Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا مٹیالا پانی جس کی رقت وسیلان باقی ہو اور اس کو پانی ہی کہا جاتا ہو اس سے وضو کرنا اور کپڑے کو پاک کرنا درست ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں گدلے پانی سے وضو کرنا درست ہے۔
’’الطین والجص والنورۃ فإن التوضؤ بالماء الذي اختلط بہ ہذہ الأشیاء یجوز بالاتفاق إذا کان الخلط بہ قلیلاً … فإن کانت رقتہ باقیۃ جاز الوضوء بہ وإن صار ثخیناً بحیث زالت عنہ رقتہ الأصلیۃ لم یجز‘‘(۲)
’’الماء الذي خالطہ شيء من الطین یجوز الوضوء بہ اجماعاً لبقاء اسم الماء المطلق‘‘(۳)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہاۃر: الطہارۃ بالماء الذي خالطہ شيء طاہر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۵۔
(۳) عبد اللّٰہ بن محمود الحنفي، الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الماء الذین یجوز التطہیر بہ، حکم الماء الراکد‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔(دارالرسالۃ العالمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص83
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پانی پینے سے منہ میں پانی چلا گیا، تو غسل کا ایک فرض کلی کرنا (منہ میں پانی پہونچانا) ادا ہو گیا، اور غسل درست ہو گیا۔(۳)
(۳) و شرب الماء عبأ یقوم مقام غسل الفم لامصاً۔ ( الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲) ؛ وإذا نسي المضمضۃ والاستنشاق في الجنابۃ حتی صلی لم یجز(السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘ ج۱، ص:۶۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و نسي المضمضۃ أو جزئً من بدنہ فصلی ثم تذکر فلو نفلا لم یعد لعدم صحۃ شروعہ قولہ (لعدم صحۃ شروعہ) أي والنفل إنما تلزم إعادتہ بعد صحۃ الشروع فیہ قصدا، و سکت عن الفرض لظہور أنہ یلزمہ الإتیان بہ مطلقا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص296
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: تنہا خواتین کی جماعت بغیر مرد کی امامت کے مکروہ ہے عورتوں کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ گھروں میں تنہا تنہا نماز پڑھ لیا کریں اور اگر گھر میں مرد امام نماز پڑھا رہا ہو، تو عورتیں ان کے ساتھ جماعت میں بھی شریک ہو جائیں۔ اگر تنہا عورتوں نے جماعت کر ہی لی تو ایسی صورت میں عورت امام آگے نہیں کھڑی ہوگی؛ بلکہ درمیان صف میں کھڑی ہو گی؛ لیکن عورتوں کی جماعت کا معمول یا نظام بنانا مکروہ ہے۔ عہد نبوی یا عہد صحابہؓ سے انفرادی طور پر جماعت کے نماز کا ثبوت ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ نظام بنانے کا ثبوت نہیں ملتاہے جب کہ بعض آثار سے ممانعت بھی ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا خیر في جماعۃ النساء … الخ‘‘(۱)
’’فعلم أن جماعۃ النساء وحدہن مکروہۃ‘‘(۲)
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: لاتؤم المرأۃ، قلت: رجالہ کلہم ثقات‘‘(۳)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
’’(و) یکرہ تحریما (جماعۃ النساء) ولو في التراویح في غیر صلاۃ جنازۃ (لأنہا لم تشرع مکررۃ)، فلو انفردن تفوتہن بفراغ إحداہن؛ … (فإن فعلن تقف الإمام وسطہن) فلو قدمت أثمت‘‘ (قولہ: ویکرہ تحریما) صرح بہ في الفتح والبحر (قولہ: ولو في التراویح) أفاد أن الکراہۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا أو نفلا … (قولہ: فلو تقدمت) أثمت، أفاد أن وقوفہا وسطہن واجب، کما صرح بہ في الفتح، وأن الصلاۃ صحیحۃ، وأنہا إذا توسطت لاتزول الکراہۃ، وإنما أرشدوا إلی التوسط؛ لأنہ أقل کراہیۃ من التقدم، کما في السراج بحر‘‘(۱)
’’حدثنا وکیع، عن ابن أبي لیلی، عن عطاء، عن عائشۃ، أنہا کانت تؤم النساء تقوم معہن في الصف‘‘(۲)
’’عن قتادۃ، عن أم الحسن، أنہا رأت أم سلمۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تؤم النساء تقوم معہن في صفہن‘‘(۳)
(۱) رواہ الإمام أحمد في مسندہ، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۱۵۴۔
(۲)ظفر أحمد عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفات المؤذن‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷، (ادارۃ القرآن و العلوم الإسلامیۃ، کراچی)
(۳)ظفر أحمد عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب کراہۃ جماعۃ النساء‘‘: ج ۴، ص: ۲۴۳
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۵۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب المرأۃ تؤم النساء‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۰، رقم: ۴۹۵۴۔
(۳) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص507
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بچہ کا پیشاب بھی اسی طرح ناپاک ہے جس طرح بڑے کا ناپاک ہے۔ یہ پیشاب نجاست غلیظہ ہے، اگر بچہ کا پیشاب کپڑے پر ایک درھم سے زائد لگ جائے تو اس کا دھونا اور پاک کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک درھم سے کم لگاہو تو نمازگرچہ درست ہوجائے گی مگر جان بوجھ کر ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔
’’وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ، أکلاَ أو لا، کذا في الاختیار شرح المختار‘‘(۱)
’’وقال الطحاوي: النضح الوارد في بول الصبي المراد بہ الصبّ لما روي ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ قالت: أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصبي فبال علیہ، فقال صبّوا علیہ الماء صبًّا‘‘(۲)
’’النجاسۃ إذا کانت غلیظۃ وھي أکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلاۃ بھا باطلۃ وإن کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلاۃ معھا جائز وإن کانت اقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب تطہیر النجاسات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، ۱۸۹۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص285
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد یا عورت کا ستر حالت نماز میں اگر غلطی یا بھولے سے چوتھائی حصہ کھل گیا اور وہ ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر کھلا رہا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر ستر چوتھائی سے کم کھلا یا ایک رکن سے کم کھلا رہا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چوتھائی ستر عمداً و جان بوجھ کر کھولا تو نماز فوراً فاسد ہوجائے گی خواہ ایک رکن سے کم ہی کھلا ہو، نماز میں عورت کی کہنی کا بھی وہ ہی حکم ہے ، جو مرد کے ناف و گھٹنہ کے درمیان کا ہے۔
’’والرابع ستر عورتہ ووجوبہ عام ولو في الخلوۃ علی الصحیح… وہي للرجل ما تحت سرتہ إلی ما تحت رکبتہ … وللمرأۃ جمیع بدنہا حتی شعرہا النازل في الأصح خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد‘‘(۱)
(۱) (قولہ : ویمنع إلخ) ہذا تفصیل ما أجملہ بقولہ: وستر عورتہ ح ۔ (قولہ: حتی انعقادہا) منصوب عطفا علی محذوف: أی ویمنع صحۃ الصلاۃ حتی انعقادہا۔ والحاصل أنہ یمنع الصلاۃ فی الابتداء ویرفعہا في البقاء ح۔ (قولہ : قدر أداء رکن) أي بسنتہ منیۃ۔ قال شارحہا: وذلک قدر ثلاث تسبیحات اہـ۔ وکأنہ قید بذلک حملا للرکن علی القصیر منہ للاحتیاط، وإلا فالقعود الأخیر والقیام المشتمل علی القراء ۃ المسنونۃ أکثر من ذلک، ثم ما ذکرہ الشارح قول أبي یوسف۔ واعتبر محمد أداء الرکن حقیقۃ، والأول المختار للاحتیاط کما في شرح المنیۃ، واحترز عما إذا انکشف ربع عضو أقل من قدر أداء رکن فلا یفسد اتفاقا، لأن الانکشاف الکثیر من الزمان القلیل عفو کالانکشاف القلیل في الزمن الکثیر، وعما إذا أدی مع الانکشاف رکنا فإنہا تفسد اتفاقا، قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الانکشاف الحادث في أثناء الصلاۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقا اتفاقا بعد أن یکون المکشوف ربع العضو، وکلام الشارح یوہم أن قولہ: قدر أداء رکن، قید في منع الانعقاد أیضا۔ (قولہ بلا صنعہ) فلو بہ فسدت في الحال عندہم قنیۃ قال ح: أي وإن کان أقل من أداء رکن اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج۲، ص: ۸۱، ۸۲؛ و الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵ تا ۷۸، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص107
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1060 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کے بھائیوں کا اس دوکان میں جس کو آپ کی والدہ نے آپ کی ملکیت میں دیدیا تھا کوئی حصہ نہیں ہے۔تاہم اگر وہ ضرورت مند ہیں تو بطور صلہ رحمی ان کو اپنی گنجائش کے بقدر کچھ دیدیں تو کارثواب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 804
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ کی جگہ ہیرے کایا کسی دوسرے قیمتی پتھرکا لگانا بھی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر کو اس کا بدلہ دنیامیں ہی مل جاتا ہے ، آخرت میں اس کا کوئی فائدہ اس کو حاصل نہیں ہوگا، البتہ مسلمان کو اس بددیانتی اور ظلم کی وجہ سے سزا بھگتنی پڑسکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Manners & Behaviours
Ref. No. 39/1067
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is essential that the area between the navel and the knee be covered well. If this area is covered well then the children can be with you while bathing. Nevertheless it is better to avoid.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1136/42-373
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
At the time of distribution, if all members were agreed, then the distribution is valid. Demanding redistribution later is not valid. However, in case the younger sister was not agreed at the time of distribution and justice was not taken into account in the distribution, then she can ask for redistribution.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband