Divorce & Separation

Ref. No. 2146/44-2203

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

After one divorce, when the three menstrual periods have passed, it became irrevocable divorce and your marriage is no longer obtainable. Hence, she became a stranger to you. Nevertheless, if the woman wants to marry another man, she can do that. And if she is ready to marry you and both of you agree to get married again, then you can get married and live together, but it should be kept in mind that in the future you will have right to only two divorces.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 418):

"(والزوج الثاني يهدم بالدخول) فلو لم يدخل لم يهدم اتفاقًا قنية (ما دون الثلاث أيضًا)."

 

Darul Uloom Waqf Deoband 

And Allah knows best

Darul Ifta

 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2264/44-2418

In the name of Allah the most Gracious the most mMerciful

The answer to your question is as follows:

If one wants to marry someone, then there is no harm in supplicating for her\him and one can supplicate Allah Ta'ala for the said purpose. However, one is not allowed to talk to a stranger man or to a stranger woman before marriage. Just being engaged does not eliminate the strangeness.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 2548/45-3886

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

(1) The water coming out of the private parts is impure. If it gets on the clothes, the clothes become impure. However, it is not obligatory for you to perform ghusl, but it is sufficient to wash the private part and the portion of the clothes where the impurity existed. (2) If the amount of impurity is more than one dirham (coin), it is necessary to wash the clothes. Even if it is dried up, it is not permissible to wear it and pray without washing away the impurity. It will be necessary to wash the area. (3) If there was impurity in the organ and it was washed and purified in the sink, the sink was also purified, it is not necessary to wash it separately, but for comfort, one should wash it again and perform ablution in that place.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعبیر اچھی ہے، خوشی میسر ہوگی، بیماری سے شفا ملے گی اور عبادت کی توفیق ملے گی ان شاء اللہ۔ علم وحکمت، میراث، امانت، روزی حلال، دین ودیانت کی بھی دلیل ہے۔ (۱) (۱)حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ خواب میں مصحف کا دیکھنا پانچ چیزوں پر دلیل ہے:… (۱) علم وحکمت (۲) میراث (۳) امانت (۴) روزی حلال (۵) دین ودیانت۔ (علامہ ابن سیرین، تعبیر الرؤیا، ’’باب میم مصحف وقرآن مجید‘‘: ص: ۵۴۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص174

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2682/45-4141

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی جو رقم معاف کی گئی ہے وہ میت سے معاف کی گئی ہے لہذا اگر قرض خواہ اپنا قرض لے کر میت کے بچوں کو دیدیتے تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن جب انہوں نے قرض معاف کیا ہے تو باقی ماندہ کل  رقم میں یعنی  چالیس ہزار میں سے ماں کو سدس ملے گا اور اس کے ساتھ جو دیگر مال واسباب ہوں ان کو بھی تقسیم سے قبل شامل کرکے ماں کو سدس دیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا، تو اجازت ہوگئی، اب امام صاحب سے صراحۃً اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، نماز بہرصورت درست ہوگئی۔(۱)

(۱)  عن أوس بن ضمعج، عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:… لایؤم الرجل في سلطانہ و لایجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الأدب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۵، ص: ۹۹، رقم: ۲۷۷۲، وکذا في أبواب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
(ولایؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أي: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو في محل یکون في حکمہ، ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلي خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ، وکذلک إذا أمہ في قومہ وأہلہ أدی ذلک إلی التباغض والتقاطع، وظہور الخلاف الذي شرع لدفعہ الاجتماع، فلا یتقدم رجل علی ذي السلطنۃ، لا سیما في الأعیاد والجمعات، ولا علی إمام الحي ورب البیت إلا بالإذن۔ قالہ الطیبي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص265

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت کھنکھارنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر ضرورت ہو مثلاً آواز بند ہوگئی، سانس رک گئی یا پڑھنا مشکل ہوجائے تو کھنکھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کھنکھار کر آواز کو درست کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کھنکھارنے کے ساتھ کوئی آواز نہ نکلے اور اگر کھنکھاریا کھانسی کے ساتھ بلا اضطرار دو حرف نکل بھی گئے مثلاً اُح کی آواز نکل گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی البتہ اضطرار کی حالت مستثنیٰ ہے۔(۱)

(۱) عقب العارض الاضطراري بالاختیاري (یفسدہا التکلم) … (قولہ: والتنحنح) ہو أن یقول: أح بالفتح والضم۔ بحر۔ (قولہ: بحرفین) یعلم حکم الزائد علیہما بالأولی، لکن یوہم أن الزائد لو کان بعذر یفسد، ویخالفہ ظاہر مافي النہایۃ عن المحیط، من أنہ إن لم یکن مدفوعاً إلیہ بل لإصلاح الحلق؛ لیتمکن من القراء ۃ إن ظہر لہ حروف۔ ( الحصکفي ، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص:۳۷۰ و ۳۷۶)
یفسد الصلاۃ، التنحنح بلاعذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین، ولو لم یظہر لہ حروف، فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ، کذا في البحر الرائق و إن کان بعذر، بأن کان مدفوعا إلیہ، لا تفسد لعدم إمکان الاحتراز عنہ، وکذا الأنین والتأوہ إذا کان بعذر بأن کان لایملک نفسہ، فصار کالعطاس والجشاء۔ ولو عطس أو تجشأ فحصل منہ کلام، لا تفسد، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج۱، ص: ۱۵۹، ۱۶۰ مکتبہ فیصل دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص113

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2815/45-4402

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصحاب کہف کے ساتھ غار میں جو کلب تھا اس سے مراد کتاہے ،اس لیے کلب کے متعارف معنی کتا کے آتے ہیں اورذہن کلب سے کتا ہی طرف سبقت کرتاہے جمہور مفسرین نے بھی کلب سے کتاہی مراد لیا ہے ہاں ابن جریج وغیرہ کا قول شیر یا چیتاکے بارے میں بھي منقول ہے لیکن اہل علم سے اس قول کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس طرح ہم کتب تفاسیرمیں ایک آیت کی مختلف تفاسیر دیکھتے ہیں لیکن جمہور نے جس قول کولیا ہے اسی پر اعتماد کیا جاتاہے انفرادی اقوال پر نہیں ۔ہاں تفسیر کرتے اس طرح کہنا کہ عام مفسرین نے کلب سے کتا مراد لیا ہے لیکن بعض مفسرین نے یا مثلا ابن جریج نے کلب سے شیر مراد لیا ہے تو اس طرح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن جمہور کے قول کی تردید کرتے ہوئے اس طرح کہنا کہ کتا نہیں شیر تھا یہ غلط تفسیر ہے کسی نے بھي اس طرح نہیں کہا ہے اور اس انفرادی قول کے متعین کرنے اور جمہور کے قول کو غلط قرار دینے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں بھي کلب سے کتا ہی مراد لیا ہے ۔وقد قيل: إنه كان كلب صيد لأحدهم، وهو الأشبه. وقيل: كان كلب طباخ الملك، وقد كان وافقهم على الدين فصحبه كلبه فالله أعل(تفسیر ابن کثیر5/144) في {كلبهم} قولان: أحدهما: أنه كلب من الكلاب كان معهم , وهو قول الجمهور. وقيل إن اسمه كان حمران. الثاني: أنه إنسان من الناس كان طباخاً لهم تبعهم , وقيل بل كان راعياً. (تفسیر ماوردی،3/292) اختلف أهل التأويل في الذي عنى الله بقوله: (وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ) فقال بعضهم: هو كلب من كلابهم كان معهم، وقد ذكرنا كثيرا ممن قال ذلك فيما مضى، وقال بعضهم: كان إنسانا (1) من الناس طباخا لهم تَبِعهم.(تفسیر طبری،17/624) وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ قال ابن عباس: كان كلبا أغر وعنه أنه كان فوق القلطي ودون الكرزي. والقلطي كلب صيني وقيل كان أصفر وقيل كان شديد الصفرة يضرب إلى حمرة، وقال ابن عباس: كان اسمه قطمير وقيل ريان وقيل صهبان قيل ليس في الجنة دواب سوى كلب أصحاب الكهف وحمار بلعام بِالْوَصِيدِ أي فناء الكهف، وقيل عتبة الباب وكان الكلب قد بسط ذراعيه وجعل وجهه عليهم، (تفسیر خازن ،3/160)أكثر أهل التفسير على أنه كان من جنس الكلاب. وروي عن ابن جريج: أنه كان أسدا وسمي الأسد كلبا.«1347» فإن النبي صلى الله عليه وسلم دعا على عتبة بن أبي لهب فقال: «اللهم سلط عليه كلبا من كلابك» ، فافترسه أسد، والأول المعروف، قال ابن عباس: كان كلبا أغر [4] . ويروى عنه [أنه] [5] فوق القلطي ودون الكردي [6] ، والقلطي كلب صيني. وقال مقاتل: كان أصفر. وقال القرظي: كانت شدة صفرته تضرب إلى الحمرة. وقال الكلبي: لونه كالحليج. وقيل: لون الحجر(تفسیر بغوی ،3/183)
ان تمام تفاسیر میں اگرچہ شیر کا ایک قول اور ایک رائے ابن جریج کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے لیکن کسی بھی مفسرنے بھی کتا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اس لیے اگر اس قول کو بیان کیاجائے تو اسی طرح بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اصحاب کہف کا کتاتھا جمہور کی یہی رائے ہے جب کہ ایک رائے بعض مفسرین کی یہ بھی ہے کہ وہ شیرتھا۔لیکن کتاکی نفی کرکے شیر کے قول کو ترجیح دینا اور اسی کو صرف بیان کرنا درست تفسیر نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم بالصواب

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 819

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کسی بھی جاندار کی تصویر  لگا نے سے احتراز کیا جائے، اور شناخت کے لیے کوئی دوسرا طریقہ  بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 40/911

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند