کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 41/1021

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھیل کے سلسلے میں شریعت کے بنیادی اصول یہ ہیں (١)جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں ممانعت آگئی ہے وہ ناجائز ہیں جیسے نرد ،شطرنج کبوتر بازی اور جانوروں کو لڑانا (٢) جو کھیل کسی حرام و معصیت پر مشتمل ہوں وہ ا س معصیت یا حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے (٣) جو کھیل فرائض اور حقوق واجبہ سے غافل کرنے والے ہوں وہ بھی ناجائز ہیں (٤)جس کھیل کا کوئی مقصد نہ ہو بلا مقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلا جائے وہ بھی ناجائز ہوگا کیوں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ایک لغو کام میں ضائع کرنا ہے ۔حضرت مفتی شفیع صاحب نے معارف القرآن میں لکھا ہےاوپر یہ بات تفصیل سے آچکی ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ لہو اور کھیل ہے جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہیں جو کھیل بدن کی ورزش ، صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیوی ضرورت کے لیے یاکم از کم طبیعت کا تکان دور کرنے کےلیے ہوں اوران میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنالیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑ نے لگے تو ایسے کھیل شرعا مباح اور دینی ضرورت کے نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے (معارف القرآن ٧/٢٥)کھیل کے سلسلے میں شریعت کی مذکورہ بالا اصول کو سامنے رکھ کر سوال میں مذکورہ کھیلوں کا جائز ہ لیا جاسکتاہے ۔سوال میں اسنوکر اور بلئیر کا تذکرہ ہے جس کی حقیقیت اور کیفیت کا علم نہیں ہے اس لیے اس کا حکم ذکر کرنے سے گریز ہے ۔تاش :کھیلنے کو فقہاء نے منع کیا ہے اس لیے کہ اس میں ایک تو تصاویر ہوتی ہیں اور بالعموم اس سے جوا کھیلا جاتا ہے، فساق و فجار کے کھیلنے کا معمول ہے، اسی طرح انہماک بھی غیر معمولی ہوتا ہے، اس لیے تاش کھیلنا ناجائز ہے ۔ہاش تعلیمی تاش جس میں حروف سے الفاظ بنائے جاتے ہیں جو بذات خود تعلیمی طور پر مفید ہے عام طور پر اس سے جوا نہیں کھیلا جاتا ہے اس لیے اگر اس میں بے جاانہماک نہ ہو تو جائز ہے ۔ کیرم بورڈ : اس کھیل میں بذات خود کوئی بات ناجائز نظر نہیں آتی ہے؛ البتہ اس میں بعض اوقات انہماک اتنا ہوجاتا ہے جو فرائض سے غافل کردیتا ہے ایسا انہماک بالکل ممنوع ہے البتہ جسمانی یا ذہنی تھکن دور کرنے کے لیے دوسرے ممنوعات سے بچتے ہوئے اگر کچھ وقت کے لیے کھیل لیا جائے تو گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔ لوڈو :کا بظاہر وہی حکم ہے جو کیرم بورڈ ہے بشرطیکہ کوئی اور ممنوع چیزمثلا تصویر وغیرہ نہ ہو ۔ وڈیوگیمز: جدید کھیلوں میں اس کا رواج بہت بڑھ رہا ہے اصولی طور پر یہاں بھی کھیلوںکے مذکورہ شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا وڈیوگیمز میں اگر جاندار کی تصاویر ہوں تو یہ جائز نہیں ہے ۔اوراگر جاندار کی تصاویر نہ ہو بلکہ گاڑی یا جہاز کی تصاویر وغیرہ ہو اور صرف تفریح کے لیے کھیلا جائے تو ان شرائط کےساتھ جائز ہوگا (١) اس میں جوا شامل نہ ہو (٢) نماز ضائع نہ ہو (٣) حقوق العباد       پامال نہ ہوں (٤) پڑھائی اور ضرور ی کام متأثر نہ ہوں (٥) اسراف نہ ہو ۔ مذکورہ تمام کھیل مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہیں لیکن عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ ان شرائط کی رعایت نہیں ہوپاتی ہےبلکہ بعض کھیل جنون کی حد تک پہنچ جاتے ہیں جیسے وڈیو گیمز وغیرہ  اس لیے گو اصولی طور پر یہ جائز ہیں لیکن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عدم جواز تک پہنچ جاتے ہیں اس لیے اس طرح کے کھیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ غیر شرعی امور کی روک تھام کیسے ممکن ہے اس کے لیے عرض ہے کہ جب انسان کے اندر شریعت کی عظمت و اہمیت پیدا ہوگی جب کی ان امور کی روک تھام ممکن ہے ہوسکتی ہے اس کے بغیر نہیں ۔ہاں لوگوں کو غیر شرعی امور سے بچانے کےلیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے متبادل جائز کھیل کو پیش کیا جائے تو وہ غیر شرعی کھیلوں سے رک سکتے ہيں ۔قدمنا عن القهستاني جواز اللعب بالصولجان وهو الكرة للفروسية وفي جواز المسابقة بالطير عندنا نظر وكذا في جواز معرفة ما في اليد واللعب بالخاتم فإنه لهو مجرد وأما المسابقة بالبقر والسفن والسباحة فظاهر كلامهم الجواز ورمي البندق والحجر كالرمي بالسهم، وأما إشالة الحجر باليد وما بعده، فالظاهر أنه إن قصد به التمرن والتقوي على الشجاعة لا بأس به (قوله والبندق) أي المتخذ من الطين ط ومثله المتخذ من الرصاص (قوله وإشالته باليد) ليعلم الأقوى منهما ط (قوله والشباك) أي المشابكة بالأصابع مع فتل كل يد صاحبه ليعلم الأقوى كذا ظهر لي (قوله ومعرفة ما بيده من زوج أو فرد واللعب بالخاتم) سمعت من بعض فقهاء الشافعية أن جواز ذلك عندهم إذا كان مبنيا على قواعد حسابية مما ذكره علماء الحساب في طريق استخراج ذلك بخصوصه لا بمجرد الحزر والتخمين. أقول: والظاهر جواز ذلك حينئذ عندنا أيضا إن قصد به التمرن على معرفة الحساب، وأما الشطرنج فإنه وإن أفاد علم الفروسية لكن حرمته عندنا بالحديث، لكثرة غوائله بإكباب صاحبه عليه، فلا بقي نفعه بضرره كما نصوا عليه  فقط ۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1226/42-557

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پر دستخط کرنا طلاق دینے کا اقرار ہے۔ لہذا اگر شوہر طلاق نامہ سمجھ کر یا پڑھ کر اس پر دستخط کرے گاتو پھر اس دستخط سے  جتنی طلاق لکھی ہے وہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

 ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘. )فتاوی شامی 3 / 236، قبیل مطلب فی المسائل التی تصح مع الاکراہ)

طلقت أي قضاء وهو موافق لما مر من أنه إذا أقر بالطلاق كاذبا وقع قضاء لا ديانة (البحرالرائق و منحۃ الخالق 3/272 باب الفاظ الطلاق)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1480/42-924

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پڑھے بغیر دھوکہ سے محض  طلاقنامہ پردستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اگر شوہر کو معلوم تھا کہ اس میں طلاق دینے کی بات لکھی ہے اور پھر اس نے دستخط کیا ہے  تو اس سے طلاق واقع ہوگئی۔

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1958/44-1871

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جعلی دستاویز بناکر نوکری حاصل کرنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اسلام میں اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ (2) البتہ اگر جعلی دستاویز کی بنیاد پر ملازمت مِل جائے اور کام کرنا شروع کردے تو اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور وہ آمدنی  جوکام کے عوض ہے  وہ حرام نہیں ہوگی۔ (3) سرکار نے جس ملازمت پر جس کو رکھا ہے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے، اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:« مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا،وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا». (صحيح مسلم:حدیث رقم:294) وقال ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ:وفي حديث ابن مسعودٍ عنِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم : ”مَنْ غَشَّنا فليس منَّا ، والمكرُ والخِداعُ في النار“. وقد ذكرنا فيما تقدَّم حديث أبي بكر الصدِّيق المرفوع : ”ملعونٌ من ضارَّ مسلماً أو مكرَ به “.خرَّجه الترمذيُّ. (جامع العلوم والحكم :35/ 9) وفي المحيط ومهر البغي في الحديث هو أن يؤاجر أمته على الزنا وما أخذه من المهر فهو حرام عندهما ، وعند الإمام إن أخذه بغير عقد بأن زنى بأمته ، ثم أعطاها شيئا فهو حرام ؛ لأنه أخذه بغير حق وإن استأجرها ليزني بها ، ثم أعطاها مهرها أو ما شرط لها لا بأس بأخذه ؛ لأنه في إجارة فاسدة فيطيب له وإن كان السبب حراما . ( البحر الرائق:8/33،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:وأما ركنها فهو الإيجاب والقبول والارتباط بينهما، وأما شرط جوازها فثلاثة أشياء: أجر معلوم، وعين معلوم، وبدل معلوم، ومحاسنها دفع الحاجة بقليل المنفعة، وأما حكمها فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. )البحر الرائق:8/3

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب اس شخص نے یہ کلمہ کہا کہ ہم کافر ہیں معاذ اللہ تو وہ شخص کافر ہوگیا پس اگر وہ توبہ اور تجدید ایمان نہ کرے تو مسلمان اس کے مرنے جینے میں شریک نہ ہوں۔(۲)

(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ، کما صرح بہ في الخانیۃ، ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہاعامداً عالماً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۶)

مسلم قال: أنا ملحد یکفر، ولو قال: ما علمت أنہ کفر لا یعذر بہذا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۸۹)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

دار الافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2316/44-3468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال غیرواضح ہے، والد کے بھائی کتنے تھے، ان کے نام اور سن وفات، تمام بھائیوں کی اولاد اور ان کے نام وغیرہ  تفصیل کے ساتھ لکھ کر دوبارہ بھیجیں تاکہ جواب دیاجاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریبات کے لیے دن وتاریخ متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی دن یا تاریخ کو دیگر تاریخ کے مقابلہ میں باعث ثواب سمجھا جائے اور اس کا التزام کیا جائے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تو یہ بدعت ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
عن ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلث یا علي ألا تؤخر ہن: الصلوٰۃ إذا آنت، الجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت کفوء اً۔ (أخرجہ الحاکم، في مستدرکہ: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۲۶۸۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص439
 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کا ترجمہ دیکھ کر احکام بیان کرنا اور اس کے لیے فتویٰ دینا صحیح نہیں ہے اور {وابتغ بین ذلک سبیلاً} کی یہ حد مقرر کرلینا کہ آواز جماعت خانہ سے باہر نہ جانی چاہئے۔ یہ صحیح نہیں ہے، اس کی جو حد فقہاء نے بیان کی ہے وہ ہی صحیح ہے یعنی صف اول تک آواز پہونچانا ضروری ہے۔ درمختار میں ہے ’’ویجہر الإمام وجوباً بحسب الجماعۃ فإن زاد علیہ أساء‘‘ شامی میں ہے:  ’’قولہ فإن زاد علیہ أساء وفي الزاہدي عن أبي جعفر لو زاد علی الحاجۃ فہو أفضل إلا إذا أجہد نفسہ أو آذی غیرہ‘‘۔(۱)
آیت مذکورہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ نہ تو تمام نمازوں میں زور سے پڑھو، نہ تمام نمازوں میں آہستہ پڑھو، مغرب، عشاء، فجر میں زور سے پڑھو۔ ’’قولہ: یجہر الإمام وجوبا للمواظبۃ من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجہر بالقرآن في الصلوٰۃ کلہا ابتداء کما سیذکرہ الشراح وکان المشرکون یؤذونہ ویسبون من أنزل علیہ فأنزل البعد مثال ولا تجہر بصلو تک ولا تخافت بہا، أي: لا یجہر بہا کلہا ولا تخافت بہا کلہا وابتغ بین ذلک سبیلاً، بأن یجتہد بصلوتک ولا تخافت بہا إلخ‘‘ بعض حضرات فرماتے ہیںکہ اس کی مراد یہ ہے کہ نہ سب نمازوں میں مخفی آواز سے پڑھے، جیسا کہ صبح ومغرب وعشاء میں، کیونکہ ان اوقات میں مشرکین اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں نہ سب کو ظاہر کر کے پڑھو جیسا کہ ظہر وعصر میں بس بعض میں پکار کر پڑھو، بعض میں آہستہ پڑھو۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القرآء ۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۲۔
(۲) (قولہ: وأدنی الجہر إسماع غیرہ وأدنیٰ المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ، فلو سمع رجل أول رجلان فلیس بجہر والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)
والجہر أن یسمع الکل الخ، أي: کل الصف الأول لا کل المصلین بدلیل ما في القہستاني عن المسعودیۃ أن جہر الإمام إسماع الصف الأول۔ وبہ علم أنہ لا إشکال في کلام الخلاصۃ۔ (’’أیضاً:)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص41

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سائل کو چاہئے کہ مرحومین کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرے، ہری گھاس سر سبز وشادابی کی علامت ہے، ترقی، امن وعافیت اور پریشانی سے نجات کی طرف اشارہ ہے۔(۱)

(۱) مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قبرین فقال إنہما یعذبان وما یعذبان في کبیر، أما ہذا فکان لا یستنزہ من البول، وأما ہذا فکان یمشي بالنمیمۃ، ثم دعا بعسیب رطب فشقہ بإثنین، ثم غرس علی ہذا واحداً وعلی ہذا واحداً، وقال: لعلہ یخفف عنہما ما لم ییبسا۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۷، رقم: ۲۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص171

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ گروپ جو حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں اور وحی کو صحیح مقام تک پہونچانے میں ان کی غلطی کا قائل ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کو صحیح مانتا ہے اور حضرات صحابہؓ اور خصوصاً شیخین کی توہین کرتا ہے تو صراحتاً قرآن کا منکر ہونے کی وجہ سے اس گروپ پر فتویٰ کفر کا ہے؛ لیکن ہمارے علاقوں میں شیعہ عام طور پر ایسے نہیں ہیں؛ اس لئے مفتیان کرام ان کو مسلمان مانتے ہیں؛ کیونکہ ان کے عقائد پہلے گروپ جیسے نہیں ہیں، پس دوسری قسم کے شیعوں سے تعلقات، سلام وکلام اور ان کی دعوت قبول کرنا درست ہے، اگر وہ اپنے چند خاص پروگراموں میں بلائیں، تو قبول کرلینے کی صورت میں ان کے کسی غیر شرعی یا کسی بدعتی عمل میں شرکت نہ کی جائے اور صحیح بات تک لانے کی سعی کی جائے۔

اور اہانت شیخین جب کہ تمام صحابہؓ کا ان کی فضیلت پر اجماع ہے اور متعدد احادیث ان کی فضیلت میں ہیں اور اگر کوئی گروپ اس طرح کا ہے جو ان کی اہانت کا مرتکب ہو، تو مفتیان کرام نے ایسے گروپ کو فاسق وفاجر کہا ہے۔(۱)

(۱) بہذا ظہر أن الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: فصل في المحرمات، مطلب مہم في وطئی السراري‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۳)

فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃ … أما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)

نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص274