اسلامی عقائد

Ref. No. 1215/42-522

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کمیشن پر چندہ کرنے کو مفتیان کرام نے ممنوع لکھا ہے ، ہاں خرچ و انعام درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1341/42-717

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح صرف تین پتھر ہاتھ میں دیدینے سے   اور صرف یہ کہنے سے کہ تم گھر چلی جاؤ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی جبکہ شوہر کا بیان ہے کہ میں نے طلاق کی نیت نہیں کی تھی۔

قَوْلُهُ: وَرُكْنُهُ لَفْظٌ مَخْصُوصٌ: هُوَ مَا جُعِلَ دَلَالَةً عَلَى مَعْنَى الطَّلَاقِ مِنْ صَرِيحٍ أَوْ كِنَايَةٍ فَخَرَجَ الْفُسُوخُ عَلَى مَا مَرَّ، وَأَرَادَ اللَّفْظَ وَلَوْ حُكْمًا لِيُدْخِلَ الْكِتَابَةَ الْمُسْتَبِينَةَ وَإِشَارَةَ الْأَخْرَسِ وَالْإِشَارَةَ إلَى الْعَدَدِ بِالْأَصَابِعِ فِي قَوْلِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ هَكَذَا، كَمَا سَيَأْتِي. وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ مَنْ تَشَاجَرَ مَعَ زَوْجَتِهِ فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ يَنْوِي الطَّلَاقَ وَلَمْ يَذْكُرْ لَفْظًا لَا صَرِيحًا وَلَا كِنَايَةً لَايَقَعُ عَلَيْهِ، كَمَا أَفْتَى بِهِ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُهُ". ( فتاوی شامی، کتاب الطلاق، رُكْن الطَّلَاق،3/230)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1470/42-952

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔(1)فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت واجب ہے اور آخر کی دو رکعتوں میں سنت ہے،پہلی رکعت میں اگر ثنا کی جگہ پر التحیات پڑھ لی تو تشہد ثنا کے قائم مقام ہو جائے گااس لئے اس سے سجدہ  سہووا جب نہیں ہوگا۔البتہ دوسری رکعت میں بلا تاخیر قرأت واجب ہے اس لئے اگر دوسری رکعت میں فاتحہ سے قبل تشہد پڑھ لیا تو واجب میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوگا،علاوہ ازیں تیسری  اور چوتھی رکعت میں چونکہ قرأت سنت ہے اس  لئے اگر تیسری اور چوتھی رکعت  کے شروع میں تشہد پڑھ لیا تو کسی واجب میں تاخیر کا سبب نہیں بنا اس لئے اس صوت میں سجده سہو واجب نہیں ہوگا۔

(2)دوسرے مسئلہ کی جو تفصیل آپ نے لکھی ہے وہ درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ صورت میں تفصیل یہ ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو  اور تشہد میں شریک ہوگا ، سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا۔ اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور بناء نہیں کرسکے گا، لیکن اگر بھول کر امام کے ساتھ سہو کا سلام پھیردیا   تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اوراس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا، کیونکہ امام ابھی نماز میں ہے اور مسبوق نے امام کی اقتداء میں سہوا سلام پھیرا ہے۔ اور مقتدی جب تک امام کی اقتداء میں ہو اس کا سہو غیر معتبر ہے۔ 

ان قرأ التشہد  فی قیام الاولی قبل الفاتحۃ أو فی الثانیۃ بعد السورۃ أو فی الأخر يین مطلقاً لا سہو علیہ وان قرأفی الاولیین بعد الفاتحۃ والسورۃ او فی الثانیۃ قبل الفاتحۃ وجب علیہ السہو لانہ اخر واجباً(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی ص:۱۶۴،باب سجود السہو،الھندیہ ص:۷۲۱،ج:)وان قرأ الفاتحۃ مکان التشہد فعلیہ السہو دکذلک اذا قرأالفاتحۃ ثم التشہد کان علیہ السہو (الھندیۃ ص:۲۷۱،ج1) (کبیری ص397)

المسبوق إنما يتابع الإمام في السهو دون السلام، بل ينتظر الإمام حتى يسلم فيسجد فيتابعه في سجود السهو لا في سلامه. وإن سلم فإن كان عامدا تفسد صلاته، وإن كان ساهيا لا تفسد، ولا سهو عليه؛ لأنه مقتد، وسهو المقتدي باطل، فإذا سجد الإمام للسهو يتابعه في السجود ويتابعه في التشهد، ولا يسلم إذا سلم الإمام؛ لأن هذا السلام للخروج عن الصلاة وقد بقي عليه أركان الصلاة فإذا سلم مع الإمام فإن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته؛ لأنه سلام عمد، وإن لم يكن ذاكرا له لا تفسد؛ لأنه سلام سهو فلم يخرجه عن الصلاة (علاء الدین الکاسانی، بدائع الصنائع، فصل بیان من یجب علیہ سجود السھو و من لا، 1/176)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 1852/43-1677

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر کی ہر مسجد میں جمعہ قائم کرنا ضروری نہیں ہے، جمعہ جامع مسجد میں  قائم کرنا چاہئے، اور شہر کے لوگوں کو جامع مسجد کا رخ کرنا چاہئے تاکہ اجتماعیت کا ظہور ہو۔

اگر کسی نے ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے تو اس کے شہر میں ہونے کی وجہ سے اس پر جمعہ فرض ہے، اس لئے ایسی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے نکلنا ضروری ہے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔ جمعہ کی شرائط پائی جانے کے باوجود چونکہ جمعہ ہر مسجد میں قائم کرنا ضروری نہیں ہے،۔ اس لئے جب تک جمعہ اس مسجدِ معتکَف میں قائم نہ ہوگا، اس کے لئے دوسری مسجد کا رخ کرنا ضروری ہوگا۔ اور اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔

وحرم عليه) ... (الخروج إلا لحاجة الإنسان) طبيعية كبول وغائط وغسل لو احتلم ولايمكنه الاغتسال في المسجد، كذا في النهر (أو) شرعية كعيد وأذان لو مؤذناً وباب المنارة خارج المسجد و (الجمعة وقت الزوال ومن بعد منزله) أي معتكفه (خرج في وقت يدركها) مع سنتها يحكم في ذلك رأيه، ويستن بعدها أربعاً أو ستاً على الخلاف، ولو مكث أكثر لم يفسد؛ لأنه محل له وكره تنزيهاً؛ لمخالفة ما التزمه بلا ضرورة" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 444)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عالی میں مذکورہ جملہ بولنا رسول خدا کی توہین کرنا ہے اوراہانت رسول کفر ہے بس ایسا جملہ بولنے والا شرعاً کافر ہوجاتا ہے۔ اس کو چاہئے کہ ایمان قبول کرے اور ہمیشہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتا رہے اورمولانا اسماعیل شہید ؒ کی کتاب میں یا کسی تحریر میں ایسا جملہ نہیں ہے جو شخص ان کی طرف ایسی باتوں کو منسوب کرتا ہے وہ بہتان طراز اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔(۱)

۱) {إِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ یُّقَتَّلُوْٓا أَوْ یُصَلَّبُوْٓا أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیْہِمْ  وَأَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِي الْأٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْم’‘ ہلا ۳۳ إِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا أَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہع ۳۴} (سورۃ المائدہ: ۳۳، ۳۴)
والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لا عباً کفر عند الکل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۰)
وقال مع ذلک: إن الأنبیاء -علیہم السلام- عصواً فکافر، … ولو قال: ’’محمد در ویشک بود‘‘ أو قال: ’’جامد پیغمبر ربماک بود‘‘ أو قال: قد کان طویل الظفر، فقد قیل: یکفر مطلقاً، وقد قیل یکفر إذا قال علی وجہ الإہانۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص220

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2371/44-3575

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سڑکیں سرکار کی ہوتی ہیں، اس میں سرکار کی اجازت کے بغیر کسی طرح کا تصرف جائز نہیں ہے۔اس لئے مسجد والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ لیکن اب جبکہ بورنگ ہوچکی ہے بہتر ہوگا کہ سرکاری طور پر اجازت لے لی جائے اور رسید کٹوالی جائے، تاہم اس پانی سے وضو اور نماز میں کوئی حرج نہیں ہے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوی کے ذریعہ قرآن وحدیث کا حکم بتلایا جاتا ہے، فتوی دینے والا در اصل اللہ تعالیٰ کا حکم بتلاتا ہے، دارالافتاء فتوی دیتا ہے ماننے پر مجبور نہیں کرتا، اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اس سے انکار کرنابے جا جرأت اوربے دینی کا عمل ہے، ہاں اگر فتوی میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یاقابل اشکال ہو، تو اس کو دوبارہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (۱)

(۱) رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا وقال: ’’چہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر لأنہ رد حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتویٰ علی الأرض وقال: ’’ایں چہ شرع است‘‘ کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفرأنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
الہازل أو المستہزئ إذا تکلم استخفافاً واستہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل، وإن کا اعتقادہ خلاف ذلک۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص:
۲۸۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص158

نماز / جمعہ و عیدین
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=7081/%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%B9%D9%84%DB%8C%DA%A9%D9%85%D8%8C%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%A8%D8%B1-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%A8%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%B3%D9%88%D8%A7%D9%84%DB%8C%DB%81-%DA%A9%D9%88%D9%86%D8%B3%DB%8C-%D8%AA%D9%84%D8%A7%D9%88%D8%AA-%DA%A9%D8%B1%DB%92%D8%9F&show=7081#q7081

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر سر پر مہندی لگی ہو اور وہ خشک ہوگئی، یا جم گئی ہو، تو اس صورت میں سر پر مسح کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ سر پر مہندی خشک ہونے یا جم جانے کی وجہ سے پانی کی تری سر پر پہنچنے سے مانع ہے؛ البتہ اگر مہندی گیلی ہو اور پانی کی تری بالوں تک پہونچنے میں کوئی مانع نہ ہو یا مہندی دھولی گئی ہو اور سر پر صرف مہندی کا رنگ باقی ہو، تو اس پر مسح کرنا درست ہوگا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’والخضاب إذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل، کذا في السراج الوہاج ناقلًا عن الوجیز‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’(ولا یمنع) الطہارۃ (ونیم) أي خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ (وحناء) ولو جرمہ بہ یفتی، قولہ: (بہ یفتی) صرح بہ في المنیۃ عن الذخیرۃ في مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ، قال في شرحہا: ولأن الماء ینفذہ لتخللہ، وعدم لزوجتہ وصلابتہ والمعتبر في جمیع ذلک نفوذ الماء ووصولہ إلی البدن‘‘(۲)
نیز آج کل جو مارکیٹ اور بازاروں میں مہندی دستیاب ہے، اگر اس کو استعمال کرنے سے تہ جم جاتی ہو، مثلاً نیل پالش اس کی تہ جم جاتی ہے اس لیے نیل پالش لگانے والی عورت کا وضو اور غسل درست نہیں ہوتا اسی طرح اگر وہ مہندی (جو مارکیٹ میں دستیاب ہے) جسم تک پانی پہنچنے سے مانع ہو، تو ایسی مہندی لگانے سے وضو اور غسل درست نہیں ہوتا ہے۔
اور اگر کیمیکل والی مہندی کی تہ نہیں جمتی، یا تہ جمتی ہے؛ لیکن ایسی نہیں جو جلد تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہو؛ بلکہ کیمیکلز کی وجہ سے کھال ہی تہ وپپڑیوں کی شکل میں اترتی ہے، اگر یہی صورتحال ہے  تو ایسی مہندی لگانا جائز ہے۔ اور اس کی پہچان کے لیے فتاویٰ میں دو طریقے لکھے گئے ہیں:
(۱) کیمیکل والی مہندی جسم کے کسی بھی حصے پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں اور دیکھیں کہ جلد پر مہندی کے کلر سے پسینہ نکلتاہے یا نہیں؟ اگر پسینہ نکلتا ہے، تو یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ تو ایسی مہندی کا استعمال کرنا جائز ہے۔
(۲) کیمیکل والی مہندی کو کسی کاغذ پر لگائیں، سوکھنے کے بعد اسے اتاردیں، کاغذ پر جو کلر آیا ہے، اس پر پانی کے چند قطرے ڈال کردیکھیں کہ پانی کی تری کاغذ کی دوسری سمت میں آتی ہے یا نہیں، اگرپانی جذب ہوکر دوسری سمت میں آجا تا ہے یا اس کی تری آجاتی ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ محض کلر ہے، تہ وغیرہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اس طرح کی مہندی کا استعمال بھی درست ہے۔
’’إن بقی من موضع الوضوء قدر رأس إبرۃ أو لزق بأصل ظفرہ طین یابس أو رطب لم یجز وإن تلطخ یدہ بخمیر أو حناء جاز‘‘(۱)
’’إمرأۃ اغتسلت وقد کان الشان بقی في أظفارہا عجین قد جف لم یجز غسلہا وکذا الوضوء لا فرق بین المرأۃ والرجل لأن في العجین لزوجۃ وصلابۃ تمنع نفوذ الماء، وقال بعضہم: یجوز الغسل لأنہ لا یمنع،والأول أظہر‘‘(۲)
’’و ’’الثالث‘‘ زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد ’’لحرمۃ الحائل‘‘ کشمع وشحم ’’قید بہ لأن بقاء دسومۃ الزیت ونحوہ لا یمنع لعدم الحائل‘‘(۳)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۸۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء، الفرض الثاني، غسل الیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۔
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي المعروف الحلبي الکبیري، ’’في بیان فضیلۃ المسواک، (فروع)‘‘: ج۱، ص: ۴۲۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: شروط صحۃ الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص174

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزیک وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام سے پڑھنا واجب ہے، اگر درمیان میں دورکعت پر سلام پھیر دیا تو منافی نماز یعنی سلام کے پائے جانے کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی؛ اس لیے حنفی شخص کا حنبلی مسلک کے مطابق وتر کی نماز پڑھانا درست نہیں ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے اس کا جواب یہی ہے کہ اگر حنفی شخص کا شوافع کی اقتدا میں وتر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ تاہم بعض ائمہ احناف نے اس کی گنجائش دی ہے؛ اس لیے اگر ضرورتاً اس طرح نماز پڑھنے کی ضرورت پڑے تو اس کی گنجائش ہے؛ جیسا کہ بسااوقات حرمین شریفین میں اس کی نوبت آجاتی ہے تو ایسے مواقع میں اس طور پر امام کی اقتداء کرلینے کی گنجائش ہے۔
’’(وصح الاقتداء فیہ) ففي غیرہ أولٰی إن لم یتحقق منہ ما یفسدہا في اعتقادہ في الأصح کما بسطہ في البحر (بشافعي) مثلا (لم یفصلہ بسلام) لا إن فصلہ (علی الأصح) فیہما للاتحاد وإن اختلف الاعتقاد‘‘(۱)
’’(قولہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا) روی الحاکم وقال علی شرطہما عنہا قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوتر بثلاث لا یسلم إلا في آخرہن،  قیل للحسن إن ابن عمر کان یسلم في الرکعتین من الوتر فقال کان عمر أفقہ منہ وکان ینہض في الثانیۃ بالتکبیر ‘‘(۲)
’’ولا عبرۃ بحال المقتدي، وإلیہ ذہب الجصاص، وہو الذي اختارہ لتوارث السلف، واقتداء أحدہم بالآخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع، وإنما کانوا یمشون علی تحقیقاتہم إذا صلوا في بیوتہم، أما إذا بلغوا في المسجد فکانوا یقتدون بلا تقدم وتأخر، ولن ینقل عن إمامنا أنہ سأل عن حال الإمام في المسجد الحرام مع أنہ حج مرارا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص: ۴۴۴۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۳) الکشمیري، فیض الباري، شرح البخاري،’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص254