Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت کی شرعاً کوئی اصل و اہمیت نہیں ہے؛ اس لئے اس پر عمل کرنا ناجائز ہے۔(۱)
(۱) {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰیط} (سورۃ بني إسرائیل: ۱۵)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص351
متفرقات
Ref. No. 2427/45-3691
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری مراعات لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، سرکار کی طرف سے ملنے والی چیزیں مالدار کے لئے بھی جائز ہوتی ہیں اور غریب کے لئے بھی۔ سرکار جس کو چاہے اس کے لئے پینشن جاری کرسکتی ہے۔ اور جس کودے وہی اس کا مستحق ہوتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:التزام کے ساتھ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔(۱)
(۱) إعلم أن الذکر علی ثلثۃ مراتب: أحدہا الجہر ورفع الصوت بہا وذلک مکروہ إجماعاً إلا إذا دعت إلیہ داعیۃ وتقتضیہ حکمۃ فحینئذٍ قد یکون أفضل من الإخفاء کالأذان والتلبیۃ ونحو ذلک ولعل الصوفیۃ الچشتیۃ قدس اللّٰہ تعالیٰ أسرارہم اختاروا الجہر للمبتدي لاقتضاء حکمۃ وہي طرد الشیطان ودفع الغفلۃ والنسیان وحرارۃ القلب واشتغال نائرۃ الحب بالریاضۃ ومع ذلک یشترط لذلک الاحتراز عن الریاء والسمعۃ، ثانیہا الذکر باللسان سرا: وہو المراد بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ رواہ الترمذي وابن ماجۃ {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط} (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳۶، ص: ۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص376
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ اس کی بو سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے، پس ایسے عمل سے پر ہیز کرنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) لقولہ علیہ السلام: لا یبولن أحدکم في مغتسلہ (بدرالدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب من تبرز علی لبنتین‘‘ ج۲، ص:۲۷۹) البول فیہ منھي عنہ سواء کان فیہ اغتسال أولا فإنہ ممنوع، والصواب أن النھي عن الجمع بدلیل التعلیل الآتي في نفس ھذا الحدیث، ولأنہ لو بال في المستحم ولم یغتسل فیہ بأن جعلہ مھجورا من الاغتسال فیہ أو اغتسل فیہ ابتداء ولم یبل فیہ یجوز لہ ذلک۔۔۔۔ قال ابن مالک لأنہ یصیر ذلک الموضع نجساً، فیقع في قلبہ وسوسۃ بأنہ ھل أصابہ منہ رشاش أم لا؟ و قال ابن حجر: لأن ماء الطھارۃ حینئذ یصیب أرضہ النجسۃ بالبول ثم یعود إلیہ فکرہ فیہ لذلک، ومن ثم لو کانت أرضہ بحیث لا یعود منھا رشاش أو کان لہ منفذ بحیث لا یثبت فیہ شيء من البول لم یکرہ البول فیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب آداب الخلاء‘‘ ج۲، ص:۶۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: محرم عورتوں کے ساتھ اگر غیر محرم عورتیں پچھلی صفوں میں ہوں تو بلا کراہیت نماز درست ہو جائے گی۔(۱)
(۱) تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ) کأختہ (أو زوجتہ أو أمتہ، أما إذا کان معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لا) یکرہ بحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ…مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷)
لو کان بین صف النساء وصف الرجال سترۃ قدر مؤخر الرحل کان ذلک سترۃ للرجال ولا تفسد صلاۃ واحد منہم، وکذلک لو کان بینہم حائط قدر الذراعِ وإن کان أقل من ذلک لا یکون سترۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیانِ مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص510
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے کے لیے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لیے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہ ہوتی ہو، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔
’’یشترط طہارۃ موضع القدمین … و منہا طہارۃ موضع الیدین والرکبتین علی الصحیح لافتراض السجود علی سبعۃ أعظم … و منہا طہارۃ موضع الجبہۃ علی الأصح من الروایتین عن أبي حنیفۃ وہو قولہم رحمہم اللّٰہ لیتحقق السجود علیہا لأن الفرض وإن کان یتأدی بمقدار الأرنبۃ علی القول المرجوح یصیر الوضع معدوما حکما بوجودہ علی النجس ولو أعادہ علی طاہر في ظاہر الروایۃ ولا یمنع نجاسۃ في محل أنفہ مع طہارۃ باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرہم ویصیر کأنہ اقتصر علی الجبہۃ مع الکراہۃ‘‘(۱)
’’وإن کانت النجاسۃ تحت قدمي المصلي منع الصلاۃ۔ کذا في الوجیز للکردي ولا یفترق الحال بین أن یکون جمیع موضع القدمین نجسا، وبین أن یکون موضع الأصابع نجسا وإذا کان موضع إحدی القدمین طاہرا وموضع الأخری نجسا فوضع قدمیہ، اختلف المشایخ فیہ، الأصح أنہ لا تجوز صلاتہ، فإن وضع إحدی القدمین التي موضعہا طاہر، ورفع القدم الأخری التي موضعہا نجس وصلی فإن صلاتہ جائزۃ۔ کذا في المحیط۔ وإن کانت النجاسۃ تحت یدیہ أو رکبتیہ في حالۃ السجود لم تفسد صلاتہ في ظاہر الروایۃ واختار أبو اللیث أنہا تفسد وصححہ في العیون۔ کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۰۹، ۲۱۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طھارۃ مایستر بہ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص288
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی حالت میں رونے پر اتنا کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آواز پیدا نہ ہو لیکن اگر رونا خوف آخرت و للہیت کی وجہ سے ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی شرط یہ ہے کہ سکتہ (انقطاع قرات) ایک رکن کے بقدر نہ ہو اور اگر ریا وغیرہ کے طور پر ہو تو حروف ظاہر ہوتے ہی نماز فاسد ہوجائے گی۔ سوال میں جس رونے کا ذکر ہے وہ کس بنیاد پر ہے۔ اس کو خود رونے والے پر چھوڑ دیا جائے وہ اپنی نیت کا حال خود جانتا ہے۔
’’یفسدہا (الصلاۃ) … والبکاء بصوت یحصل بہ حروف لوجع أو مصیبۃ لا لذکر جنۃ أو نار … أما خروج الدمع بلا صوت أو صوت لا حرف معہ فغیر مفسد‘‘(۱)
’’ولو أن في صلاتہ أو تأوہ أو بکی، فارتفع بکاؤہ فحصل لہ حروف، فإن کان من ذکر الجنۃ أو النار فصلاتہ تامۃ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ فسدت صلاتہ۔ ولوتأوہ لکثرۃ الذنوب لا یقطع الصلاۃ، ولو بکی في صلاتہ، فإن سال دمعہ من غیر صوت لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب : المواضع التي لا یجب فیھا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹ مکتبہ فیصل دیوبند)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی؛ البتہ دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہنا علماء کے نزدیک واجب ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ نے صراحت کی ہے کہ قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ چناں چہ رد المحتار میں واجبات الصلاۃکے تحت لکھا ہے:
’’والثامن عشر والتاسع عشر تکبیرۃ القنوت وتکبیرۃ رکوعہ‘‘(۲)
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز وتر میں جب قرائت مکمل کرتے تو تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے اور دوسری روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ قنوت وتر کی تکبیر کے وقت کانوں تک اپنا ہاتھ اٹھاتے۔
’’عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ أن عبد اللّٰہ بن مسعود کان إذا فرغ من القراء ۃ کبر ثم قنت فإذا فرغ من القنوت کبر ثم رکع … عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ أنہ کان یرفع یدیہ في قنوت الوتر‘‘(۱)
رد المحتار میں وتر کے بیان کے تحت مذکور ہے:
’’(قولہ ویکبر) أي وجوبا وفیہ قولان کما مرّ في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ (قولہ رافعا یدیہ) أي سنۃ إلی حذاء أذنیہ کتکبیرۃ الإحرام‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔)
(۱) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۲۰۶۔)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1057 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشدہ کے انتقال کے وقت جو کچھ بھی اس کی ملکیت میں تھا چاہے وہ بینک میں شادی سے پہلے یا بعد میں جمع شدہ رقم ہو یا کسی کمپنی میں لگائی گئی رقم ہو سب میں وراثت جاری ہوگی اور شوہر اور لڑکی کے والدین سب کا حصہ ہوگا۔ انشورنس کرانا چونکہ ناجائز ہے اس لئے مرحومہ نے جس قدر مال انشورنس کمپنی کو دیا تھا صرف اس قدر مال وراثت میں تقسیم ہوگا اور جو زائد رقم انشورنس کمپنی دے رہی ہے وہ حرام مال ہے اس کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، اس میں نہ تو شوہر کا حصہ لینا درست اور نہ ہی والدین کا۔ دونوں فریق لازمی طور پر اس حرام مال سے احتراز کریں اور اللہ سے ڈریں۔ تاہم اگر سرکاری و غیرسرکاری طور پر صرف بطور تعاون کوئی رقم کسی کی طرف سے دی جائے تو اس کا حقدار وہی ہوگا جس کو وہ رقم دی جائے گی۔ جب مرحومہ کی ساری جائداد﴿ چاہے روپیہ پیسہ ہو یا زمین و مکان جو بھی اس کی ملکیت میں تھے﴾ جمع کرلیں تو سب سے پہلے اگر مرحومہ پر کسی کا قرض ہے تو اس کو ادا کریں پھر بقیہ ما ل فقہ اسلامی کی روشنی میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ شوہر کے لیے کل مال کا نصف یعنی آدھا حصہ ہوگا ، باپ کیلئے کل مال کاثلث یعنی تہائی حصہ ہوگا اور ماں کے لئے سدس یعنی چھٹا حصہ ہو گا، مثال کے طور پر بالفرض اگر کل مال 9 لاکھ روپئے کے بقدر ہے تو لڑکی کے شوہر کو چار لاکھ پچاس ہزار ، لڑکی کے باپ کو تین لاکھ اور لڑکی کی ماں کو ایک لاکھ پچاس ہزار ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند