Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1029
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The amount of interest given to the poor is not required to be from the same account in which the interest was received. The amount in bank as it is in account holder’s hands. So, if the amount credited to any account of account holder it is regarded as in his hands. There is no wrong in giving the same amount of money (equal to interest) from other accounts or even from one’s pocket. (See Fiqhul Buyoo’ by Mufti Taqi Usmani for detail)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1002/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شرعی اعتبار سے، کل رقم 40 لاکھ کو 259200 حصوں میں تقسیم کریں گے۔
1. جن کے مطابق بیوی کو بیوی اور بیٹوں اور بیٹی کی ماں ہونے کے اعتبار سے کل 797499 روپئے دئے جائیں گے۔ اور پہلے بطن میں جو بیٹا زندہ ہے اس کو 700000 روپئے دئے جائیں گے۔ اور تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 350000 دئے جائیں گے۔
2. پھر بیٹی کے ورثہ میں دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 97222 روپئے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 48611 روپئے دئے جائیں گے۔
3. پھر پہلے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو 245000 روپئے دئے جائیں گے۔
4. پھر دوسرے بیٹے کے ورثہ میں سے اس کی بیوی کو 87500 روپئے اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو 165277 روپئے دئے جائیں گے۔ اور اس کی دونوں بیٹیوں کو 82638 روپئے دئے جائیں گے۔
نوٹ: کل تقسیم شدہ روپئے ہوئے 3999995 اب باقی ماندہ پانچ روپئے کوباہمی اتفاق سے صدقہ کردیا جائے تو بہترہے۔
نوٹ: آئندہ وراثت کی تقسیم میں تمام ورثہ کا نام ضرور لکھیں تاکہ سمجھنے میں سہولت ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1105/42-318
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, the narration is authentic and recorded in Sahih Al-Bukhari.
عن نافع ان ابن عمر کان اذا دخل فی الصلوۃ کبر ورفع یدیہ واذا رکع رفع یدیہ واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ رفع یدیہ واذا قام من الرکعتین رفع یدیہ رفع ابن عمر الی النبی ﷺ۔ (صحیح البخاری باب رفع الیدین اذا قام حدیث نمبر 739)
(Translation: it is narrated by Nafi' that whenever Ibn 'Umar started the prayer with Takbir, he used to raise his hands: whenever he bowed, he used to raise his hands (before bowing) and also used to raise his hands on saying, "Sami a-l-lahu Liman hamida", and he used to do the same on rising from the second Rak'a (for the 3rd Rak'a). Ibn 'Umar said: "The Prophet (Sallallähu Alaihi Wasallam) used to do the same."
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1367/42-778
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There are differences between the Ahle-Hadeeth and the Hanafis on intellectual, jurisprudential and theological issues. Ahle-Hadeeth follow Salaf in Aqeedah whereas Hanafis are Maturidi and Ash'ari in Aqeedah. Similarly in Fiqh, Hanafis follow Imam Abu Hanifa, while Ahle-Hadeeth do not follow any Imam. According to the Hanafis, taqlid (following an Imam) is obligatory, while among the Ahl al-Hadith, taqlid is an un-Islamic act. There is disagreement in many such doctrinal discourses. Therefore, you have to opt for a madrassa or school of Hanafi school of thought, so that you can be aware of the correct point of view of Islamic sciences.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1467/42-907
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں سلمان کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں، صریح لفظوں سے طلاق دینے میں نیت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب میاں بیوی کے درمیان نکاح باقی نہیں رہا۔ عورت کی عدت وضع حمل ہے، لہذا عورت بچہ کی ولادت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ سلمان سے اس کا نکاح نہ اب جائز ہے اور نہ عدت کے بعد جائز ہے، اب دونوں آزاد ہیں۔ فی الحال بیوی کو اپنے نکاح میں لانے کی کوئی صورت نہیں ہے البتہ اگر عورت کسی دوسرے مرد اے نکاح کرلیتی ہے اور پھر وہ طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو سلمان کا اس عورت سے نکاح ہوسکتاہے۔
لأن الصريح لا يحتاج إلى النية. (شامی، باب صریح الطلاق، 3/249) والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم. (بدائع الصنائع، فصل فی النیۃ فی احدنوعی الطلاق 3/102)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗؕ-فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ(سورۃ البقرۃ 230)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1569/43-1084
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ پر گرچہ کوئی عبادت فرض نہیں ہے لیکن اگر وہ عبادت کرتاہے تو اس کواس کا ثواب ملتاہے، جب اس کو ثواب ملتاہے تو ایصال ثواب بھی کرسکتاہے۔اس لئے نابالغ بچہ بھی اگر قرآن کی تلاوت کرکے ثواب مردوں کو(رشتہ دار واجنبی) پہونچا ئے تو اس کا یہ ایصال ثواب درست ہے اور اس سے مردوں کو فائدہ پہونچے گا۔
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم لقي ركبا بالروحاء، فقال: «من القوم؟» قالوا: المسلمون، فقالوا: من أنت؟ قال: «رسول الله»، فرفعت إليه امرأة صبيا، فقالت: ألهذا حج؟ قال: «نعم، ولك أجر»(صحیح مسلم کتاب الحج ،باب صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ 2/974)
’ان المراد ان ذلك بسبب حملها له وتجنيبها اياه ما يجتنبہ المحرم واستدل به بعضهم على ان الصبي يثاب على طاعته ويكتب له حسناته وهو قول اكثر اهل العلم (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری،ج7،ص553،مطبوعہ ملتان)
وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘(الاشباہ والنظائر،ص264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) الاصل فی ھذا الباب ان الانسان له ان يجعل ثواب عمله لغيره) يعني سواء كان جعل ثواب عمله لغيره(صلاةاو صوما او صدقة او غيرها)كالحج وقراءة القران والاذكار وزيارة قبور الانبياءوالشهداء والاولياءوالصالحين وتكفين الموتى وجميع انواع البر (البنایہ شرح ھدایہ،کتاب الحج ،باب الحج عن الغیر،ج4،ص422،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جانا، اور آیات قرآنی پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانا، اور دعائے مغفرت کرنا، بلا شبہ جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت البقیع میں تشریف لے جاتے، اور ایصال ثواب، دعاء مغفرت فرماتے تھے؛ البتہ مزارات پر جاکر خلاف شریعت امور کرنا اور رونا، یا صاحب مزار سے امداد طلب کرنا جائز نہیں ہے، مگر توسل کی اجازت ہے، اور حضرت ابوبکر وعمر اور دوسرے اکابر صحابہؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے دعاء میں وسیلہ اختیار کیا جہاں تک نیاز کی بات ہے تو اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلا شبہ یہ بدعت ہے، اور اگر مزار ہی پر جاکر ایصال ثواب کی نیت سے بکرا ذبح کرکے کھانا وغیرہ بناکر فقراء کو تقسیم کردیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں لیکن مزار ہی پر جاکر ایسا کرنے کو اگر ضروری سمجھا جائے گا تو بدعت میں شمار ہوگا، جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے وہ اللہ ہی کے نام ذبح کرتا ہے، اور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرتا ہے؛ اس لئے اس بکرے کے گوشت کو کھانا بھی جائز ہے مگر صرف غرباء کا حق ہے، جو صاحب نصاب ہو ان کے لئے اس کا کھانا مناسب نہیں، اور اگر نذر مانی گئی ہو تو اس صورت میں صاحب نصاب کو کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع فیقول السلام علیکم دار قوم مؤمنین إلخ۔ ( أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم عن أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)
إن الاراقۃ لم تعقل قربۃ بنفسہا وإنما عرفت قربۃ بالشرع والشرع ورد بہا في مکان مخصوص، أو زمان مخصوص فیتبع مورد الشرع فیتقید کونہا قربۃ بالمکان الذي ورد الشرع بکونہا قربۃ فیہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص337
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں پہلی بات تو یہ ہے کہ زید کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں ہیں یہ قول بالکل درست ہے، جس مبتدع نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہا ہے اس نے بصراحت آپ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی فرق نہیں کیا ہے؛ چوںکہ قرآن نے علی الاعلان کہا ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، من جملہ انہیں میں غیب کا علم بھی ہے۔(۱) انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے مقام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر رکھیں، مگر ان بدعتیوں کو کیا کہئے، کار بد تو خود کریں، تہمت دھریں شیطان پر؛ نیز کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا کوئی سہل کام نہیں ہے، چوںکہ فقہاء نے صاف فرمادیا ہے کہ اگر کسی شخص میں ۹۹؍ احتمالات کفر کے اور ایک احتمال ایمان کا ہو، تو بھی اس کو کافر نہ کہا جائے۔(۲) پھر اس کی مثال تو غُلیل کے غلہ کی سی ہے کہ اگر غلہ کسی نرم زمین پر پڑے گا، تو اس میں پیوست ہوجائے گا اور اگر سخت زمین پر پڑے گا، تو پھینکنے والے پر لوٹ آئے گا۔(۳) خلاصہ کلام یہ کہ کسی کو کافر کہنے سے احتیاط ضرور برتنی چاہئے، زید کے یہاں کھانا پینا، اس کے پاس اٹھنا، بیٹھنا سب درست ہے اور اس کا ایک نہیں؛ بلکہ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ج وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ج وَیَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًاط وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ ط إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌہع۳۴} (سورۃ لقمان: ۳۴)
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵)
(۲) إن المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر إذا کان لہا تسع وتسعون احتمالاً للکفر واحتمال واحد في نفیہ فالأولی للمفتي والقاضي أن یعمل بالاحتمال الثاني۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۹۹)
(۳) ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أیما إمرئ قال لأخیہ یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال وإلا رجعت علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص250
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صرف دعاء کے لئے اجتماع اور اس کے لئے دن مقرر کرکے لوگوں کو دعوت دینا، اس کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ملتی؛ اس لئے اس کا رواج بنانا اور اس کے لئے دعوت دینا صحیح نہیں ہے، اس عمل کو ترک کردینا لازم ہے (۲)، ہاں اگر تبلیغ اسلام اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی باتیں بتانے کے لئے کوئی دن مقرر کرلیں کہ لوگوں کے جمع ہونے میں سہولت ہو اور اس پروگرام کے اختتام پر دعاء بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۳)
(۲) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۳) {وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَہ۳۳} (سورۃ فصلت: ۳۳)
بلغوا عني ولو آیۃ۔ (محمد عبد الرحمن المبارکفوري، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص365