تجارت و ملازمت

Ref. No. 1228/42-546

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کام کی گنجائش ہے، اور کمائی حلال ہے۔

جاز إجارة بيت بسواد الكوفة ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة (رد المحتار، فصل فی البیع 6/392)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1352/42-752

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جس بیٹے  کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ بیٹیاں اپنے سسرال میں زبردستی اپنی والدہ کو رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔ اور ماں کا اس طرح رویہ اختیار کرنا کسی مصلحت کی بنیاد پر ہوسکتاہے۔ نیز ہمارے معاشرہ میں ساس کا اپنے داماد کے گھر زیادہ دن رہنا پسند نہیں کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہے ماں  کا یہ رویہ اسی وجہ سے ہو۔ ماں کی خدمت کے لئے اگر شوہر کی اجازت ہو تو ماں کے پاس کبھی کبھی چلی جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1481/42-948

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض طلاق کے وہم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ غیراختیاری نیت کا بھی اعتبار نہیں ہے۔  وساوس کو زیادہ جگہ نہ دیں، ذہن کو دوسری چیزوں کی جانب منتقل کریں، اور "لاحول ولاقوۃ الا باللہ " کثرت سے پڑھیں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا". (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ".(شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1578/43-1110

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن وحدیث اجماع وقیاس سے  ثابت  شدہ مسائل کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پورے دین کا اطلاق ہوگا۔ البتہ دعوت و تبلیغ کے جو چھ نمبرات ہیں وہ دین کے اہم ترین اعمال و احکام ہیں،  ان پر چلنے سے اور ان صفات کو اختیار کرنے سے  پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے، یہی بات مرکزکے اکابر سے منقول ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار و یقین، نماز کا اہتمام، دین کا علم، اللہ تعالیٰ کا ذکر و استحضار، اخلاق نبویہ،اخلاص نیت اور دعوت دین وغیرہ اموردین کے اہم ترین اعمال و احکام کہلاتے ہیں ۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 185/43-1717

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عام طور پر ایسی خبریں جھوٹی اور بے بنیاد ہوتی ہیں، اس لئے ان خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہیے، اور اس قسم کے فرضی سوالات سے احتراز کرنا چاہیے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال چوںکہ مذکورہ شخص نے کفریہ و شرکیہ افعال سے توبہ کرلی ہے؛ اس لئے مذکورہ شخص مسلمان ہے۔ قرآن کریم میں ہے {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَط} (۳

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہٗ‘‘(۱) لہٰذا سچی توبہ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح سب کچھ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اس کے ساتھ ایک مسلم جیسا برتائو لازم ہے اور چوںکہ یہ کفریہ اعمال برسر عام ہوئے تھے، تو اب ان کو لازم ہے کہ توبہ کا اعلان بھی برسر عام کرے۔(۲

-----

(۳) سورۃ النساء: ۱۴۶۔

 

(۱) عن أبي عبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (أخرجہ، ابن ماجہ في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)

(۲) {وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَہ۲۵} (سورۃالشوریٰ: ۲۵)

)

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2260/44-2413

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے طلاق کا تلفظ ضروری ہے، صرف دل میں خیال آنے سے  طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے غلطی ہوگئی کہنے سے طلاق کا اقرار نہیں سمجھاجائے گا، اور بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ میاں بیوی کا رشتہ بدستور قائم ہے۔

ورکنہ لفظ مخصوص وہو ماجعل دلالة علی معنی الطلاق من صریح أو کنایة ․․․․․ وأراد اللفظ ولو حکماً لیدخل الکتابة المستبینة: الدر مع الرد: ۴/۴۳۱، زکریا دیوبند۔

 (وھو)لغۃ :رفع القید ۔۔۔وشرعا (رفع قید النکاح فی الحال )بالبائن (اوالمال )بالرجعی (بلفظ مخصوص)ھو ماشتمل علی الطلاق۔(ردالمحتار علی الدرالمختار،کتاب الطلاق،ج4ص426،25،24)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قیامت کا علم اللہ کے لیے مخصوص ہے، یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا گیا۔(۱)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِط وَمَا تَدْرِيْ  نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا  تَدْرِيْ نَفْسٌ م بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ اللقمان: ۳۴)

فتاوی دارالعلوموقف دیوبند ج1ص226

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں نہ کوئی نذر ہوئی اور نہ ہی وہاں جانا ضروری ہے۔ بلکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ (۱)

(۱) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فہذا النذر باطل بالاجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز؛ لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق … یا اللّٰہ إني نذرت لک إن شفیت مریضي أورددت غائبي أو قضیت حاجتي أن أطعم الفقراء الذین بباب السیدۃ نفیسۃ الخ۔ (أیضاً:)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص350

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف اور قرآن شریف پڑھے، لیکن اتنا پڑھے کہ خشکی نہ ہوجائے بعض دفعہ ہمت طاقت سے زیادہ آدمی پڑھ جاتا ہے اور نقصان ہوتا ہے وہ نقصان وظیفے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنی بے تدبیری سے اور تحمل سے زیادہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔(۲)

(۲) من قرأ القرآن وعمل بما فیہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفر والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)…عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘: ج ۶، ص: ۱۹۲، رقم: ۵۰۲۷)
عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقینی کعب بن عجرۃ رضي اللّٰہ عنہ، فقال: ألا أہدی لک ہدیۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت: بلی فاأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا: اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم، إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان فی المشي‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۷، رقم: ۳۳۷۰)
یجوز في الأذکار المطلقۃ الإتیان بما ہو صحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالی ولا یستلزم نقصاً بوجہ من الوجوہ وإن لم تکن تلک الصیغۃ ما ثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (وزارۃ الأوقاف الکویتیہ، الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۲۱، ص: ۲۳۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص375