طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2777/45-4327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کے بعد اگر  ہاتھ پر تری باقی ہو تو اس سے سر کا مسح کرنا کافی ہوگا، سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا ضروری نہیں ہے۔ البتہ سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا سنت ہے۔

  عن الربیع ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسح براسہ من فضل ماء کان فی یدہ(ابوداؤد

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود شریف کی تعظیم اولیٰ ہے، تعظیم اس کے پڑھنے ہی میں ہے، جو کہ خلوص قلب سے پڑھا جاتا ہے(۱) امام صاحب کا طریقہ نو ایجاد اور بدعت ہی میں شمار ہوگا،(۲) البتہ بعض لوگ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہط ۱۳۷} یا ’’یانور‘‘ ۱۱؍ مرتبہ پڑھ کر انگلی اور انگھوٹھے پر دم کر کے آنکھوں پر پھیرتے ہیں، آنکھوں کی روشنی وحفاظت کے لیے یہ عمل پڑھا جاتا ہے فرض رکعات کا سلام پھیر کر اور یہ عمل جائز ہے۔(۳)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّطٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۶)
(۲) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا، ذکرہ الدیلمي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمد رسول اللّٰہ قال ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ وکذا ما أوردہ أبو العباس أحمد ابن أبي بکر الرداد الیماني المتصوف في کتابہ ’’موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ‘‘ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ۔ (شمس الدین أبو الخیر محمد بن عبد الرحمن، المقاصد الحسنہ، ’’حرف المیم‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۵)
(۳) {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہط ۱۳۷} فقال نافع بصرت عیني بالدم علی ہذہ الآیۃ وقد قدم۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر’’البقرۃ: ۱۳۷‘‘ ج ۱، ص: ۳۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر مذکورہ امام کی عادت الائچی یا لونگ ثابت رکھنے کی ہو تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی؛ لیکن یہ عادت نا پسندیدہ ہے اس سے احتراز ضروری ہے اور اگر الائچی یا لونگ کو چبایا اور اس کے ذرات لعاب کے ذریعہ حلق کے اندر چلے گئے تو نماز فاسد ہوگی اور اس حالت میں پڑھی گئیں تمام نمازیں قابل اعادہ ہیں۔(۱)

(۱) و یکرہ وضع شيء لا یذوب في فمہ وہو یمنع القراء ۃ المسنونۃ أو یشغل بالہ کذہب۔ قولہ: لا یذوب احترز بہ عما یذوب کالسکر یکون في فیہ إذا ابتلع ذوبہ فإنہا تفسد، ولو بدون مضغ، ذکرہ السید۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۵)
ویکرہ أیضا عند الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ وضع شيء في فمہ لا یمنعہ من القراء ۃ؛ لأنہ یشغل بالہ، وصرح الحنفیۃ بأن یکون ہذا الشيء لا یذوب، فإن کان یذوب کالسکر یکون في فیہ، فإنہ تفسد صلاتہ إذا ابتلع ذوبہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’مادۃ: الصلاۃ: الأماکن التي تکرہ الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۲۷، ۱۱۶، ط: وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الکویت)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص120

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2801/45-4390

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے، جس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔  میاں بیوی کے درمیان جو عوض طے ہوجائے  وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ گفٹ میں ملی ہوئی چیزیں واپس کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم  جس چیز کے عوض خلع  کیا گیا ہو  اس کی ادائیگی بیوی کے ذمہ لازم  ہو گی۔

خلع کے اندر مہر کی مقدار سے زیادہ  لینا شوہر کے لئے  جائز ہے لیکن مکروہ ہے، اس لئے خلع میں کل مہر یا بعض مہر کی معافی  یا واپسی پر ہی عقد کیا جائے  تو بہتر ہے۔

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حکمه، جلد:1، ص:488، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے میں حرج نہیں،مگر مناسب نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ امام اور  مصلّیکے احترام کے خلاف ہے۔ اور دیگر لوگوں کو اشتباہ بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہئے، امام کو بھی اس اشتباہ کی بناء پرمنع ہے۔(۱)

(۱) وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ، ولأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثاراً من شہودہ علی ما روي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في بیان ما یستحب للإمام أن یفعلہ عقیب الفراغ من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
یکرہ للإمام التنفل في مکانہ بل یتحول مخیراً کما یأتي عن المنیۃ، وکذا یکرہ مکثہ قاعداً في مکانہ مستقبل القبلۃ في صلاۃ لا تطوع بعدہا۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص347

طلاق و تفریق

Ref. No. 38/827

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال ایسی صورت میں  اگر ام زرین کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیا گیا تو اس منکوحہ پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اب اگراس کے بعدام زرین کے علاوہ  کسی دوسری لڑکی سے  نکاح کیا  تو یہ نکاح درست ہوگا۔ اس کا شرطیہ جملہ صرف پہلے عقد سے متعلق ہوگا۔

۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 861

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر کو مضبوط کرنے کے لئے پکی اینٹیں یا بہت مضبوط لکڑی وغیرہ لگانا مکروہ ہے۔ لکڑی صرف اس قدر مضبوط ہو کہ مردہ کے جسم کے خاک میں ملنے سے پہلے  زمین بوس نہ ہو۔ مردہ کے اعضاء جب مٹی میں مل گئے  ہوں اور اس کا نشان وغیرہ سوائے ہڈیوں کے کچھ نہ بچا ہو اور پھر قبر بیٹھ جائے تو اس  میں  کوئی حرج نہیں ہے؛ پھر قبر کو برابر کردیا جائے تو بہتر ہے۔ اور اگر قبر کی علامت باقی رکھنی ہو تاکہ  کوئی اس پر پیر نہ رکھے تو تھوڑی  سی مٹی اوپر کوہان نما بنادی جائے جس سے قبر کی شناخت ہوسکے۔    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/1124

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق:(۱) بعض لوگ اپنے مخصوص اعمال کے ذریعہ جن کو اپنے قابو میں کرلیتے ہیں پھر وہ علاج وغیرہ میں ان سے مدد لیتے ہیں ایسے جنات کو وہ اپنا مؤکل کہتے ہیں (۲) جن کا موجود ہونا اور اس کا جسم انسانی میں حلول کرنا اور اس کے ذریعہ سے اپنا اثر ڈالنے کا ثبوت قرآن کریم سے ہے (۳)جو عامل حضرات آیات کریمہ، اذکار،یا دیگر مباح چیزوں کے ذریعہ علاج کرتے ہیں ان سے علاج کرانا درست ہے اور تعویذ کے ذریعہ علاج کرانے کا ثبوت بھی احادیث سے ہے (۴)عامل حضرات جو مؤکل سے علاج کراتے ہیں وہ اگر امور مباحہ سے متعلق ہو تو درست ہے لیکن جنات سے غیب کی خبر معلوم کرنادرست نہیں ہے (۵) اگر عامل حضرات غیر اللہ سے مدد لے کر علاج کرتے ہیں یا غیر اللہ کو کسی چیز میں مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ شرک ہے لیکن اگر قرآن و حدیث کے علاوہ غیر معلوم الفاظ سے علاج کرتے ہیں تو یہ ناجائز ہے لیکن اس کو شرک نہیں کہا جائے گا۔لاباس بالمعاذات اذا کتب فیہا القرآن و اسماء اللہ تعالی (شامی ۶/۳۶۳)عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ قلنا یا رسول اللہ کیف تری ذلک فقال لا بأس فی الرقی ما لم تکن شرکا (سنن ابی داؤد ۲/۲۴۵)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1133/42-354

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماد سسرال کا ایک فرد ہوتا ہے، اور اپنے سسر کا مجازی بیٹا ہوتا ہے۔ اس لئے سسر کا مال کھانے میں جبکہ سسر کو اس سے خوشی ہو، کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سسر اپنی رضاورغبت سے مال دے تو اس کا لینا بھی جائز ہے۔ تاہم سسرال میں پڑے رہنے کو معاشرہ مین معیوب سمجھاجاتاہے اور لوگ ایسا کرنے والے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اس لئے اگر لوگوں کے طعن سے بچنے کے لئے احتراز کرے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1656/43-1272

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے،  دعاء قنوت  کی  جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا  پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس  لئے اس کی جگہ اگر کسی نے  کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا  سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ  سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست  ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔

’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية  (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)

 (قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)

وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند