Islamic Creed (Aqaaid)
Falak ke mayne kya hain

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، اگر اسلامی ناموں کو برا اور غیروں کے ناموں کو اچھا سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو اندیشہ کفر ہے اور اگرایسا مصلحت کی وجہ سے کیا ہے تو گنجائش ہے مگر ناموں کے معنی اچھے ہونے چاہئے تا ہم اس سے گریز ہی کریں اس میں تشبیہ بالغیر معلوم ہو رہا ہے، بعض علماء تو کفر ہی کے قائل ہیں۔ (۱)

(۱) ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم، وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي و یؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب إن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا إلا نزیل عنہ إسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

 

الجواب صحیح:

 دار العلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2262/44-2416

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دو سگی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بنص قطعی  حرام ہے۔ اور جو شخص جان بوجھ کر کھلم کھلا ایسا کرے اور مسئلہ معلوم ہونے پر بھی  اس سے باز نہ آئے تو اس کا بائیکاٹ کیاجائے،  اسکے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ رکھاجائے، اس کے ساتھ  میل جول رکھنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھناجائز نہیں ہے۔

﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24]

’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي‘‘ (الفتاوى الهندية (1/ 277)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلفاء راشدین واہل بیت کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ان کی فضیلت کے بیان کے لئے حدیث کی کتابوں میں مستقل ابواب ہیں؛ اس لئے خطبہ میں ان کا تذکرہ افضل و مستحب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو امت بھی اس کا اظہار کرے اور ان کے لئے دعا کرے۔(۱)

۱) وذکر الخلفاء الراشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم أجمعین مستحسن بذلک جری التوارث، کذا في التنجیس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰت: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ ومن الستحب‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ، قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ {ندع أبنائنا وأبنائکم} دعا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- علیاً وفاطمۃ وحسناً وحسیناً فقال: أللہم ہٰولاء أہل بیتي، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸، رقم: ۶۱۳۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص229

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمانوں کے لئے وہی عمل باعث خیر و برکت اور باعث نجات ہوگا جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اربعہ یا ان صحابۂ کرامؓ سے ثابت ہو جنہوں نے قرآن اور حدیث اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنایا اور عمل کیا اور اسی کے مطابق اسلاف و اکابر نے عمل کیا۔(۱) جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک طریقہ کو ان حضرات نے اختیار نہیں کیا یہ سب بہت بعد کی ایجادات ہیں اور ان پر عمل بلاشبہ بدعت ہے(۲) اور بدعت کو ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے ترک ضروری ہے۔(۳)

(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
(۲) أنکر الخطابي ومن تبعہ وضع الجرید الیابس، وکذلک ما یفعلہ أکثر الناس من وضع ما فیہ رطوبۃ من الریاحین والبقول ونحوہما علی القبور لیس بشیء۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما جاء في غسل البول‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۱)
ومن المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن، وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۳) وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب اجتناب البدع والجدل‘‘: ج ۱، ص: ۱۸؛ مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353

متفرقات

Ref. No. 2600/45-4099

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    کسی کے انتظار کرنے کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہوتاہے کہ آدمی تمام فرائض و طبعی تقاضوں کو چھوڑ کر آنے والے کی راہ تکتا رہے، اس لئے  فکری طور پر کسی کا انتظارکرنے کے ساتھ عبادت میں مشغول ہونا یا اپنی طبعی ضرورت کو پورا کرنا وغیرہ سارے امور ممکن ہیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2696/45-4158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ معاملہ (گروی رکھنا) درست ہے، کسی سے کوئی چیز گروی رکھ کر قرض لینا جائز ہے، دوکان اور مکان کو گروی رکھنا بھی درست ہے، تاہم مکان یا دوکان سے کسی طرح فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2731/45-4212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زانی اور فاسق گناہ گار بلکہ مرتکب کبیرہ ہے لیکن ایمان سے خارج نہیں ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے تاہم مقتدا حضرات اگر تنبیہ کے لیے نہ پڑھیں تو بہتر ہے یہی حکم جنازہ کو کندھا دینے کا ہے کہ عام لوگوں کے لیے فاسق کے جنازہ کو کندھا دینا باعث اجر و ثواب ہے اس لیے کہ وہ مومن کا جنازہ ہے ہاں اگر تنبیہ کےلیے مقتدا حضرات کندھا نہ دیں تو بہتر ہے ،میت کو کندھا دینے کا ثواب مومن کی قید کے ساتھ ہے اور فاسق بھی مومن ہے ،فاسق کے جنازہ کو کندھا دینے کوعام لوگوں کے لئے مکروہ کہنا یا منع کرنا درست نہیں ہے۔ ان رجلا من أسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا، فأعرض عنه حتى شهد على نفسه أربع مرات، فقال: أبك جنون؟ قال: لا قال: أحصنت؟ قال: نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له - أي عنه - النبي صلى الله عليه وسلم خيرا وصلى عليه(سنن ابی داؤد،6/480)ان رجلا مات بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلوا على صاحبكم إنه قد غل في سبيل الله» قال: ففتشنا متاعه، فوجدنا خرزا لا يساوي درهمين.قال عطاء: لا أدع الصلاة على من قال: لا إله إلا الله قال تعالى: {من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم}.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع … (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا وآخر خلفہا ولا تفسد أکثر من ذلک۔ ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتوی۔ کذا في التتارخانیۃ والمرأتان صلاۃ أربعۃ واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما واثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن وآخر عن یسارہن وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)

(۱) ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل  الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج ۱، ص: ۱۴۶؛ وأحمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹، ط: قدیمی)
(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص513

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے اس صورت میں نماز مکروہ ہوگی اور ریشم کو بچھاکر اس پر نماز پڑھنا اس کو فقہاء نے جائز کہا ہے۔ ’’کما ورد في المختار بخلاف الصلاۃ علی السجادۃ منہ إلی من الحریر لأن الحرام ہو اللبس دون الانتفاع‘‘ احتیاط یہ ہے کہ ریشم کے کپڑے پر نماز نہ پڑھی جائے کہ یہ ہی تقویٰ ہے۔ لیکن اگر اس کپڑے پر نماز پڑھ لی تو ادا ہوگئی اس کا اعادہ ضروری نہیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن زریر یعني  الغافقي أنہ سمع علي بن أبي طالب یقول: إن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ حریراً فجعلہ في یمینہ، وأخذ ذہبا فجعلہ في شمالہ، ثم قال:إن ہذین حرام علی ذکور أمتي‘‘(۱)
’’عن سوید بن غفلۃ، أن عمر بن الخطاب خطب بالجابیۃ، فقال نہی نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن لبس الحریر إلا موضع إصبعین، أو ثلاث، أو أربع‘‘(۲)
’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما یلبس الحریر في الدنیا من لاخلاق لہ في الآخرۃ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، فی سننہ، ’’کتاب اللباس، باب في الحریر للنساء‘‘: ج ۲، ص۵۶۱قم:۴۰۵۷، مکتبہ نعیمیہ)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب: تحریم استعمال إناء الذھب و الفضۃ‘‘:ج۲، ص۱۹۲ رقم: ۲۰۶۹، اعزازیہ دیوبند۔)
(۳) محمد بن إسماعیل، الصحیح البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للجال و قدر ما یجوز منہ‘‘: ج۲، ص۸۶۷ رقم: ۵۸۳۵۔مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص112