احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1951/44-1857

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کی موت کے بعد اسکی بیوی کو سرکار کی جانب سے بطور تبرع ملنے والی پینشن خاص بیوی کے لئے ہی  ہوتی ہے، اس میں دیگر لوگوں کا کوئی حق نہیں ہے، اس لئے آپ کی والدہ اس مال کی مکمل مالک ہیں، وہ جیسے چاہیں تصرف کریں، اور جس کو چاہیں جتنا دیدیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ ان پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہئے۔

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، (کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة) "لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."( فتاوی شامی، (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ایسے کام کی منت مانی جائے جو بذات خود معصیت ہو تو وہ منت منعقد ولازم نہیں ہوتی اور مذکورہ فی السوال منت (چادر چڑھانا وغیرہ) بذات خود معصیت ہے؛ اس لئے یہ منت منعقد ولازم نہیںہوگی، بلکہ ایسا کرنا بدعت وباعث گناہ ہوگا اور یہ سمجھنا کہ اس منت کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے کوئی پریشانی آ رہی ہے غلط ہے۔ گناہوں کے کام چھوڑ کر نیک کام کرنے کی پابندی کی جائے تو ان شاء اللہ پریشانیاں دور ہوں گی کوئی خاص پریشانی ہو تو کسی قریبی بزرگ سے مل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع الرد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
لا یلزم النذر إلا إذا کان طاعۃ ولیس بواجب وکان من جنسہ واجب علی التعیین فلا یصح النذر بالمعاصي ولا بالواجبات إلخ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر: ج ۱، ص: ۱۴۴)
واعلم أنہم صرحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ کون المنذور لیس بمعصیۃ کونہ من جنسہ واجب۔ (ابن نجیم،  البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في النذر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۴)… منہا أن یکون قربۃ فلا یصح النذر بما لیس بقربۃ رأسا کالنذر بالمعاصي بأن یقول للّٰہ عز شأنہ علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلانا أو أضربہ أو أشتمہ ونحو ذلک لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا نذر في معصیۃ اللّٰہ تعالٰی وقولہ: من نذر أن یعصي اللّٰہ تعالیٰ فلا یعصہ ولأن حکم النذر وجوب المنذور بہ ووجوب فعل المعصیۃ محال وکذا النذر بالمباحات من الأکل والشرب والجماع ونحو ذلک لعدم وصف القربۃ لاستوائہما فعلاً وترکاً۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما شرائط الرکن فأنواع‘‘: ج ۵، ص: ۸۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص346

متفرقات

Ref. No. 2426/45-3673

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناموں کے آخرمیں اس طرح کاا ضافہ درست ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہر جگہ کا یک عرف ہے، اور نام  رکھنے کا ایک طریقہ ہے جس سے بعض مرتبہ  اس علاقہ کی شناخت ہوتی ہے، اس لئے اس طرح نام رکھنے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2475/45-3763

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے  اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ  ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو،  لہذا اگر بولنے والے نے  ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے  تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں آپ کی بات درست ہے، کپڑا تین مرتبہ پاک کر لیا گیا، تو اب وہ کپڑا پاک ہو گیا، صرف کپڑا پانی میں بھکو دینے سے پانی مستعمل نہیں کہلاتا؛ اس لیے مذکورہ صورت میں بالٹی میں جو پانی تھا اس سے وضو درست ہوگئی اور جب وضو درست ہوئی، تو اس سے نماز بھی درست ہو گئی؛ لیکن اس سے بہتر پانی ہوتے ہوئے طبعی کراہت کی وجہ سے ایسے پانی سے وضو نہیں کرنی چاہئے۔

’’قلت: أرأیت ثوبا نجسا غسل في إجانۃ بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ولم یہرق ذلک الماء ثم غسل في إجانۃ أخری بماء نظیف ثم عصر ما حکم الثوب، قال: قد طہر قلت فہل یجزی من توضأ بالماء الأول أو الثاني أو الثالث؟ قال: لا قلت: فإن توضأ رجل من ذلک وصلی؟ قال یعید الوضوء والصلاۃ۔ قلت: أرأیت إن غسل ذلک الثوب في إجانۃ أخری بماء طاہر ہل یجزی من توضأ بذلک الماء الرابع؟ قال: قلت: نعم: قلت: لم؟ قال: لأنہ لما غسل في الإجانۃ الثالثۃ فقد صار طاہرا ثم غسل في الإجانۃ الرابعۃ وہو طاہر فلا بأس بأن یتوضأ بذلک الماء الرابع لأنہ طاہر‘‘(۱)

(۱) محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب البئر وما ینجسہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص71

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کیے بغیر بھی غسل ہو جائے گا۔(۲)

(۲) یفترض في الاغتسال… و منہ الفرج الخارج لأنہ کالفم لا الداخل لأنہ کالحلق۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي،’’کتاب الطہارۃ، فصل بیان فرائض الغسل‘‘ج۱،ص: ۱۰۲)
لا یجب غسل فرج داخل۔ ولا تدخل إصبعھا في قبلھا أي لا یجب ذلک۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۸۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جھوٹ بولنا اور حرام مال کھانا سخت گناہ ہے(۱) ایسا کرنے والا فاسق ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۲)

(۱) {فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَہ۶۱} (آل عمران: ۶۱)
ما کان من خلق أبغض إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الکذب۔ (صحیح ابن حبان ذکر البیان بأن الکذب کان من أبغض الأخلاق: رقم: ۵۷۳۶)     آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لایقبل ولا یأکل مالم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لابأس بقبول ھدیتہ والأکل منہا الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج۵، ص: ۳۴۳)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص173



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے لیے ضروری ہے کہ جماعت کے لیے جو وقت مقرر ہے اس وقت سے پہلے مسجد پہونچ جائے تاکہ نماز وقت پر ہو اور سنت گھر پر پڑھ کر آئے یا پہلے آکر مسجد میں پڑھے؛ لیکن اگر ایسا ہوتا ہے کہ جماعت کے وقت پر مسجد میں پہونچا اور اور سنن پڑھنے کا وقت نہیں ہے، تو ایسی صورت میں فرض کے بعد سنت ادا کر لیتا ہے، تو صحیح ہے اگر کوئی اور صورت ہے، تو اس کو واضح طور پر لکھ کر مسئلہ معلوم کریں۔ تاہم امام صاحب کے لیے ظہر کی سنت ہمیشہ بعد میںپڑھنے کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اجعلوا أئمتکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (محمد الشوکاني، نیل الأوطار، کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق، رقم:۱۰۸۸، ج۲، ص:۱۸۳)۔
وقد أخرج الحاکم عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (محمد الشوکاني، نیل الأوطار،کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في إمامۃ الفاسق، رقم:۱۰۸۸، ج۲، ص:۱۸۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص262

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ترک نماز کے لیے مختلف وعیدات کا ذکر احادیث میں فرمایا گیا ہے، البتہ اس حقب کی روایت حدیث کی کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی۔
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے اور اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین بھی ہیں اس لیے اس سے رحم اور سہولت کی امید بھی رکھنی چاہئے۔(۱)
(۱)عن عبد اللّٰہ بن عمر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الذي تفوتہ صلاۃ العصر فکأنما وتر أہلہ وما لہ عن أبي الملیح قال کنا مع بریدۃ في غزوۃ في یوم ذي غیم فقال بکروا بصلاۃ العصر فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من ترک صلاۃ العصر فقد حبط عملہ۔(أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، أثم من فاتتہ العصر‘‘: ج ۱، ص: ۷۸، رقم: ۵۵۲)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن في جہنم لوادیا تستعیذ جہنم من ذلک الوادي في کل یوم أربع مائۃ مرۃ أعد ذلک الوادي للمرائین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، الحدیث۔ (عماد الدین بن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۶، ص: ۵۴۸)۔
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بین الرجل وبین الکفر والشرک ترک الصلاۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان إطلاق اسمہ الکفر علی من ترک الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷)۔
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔(سلیمان بن احمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۳، ص: ۳۴۳)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: العہد الذي بینی وبینہم الصلاۃ، فمن ترکہا فقد کفر۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: باب ما جاء في ترک الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۸، رقم:۲۶۲۱)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص374


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح دل میں نماز پڑھنے سے نماز ادا نہ ہوگی اگر رش کی وجہ سے نماز پڑھنا دشوار ہو تو بعد میں قضاء کریں۔(۱)
(۱) في فرائض الصلاۃ وہي ست منہا التحریمۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۵)
لاشيء من الفروض ماتصح الصلاۃ بدونہ بلا عذر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قد یطلق الفرض علی مایقابل الرکن‘‘: ج۲، ص: ۱۲۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص274