Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1578/43-1110
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن وحدیث اجماع وقیاس سے ثابت شدہ مسائل کی تعداد لاکھوں میں ہے جن پر پورے دین کا اطلاق ہوگا۔ البتہ دعوت و تبلیغ کے جو چھ نمبرات ہیں وہ دین کے اہم ترین اعمال و احکام ہیں، ان پر چلنے سے اور ان صفات کو اختیار کرنے سے پورے دین پر چلنا آسان ہوجاتاہے، یہی بات مرکزکے اکابر سے منقول ہے۔ توحید و رسالت کا اقرار و یقین، نماز کا اہتمام، دین کا علم، اللہ تعالیٰ کا ذکر و استحضار، اخلاق نبویہ،اخلاص نیت اور دعوت دین وغیرہ اموردین کے اہم ترین اعمال و احکام کہلاتے ہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 185/43-1717
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عام طور پر ایسی خبریں جھوٹی اور بے بنیاد ہوتی ہیں، اس لئے ان خبروں پر یقین نہیں کرنا چاہیے، اور اس قسم کے فرضی سوالات سے احتراز کرنا چاہیے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال چوںکہ مذکورہ شخص نے کفریہ و شرکیہ افعال سے توبہ کرلی ہے؛ اس لئے مذکورہ شخص مسلمان ہے۔ قرآن کریم میں ہے {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَأَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَأَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُوْمِنِیْنَط} (۳)
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’التائب من الذنب کمن لا ذنب لہٗ‘‘(۱) لہٰذا سچی توبہ، آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح سب کچھ ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اس کے ساتھ ایک مسلم جیسا برتائو لازم ہے اور چوںکہ یہ کفریہ اعمال برسر عام ہوئے تھے، تو اب ان کو لازم ہے کہ توبہ کا اعلان بھی برسر عام کرے۔(۲
-----
(۳) سورۃ النساء: ۱۴۶۔
(۱) عن أبي عبیدۃ بن عبد اللّٰہ عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ (أخرجہ، ابن ماجہ في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ذکر التوبۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۲) {وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَہ۲۵} (سورۃالشوریٰ: ۲۵)
)
نکاح و شادی
Ref. No. 2260/44-2413
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے طلاق کا تلفظ ضروری ہے، صرف دل میں خیال آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے غلطی ہوگئی کہنے سے طلاق کا اقرار نہیں سمجھاجائے گا، اور بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ میاں بیوی کا رشتہ بدستور قائم ہے۔
ورکنہ لفظ مخصوص وہو ماجعل دلالة علی معنی الطلاق من صریح أو کنایة ․․․․․ وأراد اللفظ ولو حکماً لیدخل الکتابة المستبینة: الدر مع الرد: ۴/۴۳۱، زکریا دیوبند۔
(وھو)لغۃ :رفع القید ۔۔۔وشرعا (رفع قید النکاح فی الحال )بالبائن (اوالمال )بالرجعی (بلفظ مخصوص)ھو ماشتمل علی الطلاق۔(ردالمحتار علی الدرالمختار،کتاب الطلاق،ج4ص426،25،24)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قیامت کا علم اللہ کے لیے مخصوص ہے، یہ علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا گیا۔(۱)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ م بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ اللقمان: ۳۴)
فتاوی دارالعلوموقف دیوبند ج1ص226
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں نہ کوئی نذر ہوئی اور نہ ہی وہاں جانا ضروری ہے۔ بلکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ (۱)
(۱) إن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو بالإجماع باطل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فہذا النذر باطل بالاجماع۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
منہا: أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز؛ لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق … یا اللّٰہ إني نذرت لک إن شفیت مریضي أورددت غائبي أو قضیت حاجتي أن أطعم الفقراء الذین بباب السیدۃ نفیسۃ الخ۔ (أیضاً:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص350
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف اور قرآن شریف پڑھے، لیکن اتنا پڑھے کہ خشکی نہ ہوجائے بعض دفعہ ہمت طاقت سے زیادہ آدمی پڑھ جاتا ہے اور نقصان ہوتا ہے وہ نقصان وظیفے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنی بے تدبیری سے اور تحمل سے زیادہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔(۲)
(۲) من قرأ القرآن وعمل بما فیہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ومات في الجماعۃ بعثہ اللّٰہ یوم القیامۃ مع السفر والبررۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في شعب الإیمان: ج ۳، ص: ۳۷۶، رقم: ۱۸۳۷)…عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘: ج ۶، ص: ۱۹۲، رقم: ۵۰۲۷)
عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقینی کعب بن عجرۃ رضي اللّٰہ عنہ، فقال: ألا أہدی لک ہدیۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت: بلی فاأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فقلنا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا: اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم وعلی آل إبراہیم، إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان فی المشي‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۷، رقم: ۳۳۷۰)
یجوز في الأذکار المطلقۃ الإتیان بما ہو صحیح في نفسہ مما یتضمن الثناء علی اللّٰہ تعالی ولا یستلزم نقصاً بوجہ من الوجوہ وإن لم تکن تلک الصیغۃ ما ثورۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (وزارۃ الأوقاف الکویتیہ، الموسوعۃ الفقہیۃ: ج ۲۱، ص: ۲۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص375
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2598/45-4097
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دم سائل یعنی بہتاخون ناپاک ہے، بدن کے کسی بھی حصہ سے اگر خون بہہ کر اس حصہ تک آجائے جس کا غسل میں دھونا فرض ہے تو وضو ٹوٹ جاتاہے۔ کان یا ناک کے باہر اگر خون آرہاہو تو اس کو روئی سے پونچھ دیں اور کان کے باہری حصہ ، اور ناک کے بانسے کو پانی سے اچھی طرح دھولیں اور اگر اندر ہی رکا ہوا ہے ، کان کے باہر یا ناک کے نرم حصہ تک نہیں آیا تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوراگر ناک سے جماہوا خون نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
منھ سے اگر خون نکلے تو اگر خون تھوک پر غالب ہو یعنی تھوک کا رنگ سرخی مائل ہوجائے یا منھ میں خون کا ذائقہ آنے لگے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے ،کلی کرتے رہیں یہاں تک کہ تھوک سفید آنے لگےپھر وضو کریں۔ اور اگر وضو کے بعد ایسی صورت پیش آئے تو دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
وفي المنیة: انتثر فسقط من أنفہ کتلة دم لم ینتقض اھ، أي: لما تقدم من أن العلق خرج عن کونہ دما باحتراقہ وانجمادہ، شرح (رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱: ۲۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
قال الشامی ناقلاً عن البحر: بل الظاہر إذا کان الخارج قیحاً أو صدیداً لنقض، سواء کان مع وجع أو بدونہلأنہما لا یخرجان إلا عن علةٍ، نعم ہٰذا التفصیل حسن فی ما إذا کان الخارج ماء لیس غیر۔ (شامی زکریا ۱/۲۷۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس مسئلہ کی تفصیل شامی میں یہ ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد اگر انتشار باقی رہے اور اس حالت میں منی نکل آوے، تو دوبارہ غسل لازم ہوگا اور اگر انتشار باقی نہیں رہا تھا اس حالت میں منی نکل آئی، تو دوبارہ غسل لازم نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) قولہ (ومحلہ) أي ما في الخانیۃ، قال في البحر: و یدل علیہ تعلیلہ في التجنیس بأن في حالۃ الانتشار و حد الخروج والانفصال جمیعاً علی وجہ الدفق والشھوۃ، و عبارۃ المحیط کما في الحلیۃ۔ رجل بال فخرج من ذکرہ مني، إن کان منتشراً فعلیہ الغسل لأن ذلک دلالۃ خروجہ عن شھوۃ۔ وفي الخانیۃ خرج مني بعد البول و ذکرہ منتشر، لزمہ الغسل قال فی البحر: و محلہ إن وجد الشھوۃ، وھو تقیید قولھم بعدم الغسل بخروجہ بعد البول۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: في تحریر الصاع والمد والرطل،‘‘ج۱، ص:۲۹۹) ؛ و(قولہ علی وجہ الدفق والشھوۃ) ھذا بإطلاقہ، لا یستقیم إلا علی قول أبي یوسف، لأنہ یشترط لوجوب الغسل ذلک۔ و أما علی قولھما فلا یستقیم، لأنھما جعلا سبب الغسل خروجہ عن شھوۃ ولم یجعلا الدفق شرطاً، حتی أنہ إذا انفصل عن مکانہ بشھوۃ، و خرج من غیر دفق و شھوۃ وجب الغسل عندھما۔ و عندہ یشترط الشھوۃ أیضاً عند خروجہ، و معنی قولہ علی وجہ الدفق أي نزل متتابعا، ولو احتلم أو نظر إلی إمرأۃ بشھوۃ فانفصل المني منہ بشھوۃ، فلما قارب الظھور شد علی ذکرہ حتی انکسرت شھوتہ ثم ترکہ فسال بغیر شھوۃ وجب الغسل عندھما، و عندہ لا یجب، و کذا إذا اغتسل المجامع قبل أن یبول أو ینام ثم خرج باقي المني بعد الغسل وجب علیہ إعادۃ الغسل عندھما، و عندہٗ لا یجب، و إن خرج بعد البول أوالنوم لایعیدُ إجماعاً۔الزبیدي، الجوھرۃ النیرۃ،’’کتاب الطہارۃ‘‘ج ۱، ص:۱۲(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت عورتوں کی امامت کرسکتی ہے یانہیں اس میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف ہے؛ لیکن عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہے، اس میں ائمہ اربعہ کے درمیان اتفاق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی عورت کا مرد کی امامت کرنا ثابت نہیں ہے، اسی طرح عہد صحابہؓ میں عورت کا امامت کرنا ثابت نہیں ہے اگر یہ عمل جائز ہوتا ہے ہمیں عہد صحابہؓ میں اس کی مثالیں ضرور ملتی، بلکہ اس کے خلاف روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہیں۔ ایک روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ عورتیں امامت نہ کریں اس میں تو مطلقاً عورت کو امامت سے منع کیا گیا ہے خواہ وہ عورتوں کی امامت کریں یا مردوں کی۔(۱)
تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں نماز میں آواز نہیں نکال سکتی امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لیے جب عورت معمولی سی آواز نہیں نکال سکتی تو مکمل نماز کی امامت کیسے کرسکتی ہے؟ امام نووی رحمہ اللہ المجموع شرح المھذب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے عورتوں کا مردوں کی امامت پر ممانعت سے متعلق ضعیف حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ کسی عورت کے پیچھے بچے اور بالغ مرد کی نماز جائز نہیں ہے، آگے لکھتے ہیں خواہ ممانعت عورت کی امامت مردوں کے لیے فرض نمازسے متعلق ہو یا تراویح سے متعلق ہو یا سارے نوافل سے۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور سلف وخلف میں سے جمہور علماء کا ہے۔ اور بیہقی نے مدینہ کے تابعین فقہائے سبعہ سے بیان کیا ہے اور وہ امام مالک، امام ابوحنیفہ، سفیان، امام احمد اور داؤد ہیں۔(۲)
(۱)عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: لا تؤم المرأۃ۔ قلت: رجالہ کلہم ثقات۔ (ظفر أحمد عثماني،إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب جماعۃ النساء ‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۷)…
…(۲) لا یصح اقتداء الرجل بالمرأۃ لقولہ علیہ السلام: أخروہن من حیث أخرہن اللّٰہ تعالٰی۔ (مصنف عبد الرزاق، ’’کتاب الصلاۃ، باب شہود النساء الجماعۃ‘‘: ج۱، ص: ۴۱۰، رقم: ۵۱۱۵)
وعلیہ الإجماع۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في الإمامۃ‘‘: ص:۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص508