اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کا ہے (۱) اس کو مطلقاً بیان کرنا درست نہیں اگر کہیں بیان کریں تو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ مولوی صاحب کو آئندہ ایسی باتوں سے پرہیز لازم ہے اگر کوئی صحیح روایت نہ ہو تو ان پر توبہ استغفار لازم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (۲)

۱) وفي بعض الروایات أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم قدم المدینۃ وہم یشربون الخمر ویأکلون المیسر فسألوہ عن ذلک، فأنزل اللّٰہ تعالی ہذہ الآیۃ، فقال قوم: ما حرما علینا فکانوا یشربون الخمر إلی أن صنع عبد الرحمن بن عوف طعاما فدعا أناسا من الصحابۃ وأتاہم بخمر فشربوا وسکروا وحضرت صلاۃ المغرب فقدموا علیاً کرم اللّٰہ تعالی وجہہ فقرأ {قُلْ ٰٓیأَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَہلا ۱ } (الکافرون: ۱) … فانطلق سعد إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وشکا إلیہ الأنصار فقال: أللہم بین لنا رأیک في الخمر بیانا شافیا فانزل اللّٰہ تعالیٰ {إنما الخمر والمیسر} إلی قولہ تعالیٰ {فہل أنتم منتہون} و ذلک بعد غزوۃ الأحزاب بأیام، فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: انتہینا یا رب إلخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني،  ’’تحت قولہ تعالیٰ: {یسئلونک عن الخمر والمیسر} (سورۃ البقرۃ: ۲۱۹‘‘: ج ۲، ص:

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص230

اسلامی عقائد

Ref. No. 2476/45-3768

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر قرآن کریم میں تصریح فرمادی ہے کہ اللہ تعالی بھلائی اور خیر کے کاموں کو پسند فرماتے ہیں اور برائی اور گناہ کے کاموں کو ناپسند کرتے ہیں اور اس سے ناراض ہوتے ہیں، اس لئے کسی برائی کے ارتکاب میں اللہ کی مرضی ممکن نہیں ہے، لہذا کسی برائی اور گناہ کے کام کو اللہ کی مشیت کی جانب منسوب کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لئے کسی معصیت کے ارادہ پر ان شاء اللہ کہنا ہرگز جائز نہیں ہے، اور بعض صورتوں میں اس طرح ان شاء اللہ کہنا موجب کفر ہوسکتاہے، اس لئے اس سلسلہ  میں غایت احتیاط سے کام لیاجائے۔ البتہ گناہوں سے توبہ کرنا ایک نیک عمل ہے اس میں ان شاء اللہ کہنا مستحب ہے۔

 {وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَلِكَ غَدًا (23) إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا } [الكهف: 23، 24)

الشَّيْطانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا.

اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر ہٹادیا گیا تو یہ عمل کثیر نہیں ہوا اس لیے نماز فاسد نہیں ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) ویدفعہ ہو رخصۃ فترکہ أفضل … بتسبیح أو جہر بقراء ۃ أو إشارۃ أي بالید أو الرأس أو العین۔ ولایزاد علیہا عندنا۔ أي علی الإشارۃ بما ذکر۔ (الحصکفي ،  رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۳، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص113

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: مسلمانوں پر اگر کوئی بڑی آفت و مصیبت آئے یا دشمنوں کی طرف سے تکلیف کا سامنا کرناپڑے تو اس موقع پر دعائے قنوت پڑھنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر قراء کی شہادت کے موقع پر ایک مہینہ تک دعائے قنوت کا اہتمام کیا تھا جس میں آپ نے قبیلہ رعل و ذکوان پر بدعائیں کی تھیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ فجر کی نماز کی دوسری رکعت میںرکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر امام کھڑا ہوجائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے، اور مقتدی حضرات آہستہ سے آمین کہیں پھر دعا سے فارغ ہوکر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں۔
دعا قنوت یہ ہے:
’’اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ،  وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلِلْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃَ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُّوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ  عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَۃَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَ کَمِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ  عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْن۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت  الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ’’درالمختار، کتاب الصلاۃ: مطلب:في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص343

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 815

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ٰالامٰ  میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں غسل کا وجوب امر تعبدی ہے، اور امر تعبدی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی کے طور پر اس کا حکم بجالانا،  اور بلا چوں چرا اس کو قبول کرنا ۔ لہذا امام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ ایک حکم خداوندی ہے جس  کے لیے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ )الام، باب المنی(۔ واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1230/42-585

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ، امن و سلامتی کا علمبردار اور برحق مذہب ہے،  اسی میں انسانیت کی ترقی ہے۔ مسلمانوں کو بالخصوص اپنے ایمان کی حفاظت اور ایمانیات وشرعی قوانین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے،غیراسلامی طریقوں سے اجتناب لازم ہے۔ مذکورہ عورت اگر غیرشرعی طریقے اختیار کررہی ہو تو اسے اچھے انداز سے سمجھانے اور اس کے شکوک و شبہات دور  کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ سوال کی کیا تفصیلات اور پس منظر ہے ، مقدمہ کے کیا نقاط ہیں وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لئے کوئی واضح بات جواب میں لکھنی مشکل ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1583/43-1115

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کپڑے پر نجاست مرئیہ (دکھائی دینے والی) لگی ہو تو عین نجاست کوزائل کرنے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اگر نجاست غیرمرئیہ(جو نظر نہیں آتی )ہے تو اس جگہ کو تین مرتبہ دھونے اور ہر بار نچوڑنے سے پاکی حاصل ہوگی۔ جس جگہ نجاست لگی ہو  صرف اس  حصہ کو پانی سے تین بار  دھودیں پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرتین بار اچھی طرح  دھونے کے بعد بھی نجاست کا رنگ محسوس ہو تو اس سے پاکی میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ کپڑا پاک ہوجائے گا۔

المني إذا أصاب الثوب فإن كان رطبا يجب غسله وإن جف على الثوب أجزأ فيه الفرك استحسانا. كذا في العناية والصحيح أنه لا فرق بين مني الرجل والمرأة وبقاء أثر المني بعد الفرك لا يضر كبقائه بعد الغسل. هكذا في الزاهدي. (الھندیۃ الفصل الاول فی تطھیر الانجاس 1/44)

"والفصل الثاني: أنه ما دام رطبًا لايطهر إلا بالغسل (المبسوط للسرخسی«كتاب الطهارة»،«باب الوضوء والغسل» (1/ 81)،ط.دار المعرفة – بيروت)

(وأما) سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل، سواء كانت رطبة أو يابسة، وسواء كانت سائلة أو لها جرم ولو أصاب ثوبه خمر، فألقى عليها الملح، ومضى عليه من المدة مقدار ما يتخلل فيها، لم يحكم بطهارته، حتى يغسله. ولو أصابه عصير، فمضى عليه من المدة مقدار ما يتخمر العصير فيها، لا يحكم بنجاسته، وإن أصاب الخف أو النعل ونحوهما، فإن كانت رطبة لا تزول إلا بالغسل كيفما كانت. (بدائع الصنائع، فصل فی بیان ما یقع بہ التطھیر 1/84)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ کا مقصد معلوم ہوئے بغیر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانویں احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفیٔ کفر کا ہو تو بھی کفر کا فتویٰ وفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر، ووجد واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسیناً للظن بالمسلم‘‘ (۱)

مذکورہ فی السوال اشعار میں کفریہ بات کہی گئی ہے؛ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین‘‘ سے یہ کلام (دو اشعار) معارض ہیں اور اس قسم کے کلام سے کفر یا گناہِ کبیرہ لازم آتا ہے؛ پس مقصد شاعر معلوم ہونے کے بعد ہی صریح بات کہی جا سکتی ہے؛ لہٰذا مقصد معلوم کر کے تحریر فرمائیں؛ نیز اس قسم کے محتمل کلام کی اشاعت اور اسے پڑھنا درست وجائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸۔

(۲) إذا کان في المسألۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي

أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1959/44-1873

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر مذکورہ جملہ  اسی طرح کہا تھا جیسا کہ بیان کیاگیاہے تو بہن کے گھر جانے پریمین پوری ہوگئی اور ایک طلاق واقع ہوگئی،اور عورت کی عدت شروع ہوگئی،  اب دوبارہ یا سہ بارہ بہن کے گھر جانے پر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے اب اگر  شوہر نے عدت (طلاق کے بعد تین حیض)   کے زمانہ میں بیوی سے رجعت کرلی تو ٹھیک ہے ، اور اگر عدت گزرگئی تو اب  جدیدمہر کے ساتھ دوبارہ  نکاح کرنا ہوگا۔

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔"  )ہندیہ (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 1 /420،ط:دار الفكر(

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها )الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الطلاق،باب التعليق،مطلب زوال الملك لا يبطل اليمين،  3/ 355، ط: سعید(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں شرعی مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس سے انکار کرنے والے کا منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتوی کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو اس پر عمل نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہوجاتا ہے۔ ’’کما صرح بہ في العالمگیریۃ‘‘ (۱) اور اگر منشاء یہ ہو کہ سوال، واقعہ کے خلاف لکھ کر فتویٰ حاصل کیا گیا ہے، یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے، تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وجزئیات سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں؛ بلکہ وہ خاطی، اور گنہگار ہے ۔(۲

(۲) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ، فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال: لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرہ۔ (أیضا:ص: ۲۸۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند