نکاح و شادی

Ref. No. 1137/42-371

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1482/42-942

الجواب وباللہ التوفیق:

(۱)موجودہ دور میں راستہ سے متعلق مستقل نظام وجود میں آچکا ہے،راستے کی اہمیت کا یہ شعور جو انسانوں میں اب عام ہوا ہے اسلام نے اس جانب بہت پہلے توجہ دلادی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں راستوں کی افادیت اور کشادگی کے سلسلے میں امام ترمذی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: راستے کی کم از کم چوڑائی سات ہاتھ یعنی دس فٹ ہے۔ ”اجعلوالطریق سبعۃ اذرع“ (الترمذی: ج ۳، ص:۰۳، رقم: ۵۵۳۱) (۲/۳) مذکورہ دونوں اجزاء مجمل ہیں، ان میں وضاحت نہیں ہے کہ جو مردے کو غفلت یا جان بوجھ کر درج شدہ راستے کی زمین میں دفنایے گیے ہیں وہ قبریں راستے میں کب بنی ہیں؟ قبریں جس جگہ پر بنی ہیں وہ قبرستان کے حق میں موقوفہ ہے یا  حکومتی رکارڈ میں وہ راستے ہی کے لیے درج ہے کسی کی مملوکہ زمین ہے؟ البتہ فقہاء نے کتابوں میں صراحت کی ہے کہ قبروں کو روند نا اور اس پر چلنا جائز نہیں ہے، اگر قبر بہت پرانی ہوگئی ہو پھر بھی اس کے اوپر چلنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔ ”یکرہ المشي في طریق ظن أنہ محدث حتی إذا لم یصل إلی قبرہ إلا بوطئ قبرترکہ“ (الدر المختار ج۲ص ۵۴۲  .((۴) قبرستا ن کی زمین اگر موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس زمین پر کسی کے لئے تصرف کرنا شرعا جائز نہیں ہے؛ بلکہ جس مقصدکے لئے وقف ہے اسی مقصد میں استعمال کرنا لازم ہے، اور اگر کئی دہائی قبل مردے دفنائے گئے جس سے قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اجسام مٹی بن چکے ہیں تو اس میں نئے مردوں کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی کہلائے مثلا مدرسہ،مسجد،عید گاہ یا جنازہ گاہ،وغیرہ بنا کر وقف کردیا جائے نیز اگر قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام میت کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ شمار کیا جائے گا، کفایت المفتی میں مزید اس کی وضاحت ہے: مسجد کی طرح قبرستا ن میں بھی عام اموات کا بلا روک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لئے کافی ہے،(کفایت المفتی: ج:۷، ص:۲۱۲) نیز ذکر کردہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر اس زمین میں لوگ بلا روک ٹوک اپنے مردوں کو دفنا رہے تھے تو یہ وقف کی جائداد شمار ہوگی اس لئے اس میں گاڑیوں کے لئے اسٹینڈ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔

”فإن قلت: ھل یجوز أن تبنی علی قبور أہل المسلمین؟ قلت:قال ابن القاسم: لو ان مقبرۃ من مقا بر المسلین عفت فبنی قوم علیھا مسجد الم أر بذلک بأسا، وذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاھم لا یجوز لأحد أن یملکھا، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیھا جاز صرفھا إلی المسجد لأن المسجد أیضاً وقف من أوقاف المسلین لا یجوز تملکہ لأحد“ (عمدۃ القاری: ج ۶، ص: ۳۷۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مدرسے کے طلبہ کے لئے کھانے کا ٹکٹ بیچنا کیسا ہے

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کا اگر عقیدہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا اس کا تعاون کرنے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِص}(۱) پس اس شخص کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں تو بھی میں آپ لوگوں کا یہ فیصلہ نہیں مانوں گا، تو وہ خارج از اسلام نہیں ہے تاہم اس طرح کے جملوں سے احتراز اور توبہ استغفار لازم ہے۔(۲)

(۱) سورۃ المائدہ: ۲۔

(۲) {فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ  وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ہ۶۵} (سورۃ النساء: آیۃ، ۶۵)

وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا فقال الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشائخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1750/43-1471

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کے مذکورہ جملہ سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نکاح باقی ہے اور دونوں میاں بیوی ہیں۔ زید کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں بہت احتیاط برتے اور کبھی بھی اس طرح کی بات اپنی زبان سے خود نہ نکالے، اگر شوہر اس طرح کی بات کرے گا تو اس سے مسئلہ بدل جائے گا۔ تاہم عورت کے اس طرح کے جملہ سے   نکاح ختم نہیں ہوتاہے۔  طلاق کا مکمل اختیار شوہر کو ہوتاہے، عورت طلاق نہیں دے سکتی اور عورت کےطلاق والے جملے  بولنے سے نکاح نہیں ٹوٹتاہے۔

عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الطَّلاَقُ لِلرِّجَالِ، وَالْعِدَّةُ لِلنِّسَاءِ. (موطا مالک، جامع عدۃ الطلاق 4/839)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1857/43-1733

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس جملہ سے کفر تو نہیں ہوا البتہ اس طرح کے جملوں سے احتراز کرنا چاہئے، اور احتیاطا تجدید ایمان کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تجدید نکاح ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1955/44-1878

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فلک کے معنی آسمان۔ ضحیٰ کے معنی دن کی روشنی ۔ اور آئینور کے معنی  چاند کی روشنی کے ہیں، آئے لفظ ترکی زبان میں چاند کے معنی  میں آتاہے، اور نور کے معنی عربی میں لائٹ  اور روشنی کے آتے ہیں، اس طرح" آئے نور" کے معنی ہوئے چاند کی روشنی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے۔

 ’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ، والسواک، واستنشاق الماء، وقص الأظفار، وغسل البراجم، ونتف الابط، وحلق العانۃ، وانتقاص الماء، قال زکریا: قال مصعب ونسیت العاشرۃ إلا أن تکون المضمضۃ‘‘۔(۲) ’’عن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (جزوا الشوارب وارخوا اللحی خالفوا المجوس‘‘۔(۱

نیز نصوص سے ثابت شدہ ایک اہم سنت کے ساتھ استہزاء اور مذاق اڑانا در حقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزاء ہے؛ کیوں کہ سنت کسی بندے کی ایجاد نہیں ہوتی؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہوتی ہے اور نبی کے ساتھ استہزاء صریح کفر ہے۔

’’استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم في الشرع أو عاب شیأ من القرآن کفر‘‘(۲) ’’رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمنا، کذا في فتاوی‘‘(۳) {قُلْ أَبِا اللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ  تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ إِیْمَانِکُمْط}(۴)

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دیجئے کیا اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی تمہاری ہنسی اور دل لگی ہوتی ہے، تم بہانے نہ بناؤ یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ الغرض مذکورہ شخص نے جو کچھ کہا یا کیا وہ موجب کفر ہے، اس پر ضروری ہے کہ توبہ کرکے تجدید ایمان ونکاح بھی کرے۔

(۱) قد سبق تخریجہ، ’’باب خصال الفطرۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۲۲، رقم ۲۶۰۔

(۲) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج۲، ص: ۵۰۷۔

(۳) أیضا۔

(۴) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲،ص: ۲۹۳۔

(۵) سورۃ التوبۃ: ۶۵-۶۶۔

)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو لوگ صحابہؓ کی مذمت کرتے ہوں، گا لیاں دیتے ہوں، ’’عیاذا باللّٰہ‘‘ جب کہ اللہ تعالیٰ صحابہؓ کی تعریف فرماتے ہیں اور ان سے اپنے راضی ہونے کا اعلان فرماتے ہیں تو ایسے لوگ فاسق وفاجر اور کفر کے قریب ہیں۔(۱)

(۱) وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفرا، لکن یضلل إلخ۔ وذکر في فتح القدیر أن الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین وأموالہم، ویکفرون الصحابۃ، حکمہم عند جمہور الفقہاء وأہل الحدیث حکم البغاۃ۔ وذہب بعض أہل الحدیث إلی أنہم مرتدون۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب ہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷)
عن أبی سعید الخدري -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسبوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ، متفق علیہ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب الصحابۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص227

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اولیاء اللہ اور اپنے بزرگوں احباب و اقارب کی قبروں پر جانا اور فاتحہ پڑھنا اور پڑھ کر صاحب قبر کو ثواب پہونچانا بلا شبہ جائز ہے (۱) لیکن عوام میں مروجہ فاتحہ وعرس کا طریقہ جس میں بدعت اور ناجائز امور بھی ہوتے ہیں اس کی نیت سے جانا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کنت نہیتکم عن زیارۃ القبور فزوروہا فإنہا تزہد في الدنیا وتذکر الآخرۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۰، رقم: ۱۷۶۹)
وأما الأولیاء فإنہم متفاوتون في القرب من اللّٰہ تعالیٰ، ونفع الزائرین بحسب معارفہم وأسرارہم، قال ابن حجر في فتاویہ: ولا تترک لما یحصل عندہا من منکرات ومفاسد کاختلاط الرجال بالنساء وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص352