Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتنے مال کا نقصان لازم آرہا ہوکہ مالک اس کو بآسانی برداشت نہیں کرسکتا؛ بلکہ اس کو تکلیف ہوگی، تو شرعاً نماز توڑنے کی رخصت واجازت ہے اور جس کو برداشت کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو جیسے آج کے دور میں ایک دو روپیہ، تو اجازت نہ ہوگی۔(۱)
(۱) یقطعہا لعذر إحرازاً لجماعۃ کما لوندت دابتہ أو فار قدرھا أو خاف ضیاع درہم من مالہ، … لم یفصل في الکتاب بین المال القلیل والکثیر، وعامۃ المشایخ قدروہ بدرہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰۳، ۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص95
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ قرأت کی واجبی مقدار چھوٹی تین آیات یا ایک بڑی آیت ہے۔
مذکورہ صورت میں ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کے ساتھ نماز درست ہوگی۔(۲)
(۲) وتجب قراء ۃ الفاتحۃ وضم السورۃ أو مایقوم مقامہا من ثلاث آیات قصار، أو آیۃ طویلۃ في الأولیین بعد الفاتحۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، زکریا دیوبند)
والثاني ضم سورۃ قصیرۃ أو ثلاث آیات قصار، قولہ أو ثلاث آیات قصار قدر أقصر سورۃ أو آیۃ طویلۃ تعدل ثلاث آیات قصار۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۸، شیخ الہند دیوبند)
ویجب سجدتان بتشہد وتسلیم لترک الواجب بتقدیم أو تأخیر أو زیادۃ أو نقص۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص214
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا مسنون ہے، جمعہ کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا سنت نہیں ہے۔
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر، دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت النازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص323
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: احادیث مبارکہ میں اشراق کی نماز کی بے حد فضیلت وارد ہوئی ہیں، اشراق میں افضل یہ ہے کہ فجر کی نماز پڑھ کر انسان اسی جگہ پر بیٹھ کر ذکر واذکار اور تلاوت کرتا رہے اور طلوعِ آفتاب کے تقریباً پندرہ یا بیس منٹ کے بعد کم از کم دو رکعت نماز پڑھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجائے، پھر اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کو کامل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے، تو گھر آکر یا کوئی دوسرا کام کر کے بھی اشراق کی رکعتیں پڑھ سکتا ہے۔ ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔
’’عن أنس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من صلی الغداۃ في جماعۃ، ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔‘‘(۱)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السفر، باب ذکر ما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص:۱۳۰، رقم: ۵۸۶۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص434
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1012 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کا کاروبار سود پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں سود کوحرام کہا گیا ہے، اللہ تعالی نے سودی کاروبار والے کوجنگ کی دھمکی دی ہے، اور حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ نے سود کھانے کوماں سے زنا کے مانند قراردیا ہے۔ اس لئے سودی معاملات بھی حرام ہیں اور ہر ایسے کام کی ملازمت بھی جس میں لینے، دینے، لکھنے اور گواہی دینے کے اعتبار سے سود پر تعاون ہو ، یہ سارے امورناجائز اور حرام ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، سود کے لکھنے والے پر اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں، (مشکوٰۃ)۔ جو حکم قرآن وحدیث سے صراحت سے ثابت ہے اس میں کسی قسم کا شک کرنا ایمانی تقاضہ کے منافی ہے، جب سود حرام ہے تو اس کو محنت سے حاصل کیا جائے یا بلامحنت موصول ہو بہر صورت حرام ہی رہے گا۔ خنزیر پر بسم اللہ پڑھ دینے سے اس کا گوشت حلال نہیں ہوجائے گا، ماں، بہن، بیٹی سے نکاح پڑھا لینے سےوہ حلال نہیں ہوجائیں گی۔ اس لئے سودی کاروبار اور سود پر ہر طرح کے تعاون سے اجتناب لازم اور فرض ہے۔اللہ تعالی حلال اشیاء کی عظمت اور حرام اشیاء کی کراہت ہمارےدلوں میں بٹھادے کہ ہمارے دلوں کو پھیرنے والا وہی ہے ۔ آمین۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1246 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
Please find below the answer to your question:
When the father is alive, he is the owner of all his properties. Children shall have no share in the property of their father in his lifetime. After father's death, the heirs will own all his properties. The children die in the lifetime of their father shall have no share in his property. The heirs are those who were alive at the time of their father's death, and they will have share in the property of their deceased father.
In the above mentioned case, when the Khalu was not alive at the time of his father's death, he shall have no share in his property.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref No. 38 / 1210
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز جیسی چھوٹی ہے اسی ترتیب سے ادا کیجاتی ہے۔ عید کی نماز میں کوئی الگ ترتیب نہیں ہے۔ امام کے سلام کے بعد مسبوق دونوں رکعتیں مع زائد تکبیرات کے ادا کرے بالکل اسی طرح جس طرح امام نے ادا کئے تھے۔ یعنی پہلی رکعت میں ثنا پڑھنے کے بعد تین تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعدتین تکبیریں کہے۔کذا فی الفقہ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 903/41-11B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علماء وصلحاء کا لباس اختیار کرنا چاہئے، اور لباس کواس کی اصلی حالت پر ہونا چاہئے۔ ہاف آستین میں ہیئت معروفہ کی خلاف ورزی ہے اس لئے مکروہ ہے۔
(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كم أو ذيل (الدرالمختار 1/640)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1340/42-718
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین منافع پر کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔ کاروبار میں جتنے لوگ شریک ہیں سب نفع و نقصان میں شریک ہوں تو معاملہ درست ہے۔ اس لئےمنافع فی صد کے اعتبار سے متعین ہونے چاہئیں۔ صورت مذکورہ میں پچاس ہزار سے زائد جوروپئے آپ کو ملیں گے وہ حلال نہیں ہیں۔
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (القرآن: سورۃ البقرۃ 275"(
ومنها : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (بدائع الصنائع 6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1469/42-908
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عصر کی فرض نماز کے بعد کسی فرض یا واجب کی قضا پڑھنا درست ہے لیکن سنت کی قضاء یا نفل پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ظہر کی فرض کی قضاء کے ساتھ اسکی سنتیں پڑھنا درست نہیں ہے۔
2۔ انفرادی طور پر فرض نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں اللہ کی عظمت اور اپنی کوتاہیوں کا تصور کرکے رونادرست بلکہ احسن ہے،اور عربی میں ماثور دعائیں مانگنا بھی درست ہے لیکن بہتر نہیں ہے، کیونکہ دعا کا سنت طریقہ قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ہے، اس لئے سجدہ کی حالت میں دعا کرنامسنون طریقہ نہیں ہے۔ نفل نماز میں جو وسعت ہے وہ فرض نمازوں میں نہیں ہے۔ اس لئے نفل میں سجدہ میں دعاکرنا بہترہے لیکن فرض میں نہ کرنا بہتر ہے۔ نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ دعا ایسے امور سے متعلق نہ ہو جو مخلوق سے مانگی جاتی ہیں۔
وفيه جواب عما أورد من أن قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس» رواه الشيخان يعم النفل وغيره: وجوابه أن النهي هنا لا لنقصان في الوقت بل ليصير الوقت كالمشغول بالفرض فلم يجز النفل، ولا ما ألحق به مما ثبت وجوبه بعارض بعد ما كان نفلا دون الفرائض. وما في معناها، بخلاف النهي عن الأوقات الثلاثة فإنه لمعنى في الوقت وهو كونه منسوبا للشيطان فيؤثر في الفرائض والنوافل، وتمامه في شروع الهداية. (قوله: حتى لو نوى إلخ) تفريع على ما ذكره من التعليل: أي وإذا كان المقصود كون الوقت مشغولا بالفرض تقديرا وسنته تابعة له، فإذا تطوع انصرف تطوعه إلى سنته لئلا يكون آتيا بالمنهي عنه فتأمل. (قوله: بلا تعيين) لأن الصحيح المعتمد عدم اشتراطه في السنن الرواتب، وأنها تصح بنية النفل وبمطلق النية، فلو تهجد بركعتين يظن بقاء الليل فتبين أنهما بعد الفجر كانتا عن السنة على الصحيح فلا يصليها بعده للكراهة أشباه. (شامی، کتاب الصلوۃ 1/376)
قال فی العلائیہ وکذا لایأتی فی رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح علی المذہب وماورد محمول علی النفل قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالٰی (قولہ محمول علی النفل) ای تھجدًا (اوغیرہ، خزائن، وکتب فی ھامشہ فیہ رد علی الزیلعی حیث خصہ بالتھجد ۱ھ\x0640 ثم الحمل المذکور صرح بہ المشائخ فی الوارد فی الرکوع والسجود وصرح بہ فی الحلیۃ فی الوارد فی القومۃ والجلسۃ وقال علی انہ ان ثبت فی المکتوبۃ فلیکن فی حالۃ الانفراد اوالجماعۃ والمأمون محصوروں لایتثعلون بذلک کما نص علیہ الشافیعۃ ولاضرر فی التزامہ وان لم یصرح بہ مشایخنا فان القواعد الشرعیۃ لاتنبوعنہ کیف والصلٰوۃ والتسبیح والتکبیر والقرأۃ کما ثبت فی السنۃ اھ\0640۔ (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ او التوراۃ او الانجیل 1/505)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند