اسلامی عقائد

Ref. No. 2721/45-4465

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بدعتی کہنے والا کافر نہ ہوگا مگر بدعتی ضرور کہلائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام کی نماز اصل اور متبوع ہے اور مقتدیوں کی نماز شرعاً امام کے تابع ہوتی ہے، پس امام کی نماز کی کراہت سے مقتدیوں کی نماز بھی مکروہ ہوگی۔(۱) اس وجہ سے فاسق امام کی جگہ کوئی متقی باشرع امام مقرر کرنا چاہئے؛ لیکن مقتدی کی نماز میں کراہت اس صورت میں آئے گی جب کہ دوسرا صالح امام موجود ہو؛ لیکن اگر دوسرا امام موجود نہ ہو تنہا نماز پرھنے کے مقابلے میں اسی کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں آئی گی۔(۲)

(۱) حدیث الإمام ضامن … إن صلاۃ الإمام متضمنۃ لصلاۃ المقتدي ولذا اشترط عدم مغایرتہا فإذا صحت صلاۃ الإمام صحت صلاۃ المقتدي إلا لمانع آخر، وإذا فسدت فسدت صلاۃ المقتدي لأنہ متی فسد الشيء فسد مافي ضمنہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، فروع اقتداء متنفل بمتنفل‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱)
فبطلان صلاۃ الإمام یقتضي بطلان صلاۃ المقتدي إذ لایتضمن المعدوم الموجود۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
(۲) ینبغي أن یکون محل کراہۃ الاقتداء بہم عند وجود غیرہم وإلا فلا کراہۃ کما لا یخفی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص178

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت اگر واقعی ہے، تو مسجد کے بناتے وقت لوگوں کا اعتراض نہ کرنا ان کی خوشی کی دلیل ہے، اگرچہ گرام سماج کی زمین کسی شخص کی نہیں ہوتی، تو کسی فرد واحد کے ناراض ہونے سے بھی مسجد کے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا ہاں سر کار سے اجازت لینا ضروری ہوگا تبھی وہ مسجد شرعی ہوگی اور اس میں نماز پڑھنے سے نماز باجماعت کا ثواب ملے گا۔(۱)

(۱) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز لکن یرفعوا الأمر إلی القاضي لیأذن لہم۔۔۔۔۔ وفي الأجناس…(وفي نوادر ہشام) قال: سألت محمد بن الحسن عن نہر قریۃ کثیرۃ الأہل لا یحصی عدد ہم وہو نہر قناۃ أو نہر واد لہم خاصۃ، وأراد قوم أن یعمروا بعض ہذا النہر ویبنوا علیہ مسجداً ولا یضر ذلک بالنہر ولا یتعرض لہم أحد من أہل النہر قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: یسعہم أن یبنوا ذلک المسجد للعامۃ أو المحلۃ کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجداً وفي أحکامہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹)
(۱) وکرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء۔ (قولہ الوطء فوقہ) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقہ بالقدم فغیر مکروہ إلا في الکعبۃ لغیر عذر، لقولہم: بکراہۃ الصلاۃ فوقہا۔ ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید: کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اہـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضا فوقہ فلیتأمل (قولہ لأنہ مسجد) علۃ لکراہۃ ما ذکر فوقہ۔ قال الزیلعی: ولہذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۸)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص515

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:بہتر یہ ہے کہ جو اذان پڑھے وہی تکبیر بھی کہے لیکن اتفاقاً ایک مسجد میں اذان پڑھی اور دوسری میں نماز پڑھی تو یہ درست ہے؛ لیکن اس کی عادت بنالینے میں خلاف اولیٰ پر عمل لازم آئے گا جو اچھا نہیں ہے، نیز اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلاتا ہے اور خود ہی اس مسجد سے چلا جاتا ہے جو بہتر عمل نہیں ہے کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’عن زیاد بن الحارث الصدائي قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ أن أؤذن في صلاۃ الفجر فأذنت فأراد بلال أن یقیم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ  وسلم:
 إن أخا صداء قد أذن ومن أذن فہو یقیم‘‘(۱)
’’أن یؤذن في مسجد واحد ویکرہ أن یؤذن في مسجدین ویصلی في أحدہما لأنہ إذا صلی في المسجد الأول یکون متنفلاً بالأذان في المسجد الثاني والتنفل بالأذان غیر مشروع، ولأن الأذان یختص بالمکتوبات وہو في المسجد الثاني یصلی النافلۃ فلا ینبغي أن یدعو الناس إلی المکتوبۃ وہو لا یساعدہم فیہا‘‘
’’ومنہا أن من أذن فہو الذي یقیم وإن أقام غیرہ: فإن کان یتأذي بذلک یکرہ لأن اکتساب أذی المسلم مکروہ وإن کان لا یتأذي بہ لا یکرہ‘‘(۱)

 

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء أن من أذن فہو یقیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۱۹۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان سنن الأذان، صفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص155

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بھی نماز کے بعد دعاء باعث قبولیت ہے؛ لیکن سنن یا خطبہ عید کے بعد اس طرح دعا ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر اتفاقاً کوئی دعاء کرے خواہ سب مل کر کریں اور اس کو لازم یا شرعاً ضروری نہ سمجھیں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں الحاصل التزام درست نہیں ہے۔(۱)

(۱)لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: مطلب : السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
ورحم اللّٰہ طائفۃ من المبتدعۃ في بعض أقطار الہند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معہ یقومون بعد المکتوبۃ بعد قرائتہم اللہم أنت السلام ومنک السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوا الإمام عقب الفاتحۃ جہراً بدعاء مرۃً ثانیۃ والمقتدون یؤمنون علی ذلک وقد جری العمل منہم بذلک علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنہم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغالہ بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیہ قائلین: نحن منتظرون للدعاء ثانیاً وہو یطیل صلاتہ وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج ہذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلک یعزلونہ عن الإمامۃ ویطعنونہ ولا یصلون خلف من لا یصنع بمثل صنیعہم، وأیم اللّٰہ! أن ہذا أمر محدث فيالدین … وأیضاً ففي ذلک من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد منا أن المندوب ینقلب مکروہاً إذا رفع عن رتبتہ لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لما خشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبہ أشار إلی کراہتہ فکیف بمن أصر علی بدعۃ أو منکر؟ … کان ذلک بدعۃ في الدین محرمۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۲۰۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ درست ہے، مسئلہ اسی طرح شامی میں بھی ہے: ’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلاۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص122

Miscellaneous

Ref. No. 2798/45-4384

In the name of Allah the most Grciosut the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is strictly forbidden to have sexual intercourse in the state of menstruation. However, if it ever happens out of loss of control, one should immediately repent and seek forgiveness from Allah Almighty. There is no specific kaffarah for that sin. Nevertheless, you should give some money or things in the way of Allah as a Sadaqa. If you can afford, donate one dinar (4.374 gram gold coin) or half a dinar or its value.

"(قوله ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً «في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار»، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: «إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار» (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 298)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband


 

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظہر سے قبل کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ہے اور اگر دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو یہ سنت شمار نہ ہوگی؛ بلکہ نفل ہو جائے گی اور بعد میں چار رکعت سنت ایک سلام کے ساتھ پڑھنی پڑے گی۔
’’وأربع قبل الظہر إلی قولہ بتسلیمۃ لتعلقہ بقولہ: وأربع، وقال الزیلعي: حتی لو صلاہا بتسلیمتین لا یعتد بہا عن السنۃ‘‘(۱)
عمدۃ الفقہ میں ہے چار رکعت والی سنت مؤکدہ یعنی ظہر وجمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد کو ایک سلام سے پڑھنا ہی سنت مؤکدہ ہے، اگر ان کو دو سلاموں سے ادا کیا، تو وہ چار سنتیں نہیں ہوں گی الگ سے پھر چار سنتیں پڑھنی پڑیں گی۔(۲)

(۱)أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۸۹، دارالکتاب دیوبند۔
(۲) وسن مؤکداً أربع قبل الظہر واربع قبل الجمعۃ وأربع بعدہا بتسلیمۃ  فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۱، زکریادیوبند)
وعن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل الظہر أربعاً وبعدہا رکعتین الخ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الأربع قبل الظہر، ص۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348