نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محرم عورتوں کے ساتھ اگر غیر محرم عورتیں پچھلی صفوں میں ہوں تو بلا کراہیت نماز درست ہو جائے گی۔(۱)

(۱) تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ) کأختہ (أو زوجتہ أو أمتہ، أما إذا کان معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لا) یکرہ بحر۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ…مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷)
لو کان بین صف النساء وصف الرجال سترۃ قدر مؤخر الرحل کان ذلک سترۃ للرجال ولا تفسد صلاۃ واحد منہم، وکذلک لو کان بینہم حائط قدر الذراعِ وإن کان أقل من ذلک لا یکون سترۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیانِ مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص510

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے کے لیے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لیے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہ ہوتی ہو، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔
’’یشترط طہارۃ موضع القدمین … و منہا طہارۃ موضع الیدین والرکبتین علی الصحیح لافتراض السجود علی سبعۃ أعظم … و منہا طہارۃ موضع الجبہۃ علی الأصح من الروایتین عن أبي حنیفۃ وہو قولہم رحمہم اللّٰہ لیتحقق السجود علیہا لأن الفرض وإن کان یتأدی بمقدار الأرنبۃ علی القول المرجوح یصیر الوضع معدوما حکما بوجودہ علی النجس ولو أعادہ علی طاہر في ظاہر الروایۃ ولا یمنع نجاسۃ في محل أنفہ مع طہارۃ باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرہم ویصیر کأنہ اقتصر علی الجبہۃ مع الکراہۃ‘‘(۱)
’’وإن کانت النجاسۃ تحت قدمي المصلي منع الصلاۃ۔ کذا في الوجیز للکردي ولا یفترق الحال بین أن یکون جمیع موضع القدمین نجسا، وبین أن یکون موضع الأصابع نجسا وإذا کان موضع إحدی القدمین طاہرا وموضع الأخری نجسا فوضع قدمیہ، اختلف المشایخ فیہ، الأصح أنہ لا تجوز صلاتہ، فإن وضع إحدی القدمین التي موضعہا طاہر، ورفع القدم الأخری التي موضعہا نجس وصلی فإن صلاتہ جائزۃ۔ کذا في المحیط۔ وإن کانت النجاسۃ تحت یدیہ أو رکبتیہ في حالۃ السجود لم تفسد صلاتہ في ظاہر الروایۃ واختار أبو اللیث أنہا تفسد وصححہ في العیون۔ کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۰۹، ۲۱۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طھارۃ مایستر بہ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص288

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی حالت میں رونے پر اتنا کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آواز پیدا نہ ہو لیکن اگر رونا خوف آخرت و للہیت کی وجہ سے ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی شرط یہ ہے کہ سکتہ (انقطاع قرات) ایک رکن کے بقدر نہ ہو اور اگر ریا وغیرہ کے طور پر ہو تو حروف ظاہر ہوتے ہی نماز فاسد ہوجائے گی۔ سوال میں جس رونے کا ذکر ہے وہ کس بنیاد پر ہے۔ اس کو خود رونے والے پر چھوڑ دیا جائے وہ اپنی نیت کا حال خود جانتا ہے۔
’’یفسدہا (الصلاۃ) … والبکاء بصوت یحصل بہ حروف لوجع أو مصیبۃ لا لذکر جنۃ أو نار … أما خروج الدمع بلا صوت أو صوت لا حرف معہ فغیر مفسد‘‘(۱)

’’ولو أن في صلاتہ أو تأوہ أو بکی، فارتفع بکاؤہ فحصل لہ حروف، فإن کان من ذکر الجنۃ أو النار فصلاتہ تامۃ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ فسدت صلاتہ۔ ولوتأوہ لکثرۃ الذنوب لا یقطع الصلاۃ، ولو بکی في صلاتہ، فإن سال دمعہ من غیر صوت لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب : المواضع التي لا یجب فیھا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹ مکتبہ فیصل دیوبند)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص109

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  وتر کی تیسری رکعت میں قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی؛ البتہ دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہنا علماء کے نزدیک واجب ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ نے صراحت کی ہے کہ قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ چناں چہ رد المحتار میں واجبات الصلاۃکے تحت لکھا ہے:
’’والثامن عشر والتاسع عشر تکبیرۃ القنوت وتکبیرۃ رکوعہ‘‘(۲)
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز وتر میں جب قرائت مکمل کرتے تو تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے اور دوسری روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ قنوت وتر کی تکبیر کے وقت کانوں تک اپنا ہاتھ اٹھاتے۔
’’عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ أن عبد اللّٰہ بن مسعود کان إذا فرغ من القراء ۃ کبر ثم قنت فإذا فرغ من القنوت کبر ثم رکع … عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ أنہ کان یرفع یدیہ في قنوت الوتر‘‘(۱)
رد المحتار میں وتر کے بیان کے تحت مذکور ہے:
’’(قولہ ویکبر) أي وجوبا وفیہ قولان کما مرّ في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ (قولہ رافعا یدیہ) أي سنۃ إلی حذاء أذنیہ کتکبیرۃ الإحرام‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔)
(۱) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۲۰۶۔)

(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1057 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشدہ کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی  اس کی ملکیت میں تھا  چاہے وہ بینک میں شادی سے پہلے یا بعد میں  جمع شدہ رقم ہو یا کسی کمپنی میں لگائی گئی رقم ہو سب میں وراثت جاری ہوگی اور شوہر اور لڑکی کے والدین سب کا حصہ ہوگا۔  انشورنس کرانا چونکہ ناجائز ہے اس لئے مرحومہ نے جس قدر مال انشورنس کمپنی کو دیا تھا صرف اس قدر مال  وراثت میں تقسیم ہوگا اور جو زائد رقم انشورنس کمپنی دے رہی ہے وہ حرام مال ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، اس میں نہ تو شوہر کا حصہ لینا درست اور نہ ہی والدین کا۔ دونوں فریق لازمی طور پر اس حرام مال سے احتراز کریں اور اللہ سے ڈریں۔ تاہم اگر سرکاری و غیرسرکاری طور پر صرف بطور تعاون کوئی رقم کسی کی طرف سے دی جائے تو اس کا حقدار وہی ہوگا جس کو وہ رقم دی جائے گی۔  جب مرحومہ کی ساری جائداد﴿ چاہے روپیہ پیسہ ہو یا زمین و مکان جو بھی اس کی ملکیت میں تھے﴾   جمع کرلیں  تو سب سے پہلے اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہے تو اس کو ادا کریں  پھر بقیہ ما ل فقہ اسلامی کی روشنی میں اس طرح تقسیم کریں  گے کہ شوہر کے لیے کل مال کا نصف یعنی آدھا حصہ ہوگا ، باپ کیلئے کل مال کاثلث یعنی  تہائی حصہ ہوگا اور ماں کے لئے  سدس یعنی چھٹا حصہ ہو گا، مثال کے طور پر بالفرض  اگر کل مال 9 لاکھ روپئے کے بقدر ہے تو  لڑکی کے شوہر کو چار لاکھ پچاس ہزار ،  لڑکی کے باپ کو تین لاکھ اور لڑکی کی ماں کو ایک لاکھ پچاس ہزار ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 830 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے،  اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔

واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 38/813

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: امن وسلامتی کا درس مذہب اسلام کے علاوہ میں بھی ہوسکتا ہے، اسلام اس کی نفی نہیں کرتا ہے، تاہم اسلام میں امن  کا درس دوسرے دھرموں کے مقابلہ بلند وبالا اور بے مثال ہے۔ تقابل ادیان پر لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
اسلام علیکم بعد سلام کے عرض کرنا ہے کہ اگر کوئ شخص رسول اللہ کے بارے میں حاضر ناضر کف دست عالم الغیب کا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں

طلاق و تفریق

Ref. No. 938/41-70

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق دینے اور نہ دینے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو اور کسی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو شوہر سے قسم لی جائے گی اگر قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات معتبر ہو گی، قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کی بات معتبر ہوگی، تاہم  اگر شوہر کے حق میں فیصلہ ہو اور  بیوی کو یقین ہے کہ شوہر کے فون سے شوہر نے ہی تین طلاقیں دی ہیں ،  تو  پھر عورت اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے۔ ایسے میں شوہر کو کچھ دے کر یامہر معاف کرکے خلع لے لے اور عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے۔ اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرے۔

وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَقَالَ أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَا تَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ. (العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ 1/37)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 999/41-182

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال ، زید مرحوم کا کل ترکہ 64 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے بیوی کو آٹھ حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دئے جائیں گے۔ 

چنانچہ 50 لاکھ میں سے بیوی کو 625000 روپئے ملیں گے۔ ہر ایک  بیٹے کو 1093750 روپئے اور ہر ایک بیٹی کو 546875 روپئے  ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند