تجارت و ملازمت

Ref. No. 2326/45-4214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر مسلم کی کمپنی میں کام کرنے والے مسلمانوں کو جو اجرت ملتی ہے وہ ان  کے لئے حلال ہے ہاں اگر معلوم ہو کہ کمپنی ناجائز امور پر مشتمل ہے مثلاً شراب کی کمپنی ہے تو مسلمان کے لیے ایسی کمپنی میں کام کرنا اور اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ مسلمان کے لیے شراب کے کسی بھی کام کو کرنا جائز نہیں ہے، لیکن کمپنی کے شیرز خریدتے وقت بھی اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار ایک تہائی سے زیادہ حرام کام پر مشتمل نہ ہو اگر ایک تہائی سے زیادہ حرام کاروبار ہے تو پھر اس کے  شیرز خریدنا جائز نہیں ہے، اب اگر غیر مسلم کمپنی میں کوئی جائز کام کریں تو آپ کے لئے اجرت جائز ہے تنخواہ میں کوئی بھی پیسہ آپ کو دیتا ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جماعت ہوگئی یا شرعی عذر کی بنا پر مسجد میں نہ جاسکے، تو گھر میں بیوی، ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرسکتا ہے، یہ ہی بہتر ہے؛ تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے، مگر عورت ایک ہو یا زیادہ ہوں، ہر صورت میں عورت کو امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، امام کے برابر میں ایک مرد کی طرح عورت کا کھڑا ہونا درست نہیں، اس طرح کرنے سے نماز ادا نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ بلا عذر شرعی ترک جماعت کی عادت بنا لینا گناہ ہے اور بروئے حدیث ایسا شخص عملی منافق کہلاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ولقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ إلامنافق قد علم نفاقہ أو مریض إن کان المریض لیمشي بین رجلین حتی یأتي الصلاۃ‘‘ ایک دوسری حدیث میںہے ’’ولو أنکم صلیتم في بیوتکم کما یصلي ہذا المتخلف في بیتہ لترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم الخ۔ (۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،…… باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدیٰ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۵۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص504

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس کو مٹایا نہیںجاسکتا تو مجبوری ہے نماز اس کی ہوجاتی ہے؛ البتہ اس کی نماز کراہت سے خالی نہ ہوگی۔ لیکن اس کی نماز جنازہ پڑھنی فرض کفایہ ہے نہ پڑھنے والے لوگ سخت گناہگار ہوں گے اور ان کا یہ فعل باعثِ عذاب ہوگا۔(۱)
(۱) یستفاد مما مرّ حکم الوشم في نحو الید، وہو أنہ کالاختضاب أو الصبغ بالمتنجس؛ لأنہ إذا غرزت الید أو الشفۃ مثلاً بإبرۃ، ثمّ حشي محلہا بکحل أو نیلۃ لیخضر، تنجس الکحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محلہ أخضر، فإذا غسل طہر؛ لأنہ أثر یشق زوالہ؛ لأنہ لایزول إلا بسلخ الجلد أو جرحہ، فإذا کان لایکلف بإزالۃ الأثر الذي یزول بماء حار أو صابون فعدم التکلیف ہنا أولی۔ وقد صرح بہ في القنیۃ فقال: ولو اتخذ في یدہ وشماً لایلزمہ السلخ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم، حیث قال: لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ، والواشمۃ والمستوشمۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب الوصل في الشعر‘‘: ج۲، ص:۸۷۹، رقم: ۵۹۳۷)
الوشم وہي أن تغرز إبرۃ أو مسلۃ أو نحوہما في ظہر الکف أو المعصم أو الشفۃ أو غیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورۃ فیخضر … فإن طلبت فعل ذلک بہا فہي مستوشمۃ، وہو حرام علی الفاعلۃ والمفعول بہا باختیارہا والطالبۃ لہ … وسواء في ہذا کلہ الرجل والمرأۃ۔ (ابن الحجاج، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ‘‘: ج ۷، ص: ۲۳۱، رقم: ۲۱۲۵)(شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص283


 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تنہائی میں اور محرم کے سامنے بھی ستر چھپانا لازم ہے اس لیے صورت مسئولہ میں جب کہ ستر کا حصہ کھلا ہوا ہے تو نماز نہیں ہوئی جلد از جلد ان نمازوں کی قضا کرلیں جتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں کہنی چھپانی بھی لازم ہے خواہ دوپٹے ہی سے چھپائیں۔(۱)

(۱) وبدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (ابن نجیم ، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص106

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 802

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا متروک اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے۔ لیکن جبکہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے تو آپ بھی دو رکعت ادا کرسکتے ہیں۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 38/861

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Through this dream you have been sought to be attentive towards prayers and maintaining good ties with the relatives. Ensure to offer prayers with sincerity and humbleness. If you have been unable to maintain good ties with any of your relatives pay attention to it. May Allah help you! And Allah knows the best.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 40/919

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہمارے عرف میں گوشت کا اطلاق مچھلی پر نہیں ہوتا ہے، اس لئے مچھلی کھانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی اور کفارہ بھی نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1020/41-180

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قصدا اقامت ترک کرنا مکروہ ہے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ ایک ہی شخص کا اقامت اور امامت کرنا بھی درست ہے۔

والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي". (عالمگیری 1/54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1350/42-755

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The aforementioned saying was not found in authentic books. Such sayings are propagated to inculcate the teacher’s respect into the mind of children. But it has no reality at all.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 1478/42-923

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحریر پڑھنے کے بعد صحیح نشان پر کلک کرنا اس تحریر سے اتفاق کی دلیل ہے اور اس نشان پر کلک کرنا  زبان سے لفظ ہاں  کہنے کے مترادف ہے۔  اس لئے صحیح کے نشان والا بٹن دبانے سے تحریر شدہ تینوں طلاقیں شرعا واقع ہوگئیں۔  لہذا  میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجعت  جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی ،اور عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند