Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے اس لیے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
’’(من فرائضہا) التي لا تصح بدونہا (التحریمۃ) قائما (وہي شرط) قال الشامي: (قولہ من فرائضہا) جمع فریضۃ أعم من الرکن الداخل الماہیۃ والشرط الخارج عنہا، فیصدق علی التحریمۃ والقعدۃ الأخیرۃ والخروج بصنعہ علی ما سیأتی، وکثیرا ما یطلقون الفرض علی ما یقابل الرکن کالتحریمۃ والقعدۃ، وقدمنا في أوائل کتاب الطہارۃ عن شرح المنیۃ أنہ قد یطلق الفرض علی ما لیس برکن ولا شرط کترتیب القیام والرکوع والسجود والقعدۃ، وأشار بمن التبعیضیۃ إلی أن لہا فرائض أخر کما سیأتي في قول الشارح: وبقي من الفروض إلخ أفادہ ح (قولہ التي لا تصح بدونہا) صفۃ کاشفۃ إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاۃ بدونہ بلا عذر‘‘(۱)
’’(الفصل الأول في فرائض الصلاۃ) وہي ست: (منہا التحریمۃ) وہي شرط عندنا حتی أن من یحرم للفرائض کان لہ أن یؤدی التطوع ہکذا في الہدایۃ، ولکنہ یکرہ لترک التحلل عن الفرض بالوجہ المشروع، وأما بناء الفرض علی تحریمۃ فرض آخر فلا یجوز إجماعا وکذا بناء الفرض علی تحریمۃ النفل کذا في السراج الوہاج … الی قولہ … ولا یصیر شارعا بالتکبیر إلا في حالۃ القیام أو فیما ہو أقرب إلیہ من الرکوع۔ ہکذا في الزاہدي حتی لو کبر قاعدا ثم قام لا یصیر شارعا في الصلاۃ: ویجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرۃ علی القیام۔ کذا في محیط السرخسي‘‘(۱)
’’(قولہ فوقف) وکذا لو لم یقف بل انحط فرفع الإمام قبل رکوعہ لا یصیر مدرکا لہذہ الرکعۃ مع الإمام فتح. ویوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمکنہ الرکوع فوقف ولم یرکع، وذلک لأن المسألۃ فیہا خلاف زفر؛ فعندہ إذا أمکنہ الرکوع فلم یرکع أدرک الرکعۃ لأنہ أدرک الإمام فیما لہ حکم القیام۔ (قولہ لأن المشارکۃ) أي أن الاقتداء متابعۃ علی وجہ المشارکۃ ولم یتحقق من ہذا مشارکۃ لا في حقیقۃ القیام ولا في الرکوع فلم یدرک معہ الرکعۃ إذ لم یتحقق منہ مسمی الاقتداء بعد‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل الرکن‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۷، ۱۲۸۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵،۱۲۶۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش، ج ۲، ص: ۵۱۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص286
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی ایسا کام کرنا جس سے دیکھنے والے کو یہ یقین ہو کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے عمل کثیر کہلاتا ہے۔ یہ ہی قول عام مشائخ کا ہے اور مفتی بہ ہے اور احتیاط کے قریب ہے۔
’’فیہ أقوال خمسۃ، أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل الخ‘‘(۱)
’’قولہ: وفیہ أقوال … صححہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجی عن أصحابنا ۔ حلیہ … قولہ: ما یشک، أي عمل لا یشک: أي بل یظن ظناً غالباً ‘‘ (شرح المنیۃ … والناظر فاعل یشک ، والمراد بہ من لیس لہ علم بشروع المصلي بالصلاۃ کما في الحلیۃ والبحر‘‘ (أیضاً)
’’والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید، إن کان لا یشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد وإن شک فلیس بمفسد وہذا ہو الأصح، ہکذا في التبیین وہو أحسن، کذا في محیط السرخسي وہو اختیار العامۃ، کذا في فتاوی قاضي خان والخلاصۃ‘‘(۱)
(۱)الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۵۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’النوع الثاني في الأفعال المفسدۃ للصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص108
Miscellaneous
Ref. No. 38/826
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Such a program is generated for advertisement of the products. Through this way you become a member of the company. If a company gives something to its advertisers as a gift, there is nothing wrong in it. So the money received from such programs is Halal. Nevertheless, one must avoid using any illegal and anti-sharia program for advertisement.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، اس کا چھپانا لازم ہے،ستر پورے طور پر چھپاہوا ہے تو پھر بچوں کے ساتھ نہانے میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 41/839
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لال اور کالا کپڑا پہننا جائز ہے البتہ پسندیدہ نہیں ، اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔
عن ابی حنیفۃ لاباس بالصبغ الاحمر والاسود کذا فی الملتقط (الفتاوی الہندیۃ ۵/۳۳۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 936/41-71 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بے حیائی اور بے شرمی کی باتوں سے اجتناب لازم ہے، اور جماع وغیرہ کی کیفیات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں احادیث وارد ہیں اورایسے لوگوں کو بدترین لوگ کہاگیا ہے، اور جو لوگ اس گھناونی حرکت میں مبتلا ہوں ، ان کو سمجھانا اور نہ ماننے کی صورت میں ان سے دوری اختیار کرنا لازم ہے۔
عن أبي سَعيدٍ الخُدْريِّ رَضِيَ الله عنه قال: قال رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ((إنَّ مِن أشَرِّ النَّاسِ عندَ اللهِ مَنزِلةً يَومَ القيامةِ الرَّجُلَ يُفْضي إلى امرأتِه وتُفْضي إليه، ثمَّ يَنشُرُ سِرَّه) (اخرجہ مسلم 1163) .
عن أسماءَ بنتِ يَزيدَ رَضِيَ الله عنها: أنَّها كانت عندَ رَسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والرِّجالُ والنِّساءُ قُعودٌ عِندَه، فقال: ((لعَلَّ رَجُلًا يقولُ ما يَفعَلُ بأهلِه، ولعلَّ امرأةً تُخبِرُ بما فعَلَت مع زَوجِها! فأرَمَّ القَومُ، فقُلتُ: إي واللهِ يا رَسولَ اللهِ، إنهُنَّ لَيَقُلْنَ، وإنَّهم لَيَفعَلونَ! قال: فلا تفعَلوا؛ فإنَّما مَثَلُ ذلك مَثَلُ الشَّيطانِ لَقِيَ شَيطانةً في طَريقٍ فغَشِيَها والنَّاسُ يَنظُرونَ (اخرجہ احمد 1165)
إن من أشر الناس منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى المرأة وتفضي إليه يعني بذلك الزوجة فيصبح ينشر سرها أو هي أيضا تصبح تنشر سره فيقول فعلت في امرأتي البارحة كذا وفعلت كذا والعياذ بالله فالغائب كأنه يشاهد كأنه بينهما في الفراش والعياذ بالله يخبره بالشيء السر الذي لا تحب الزوجة أن يطلع عليه أحد أو الزوجة كذلك تخبر النساء بأن زوجها يفعل بها كذا وكذا وكل هذا حرام ولا يحل وهو من شر الناس منزلة عند الله يوم القيامة فالواجب أن الأمور السرية في البيوت وفي الفرش وفي غيرها تحفظ وألا يطلع عليها أحدا أبدا فإن من حفظ سر أخيه حفظ الله سره فالجزاء من جنس العمل (شرح ریاض الصالحین 4/827)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1229/42-542
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There is an apprehension of evil in this form of tuition. So it should be avoided, but your earning is halal. Now, you had better teach the male students only. Guardians should look for female tutors for their girls. Remember, the door of fitnah must be closed at the initial stage; otherwise the consequences will not be good.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1353/42-753
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کی شہرسے باہر دوسرے قبرستان میں دفن کرنے کے وصیت شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے ورثہ کا ان کی اس وصیت پرعمل نہ کرنا جائز اور درست ہے۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔
ولو أوصى بأن يحمل بعد موته إلى موضع كذا ويدفن هناك ويبنى هناك رباطا من ثلث ماله فمات ولم يحمل إلى ذلك الموضع قال أبو القاسم: وصيته بالرباط جائزة ووصيته بالحمل باطلة، ولو حمله الوصي يضمن ما أنفق في الحمل إذا حمله الوصي بغير إذن الورثة، وإن حمل بإذن الورثة لا يضمن (الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون 6/95)
(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا(درمختار، فروع فی الجنائز 2/239)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند