احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2134/44-2200

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کی کل جائداد کو چالیس حصوں میں تقسیم کریں گے، مرحوم کی بیوی کو  پانچ حصے، بیٹے کو چودہ حصے اور ہر ایک بیٹی کو سات سات حصے ملیں گے۔

تخریج حسب ذیل ہے:

مسئلہ 8/تصحیح 40                                              

        بیوی ---------------   بیٹا  -------  بیٹی  -------  بیٹی --------  بیٹی

         1                                                                      7

        5                           14                  7                 7                  7

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال زبردستی، بغیر رضامندی کے لینا حرام ہے ؛ لہٰذا اگر لڑکی والوں سے بغیر رضامندی کے دباؤ بنا کر جہیز کا سامان یا نقد روپیہ لیا جائے تو وہ ناجائز اور حرام ہے۔(۱)

(۱) {وَلَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرہ: ۱۸۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443

اسلامی عقائد

Ref. No. 2536/45-00000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2668/45-4130

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قرآن واحادیث میں ذکر کی بڑی اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے (یا ایہا الذین آمنوا اذکر اللہ ذکرا کثیرا) الآیۃ، لا یزل لسانک رطبا من ذکر اللہ (الحدیث)

صبح وشام ذکر کی بڑی فضیلت ہے۔ (فسبحان اللہ حسن تمسون وحین تصبحون) الآیۃ، متعدد احادیث سے درود شریف استغفار اور تیسرا کلمہ سو مرتبہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

عن الأغر المزنی وکانت لہ صحبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال انہ لیغان علی قلبی وانی لاستغفر اللہ في الیوم مائۃ مرۃ‘‘ (صحیح مسلم: رقم ٢٧٠٢۔

عن أنس بن مالک أن رجلا جاء الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ انی رجل ذرب اللسان واکثر ذلک علی أہلی فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم این انت من الاستغفار انی استغفر اللہ فی الیوم واللیلۃ مائۃ مرۃ‘‘ (المعجم الأوسط للطبرانی: رقم: ٣١٧٣)

عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من سبح اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن حج مائۃ حجۃ ومن حمد اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن حمل علی مائۃ فرس فی سبیلاللہ أو قال غزا مائۃ غزوۃ۔ ومن ہلل اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی کان کمن اعتق مائۃ رقبۃ من ولہ اسماعیل ومن کبر اللہ مائۃ بالغداۃ ومائۃ بالعشی لم یأت في ذلک الیوم أحد بأکثر مما أتی الا من قال مثل ما قال أو زاد علی ما قال۔ (سنن الترمذی: رقم: ٣٤٧١)

عن الحسن قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بکر ألا اولک علی صدقۃ تملأ ما بین السماء والأرض سبحان اللہ، والحمد اللہ، ولا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ في یوم ثلاثین مرۃ‘‘ (المصنف لابن أبي شیبۃ: رقم: ٣١٧١١)

عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی علی فی یوم ألف مرۃ لم یمت حتی یری متعدہ من الجنۃ‘‘ (الترغیب لابن شاہین: رقم ١٩)

عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صی علی في کل یوم مائۃ مرۃ قضی اللہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین منہا لأخرتہ وثلاثین منہا لدنیاہ‘‘ (جلا الافهام لإبن القيم الجوزية: ص: 430)

عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من صلي علي مائة صلاة حين يصل الصبح قبل أن يتكلم قضي الله له مائة حاجة عجل له منها ثلاثين حاجة وأخر له سبعين وفي المغرب مثل ذلك‘‘ (جلاء الافهام لابن القيم: ص: 430، دار العروبه، الكويت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر تو یہ ہے کہ پانی اور ڈھیلا دونوں کو جمع کرلیا جائے دوسرے نمبر پر صرف پانی پر اکتفاء کیا جائے؛ لیکن اگر پانی نہ ہو، تو مجبوراً ڈھیلے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل،  و یلیہ في الفضل، الاقتصار علی الماء، و یلیہ الاقتصار علی الحجر، و تحصل السنۃ بالکل و إن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰)؛ والاستنجاء بالماء أفضل (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و الإستنجاء نوعان: أحدھما بالماء، والثاني بالحجر أو بالمدر أو ما یقوم مقامھما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع منہ في بیان سنن الوضوء و آدابہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جوااور سٹہ کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے(۲) امام کو چاہئے کہ ایسے برے کاموں سے اجتناب کریں، لیکن اس کے باوجود مقتدیوں کی نمازیں کراہت ِ تحریمی کے ساتھ صحیح ہیں ان کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے(۳) اور سنت و نوافل جو کچھ ادا کرے گا وہ بھی ادا ہوں گی۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَہ۹۰} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
(۳) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام:صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص177

Usury / Insurance

Ref. No. 2773/45-4325

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the Holy Quran and hadiths, we are ordered with strict words to avoid usury and usury based transactions, even it is said that if those who take and give usury and do not repent, they should be ready to fight against Allah and His Messenger, so all kinds of usurious transaction is forbidden and Haram, thus the matter should not be taken for granted. Therefore, just as life insurance, medical insurance, etc. are prohibited, insurance of goods is also prohibited. You deposit extra money for a fixed period of time, during which you may not need to repair the equipment at all and lose the money. And maybe, so many repairs are needed that the insurers lose. So that is a form of gambling which is clearly prohibited in Islamic Shariah. If the service is given by the said company without an extra charge, it will be allowable and there should be no harm in it.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد کا وقت خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے؛ اس لیے فرض نماز کے بعد دعاء کرنی چاہیے؛ لیکن دعاء ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی دعا کئے بغیر اٹھ کر چلا جائے، تو اس پر اعتراض ولعن وطعن نہ کیا جائے؛ تاہم دعاء مانگے بغیر چلے جانے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ما من عبد بسط کفیہ في دبر کل صلاۃ ثم یقول: اللہم إلہي وإلہ إبراہیم وإسحاق ویعقوب وإلہ جبریل ومیکائیل وإسرافیل أسألک أن تستجیب دعوتي فإني مضطر وتعصمني في دیني فإني مبتلی وتنالني برحمتک فإني مذنب وتنفي عني الفقر فإني متمسکن إلا کان حقا علی اللّٰہ عز وجل أن لا یرد یدیہ خائبتین۔ (محمد عبد الرحمن، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایقول الرجل إذا سلم من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱)
قال الطیبي: وفیہ أن من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر؟ وجاء في حدیث ابن مسعود: ’’إن اللّٰہ -عز وجل- یحب أن تؤتی رخصہ کما یحب أن تؤتی عزائمہ‘‘ اھـ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص423

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہو یا خارجِ نماز باریک اور ایسا چست لباس جس سے جسم کی ساخت نظر آئے پہننا حرام ہے اس طور پر اعضاء مخفیہ کا دکھانا بھی حرام اور دیکھنا بھی حرام ہے اگرچہ بلا شہوت ہو اس لیے کہ عورت کے لئے  چہرہ پاؤں اور ہاتھ کے علاوہ پورا بدن ڈھانپنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی اگر کپڑے سے ستر کا رنگ بھی نظر آئے تو اس لباس میں نماز فاسد ہو جاتی ہے اگر نماز پڑھ لی گئی ہو اس کو لوٹانا ضروری ہے، اگر کوئی مرد ایسا لباس پہنتا ہے جس سے اس کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو تو ایسے لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم ایسے لباس میں اگر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوگئی اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقاً بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرہ لا یحصل بہ ستر العوۃ‘‘(۲)
’’(قولہ: لایصف ما تحتہ) بأن لایری منہ لون البشرۃ احترازا عن الرقیق ونحو الزجاج (قولہ: ولایضر التصاقہ) أي بالألیۃ مثلا، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب۔ وعبارۃ شرح المنیۃ: أما لو کان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۳)
’’أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حذر أہلہ وجمیع المؤمنات من لباس رقیق الثیاب الواصفۃ لأجسامہن بقولہ: کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ، وفہم منہ أن عقوبۃ لابسۃ ذلک أن تعری یوم القیامۃ‘‘(۴)

’’في تکملۃ فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمرأۃ، لاتقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ … وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذي یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذي یجب سترہ، فہو في حکم ماسبق في الحرمۃ وعدم الجواز‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحتہ أي لون البشرۃ لایحصل بہ سترۃ العورۃ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیری: ص: ۲۱۴۔)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۴۱۰۔)
(۴) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب ماکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتجوز من اللباس‘‘: ج ۲۲، ص: ۲۰دارالفکر۔)

(۱) المفتي محمد تقي العثماني، تکملۃ  فتح الملہم شرح المسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ‘‘: ج ۴، ص: ۸۸۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۱۴۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص121

متفرقات

Ref. No. 2800/45-4389

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید نے مطلق بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، اس لئے  اسی کال پر رہتے ہوئے بات کرے گا تب بھی حانث ہوجائے گا، البتہ بذریعہ میسیج جواب دینے پر حانث نہیں ہوگا۔

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

الكلام) والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف.... وفي الرد: (قوله فلا يحنث بإشارة وكتابة) وكذا بإرسال رسول." (الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الايمان، ‌‌باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 792/3، سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند