عائلی مسائل

Ref. No. 1339/42-719

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ حدیث والد کے نفقہ کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ والد اگر ضرورتمند ہو تو وہ اپنے بیٹے کے مال میں بقدر ضرورت بلا اجازت استعمال کرسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ بیٹے کی جملہ پراپرٹی کا مالک نہیں ہے اور بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کرنا کسی کو ہبہ کرنا یا کسی  دوسرے بیٹے کو دینے کے لئے مجبور کرنا یا زبردستی دیددینا جائز نہیں ہے۔ ضرورت کی حد تک ماں بھی اسی حکم میں شامل ہے، وہ بھی بقدرضرورت بیٹے کا مال خود کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا". (التيسير بشرح الجامع الصغير 2/ 210) "وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". (شرح سنن الترمذي 20/ 262)
 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1566/43-1127

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عمومی احوال میں عورتوں کو گھروں میں ہی رہنے کی تاکید ہے، کیونکہ از روئے حدیث ان کا گھر سے باہر نکلنا فتنہ کا باعث  ہے۔ عورتوں کے اندر مرودوں کی رغبت، اور مردوں کے اندر عورتوں کی رغبت ودیعت کی گئی ہے، اور شیطان اس سلسلہ میں آزاد چھوڑا گیا ہے، اس لئے اگر مرد و عورت دونوں گھر سے باہر ہوں گے تو فتنہ کا اندیشہ غالب ہے۔ تاہم مردوں کے ذمہ گھر کے اخراجات اور بہت سے کام ہوتے ہیں ان کو گھر سے نکلنا ضروری ہوتاہے، اس لئے مرد حضرات باہر کام کریں اور عورتیں گھر کے کام کاج سنبھالیں تو زندگی بہت پُرسکون گزرتی ہے۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ بعض مرتبہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اور کوئی محرم ڈرائور نہیں ہوتاہے۔ لہذا بوقت ضرورت شدیدہ عورت اگر حجاب کے ساتھ گاڑی چلاکر باہر جائے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ تاہم سفر شرعی کے لئے محرم کا ہونا ضروری ہے۔

"قال تعالی: {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"(احکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ 3/318-319) "لاتركب مسلمة على سرج. الحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لابد لها منه فلا بأس به". الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (6/ 423("عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه  عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی 1/221 الرقم 1173) إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"(مسلم2/1021) " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ (’’کنز العمال 16/391 الفصل الأول في الترهیبات) "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم" (شامی3/146)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3091/%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%AF%D9%88%DA%AF%D9%84-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DA%A9%DB%92%DB%94%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&show=3091#q3091

اسلامی عقائد

Ref. No. 1844/43-1663

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ آئندہ میں ہونے والے واقعہ کی یقینی طور پر کسی کو خبر نہیں ہے، یہ مغیبات الہیہ ہیں جن کا صحیح  علم صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے۔  زمانہ آئندہ میں کسی چیز کے متعلق خیر یا شر کی بات معلوم کرنا  یا بتانا  بھی شرکیہ عمل ہے،  یہ سخت گناہ کبیرہ ہے، اس لئے ان امور سے اجتناب لازم ہے۔  البتہ اللہ تعالی نے دنیا کا ایک نظام مقرر کیا ہے، اس مقرر کردہ نظام کے تحت کسی یقینی علامت کو دیکھ کر آئندہ زمانہ میں ہونے والی بات  کی خبردینا شرک یا غیب کا علم نہیں کہلائےگا، جیسے کہ کل صبح کا سورج اتنے بج کر اتنے منٹ پر طلوع ہوگا وغیرہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ نبی تھے بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے تھے۔(۱)

(۱) {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِأٰیٰتِنَا إِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَقَالَ إِنِّيْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہ۴۶} (سورۃ زخرف: ۴۶)
{وَإِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ ٰیقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِيْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ أَنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْط} (سورۃ الصف: ۵)

 فتاوی دارالعلوم وق دیوبند ج1ص218

اسلامی عقائد

Ref. No. 2419/44-3654

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں، شاید لوگوں نے ایک اندازہ لگاکر یہ بات کہی ہو، ورنہ قرآن میں اتنا تو صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اس کے خزانے اتنے زیادہ تھے کہ ان کی کنجیاں اتنی تعداد میں تھیں کہ ایک قوی جماعت بھی آسانی سے ان کا وزن نہیں اٹھاسکتی تھی۔ (معارف القرآن ، از مولانا شفیعؒ 6/665 نعیمیہ دیوبند) علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اس سلسلہ میں بہت سارے اقوال ذکر کرکے  مذکورہ واقعہ کو مبالغہ پر محمول کیا ہے۔  (روح المعانی 11/165 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2583/45-3945

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   موجودہ زمانہ میں ایپ کے ذریعہ لین دین کے بعد جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا جائز ہے، اسی طرح ایپ کو شئر کرنے سے جو کیش بیک ملتاہے اس کا لینا بھی جائز ہے، یہ ایک طرح سے مذکورہ کمپنی کی تشہیری مہم کا حصہ بنناہے اور اس عمل کی اجرت ہے، اس لئے یہ جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  صورت مسئولہ میں اہل سنت والجماعت مشورہ کریں اورکوئی ایسی صورت اختیار کریں کہ مسجد میں کوئی ہم مشرب امام آجائے یا کم از کم ایسا امام ہو جو قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو اورنماز کے مسائل میں اس طرح پابند ہو کہ امام اعظمؒ کے اصح مسلک کے مطابق نماز درست ہو اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو باہمی مشورے کے دوسری جگہ نماز کا اہتمام کریں؛ کیوںکہ جو امام ایسی غلطیاں کرتا ہو اس کی اقتداء ہی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) الحاصل: أنہ إن علم الاحتیاط منہ في مذہبنا فلا کراہۃ في الاقتداء بہ، وإن علم عدمہ فلا صحۃ، وإن لم یعلم شیئاکرہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب الاقتداء بالشافعي‘‘: ج۲، ص:۴۴۴)
لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الإمامۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح إماماً لغیرہ ج۱، ص: ۱۴۲، زکریا قدیم ج۱، ص: ۱۴۴، جدید)۔
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)۔
(قولہ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ (أیضًا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص252

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید، بقر عید میں اگر بارش ہونے لگے تو مسجد کبیر میں باضابطہ تبدیل امام پر مکرر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر بغیر عذر شرعی کے ایسا کیا جا رہا ہے تو یہ فعل غلط ہے اور نماز مکروہ ہوگی اس لیے کہ تکرار جماعت مکروہ ہے۔
’’ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی، ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸، زکریا دیوبند۔
وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللّٰہ قال قاضي خان في شرح الجامع الصغیر: رجل دخل مسجداً قد صلی فیہ أہلہ فإنہ یصلي بغیر أذان وإقامۃ، لأن في تکرار الجماعۃ تقلیلہا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸
)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 5 ص 497

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان کا جواب دینا مستحب ہے، جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے کہ اذان کا جواب دینا مستحب ہے:
’’قال في الفتح:۔۔۔۔ أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أو وجوباً والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۰۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص139