متفرقات

Ref. No. 830 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے،  اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔

واللہ اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 38/813

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: امن وسلامتی کا درس مذہب اسلام کے علاوہ میں بھی ہوسکتا ہے، اسلام اس کی نفی نہیں کرتا ہے، تاہم اسلام میں امن  کا درس دوسرے دھرموں کے مقابلہ بلند وبالا اور بے مثال ہے۔ تقابل ادیان پر لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ مفید ہوگا۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
اسلام علیکم بعد سلام کے عرض کرنا ہے کہ اگر کوئ شخص رسول اللہ کے بارے میں حاضر ناضر کف دست عالم الغیب کا عقیدہ رکھتا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں

طلاق و تفریق

Ref. No. 938/41-70

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق دینے اور نہ دینے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو اور کسی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو شوہر سے قسم لی جائے گی اگر قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات معتبر ہو گی، قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کی بات معتبر ہوگی، تاہم  اگر شوہر کے حق میں فیصلہ ہو اور  بیوی کو یقین ہے کہ شوہر کے فون سے شوہر نے ہی تین طلاقیں دی ہیں ،  تو  پھر عورت اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے۔ ایسے میں شوہر کو کچھ دے کر یامہر معاف کرکے خلع لے لے اور عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے۔ اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرے۔

وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَقَالَ أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَا تَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ. (العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ 1/37)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 999/41-182

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال ، زید مرحوم کا کل ترکہ 64 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے بیوی کو آٹھ حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے دئے جائیں گے۔ 

چنانچہ 50 لاکھ میں سے بیوی کو 625000 روپئے ملیں گے۔ ہر ایک  بیٹے کو 1093750 روپئے اور ہر ایک بیٹی کو 546875 روپئے  ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1137/42-371

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1482/42-942

الجواب وباللہ التوفیق:

(۱)موجودہ دور میں راستہ سے متعلق مستقل نظام وجود میں آچکا ہے،راستے کی اہمیت کا یہ شعور جو انسانوں میں اب عام ہوا ہے اسلام نے اس جانب بہت پہلے توجہ دلادی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں راستوں کی افادیت اور کشادگی کے سلسلے میں امام ترمذی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: راستے کی کم از کم چوڑائی سات ہاتھ یعنی دس فٹ ہے۔ ”اجعلوالطریق سبعۃ اذرع“ (الترمذی: ج ۳، ص:۰۳، رقم: ۵۵۳۱) (۲/۳) مذکورہ دونوں اجزاء مجمل ہیں، ان میں وضاحت نہیں ہے کہ جو مردے کو غفلت یا جان بوجھ کر درج شدہ راستے کی زمین میں دفنایے گیے ہیں وہ قبریں راستے میں کب بنی ہیں؟ قبریں جس جگہ پر بنی ہیں وہ قبرستان کے حق میں موقوفہ ہے یا  حکومتی رکارڈ میں وہ راستے ہی کے لیے درج ہے کسی کی مملوکہ زمین ہے؟ البتہ فقہاء نے کتابوں میں صراحت کی ہے کہ قبروں کو روند نا اور اس پر چلنا جائز نہیں ہے، اگر قبر بہت پرانی ہوگئی ہو پھر بھی اس کے اوپر چلنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔ ”یکرہ المشي في طریق ظن أنہ محدث حتی إذا لم یصل إلی قبرہ إلا بوطئ قبرترکہ“ (الدر المختار ج۲ص ۵۴۲  .((۴) قبرستا ن کی زمین اگر موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس زمین پر کسی کے لئے تصرف کرنا شرعا جائز نہیں ہے؛ بلکہ جس مقصدکے لئے وقف ہے اسی مقصد میں استعمال کرنا لازم ہے، اور اگر کئی دہائی قبل مردے دفنائے گئے جس سے قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اجسام مٹی بن چکے ہیں تو اس میں نئے مردوں کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی کہلائے مثلا مدرسہ،مسجد،عید گاہ یا جنازہ گاہ،وغیرہ بنا کر وقف کردیا جائے نیز اگر قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام میت کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ شمار کیا جائے گا، کفایت المفتی میں مزید اس کی وضاحت ہے: مسجد کی طرح قبرستا ن میں بھی عام اموات کا بلا روک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لئے کافی ہے،(کفایت المفتی: ج:۷، ص:۲۱۲) نیز ذکر کردہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر اس زمین میں لوگ بلا روک ٹوک اپنے مردوں کو دفنا رہے تھے تو یہ وقف کی جائداد شمار ہوگی اس لئے اس میں گاڑیوں کے لئے اسٹینڈ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔

”فإن قلت: ھل یجوز أن تبنی علی قبور أہل المسلمین؟ قلت:قال ابن القاسم: لو ان مقبرۃ من مقا بر المسلین عفت فبنی قوم علیھا مسجد الم أر بذلک بأسا، وذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاھم لا یجوز لأحد أن یملکھا، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیھا جاز صرفھا إلی المسجد لأن المسجد أیضاً وقف من أوقاف المسلین لا یجوز تملکہ لأحد“ (عمدۃ القاری: ج ۶، ص: ۳۷۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مدرسے کے طلبہ کے لئے کھانے کا ٹکٹ بیچنا کیسا ہے

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کا اگر عقیدہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں مانتا تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا اس کا تعاون کرنے والے بھی سخت گناہ گار ہوں گے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِص}(۱) پس اس شخص کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے۔ لیکن اگر مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں تو بھی میں آپ لوگوں کا یہ فیصلہ نہیں مانوں گا، تو وہ خارج از اسلام نہیں ہے تاہم اس طرح کے جملوں سے احتراز اور توبہ استغفار لازم ہے۔(۲)

(۱) سورۃ المائدہ: ۲۔

(۲) {فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ  وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ہ۶۵} (سورۃ النساء: آیۃ، ۶۵)

وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا فقال الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر عند بعض المشائخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1750/43-1471

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کے مذکورہ جملہ سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نکاح باقی ہے اور دونوں میاں بیوی ہیں۔ زید کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں بہت احتیاط برتے اور کبھی بھی اس طرح کی بات اپنی زبان سے خود نہ نکالے، اگر شوہر اس طرح کی بات کرے گا تو اس سے مسئلہ بدل جائے گا۔ تاہم عورت کے اس طرح کے جملہ سے   نکاح ختم نہیں ہوتاہے۔  طلاق کا مکمل اختیار شوہر کو ہوتاہے، عورت طلاق نہیں دے سکتی اور عورت کےطلاق والے جملے  بولنے سے نکاح نہیں ٹوٹتاہے۔

عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الطَّلاَقُ لِلرِّجَالِ، وَالْعِدَّةُ لِلنِّسَاءِ. (موطا مالک، جامع عدۃ الطلاق 4/839)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند