Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 39 / 843
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میں نہیں سمجھتا کہ عورتوں کو بطور ہوسٹس رکھنا لازم ہے، آپ صرف مردوں کو ملازمت پر رکھ کر ایرلائنس شروع کرسکتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے سامنے بے پردہ عورتوں کالانا یا آنا درست نہیں ، اس لئے اس پر غور کرلیا جائے۔ تاہم عورتوں کی خدمت کے لئے عورتیں ہوں تو اس میں گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 41/836
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسمائے الہی کا ورد کرنا باعث ثواب ہے، اور مسجد میں خاموشی کے ساتھ اسماء وآیات کا زبان سے ورد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص عدد کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لئے متعین تعداد کے مطابق وظیفہ کرنا بھی درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1125/42-356
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ پر مذکورہ وعید صادق نہیں آتی ہے۔ کیونکہ آپ قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے واپس آنا چاہتے ہیں ، مدینہ منورہ کی تکالیف کی وجہ سے نہیں۔ دعاکریں کہ یا اللہ میں قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے جانے پر مجبور ہوں ورنہ آپ کے حبیب کے شہر کو کبھی نہ چھوڑتاچاہے جتنی تکلیف پہونچتی۔ اور حبیب ﷺ کے روضہ پر سلام بھی عرض کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1347/42-733
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دعوت و تبلیغ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتاہے۔ ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فریضہ انجام دینا چاہئے۔ اور اگر کسی شخص کو دین سیکھنے کا دوسرا کوئی موقع میسر نہ ہو بجز جماعت تبلیغ میں نکلنےکے تو اس کو جماعت میں جانا جائز ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مدت میں بیوی و بچوں کے خرچہ کا نظم کرے جو کہ شوہر و باپ ہونے کی حیثیت سے اس پر لازم وضروری ہے۔ بیوی وبچوں کو تنگی و فقر وفاقہ میں چھوڑ کر جانا درست نہیں ہے۔ حج جیسی اہم عبادت کے لئے استطاعت شرط ہے، اور استطاعت میں اپنے سفر خرچ کے ساتھ بیوی وبچہ کے نفقہ کا نظم کرنا بھی داخل ہے۔ اس لئے مذکورہ شخص کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ (سورۃ آل عمران 97، فتجب للزوجۃ علی زوجھا انھا جزاء الاحتباس ، وکل محبوس لمنفعۃ غیرہ یلزمہ نفقتہ کمفت وقاض ووصی (رد المحتار، باب النفقۃ 5/282 زکریا دیوبند) تجب علی الرجل نفقۃ امراتہ المسلمۃ والذمیۃ والفقیرۃ والغنیۃ دخل بھا او لم یدخل ، کبیرۃ کانت المراۃ او صغیرۃ یجامع مثلھا ، کذا فی فتاوی قاضی خان، سواء کانت حرۃ او مکاتبۃ کذا فی الجوھرۃ النیرۃ (الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الاول 1/595)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکام شرعیہ کے مکلف انسان اور جنات ہیں، عقیدہ شرعیہ جن کا دین میں ہونا معروف ہو اور وہ اصول دین میں سے ہو، اس میں سے کسی عقیدہ کا انکار موجب کفر ہے، مثلاً: نماز کی فرضیت کا کوئی انکار کردے، اسی طرح شریعت کے کسی حکم کا مذاق واستہزاء بھی کفر کا باعث ہے(۱) اور کسی فرض وواجب کے بارے میں اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن عمل نہ کرے تو ایسا شخص فاسق ہوجاتا ہے، ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔(۲)
…(۱) و إذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ، کذا فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار میکنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ، وفي ’’مجموع النوازل‘‘ قال رجل لإمرأتہ: ما تقولین أیش حکم الشرع فتجشأت جشائً عالیا فقالت: ’’اینک شرع را‘‘ فقد کفرت وبانت من زوجہا، کذا في المحیط۔
رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا، وقال ’’جہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر؛ لأنہ ردّ حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتوی علی الأرض، وقال ’’این چہ شرع است‘‘ کفر۔
رجل استفتی عالماً في طلاق إمرأتہ فأفتاہ بالوقوع فقال المستفتي ’’من طلاق ملاق جہ دانم مادر بجکان باید کہ بخانہ من بود‘‘ أفتی القاضي الإمام علي السغدي بکفرہ کذا في الفصول العمادیَّۃ۔ إذا جاء الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۸۳- ۲۸۴)
ہي فرض عین علی کل مکلف ویکفر جاحدہا لثبوتہا بدلیل قطعيِّ وتارکہا عمداً مجانۃً أي تکاسلاً فاسقٌ۔ ( ابن عابدیں، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)
(۲) لو قال لمریض صلِّ، فقال: واللّٰہ لا أصلی أبداً، ولم یصلي حتی مات یکفر، وقول الرجل: لا أصلي یحتمل أربعۃ أوجہ: أحدہا: لا أصلي لأني صلیت، والثاني: لا أصلِّی بأمرک، فقد أمرني بہا من ہو خیرٌ منک، والثالث: لا أصلي فسقا مجانۃ، فہٰذہ الثلاثۃ لیست بکفر۔ والرابع: لا أصلي إذ لیس یجب عليّ الصلاۃ، ولم أؤمر بہا یکفر، ولو أطلق وقال: لا أصلي لا یکفر لاحتمال ہذہ الوجوہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بالصلاۃ والصوم والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)
إذا کان في المسالۃ وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحدٌ یمنع، فعلی المفتي أن یمیل إلی ذلک الوجہ، کذا في ’’الخلاصۃ في البزّازیۃ‘‘ إلا إذا صرّح بإرادۃ توجب الکفر، فلا ینفعہ التأویل حینئذٍ کذا في البحر الرائق، ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم
وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي، ویؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
دارالافتاء
ڈارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2312/44-3471
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لئے کہ شرط نہیں پائی گئی، کیونکہ لڑکے کو ماں نے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا، بلکہ باپ نے داخل کیا ہے اور نہ ہی ماں نے کھانا دیا ہے، لیکن اگر شرط پائی گئی تو تینوں طلاقیں شرعا فقہ حنفی کے مطابق واقع ہوجائیں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2345/44-3530
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفاس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے اور مذکورہ عورت کی عادت بھی مختلف ہے، اس لئے اگر خون بیس دن پر بند ہوگیا تو اکیسویں دن بیوی سے ملنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔
" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط". الفتاوى الهندية (1/ 37):
ویحلّ وطوٴہا إذا نقطع حیضہا لأکثرہ ، مثلہ النّفاس بلا غسل وجوباً بل ندباً ، وإن لأقلّہ لا یحلّ حتّی تغتسل أو تیمّم بشرطہ أو یمضي علیہا زمن یسع الغسل ولبس الثّیاب والتحریمة یعني من آخر وقت الصّلاة ، لتعلیلہم بوجوبہا في ذمتہا ۔ (الدر مع الرد، کتاب الطہارة: ۱/۴۹۰، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2373/44-3587
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال کی نوعیت واضح نہیں ہے ، نفع لینے کی صورت کیا ہوتی ہے، اگر قربانی کرنے والا لوگوں کا وکیل ہے اور وہ لوگوں کی قربانی کرتاہے تو بتاکر اجرت لینا درست ہے لیکن لوگوں کو بتانا کہ 1300 فی حصہ ہے اور 1100 فی حصہ کی قربانی کرنا اور 200 روپئے نفع سمجھ کر رکھ لینا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے مراد استقرار حمل کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ابتداء میں وہ صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اس وقت اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے کہ مذکر ہوگا یا مؤنث، گویا کیسی شکل وصورت ہوگی، اس وقت ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ سے کچھ معلوم نہیں ہوتا، البتہ جب اعضاء بننے شروع ہوجاتے ہیں تب معلوم ہوسکتا ہے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؛ اس لیے اس آیت سے کوئی تعارض نہیں۔ اس کی مزید تحقیق فن کے ماہرین (ڈاکٹر اطباء) سے کی جاسکتی ہے۔(۱)
(۱) ویعلم ما في الأرحام، أی: وہو یعلم تفصیل ما في أرحام الإناث من ذکر… أو أنثیٰ، وواحد ومتعدد، وکامل وناقص، ومؤمن وکافر، وطویل وقصیر، وغیر ذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۳)
وفي موضع أخر، وأبیض، وأسود، وطویل، وقصیر، وسعید وشقي وغیر ذلک۔ (’’أیضاً:، باب في الریاح والمطر‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۷،رقم: ۱۵۱۴)
قولہ تعالیٰ: اللّٰہ یعلم ما تحمل کل أنثی ذکراً أو أنثی، ویعلم ما في الأرحام، سویاً أو غیر سوي۔ (أبو اللیث نضر بن محمد، بحر العلوم: ج ۲، ص: ۲۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص37
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات کے واضح جوابات سمجھنے کے لئے حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر کی کتاب عبارات اکابر مطبوعہ مکتبہ مدنیہ دیوبند کا مطالعہ مفید ہوگا، اس تعلق سے کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ جو مخالفین کی الزام تراشیوں کو قطع کرنے کے لئے مفید ہیں، مذکورہ کتاب ’’عبارات اکابر‘‘ سہل اور مفید ہے۔ اسی طرح مولانا منظور نعمانیؒ صاحب کی کتاب ’’فیصلہ کن مناظرہ‘‘ بھی بڑی مفید ہے
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص273