Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی بڑی اہمیت ہے اور مساجد باجماعت نماز کا محل ہیں،حدیث میں مسجد میں نماز پڑھنے کی بڑی تاکید آئی ہے، لیکن اگر مسجد میں نماز باجماعت فوت ہوجائے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا اہتمام کریں تاکہ جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے، لیکن اب جو صورت حال اقلیتی ممالک میں پیدا ہورہی ہے جہاں مساجد کی کمی ہوتی ہے اور عام جگہوں پر نماز پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہے؛ بلکہ سڑک اور پبلک مقامات پر نماز پڑھنے پر فسادات کا خدشہ ہے اس لیے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا چرچ یا گرودوارہ میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح یورپی ممالک میں بھی مساجد کے نہ ہونے اور زمین خرید کر مساجد بنانے میں دشواری کی وجہ سے چرچ وغیرہ کرایہ پر لے کر جمعہ و عیدین کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
یہ مسئلہ اختلافی ہے اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
پہلاقول: چرچ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ اس میں تصویریں ہوتی ہیں اور یہ قول حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے،اور یہی قول احناف کے علماء کی ایک جماعت کا بھی ہے،اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی قول ہے۔ اور اسی طرح حنابلہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر چرچ میں کوئی تصویر وغیرہ ہو تو اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
دوسرا قول: چرچ میں نماز پڑھنا جائز ہے جب اس میں تصویر نہ ہو اور یہ قول حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز ؒ اور امام شعبی ؒ کا ہے اور یہی حنابلہ کا بھی مذہب ہے۔
تیسرا قول: چرچ میں نماز پڑھناحرام ہے کیوں کہ وہاں شیاطین ہوتے ہیں اور ایسی جگہ نماز کا پڑھنا اس میں ایک قسم کی ان کی تعظیم ہے۔ یہی احناف کا قول ہے۔
’’(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا‘‘(۱)
احناف کا قول کراہت کا ہے اس لیے حتی ا لامکان کوشش کی جائے کہ مساجد میں نماز کا اہتمام ہو اور اگر مساجد کا کوئی نظم نہیں ہوسکتاہے تو ہال وغیرہ کرایہ پر لے کر نماز جماعت کی کوشش کی جائے لیکن اگر اس کی بھی کوئی سبیل نہ ہو تو پھرضرورتًا گرودوارہ یا چرچ میں بھی نماز ہوسکتی ہے؛ البتہ اس کا خیال کیا جائے کہ سامنے کوئی تصویر یا مجسمہ نہ ہو؛ بلکہ چرچ وغیرہ کے مرکزی جگہ سے ہٹ کر جماعت بنائی جائے اوراگر سامنے تصوریر ہو تو اس پر پردہ ڈال دیا جایے، مجمع الفقہ الاسلامی جدہ وغیرہ نے ضرورت کے موقع پر چرچ میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے بلا ضرروت مکروہ قرار دیا ہے۔ احناف کے یہاںبھی کراہت کا تعلق عام حالات سے ہے؛ لیکن اگر ضرروت ہو تو نماز ہوسکتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے چرچ میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔
’’وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: إنا لا ندخل کنائسکم من أجل التماثیل التي فیہا الصور وکان ابن عباس: یصلي في البیعۃ إلا بیعۃ فیہا تماثیل‘‘(۱)
’’في فتاوی مجمع الفقہ الاسلامي: استئجار الکنائس للصلاۃ لا مانع منہ شرعا عند الحاجۃ، وتجتنب الصلاۃ إلی التماثیل والصور وتستر بحائل إذا کانت باتجاہ القبلۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ ‘‘: ج۲، ص: ۴۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في البیعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲، رقم: ۴۳۸۔
(۲) مجلۃ المجمع: ص: ۴۷۔(شاملہ)
(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ اھـ۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۳)
فإما أن تقطع رء وسہا أو تتخذ وسائد فتوطأ وإن لم تکن مقطوعۃ الرئوس فتکرہ الصلاۃ فیہ، سواء کانت في جہۃ القبلۃ أو في السقف أو عن یمین القبلۃ أو عن یسارہا، فأشد ذلک کراہۃ أن تکون في جہۃ القبلۃ؛ لأنہ تشبہ بعبدۃ الأوثان، ولو کانت في مؤخر القبلۃ، أو تحت القدم لا یکرہ لعدم التشبہ في الصلاۃ بعبدۃ الأوثان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص276
فقہ
Ref. No. 2782/45-4347
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رفع یدین کرنے والوں کی وجہ سے رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، سب کی نماز درست ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1059 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بائع اور مشتری کے درمیان جب بات طے ہوگئی تھی تو اب بائع کا زیادہ کا مطالبہ کرنا سراسرظلم ہے۔ اور زائد رقم ظلما لی گئی رقم ہے جو ناجائز ہے۔
رہا اس کا مسجد میں چٹائی وغیرہ میں خرچ کرنا تو چونکہ اس کی ملکیت میں جائز رقم بھی ہے اس لئے بلا تعیین صرف کردینا درست ہوا۔ اور اگر اس کی نیت اسی زائد آمدنی سے پچاس ہزار دینے کی تھی تو اس نے سخت گناہ کا کام کیا ہے اس پر توبہ و استغفار لازم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 39 / 843
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میں نہیں سمجھتا کہ عورتوں کو بطور ہوسٹس رکھنا لازم ہے، آپ صرف مردوں کو ملازمت پر رکھ کر ایرلائنس شروع کرسکتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے سامنے بے پردہ عورتوں کالانا یا آنا درست نہیں ، اس لئے اس پر غور کرلیا جائے۔ تاہم عورتوں کی خدمت کے لئے عورتیں ہوں تو اس میں گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 41/836
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسمائے الہی کا ورد کرنا باعث ثواب ہے، اور مسجد میں خاموشی کے ساتھ اسماء وآیات کا زبان سے ورد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص عدد کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لئے متعین تعداد کے مطابق وظیفہ کرنا بھی درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1125/42-356
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ پر مذکورہ وعید صادق نہیں آتی ہے۔ کیونکہ آپ قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے واپس آنا چاہتے ہیں ، مدینہ منورہ کی تکالیف کی وجہ سے نہیں۔ دعاکریں کہ یا اللہ میں قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے جانے پر مجبور ہوں ورنہ آپ کے حبیب کے شہر کو کبھی نہ چھوڑتاچاہے جتنی تکلیف پہونچتی۔ اور حبیب ﷺ کے روضہ پر سلام بھی عرض کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1347/42-733
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دعوت و تبلیغ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتاہے۔ ہر شخص کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے یہ فریضہ انجام دینا چاہئے۔ اور اگر کسی شخص کو دین سیکھنے کا دوسرا کوئی موقع میسر نہ ہو بجز جماعت تبلیغ میں نکلنےکے تو اس کو جماعت میں جانا جائز ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مدت میں بیوی و بچوں کے خرچہ کا نظم کرے جو کہ شوہر و باپ ہونے کی حیثیت سے اس پر لازم وضروری ہے۔ بیوی وبچوں کو تنگی و فقر وفاقہ میں چھوڑ کر جانا درست نہیں ہے۔ حج جیسی اہم عبادت کے لئے استطاعت شرط ہے، اور استطاعت میں اپنے سفر خرچ کے ساتھ بیوی وبچہ کے نفقہ کا نظم کرنا بھی داخل ہے۔ اس لئے مذکورہ شخص کا طریقہ کار درست نہیں ہے۔
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا۔ (سورۃ آل عمران 97، فتجب للزوجۃ علی زوجھا انھا جزاء الاحتباس ، وکل محبوس لمنفعۃ غیرہ یلزمہ نفقتہ کمفت وقاض ووصی (رد المحتار، باب النفقۃ 5/282 زکریا دیوبند) تجب علی الرجل نفقۃ امراتہ المسلمۃ والذمیۃ والفقیرۃ والغنیۃ دخل بھا او لم یدخل ، کبیرۃ کانت المراۃ او صغیرۃ یجامع مثلھا ، کذا فی فتاوی قاضی خان، سواء کانت حرۃ او مکاتبۃ کذا فی الجوھرۃ النیرۃ (الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الطلاق ، الباب السابع عشر فی النفقات، الفصل الاول 1/595)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احکام شرعیہ کے مکلف انسان اور جنات ہیں، عقیدہ شرعیہ جن کا دین میں ہونا معروف ہو اور وہ اصول دین میں سے ہو، اس میں سے کسی عقیدہ کا انکار موجب کفر ہے، مثلاً: نماز کی فرضیت کا کوئی انکار کردے، اسی طرح شریعت کے کسی حکم کا مذاق واستہزاء بھی کفر کا باعث ہے(۱) اور کسی فرض وواجب کے بارے میں اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن عمل نہ کرے تو ایسا شخص فاسق ہوجاتا ہے، ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔(۲)
…(۱) و إذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ، کذا فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار میکنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشایخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ، وفي ’’مجموع النوازل‘‘ قال رجل لإمرأتہ: ما تقولین أیش حکم الشرع فتجشأت جشائً عالیا فقالت: ’’اینک شرع را‘‘ فقد کفرت وبانت من زوجہا، کذا في المحیط۔
رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا، وقال ’’جہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر؛ لأنہ ردّ حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتوی علی الأرض، وقال ’’این چہ شرع است‘‘ کفر۔
رجل استفتی عالماً في طلاق إمرأتہ فأفتاہ بالوقوع فقال المستفتي ’’من طلاق ملاق جہ دانم مادر بجکان باید کہ بخانہ من بود‘‘ أفتی القاضي الإمام علي السغدي بکفرہ کذا في الفصول العمادیَّۃ۔ إذا جاء الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۸۳- ۲۸۴)
ہي فرض عین علی کل مکلف ویکفر جاحدہا لثبوتہا بدلیل قطعيِّ وتارکہا عمداً مجانۃً أي تکاسلاً فاسقٌ۔ ( ابن عابدیں، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴)
(۲) لو قال لمریض صلِّ، فقال: واللّٰہ لا أصلی أبداً، ولم یصلي حتی مات یکفر، وقول الرجل: لا أصلي یحتمل أربعۃ أوجہ: أحدہا: لا أصلي لأني صلیت، والثاني: لا أصلِّی بأمرک، فقد أمرني بہا من ہو خیرٌ منک، والثالث: لا أصلي فسقا مجانۃ، فہٰذہ الثلاثۃ لیست بکفر۔ والرابع: لا أصلي إذ لیس یجب عليّ الصلاۃ، ولم أؤمر بہا یکفر، ولو أطلق وقال: لا أصلي لا یکفر لاحتمال ہذہ الوجوہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بالصلاۃ والصوم والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)
إذا کان في المسالۃ وجوہ توجب الکفر، ووجہ واحدٌ یمنع، فعلی المفتي أن یمیل إلی ذلک الوجہ، کذا في ’’الخلاصۃ في البزّازیۃ‘‘ إلا إذا صرّح بإرادۃ توجب الکفر، فلا ینفعہ التأویل حینئذٍ کذا في البحر الرائق، ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم
وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي، ویؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
دارالافتاء
ڈارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2312/44-3471
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لئے کہ شرط نہیں پائی گئی، کیونکہ لڑکے کو ماں نے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا، بلکہ باپ نے داخل کیا ہے اور نہ ہی ماں نے کھانا دیا ہے، لیکن اگر شرط پائی گئی تو تینوں طلاقیں شرعا فقہ حنفی کے مطابق واقع ہوجائیں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2345/44-3530
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفاس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے اور مذکورہ عورت کی عادت بھی مختلف ہے، اس لئے اگر خون بیس دن پر بند ہوگیا تو اکیسویں دن بیوی سے ملنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔
" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط". الفتاوى الهندية (1/ 37):
ویحلّ وطوٴہا إذا نقطع حیضہا لأکثرہ ، مثلہ النّفاس بلا غسل وجوباً بل ندباً ، وإن لأقلّہ لا یحلّ حتّی تغتسل أو تیمّم بشرطہ أو یمضي علیہا زمن یسع الغسل ولبس الثّیاب والتحریمة یعني من آخر وقت الصّلاة ، لتعلیلہم بوجوبہا في ذمتہا ۔ (الدر مع الرد، کتاب الطہارة: ۱/۴۹۰، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند