اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رواج بالکل غیر شرعی اور خلاف شرع ہے کہ مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی سے صحبت کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس رواج کا ختم کرنا اور عوام کو صحیح مسئلہ بتانا ضروری ہے، مہر کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ (۱) مہر معجل اور دوسرا مہر مؤجل کہلاتا ہے، مہر مؤجل کی ادائے گی عرفاً طلاق کے بعد یا شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ سے ہوتی ہے بہتر ہے کہ صحبت سے پہلے مہر ادا کرے اور مہر معجل کا حکم یہ ہے کہ جب عورت مطالبہ کرے اور شوہر ادا نہ کرے تو بیوی شوہر سے کہہ سکتی ہے کہ جب تک آپ مہر ادا نہیں کریں گے ہمبستر نہیں ہونے دوں گی (وطی نہیں کرنے دوں گی)(۲) اور پہلی رات میں بیوی سے مہر معاف کرانا شوہر کی زیادتی، ظلم اور بزدلی ہے، اگر بیوی دباؤ میں مہر معاف کردیتی ہے؛ اگر وہ دباؤ میں زبان سے کہہ دے کہ میں نے مہر معاف کر دیا، تو مہر معاف نہیں ہوگا، ہاں! اگر بخوشی معاف کردے، تو معاف ہو جاتاہے۔

(۱) {وَ أٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَيْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًاہ۴ } (سورۃ النساء: ۴)
(۲) (التمس ولو خاتما من حدید) یجب حملہا علی أنہ المعجل، وذلک لأن العادۃ عندہم تعجیل بعض المہر قبل الدخول حتی ذہب بعض العلماء إلی أنہ لا یدخل بہا حتی یقدم شیئا لہا تمسکا بمنعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یدخل بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا حتی یعطیہا شیئا فقال: یا رسول اللّٰہ لیس لي شيء فقال: أعطہا درعک فأعطاہا درعہ۔ رواہ أبو داود والنسائي، ومعلوم أن الصداق کان أربعمائۃ درہم وہي فضۃ، لکن المختار الجواز قبلہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہا قالت أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أن أدخل إمرأۃ علی زوجہا قبل أن یعطیہا شیئا رواہ أبو داود فیحمل المنع المذکور علی الندب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترجمہ پڑھنے اور دیکھ کربتلانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اپنی طرف سے خود مطلب بیان کرنا درست نہیں ہے، مفہوم ومطلب وتفسیر کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے، نیز ترجمہ پڑھنے سے اگر کسی بات میںکوئی شبہ ظاہر ہو، تو اہل علم سے ضرور حل کرلیں۔(۱)

(۱) اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القراء ات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص46

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2551/45-3889

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتاہے، وہ جیسا چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کا اختیار رکھتاہے، کسی کو کم دے یا زیادہ دے اس کی اپنی مرضی ہے، شریعت نے اس کو کسی خاص حکم کا پابند نہیں ہے، تاہم شریعت نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ  باپ اپنی اولاد کے درمیان برابری کرے، اور اپنی زندگی میں جائدادتقسیم کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ کرے۔اس لئے اگر آپ اپنی مرضی سے لڑکوں کو کاروبار والی جگہ اور لڑکیوں کو کم مالیت والی جگہ دینا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے گوکہ مناسب نہیں ہے۔ اور اگر لڑکیوں کو اس پر کچھ نقد وغیرہ دے کر خوش کردیں تو اور بھی بہتر ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2667/45-4126

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The properties which are in the possession of Abdul-Haq and registered on his name, can be given to the person he gifted. But gifting of one’s own share in the properties which have many partners is not valid. So the properties must be divided before gifting takes place.

وشرائط صحتہا في الموہوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع غیر مشغول‘‘ (در مختار: ج ٨،ص: ٩٨٤،زکریادیوبند)

وقید المشاع بما لم یقسم لأن ہبۃ المشاع الذی تمکن قسمتہ لا یصح‘‘ (البحر الرائق: ج ٧،ص: ٦٨٤،زکریادیوبند)

 

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2652/45-4009

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر وارثین میں صرف مذکورہ افراد ہیں  تو مرحوم کی کل جائداد کو 12 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو حصے ماں کو ملیں گے اورپانچ پانچ حصے ہر ایک   علاتی بھائی  کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2706/45-4185

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی۔  "لم تقولوا  راعنا"کے معنی ہوئے کہ" کیوں کہتے ہو راعنا"، بلکہ کہو "انظرنا"۔ تو معنی میں  کوئی ایسی خرابی نہیں  پائی گئی  جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

قال فی الدر: ولو زاد کلمةً أو نقص کلمةً ۔۔۔ لم تفسد ما لم یتغیر المعنی الخ (الدر مع الرد: 2/396)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کے ثبوت شرعی کے لیے چار گواہوں کا ہونا بہت ضروری ہے صرف ایک آدمی یا ایک لڑکے کی گواہی پر یقین کرکے امام مذکور کو بدنام کرنے والے سخت گناہ گار ہیں، اور بغیر شرعی ثبوت کے امام صاحب کو امامت سے ہٹانا درست نہیں متولی اور ذمہ داران مسجد کو چاہئے کہ اس شخص کو بلا کر اس سے معافی مانگے اور اس کو امامت پر برقرار رکھا جائے، کیوںکہ بغیر ثبوت شرعی کے محض بدگمانی پر کسی کو اس کے عہدہ سے الگ کردینا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) {إن الذینَ یَرْمُوْنَ المحصنٰت الغَافِلاتِ المؤمِنَاتِ لعِنُوا في الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم} (النور: ۲۳)
{والذین یَرْمُوْنَ المحصنات ثم لم یأتوا بِاَربعۃ شہداء فاجلِدُوْہُمْ ثمَانین جلدۃ ولا تقبلوا لہم شہادۃً اَبداً واُولئک ہُم الفٰسِقُوْنَ} (سورۃ النور: ۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص271

مذاہب اربعہ اور تقلید

Ref. No. 2771/45-4470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آمین آہستہ کہنا افضل ہے، آمین ایک دعاء ہے اور دعاء میں اصل اخفا ہے، اس لئے آمین آہستہ کہنا افضل اور بہتر ہوگا، یہی مالکیہ کا مسلک بھی ہے، البتہ شوافع وحنابلہ کے نزدیک آمین بالجہر اولی ہے، نماز سے باہر سورہ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا بہتر ہے، واجب نہیں ہے اور اس سلسلہ میں سراً قراءت ہو توآمین  سراً اور جہری قراءت ہو تو جہراً کہنے کی گنجائش ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس میں دائیں بائیں یا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا سب صورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(۱) جیسا بھی امام کو آسان ہو بیٹھ جایا کرے۔(۲)
’’یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو ورد وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ‘‘(۳)

(۱) عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم:۸۴۷)
(۲) و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم     إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸، مکتبہ: زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص421

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درست ہے، اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ تاہم بلا ضرورت استعمال کر نا پسندیدہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) الإمام إذا جہر فوق الحاجۃ فقد أساء اھـ۔ والإسائۃ دون الکراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۹، مکتبہ: ایچ ایم، سعید کراچی، پاکستان)
وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرائتہ لیحصل إحضار القلب، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني: في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمستحب أن یجہر بحسب الجماعۃ فإن زاد فوق حاجۃ الجماعۃ فقد أساء۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۵۳، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص119