Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کئی بار تجربہ اس بات کا ہو چکا ہے کہ گرم پانی سے مرض بڑھ جاتا ہے،تو ایسی حالت میں غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے۔
یہ جب ہے کہ جب کہ ٹھنڈے پانی سے بھی مرض بڑھ جاتا ہو اگر ایسا نہیں ہے، تو ٹھنڈے پانی سے غسل ووضو کرے۔
در مختار میں ہے:
’’من عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد بغبلۃالظن أو قول حاذق مسلم … تیمم لہذہ الأعذار کلہا۔‘‘(۱)
بدائع الصنائع میں ہے:
’’ولنا قولہ تعالیٰ: {وإن کنتم مرضیٰ أو علیٰ سفر … إلی قولہ … فتیمموا صعیداً طیباً} أباح التیمم للمریض مطلقاً من غیر فصل بین مرض ومرض إلا أن المرض الذي لا یضر معہ استعمال الماء لیس بمراد فبقی المرض الذي یضر معہ
استعمال الماء مراداً بالنص‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: باب شرائط التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص366
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا ظلم ہے، مذکورہ شخص فاسق ہے اس کی امامت واقتداء مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق، من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الرباء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في السمجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، زکریا دیوبند)
بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (أیضًا: ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص154
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت میں شریک ہونے کے لیے مسجد کی طرف دوڑنے کی ممانعت حدیث مبارک میں موجود ہے۔ جماعت میں شرکت کے لیے سکون وقار سے چلنا چاہئے خواہ رکعت نکلنے کا اندیشہ ہو۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: إذا کان أحدکم مقبلا إلی الصلاۃ فلیمش علی رسلہ فإنہ في صلاۃ فما أدرک فلیصل وما فاتہ فلیقض۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاری، ’’کتاب الأذان، باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ‘‘: ج۵، ص: ۱۵۰، رقم:۶۳۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مؤذن نیک اور دیندار، متبع سنت اور اذان کے طریقے سے واقف اور بلند آواز ہونا چاہئے؛ کیوں کہ مؤذن اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی اور کامیابی کے لیے پکارنے والا ہے پس مؤذن جتنا دیندار ہوگا اس کا اچھا اثر لوگوں پر ہوگا۔(۴)
(۴) ویستحب أن یکون المؤذن صالحاً، أي متقیا لأنہ أمین في الدین عالماً بالسنۃ في الأذان وعالماً بدخول أوقات الصلاۃ لتصحیح العبادۃ۔ (أحمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۷، شیخ الہند، دیوبند)
ثم اعلم أنہ ذکر في الحاوي القدسي من سنن المؤذن: کونہ رجلاً عاقلاً صالحاً عالماً بالسنن والأوقات مواظباً علیہ محتسباً ثقۃ متطہراً مستقبلاً۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ، ج ۲، ص: ۶۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص125
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس مریض کو پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہے، وہ شرعاً معذور ہے، اس کے لیے اس حال میں نماز پڑھنا جائز ہے، نماز معاف نہیں ہے، لیکن وہ تھیلی کے ساتھ مسجد میں داخل نہ ہو، بلکہ گھر میں تنہا نماز ادا کرے۔
’’قولہ: وإدخال نجاسۃ فیہ یخاف منہا التلویث ومفادہ الجواز لو جافۃ، لکن في الفتاویٰ الہندیۃ لا یدخل المسجد من علی بدنہ نجاسۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۷۔
وکذا مریض لا یبسط ثوباً إلا تنجس قولاً لہ ترکہ والمعذور إنما تبقي طہارتہ في الوقت۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض: مطلب في أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
مریض تحتہ ثیاب نجسۃ إن کان بحال لا یبسط شيء إلا وینجس من ساعتہ یصلي علی حالہ وکذا إذا لم ینتجس الثاني، لکن یلحقہ زیادۃ مشقۃ بالتحویل۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع عشر: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۷، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص257
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے {فاقرء وا ما تیسر من القرآن}(۱) اس آیت سے نفس قرأت کی فرضیت معلوم ہوتی ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’أمرنا نبینا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۲)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃ الفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم سے میسر آئے اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۳)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ومنہا القرائۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترکِ فرض ( قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
(۱) سورۃ المزمل:۲۰۔
(۲) أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب تفریع استفتاح الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۸۱۸۔
(۳) أخرجہ مسلم ، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۷، رقم: ۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ ومنہا: القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص202
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1007 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مولانا مودودی صاحب کی چند باتیں جمہور سے مختلف ہیں ۔ اس لئےاحتیاط کا مشورہ دیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 37 / 1115
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: زکوۃ صاحب نصاب پر واجب ہے، اور نصاب پر پورے ایک سال کا گزرنا بھی شرط ہے۔ جب آپ کے پاس سالانہ کوئی سیونگ نہیں ہے تو آپ پر زکوۃ بھی فرض نہیں ہے۔ سالانہ بچت اگر نصاب تک پہونچ جائے اور پھر اس پر سال گزرجائے تو زکوۃ واجب ہوگی ورنہ نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1101/42-321
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سود کی حرمت مطلق ہے، ہندوستان میں بھی حتی الامکان سود سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ جہاں نہیں بچ سکتے ہیں جیسے بینک میں تو وہاں سود کی رقم بینک سے نکال کر بلا نیت ثواب صدقہ کردینا چاہئے۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1210/42-511
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) ایسے تہواروں کے موقع پر مارکیٹ میں جو چھوٹ ملتی ہے، خواہ مسلم کی طرف سے ہو یا غیرمسلم کی طرف سے، ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (2) اگر مٹھائی کسی دیوی دیوتا پر چڑھاوے کہ نہ ہو اور اس میں کسی ناپاک چیز کی آمیزش کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عام طور پر دوکاندار جو مٹھائی اپنے گراہکوں کو کھلاتے رہتے ہیں اس میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جاتی ، اس لئے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند