احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1353/42-753

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کی  شہرسے باہر دوسرے قبرستان میں دفن کرنے کے وصیت  شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے ورثہ کا  ان کی اس وصیت  پرعمل  نہ کرنا جائز اور درست ہے۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔

ولو أوصى بأن يحمل بعد موته إلى موضع كذا ويدفن هناك ويبنى هناك رباطا من ثلث ماله فمات ولم يحمل إلى ذلك الموضع قال أبو القاسم: وصيته بالرباط جائزة ووصيته بالحمل باطلة، ولو حمله الوصي يضمن ما أنفق في الحمل إذا حمله الوصي بغير إذن الورثة، وإن حمل بإذن الورثة لا يضمن (الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون 6/95)

(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا(درمختار، فروع فی الجنائز 2/239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
السلامُ علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ہمارا ( اہل سنت والجماعت سنی حنفی ( دیوبندی)) عقیدہ ہے کی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہے بے گناہ ہے سوال بسم الله الرحمن الرَّحِيمِ لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ یے سورہ فتح کی آیت ہے اس اس آیت میں حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اردو ترجمہ یو کیا ہے تاکہ اللہ تعالٰی آپ کی سب اگلے پچھلے خطائیں معاف فرما دے تو اس میں کونسے کہتا کی نسبت کی ہے ایک دو خطائیں بتا کے میرا عقیدہ اور مجبوت کر نے کی رہنمائی کرو گے؟

Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 1656/43-1248 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: The prayer which is prayed immediately after performing Wuzu, or immediately after entering the masjid (without sitting down for a while), takes the reward of Tahiyyatul Wuzu and Tahiyyatul Masjid. However, if one goes to the masjid and sits down for a while, then he will not get the reward of Tahiyyat al-Masjid in the subsequent Sunnah and Farz, but it is better to perform Tahiyyat al-Masjid first and then the Sunnah. However, after Sunnah prayer, performing Tahiyyat al-Wuzu and Tahiyyat al-Masjid have no meaning though it has its own separate reward. Similarly, if you go to the masjid after praying Sunnah Namaz at home in Zuhr, Asr and Isha time, you can pray Tahiyyat al-Masjid, but not in Fajr and Maghrib time. قوله: وأداء الفرض أو غيره إلخ) قال في النهر: وينوب عنها كل صلاة صلاها عند الدخول فرضًا كانت أو سنةً. وفي البناية معزيًا إلى مختصر المحيط أن دخوله بنية الفرض أو الاقتداء ينوب عنها وإنما يؤمر بها إذا دخله لغير الصلاة اهـ كلام النهر. والحاصل أن المطلوب من داخل المسجد أن يصلي فيه؛ ليكون ذلك تحيةً لربه تعالى، والظاهر أن دخوله بنية صلاة الفرض لإمام أو منفرد أو بنية الاقتداء ينوب عنها إذا صلى عقب دخوله، وإلا لزم فعلها بعد الجلوس، وهو خلاف الأولى كما يأتي، فلو كان دخوله بنية الفرض مثلاً لكن بعد زمان يؤمر بها قبل جلوسه كما لو كان دخوله لغير صلاة كدرس أو ذكر. وبما قررناه علم أن ما نقله في النهر عن البناية لايخالف ما قبله، غايته أنه عبر عن الصلاة بنيتها بناء على ما هو الغالب من أن من دخل لأجل الصلاة يصلي، وليس معناه أن النية المذكورة تكفيه عن التحية وإن لم يصل كما يوهمه ظاهر العبارة كما أفاده ح، والله أعلم. (قوله: ينوب عنها بلا نية) قال في الحلية: لو اشتغل داخل المسجد بالفريضة غير ناو للتحية قامت تلك الفريضة مقام تحية المسجد لحصول تعظيم المسجد، كما في البدائع وغيره، فلو نوى التحية مع الفرض فظاهر ما في المحيط وغيره أنه يصح عندهما. وعند محمد لايكون داخلاً في الصلاة، فإنهم قالوا: لو نوى الدخول في الظهر والتطوع يجوز عن الفرض عند أبي يوسف. ورواه الحسن عن أبي حنيفة. وعند محمد لايكون داخلاً؛ لأنّ الفرض مع النفل في الصلاة جنسان مختلفان لا رجحان لأحدهما على الآخر في التحريمة. فمتى نواهما تعارضت النيتان فلغتا. ولأبي يوسف أنّ الفرض أقوى فتندفع نية الأدنى كمن نوى حجة الإسلام والتطوع اهـ ملخصًا، ومثله في البحر". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 18) قوله: ولاتسقط بالجلوس عندنا) فإنهم قالوا في الحاكم: إذا دخل المسجد للحكم إن شاء صلى التحية عند دخوله أو عند خروجه؛ لحصول المقصود، كما في الغاية. وأما حديث الصحيحين: «إذا دخل أحدكم المسجد فلايجلس حتى يصلي ركعتين»، فهو بيان للأولى لحديث ابن حبان في صحيحه: «يا أبا ذر إن للمسجد تحيةً، وإن تحيته ركعتان، فقم فاركعها»، وتمامه في الحلية" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 19) كداخل المسجد إذا صلي الفرض كفاه عن تحية المسجد لحصول تعظيم المسجد أفاده في الشرح حاشية الطحطاوي على المراقي ص 488 شيخ الهند And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

روزہ و رمضان

Ref. No. 1858/43-1753

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فلکی حسابات یقینی نہیں بلکہ ظنی ہیں اس لئے فلکی حساب کی بنیاد پر شہادت شرعی کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ جم غفیر کی شہادت شرعی شہادت ہے، اس لئے اس کو رد کرنے کی کوئی قوی وجہ نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات کا حساب ایک اندازہ ہی ہے اس کو قطعی اور یقینی نہیں کہاجاسکتاہے، ، اس لئے ایک تخمینی حساب کی وجہ سے جم غفیر کی شہادت کو رد نہیں کیاجاسکتاہے۔

فلکی حسابات رؤیت ہلال کے ثبوت کے لئے معاون ہوسکتے ہیں مقابل نہیں ہوسکتے ہیں۔ قاضی کے فیصلہ کے لئے کسی چیز کا قطعی طور پر وجود ضروری نہیں ہے بلکہ نصاب شہادت کا کامل ہونا ضروری ہے۔ اور نصاب شہادت کی تکمیل پر قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہے؛ اس جزء کو خاص طور پر سمجھ لینا چاہئے۔

"ان علماء الهيئة مجمعون علي انّ المقادير المفروضة في اواخر اعمال رؤية الهلال هي ابعاد لم يوقف عليها الا بالتجربة وللمناظر احوال هندسية يتفاوت لإجلها المحسوس بالبصر في العظم والصغر وفي ما اذا تأمّلها متأمّل منصف لم يستطع بتّ الحُكم على وجوب رؤية الهلال  اَو امتناعها."  (آثار الباقیة عن القرون الخالية، ص: 198، طبع:1923، ليزك، بحواله جواهر الفقه)

 

"اذا ثبت الصوم او الفطر عند حاکم  تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء او عند واحد او جماعة من العلماء الثقات ولاّھم رئیس المملکة أمر رؤیة الھلال،وحکموا بالصوم او الفطر ونشروا حکمھم ھذا فی رادیو، یلزم علی من سمعھا من المسلمین العمل به فی حدود ولایتھم، واما فیما وراء حدود ولایتھم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلك الولایة بشھادۃ شاھدین علی الرؤیة او علی الشھادۃ او علی حکم الحاکم او جاء الخبر مستفیضا؛ لان حکم الحاکم نافذ فی ولایته دون ما وراءھا."(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال،بحواله خیر الفتاوی، 4/118، ط؛ مکتبة الخیر ملتان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو سجدہ کرنا تعظیما حرام ہے شرک نہیں ہے تاہم ایسا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔(۳) حضرت آدم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کو سجدہ کرانے کا حکم اس شریعت میں منسوخ ہوچکا ہے۔ نیز حضرت آدم علیہ السلام کو ملائکہ نے جو سجدہ کیا وہ اللہ جل شانہٗ کے حکم سے کیا، یہ ایسا ہے جیسے اس امت کو بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اگر حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم ہی مقصود ہو اس سجدے سے تویہ حکم بھی منسوخ ہوگیا؛ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ’’لو کنت آمراً أحداً أن یسجد لغیر اللّٰہ لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجھا‘‘(۱) اس لئے ایسا عقیدہ رکھنے والے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔

(۳) إذا سجد لإنسان سجدۃ تحیۃ لا یکفر، کذا في السراجیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۰)

إذا سجد لإنسان سجدۃتحیہ لا یکفر۔ (أبو محمد، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

(۱أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ج ۴، ص: ۳۵۳، رقم: ۱۸۵۳۔

 

 

 

طلاق و تفریق
Ref. No. 2261/44-2424 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مذکورہ جملہ کہتے وقت بیوی نکاح میں تھی اور اس جملہ سے پہلے طلاق نہیں دی گئی تھی تو اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اس لئے نکاح تو پہلے ہوچکاہے البتہ یہ شرط باقی رہے گی۔ اور اگر طلاق دیدی اور پھر یہ جملہ کہا کہ 'جب بھی میرا نکاح تم سے ہو تو تم مجھ پر طلاق ثلاثہ سے طلاق ہو' تو جب بھی اس سے نکاح کرے گا، اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ تاہم اس شرط سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ کوئی فضولی بن کر نکاح کرادے اور یہ شخص اس نکاح کو بالفعل قبول کرے یعنی زبان سے کچھ بولے بغیر مہر کے پیسے عورت کے پاس بھیج دے تو اس طرح نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔ كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالًا لي (فكذا فأجار نكاح فضولي بالفعل لايحنث) بخلاف كل عبد يدخل في ملكي فهو حرّ فأجازه بالفعل حنث اتفاقًا؛ لكثرة أسباب الملك، عمادية.۔ ۔ قوله: (لايحنث) هذا أحد قولين قاله الفقيه أبو جعفر و نجم الدين النسفي، و الثاني أنه يحنث، و به قال شمس الأئمة و الإمام البزدوي و السيد أبو القاسم، و عليه مشى الشارح قبيل فصل المشيئة، لكن رجح المصنف في فتاواه الأول، و وجهه أن دخولها في نكاحه لايكون إلا بالتزويج فيكون ذكر الحكم ذكر سببه المختص به فيصير في التقدير كأنه قال: إن تزوجتها، و بتزويج الفضولي لايصير متزوجًا كما في فتاوى العلامة قاسم، قلت: قد يقال: إن له سببين: التزوج بنفسه و التزويج بلفظ الفضولي، و الثاني غير الأول بدليل أنه لايحنث به في حلفه لايتزوج، تأمل، قوله: (لكثرة أسباب الملك) فإنه يكون بالبيع والإرث والهبة والوصية وغيرها بخلاف النكاح كما علمت فلا فرق بين ذكره وعدمه." ((الدر المختار مع شرحه ردالمحتار 3/ 846، کتاب الأیمان،باب الیمین فی الضرب والقتل وغیر ذلک،مطلب قال كل امرأة تدخل في نكاحي فكذا، ط:سعید) "(قوله: و كذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 345) واللہ اعلم بالصواب کتبہ:محمد اسعد دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت کی شرعاً کوئی اصل و اہمیت نہیں ہے؛ اس لئے اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔(۱)

(۱) {وَلَا  تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط} (سورۃ بني إسرائیل: ۱۵)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص351

متفرقات

Ref. No. 2427/45-3691

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سرکاری مراعات لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، سرکار  کی طرف سے ملنے والی چیزیں مالدار کے لئے بھی جائز ہوتی ہیں اور غریب کے لئے بھی۔ سرکار جس کو چاہے اس کے لئے پینشن جاری کرسکتی ہے۔ اور جس کودے وہی اس کا مستحق ہوتاہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:التزام کے ساتھ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔(۱)

(۱) إعلم أن الذکر علی ثلثۃ مراتب: أحدہا الجہر ورفع الصوت بہا وذلک مکروہ إجماعاً إلا إذا دعت إلیہ داعیۃ وتقتضیہ حکمۃ فحینئذٍ قد یکون أفضل من الإخفاء کالأذان  والتلبیۃ ونحو ذلک ولعل الصوفیۃ الچشتیۃ قدس اللّٰہ تعالیٰ أسرارہم اختاروا الجہر للمبتدي لاقتضاء حکمۃ وہي طرد الشیطان ودفع الغفلۃ والنسیان وحرارۃ القلب واشتغال نائرۃ الحب بالریاضۃ ومع ذلک یشترط لذلک الاحتراز عن الریاء والسمعۃ، ثانیہا الذکر باللسان سرا: وہو المراد بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ رواہ الترمذي وابن ماجۃ {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط} (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳۶، ص: ۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص376

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ اس کی بو سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے، پس ایسے عمل سے پر ہیز کرنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) لقولہ علیہ السلام: لا یبولن أحدکم في مغتسلہ (بدرالدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب من تبرز علی لبنتین‘‘ ج۲، ص:۲۷۹) البول فیہ منھي عنہ سواء کان فیہ اغتسال أولا فإنہ ممنوع، والصواب أن النھي عن الجمع بدلیل التعلیل الآتي في نفس ھذا الحدیث، ولأنہ لو بال في المستحم ولم یغتسل فیہ بأن جعلہ مھجورا من الاغتسال فیہ أو اغتسل فیہ ابتداء ولم یبل فیہ یجوز لہ ذلک۔۔۔۔ قال ابن مالک لأنہ یصیر ذلک الموضع نجساً، فیقع في قلبہ وسوسۃ بأنہ ھل أصابہ منہ رشاش أم لا؟ و قال ابن حجر: لأن ماء الطھارۃ حینئذ یصیب أرضہ النجسۃ بالبول ثم یعود إلیہ فکرہ فیہ لذلک، ومن ثم لو کانت أرضہ بحیث لا یعود منھا رشاش أو کان لہ منفذ بحیث لا یثبت فیہ شيء من البول لم یکرہ البول فیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب آداب الخلاء‘‘ ج۲، ص:۶۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297