي یوم السبت والإثنین‘‘ بھی شامل کیا ہے۔ ابن ابی شیبہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے۔ غرض ایصال ثواب کے لئے قبور پر جانا اور کھڑے ہوکر زیارت کرنا اور دعا کرنا ثابت ہے۔ ’’کذا في الشامي: والسنۃ زیارتہا قائماً أوالدعا وعقدہا قائماً کما کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع‘‘۔(۲)
لیکن وہاں جاکر نذر و نیاز مروجہ جائز نہیں، نیز طواف کرنا قطعاً ناجائز و حرام ہے، اور ان سے حاجت چاہنا ہی قطعاً ناجائز، بلکہ یہ فعل کفر ہے اور عرس کے بارے میں حرمت کی تصریح ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من المنکرات الکثیرہ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء وبالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن وغیر ذلک۔ مما ہو مشاہد في ہذہ الأزمان وماکان کذلک فہو شک في حرمتہ‘‘ (۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في زیارۃ القبور: ج ۲، ص: ۲۴۲۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار، مطلب في الثواب علی المصیبۃ: ج ۲، ص: ۲۴۱۔
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلي ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
قولہ: (باطل وحرام) لوجوہ منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق ومنہا: أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک ومنہا: أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ (’’أیضاً‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص348
نکاح و شادی
Ref. No. 2375/44-3588
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے یہاں بالغہ لڑکی اگر اپنا نکاح از خود والدین کی مرضی کے بغیر کفوء میں کرلے تو نکاح درست ہوجاتاہے، آپ کی عمر 32 سال ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا نکاح مناسب جگہ کردیتے لیکن بظاہر انہوں نے اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اگر آپ کو رشتہ مناسب معلوم ہوتاہے تو پہلے کوشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں اور ان کی مرضی سے نکاح ہو، ورنہ آپ از خود کسی کو وکیل بناکر نکاح کرسکتی ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (الحدیث)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن مقدس کی تفسیر بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے ترجمے اور نکات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان کی قابل قدر تعلیم کا حامل ہو، نیز اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر بھی اس کی اچھی نظر ہو، اور اصول شریعت سے واقفیت رکھتا ہو، اصول حدیث، اصول فقہ کے ساتھ ساتھ نحو وصرف اور بلاغت سے بھی آشنا ہو، پس غیر عالم اس کے ترجمے کو بھی نہیں سمجھ سکتا، چہ جائے کہ وہ اس کے مفاہیم کو سمجھ سکے؛ اس لیے غیر عالم کے لیے درست نہیں کہ وہ قرآن مقدس کی تفسیر کرے اور اگر وہ اس کا ترجمہ وغیرہ سناتا ہو یا مکتوبہ ومطبوعہ تفاسیر سناتا ہو، یعنی وہ شخص خود مفسر نہ ہو، بلکہ تفاسیر میں جو لکھا ہے اس کو گاہے گاہے لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو، جب کہ اردو تفاسیر کو لوگ عموماً پڑھتے ہیں، اور دوسروں کو سناتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط ضروری ہے کہ قرآن مقدس کا ترجمہ سامنے رکھ کر وہی باتیں بیان کرے، جو معتمد تفاسیر میں اس نے پڑھی ہوں، اور ان کو ذہن نشین بھی کیا ہو، اپنی طرف سے استنباط یا نکات بیان نہ کرے؛ اس لیے کہ اس صورت کے خلاف کرنے میں خوف ہے کہ کہیں مقصد ورضاء الٰہی کے خلاف نہ ہو جائے، اور اللہ رب العزت پرافتراء وکذب بیانی لازم نہ آجائے، حاصل یہ کہ ان تمام احتیاطوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان تو کر سکتاہے، نقل تفسیر تو درست ہے؛ لیکن اپنی سمجھ سے تفسیر یا نکات بیان کرنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) وقد قال الشافعي رضي اللّٰہ عنہ: کُلُّ ما حکم بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو مما فہمہ من القرآن قال تعالی: {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ} في آیات آخر وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا إني أوتیت القرآن ومثلہ معہ، یعني السنۃ، فإن لم یجدہ في السنۃ رجع إلی أقوال الصحابۃ فإنہم أدري بذلک لما شاہدوہ من القرائن والأحوال عند نزولہ ولما اختصوا بہ من الفہم التام والعلم الصحیح والعمل الصالح۔ وقال الإمام أبو طالب الطبري: إعلم أن من شرطہ صحۃ الاعتقاد أولا ولزوم سنۃ الدین فإن من کان مغموصا علیہ في دینہ لا یؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لا یؤتمن من الدین علی الإخبار عن عالم فکیف یؤتمن في الإخبار عن أسرار اللّٰہ تعالی ولأنہ لا یؤمن إن کان متہما بالإلحاد أن یبغي الفتنۃ ویغر الناس بلیہ وخداعہ کدأب الباطنیۃ وغلاۃ الرافضۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، جلال الدین الیسوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثانی … …وسبعون، في معرفۃ شروط المفسر وآدابہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۰۵)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، وفی روایۃ من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ الترمذي (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التي أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص36