Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عصر و عشاء سے قبل چار رکعت پڑھنا مستحب ہے جس کو سنت غیر مؤکدہ بھی کہا جاتا ہے ’’ویستحب أربع قبل العصر وقبل العشاء‘‘ (۱) اور مستحب کا حکم یہ ہے کہ پڑھے تو ثواب ہوگا نہ پڑھے تو کوئی عقاب نہیں مصلی کو اختیار ہے، لہٰذا جو نہ پڑھے اس کو مطعون نہ کیا جائے۔(۲)
(۲) ندب الأربع قبل العصر والعشاء، وبعدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
وندب أي استحب أربع رکعات قبل صلاۃ العصر لقولہ علیہ السلام : من صلی أربع رکعات قبل العصر لم تمسہ النار … وندب أربع قبل العشاء لما روي عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أنہ علیہ السلام کان یصلي قبل العشاء أربعاً۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۹۰، اشرفیہ دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 418
Miscellaneous
Ref. No. 0000
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Sharing such kind of things to your friend is not benefitting in any way. If you meet that man, you can try to explain to him the seriousness of what he has been doing, and if he refuses your words then you should leave the matter and stop going after him.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 41/1035
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ وارث کو ملنے والا حصہ اگر اس قدر ہو کہ اس سے قرض کی ادائیگی کے بعد بھی وہ صاحب نصاب ہو تو اس کے لیے زکوۃ لینا درست نہیں ہے ، اس کو چاہیے کہ اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے دیگر ورثہ کو راضی کرے تاکہ اس سے اپنا قرضہ ادا کرسکے اور اگر ورثہ تقسیم پر راضی نہ ہو ں تو وہ اپنا حصہ دیگر ورثہ کے ہاتھ ہی فروخت کر دے ، تاکہ ا س سے قرض کی ادائیگی کرسکے، ہاں اگر ملنے والا ترکہ سے قرض کی ادائیگی کے بعد مقدار نصاب مال نہ بچتا ہو تو اس کے لیے قرض لینا درست ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 918/41-43B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد نماز ، ذکر اللہ ، تلاوت، اعتکاف وغیرہ عبادات کے لئے ہے، اس میں دعوت اور کھانے کا نظم کرنے سے گندگی ہوگی، شوروغل ہوگا، اور اس طرح مسجد کا تقدس پامال ہوگا، اس کے علاوہ بھی بہت سی خرابیاں ہیں۔ لہذا مسجد میں ولیمہ کرنا درست نہیں ہے، اس سےاحتراز کیاجائے۔
واعلم: أنه كما لا يكره الأكل ونحوه في الاعتكاف الواجب فكذلك في التطوع كما في كراهية جامع الفتاوى ونصه يكره النوم والأكل في المسجد لغير المعتكف وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء. اهـ. (قوله فلو لتجارة كره) أي وإن لم يحضر السلعة واختاره قاضي خان ورجحه الزيلعي لأنه منقطع إلى الله تعالى فلا ينبغي له أن يشتغل بأمور الدنيا بحر (الدرالمختار 2/448)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1123/42-347
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر رکعت کے دونوں سجدے فرض ہیں۔ اگر کوئی ایک سجدہ بھی رہ گیا تو نماز نہیں ہوگی، سجدہ سہو بھی اس میں کافی نہیں ہوگا۔
(ومنها السجود) السجود الثاني فرض كالأول بإجماع الأمة. كذا في الزاهدي (الفتاوی الھندیۃ 1/70)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1224/42-538
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ شوہر عدت کے اندر رجعت کرسکتا ہے۔
والمعلق بالشرط ينزل عند وجود الشرط كالمنجز (فتح القدیر للکمال ابن الھمام/ باب جنایۃ المملوک 10/345)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 1348/42-750
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Prayer is an act of worship. For men, it is better to pray in congregation in Masjid; and for women, it is better to pray at home, preferably in a corner of the house as it is more rewarding. Prayer, the most important act of worship, is for earning reward and pleasure of Allah Alone. Since a woman gets more rewards if she prays at home, she should not go to Masjid.
However, (1) if a portion of masjid is reserved for women to pray, (2) and they are out of the house, (3) and go there and offer prayers, then it is allowed. And at some places—for example, in the masjid of markets and highways etc.—there should be separate arrangement for ladies so that they, too, can offer prayers there. However, if the congregation starts in the masjid and the ladies join the congregational prayer being in the general area of the masjid, then, too, their prayers will not be invalid.
ولقد نہی عمر النساء عن الخروج إلی المساجد فشکون إلی عائشہ فقالت: لو علم النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما علم عمر ما أذن لکن فی الخروج“ (العنایة شرح الہدایة ۱/۳۶۵ ط: دارالفکر بیروت)۔ عن ابن مسعود عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاة المرأة في بیتہا أفضل من صلاتہا فی حجرتہا، وصلاتہا في مخدعہا أفضل من صلاتہا في بیتہا۔ (سنن أبي داوٴد: رقم: ۵۷۰ ط: المکتبة العصریة - بیروت)۔ عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان . رواه الترمذي.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
Ref. No. 1577/43-1116
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فوت شدہ کی بیوی یا اولاد ضرورتمند ہیں تو ان کی مدد کرنی چاہئے جبکہ ادارہ کے قیام کے اولین مقاصد میں سے غریبوں کی مدد کرناہے۔ اور زکوۃ وغیرہ کی رقم بھی بطور وظیفہ دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے تو اس کو بڑی رقم بھی دی جاسکتی ہے، ورنہ وظیفہ متعین کرنے میں اور ہر ماہ تھوڑا تھوڑا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ ((شامی کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
. و يكره أن يدفع إلى رجل ماتى درهم فصاعدا وان دفعه جاز.(الھندیۃ 1/188) . و كره اعطاء فقير نصابا أو أكثر الا إذا كان المدفوع إليه مديونا أو كان صاحب عيال. (شامی 2/74) .واذا أهدي للصبي شيء وعلم انه له: فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط ” (الاشباۃ والنظائر 339)
اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَہُوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ․(شامی 3/172)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ طریقہ غیر اسلامی ہے، شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ’’من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر وخفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود‘‘ (۱) اور یہ فعل اہل سنت والجماعت کے عقیدے وطریقہ کے خلاف بھی ہے اور ہر وہ فعل جو خلاف شرع ہو وہ ناجائز ہے ’’قال الکشمیري -رحمہ اللّٰہ- : ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء‘‘ (۲) ’’واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالاجماع باطل وحرام‘‘ (۳) الغرض نذر ونیاز کرنا، قبروں پر چادر چڑھانا مٹھائیاں اور شیرنی وغیرہ تقسیم کرنا بدعت ہے، یہ فعل غیر اللہ سے مدد اور نصرت مانگنا ہوا؛ جو بالاجماع باطل ہے، اور کاروبار میں ترقی کے لئے مذکورہ رقم آپ غرباء پر تقسیم کردیں کاروبار میں ترقی اور ثواب بھی حاصل ہوگا ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (۱)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰۔
(۲) علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثرا العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷۔
(۱) سورۃ التوبۃ: ۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص347
مساجد و مدارس
Ref. No. 2374/44-3586
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک و شبہہ کی بنا پر اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے،۔ بعض مرتبہ حقیقت حال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے محسوس ہوتاہے کہ وہ جھوٹ بول رہاہے جبکہ وہ سچ بول رہاہوتاہے ۔ اس لئے محض شک کی بناپر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند