Frequently Asked Questions
Hadith & Sunnah
Ref. No. 2244/44-2379
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The art of Tajweed and Qiraat is meant only for the recitation of the Holy Quran. While reading the Holy Quran, the Quranic Phonetics should be observed. There is no need for Tajweed while reading Hadith. However, the hadith should be read clearly and in the Arabic accent, observing the rules of the Arabic language.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رسمیں ہیں ان سے پرہیز کرنا لازم ہے، کہ بسا اوقات ایسی رسموں میں بے پردگی اور سخت گناہ ہوجاتا ہے۔(۳) البتہ اگر دلہن خود سے یا اس کی کوئی بڑی اس کو بٹنا لگادیں کہ رنگ نکھر جائے اور دولہا کو پسند آجائے، تو اس میں مضائقہ نہیں(۴) نہ اس کا م کے لیے عورتوں کو، محلہ والوں کو، رشتہ داروں کو، اکٹھا کیا جائے، نہ کوئی شیرینی وغیرہ تقسیم کی جائے کہ اس میں نام وری بھی ہے اور رسم ورواج بھی، جس کی وجہ سے ایسا کرنا گناہ ہے ۔(۱)
(۳) {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّص} (سورۃ النور: ۳۱)
(۴) قیل یا رسول اللّٰہ أي النساء خیر قال: التي تسرہ إذا نظر وتطیعہ إذا أمر ولا تخالفہ فیما یکرہ في نفسہا وما لہ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۱۵، ص: ۳۶، رقم: ۹۵۸۷) (شاملہ:ج۳۱، ص: ۴۱۱، رقم: ۹۶۵۸)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المتباریان لا یجابان ولا یؤکل طعامہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۱۰، رقم: ۳۲۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص427
طلاق و تفریق
Ref. No. 2466/45-3769
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اشرف نے زمین کے معاملہ میں زاہد کو وکیل بنایا ہے، لہذا زاہد زمین ہی کے معاملہ میں وکیل شمار ہوگا، بلاکسی وجہ کے اس وکالت کو دوسری جانب موڑنا درست نہیں ہے۔ طلاق کی وکالت کا وسوسہ محض وسوسہ ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس میں کوئی شبہہ نہ کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت کے خلاف ہے، تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی، بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا؛ اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے۔ یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اوران کی تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے، اس میں ہمارے اصحاب کا قول یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف معلوم ہوگا،(۱) حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص کو ترجیح حاصل ہو جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی، تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔
(۱) أي بظاہر نفس تلک الآیۃ وإلا فلا یمکن مخالفۃ آیۃ، أو خبر لمسائل أئمتنا الحنفیۃ فإنہم قد استنبطوا مسائلہم من کتاب اللّٰہ عز وجل وسنۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وإجماع مجتہدي أمۃ سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، والقیاس الصحیح المأخوذ من الکتاب والسنۃ والإجماع، وما خالف مسائلہم فہو مؤول فتنبہ لذلک ولا تکن من المغترین۔ (قواعد الفقہ حاشیہ ؍ ۱: ج ۱، ص: ۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص153
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل سنت والجماعت وہ لوگ ہیں جو توحید ورسالت اور ملائکہ وقرآن وحدیث پر اعتقاد رکھتے ہوں، قیامت وخیر وشر کے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہونے کے قائل ہوں، جماعت صحابہؓ کو برحق سمجھتے ہوں، قرآن وحدیث کی روشنی میں اجماع وقیاس سے مستنبط مسائل کو درست مانتے ہوں، قرآن وحدیث کی تشریحات وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین وسلف صالحین کی تشریحات کی موافقت کرتے ہوں؛ اور تشریحات میں عقلیات وظاہر کو ترجیح نہ دیتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ فی السوال لوگ اگر ایسے ہوں، تو اہل سنت والجماعت میں ہیں ورنہ نہیں۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیأتین علی أمتي ما أتی علی بني إسرائیل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منہم من أتی أمہ علانیۃ، لکان في أمتي من یصنع ذلک، وإن بني إسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملۃ، وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعین ملۃ، کلہم في النار إلا ملۃ واحدۃ، قالوا: ومن ہي یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ قال: ما أنا علیہ وأصحابي۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۲، رقم: ۲۶۴۱) …قال صاحب المرقاۃ: المراد ہم المہتدون المتمسکون بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي، فلا شک ولا ریب أنہم ہم أہل السنۃ والجماعۃ، وقیل: التقدیر أہلہا من کان علی ما أنا علیہ وأصحابي من الاعتقاد والقول والفعل، فإن ذلک یعرف بالإجماع، فما أجمع علیہ علماء الإسلام فہو حق وماعداہ باطل۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۱۷۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اتبعوا الأعظم: یعبر بہ عن الجماعۃ الکثیرۃ، والمراد ما علیہ أکثر المسلمین قیل: وہذا في أصول الاعتقاد کأرکان الإسلام، وأما الفروع کبطلان الوضوء بالمس مثلاً فلا حاجۃ فیہ إلی الإجماع، بل یجوز اتباع کل واحد من المجتہدین کالأئمۃ الأربعۃ، وما وقع من الخلاف بین الماتریدیۃ والأشعریۃ في مسائل فہي ترجع إلی الفروع في الحقیقیۃ فإنہا ظنیات۔ (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’لزوم الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱، رقم: ۱۷۴)
أقول الفرقۃ الناجیۃ ہم الآخذون في العقیدۃ والعمل جمیعاً بما ظہر من الکتاب والسنۃ، وجری علیہ جمہور الصحابۃ والتابعین وإن اختلفوا فیما بینہم فیما لم یشتہر فیہ نص، ولا ظہر من الصحابۃ اتفق علیہ استدلالا منہم ببعض ما ہنالک أو تفسیر المجملۃ۔ (الإمام أحمد المعروف بشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي؛ حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’أبواب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفرقۃ الناجیۃ وغیرہ الناجیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۶)
إن ہذہ المذاہب الأربعۃ المروجۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ أو من یعقد بہ منہما علی جواز تقلید ہا إلی: یومنا ہذا۔ (’’أیضاً‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص248
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جب پانی کم ہو یا پانی ختم ہونے کا اندیشہ ہو، تو ابتداء وضو سے ہی کفایت کر کے وضو کا پانی استعمال کرنا چاہئے تاکہ وضو کے درمیان پانی ختم نہ ہو جائے، بہر حال اگر اعضائے وضو دھونے سے قبل پانی بالکل ختم ہو جائے اور اس جگہ یا اس کے قریب پانی موجود نہ ہو یا کسی شرعی عذر کی بنا پر پانی کے استعمال پر وہ قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تیمم کرنا درست ہے؛ لیکن مکمل تیمم کیا جائے گا مثلاً جس طرح تیمم میں چہرہ اور ہاتھ کا مسح کیا جاتا ہے اسی طرح دونوں اعضاء کا مسح کیا جائے گا اگر اس نے چہرہ دھو لیا تھا تو مسح میں صرف ہاتھ پر اکتفا کرنا جائز نہیں؛ اس لیے کہ اصل اور بدل کا اجتماع درست نہیں ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
{فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیْکُمْ مِّنْہُط}(۲)
تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین کی جنس پر سے مار کر پھیر لیا کرو۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’ولو کان مع المحدث ما یکفی لغسل بعض أعضاء الوضوء فإنہ یتیمم من
غیر غسلہ ہکذا في شرح الوقایۃ‘‘(۱)
(۲) سورۃالمائدہ: ۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الرابع في التیمم الفصل الثالث: في المتفرقات‘‘: ج ۱، ص: ۸۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص369
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے جو اس کے ساتھ شریک ہوتے ہیں وہ بھی کراہت تحریمی کا ارتکاب کرتے ہیں اس کو ہر گز امام نہ بنایا جائے اس کو امام بنانے والے کراہت تحریمی کے مرتکب ہوں گے۔(۲)
(۲)یکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي: لا یجوز، والمجمع لا یباح، وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) ۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب فيتکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۸۸)
ولأن التکرار یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ لأن الناس إذا علموا أنہم تفوتہم الجماعۃ فیستعجلون فتکثر الجماعۃ، وإذا علموا أنہا لا تفوتہم یتأخرون فتقل الجماعۃ وتقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، ج۱، ص:۳۸۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 481
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جمعہ کے دن اذان ثانی کا جواب زبان سے نہیں دینا چاہئے؛ البتہ دل میں جواب دے دے تو درست ہے، ’’وینبغي أن لا یجیب بلسانہ اتفاقا في الأذان بین یدی الخطیب‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج۲، ص: ۷۰۔
وینبغي أن یقال لا تجب یعني بالقول بالإجماع للأذان بین یدي الخطیب وتجب بالقدم بالاتفاق للأذان الأول یوم الجمعۃ لوجوب السعي بالنص۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۲۰۲، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص129
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: جو قے منہ بھر ہو وہ نجاست غلیظہ ہے۔ مراقی الفلاح میں ہے۔ درہم سے کم ہوتو معاف ہے صورت مسئولہ میں ناپاک قے امام صاحب کے کپڑے کو لگ گئی اورامام صاحب کا کپڑا ناپاک ہو گیا اس لیے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی۔(۱)
(۱) وما ینقض الوضوء بخروجہ من بدن الإنسان۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص: ۵۴)
وعفي قدر الدرہم من مغلظۃ۔ (ایضًا:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص259
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز فجر کے دوران طلوع آفتاب کی وجہ سے نماز باطل ہو گئی بعد میںاس کی قضاء لازم ہے۔
’’عن عقبۃ بن عامر الجہني یقول: ثلاث ساعات کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینہانا أن نصلی فیہن أوأن نقبر فیہنّ موتانا: حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع الخ۔‘‘(۲)
’’قولہ بخلاف الفجر أي فإنہ لا یؤدي فجر یومہ وقت الطلوع، لأن وقت الفجر کلّہ کامل فوجبت کاملۃ فتبطل بطروِّالطلوع الذي ہو وقت فساد‘‘(۱)
’’لا یتصور أداء الفجر مع طلوع الشمس عندنا حتی لو طلعت الشمس وہو في خلال الصلاۃ تفسد صلاتہ عندنا‘‘(۲)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب: الأوقات التي نہی عن الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۶، رقم: ۸۳۱، نعیمیہ دیوبند۔)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳، زکریا۔)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان الوقت المکروہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۹، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص87