ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1862/43-1732

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کے ایپ پر کمپنیوں کی جانب سے ملنے والی رعایت اور کیش بیک یا انعام گراہکوں کو اپنے سے قریب کرنے کے لئے ہوتے ہیں،  اس لئے یہ رقم جائز اور حلال ہے ۔مذکورہ تفصیل کے مطابق  اس میں آپ نے کوئی جوا اور قمار والی  شکل اختیار نہیں کی۔البتہ ان سب چیزوں میں انہماک مناسب نہیں ہے۔

هي) لغةً: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعاً: (تمليك العين مجاناً) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه، وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 687)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ صحیح ہے کہ ان کو زہر دیا گیا تھا جو ان کے انتقال کا سبب بنا، ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بیوی سے زہر دلوایا گیا تھا۔(۳) (۳) عن عمیر بن إسحاق قال: دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علي نعودہ… فجعل یقول لذلک الرجل: سلني قبل أن لا تسألني قال: ما أرید أن أسئلک شیئاً یعافیک اللّٰہ، قال: فقام فدخل الکنیف ثم خرج إلینا ثم قال: خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدي أقلبہا؛ لہذا العود لقد سقیت السم مرارا ما شیئ أشد من ہذہ المرأۃ۔ (ابن عساکر، تاریخ إبن عساکر: ج ۱۳، ص: ۲۵۲) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص234

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارات وغیرہ کی موجودہ رسمیں غیر شرعی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کونکاح کے موقع پر بھیجنا ثابت ہے، جن کی تعداد لڑکی والوں کی اجازت پر موقوف ہے، موجودہ طریقے پر ہجوم ثابت نہیں ہے۔(۱)

(۱) في حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ خطبہا علی بعد أن خطبہا أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ ثم عمر رضي اللّٰہ عنہ … قال أنس رضي اللّٰہ عنہ ثم دعاني علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد أیام فقال أدع لي أبا بکر وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وعدۃ من الأنصار جماعۃ بینہم لہ فلما اجتمعوا وأخذوا مجالسہم الخ۔ (شرح الزقاني مع المواہب اللدنیۃ، ’’ذکر تزویج علی بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہما‘‘: ج ۲، ص: ۳-۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443

اسلامی عقائد

Ref. No. 2552/45-3891

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غلط اور جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر فتوی لینا، دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے فتوی حاصل کرنا درست نہیں ہے؛ فتوی  توانسان خود عمل کرنے کے لئے لیتاہے۔ دوسروں کو تکلیف پہونچانے اور سماج میں رسوا کرنے کے لئے غلط طریقہ سے فتوی حاصل کرنے والا گنہگار اور فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، تاہم سوال کے صحیح یا غلط ہونے کی ہمارے پاس کوئی بنیاد اور دلیل نہیں ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ اپنے علاقہ کے دارالالافتاء میں صورت حال بناکر فتوی  حاصل کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2748/45-4283

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجا میں اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے تو استنجا کرنا سنت ہے، اس صورت میں ناپاکی قابل عفو ہے، لیکن اگر نجاست مخرج سے تجاوز کر جائے اور پانی یا ڈھیلا استعمال نہ کرے تو وہ جگہ ناپاک ہے اس کو پاک کرنا ضروری ہے۔

’’وہو سنة مؤکدة مطلقا ویجب أي بفرض غسله أن جاوز المخرج نجس مائع فیما وراء موضع الاستنجاء‘‘ (در مختار مع رد: ج ١، ص: ٩٣٣)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2772/45-4324

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچہ زندہ پیداہوا یعنی پیدا ہوتے وقت اس میں زندگی کی کوئی علامت پائی گئی پھر فوت ہوگیا تو اس کا نام رکھاجائے گا، غسل دیاجائے گا ، مسنون کفن دیاجائے گااور نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اور اگر ماں کے پیٹ میں ہی مرچکاتھا اورپیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہیں تھی ، تو اس کا نام رکھاجائے گا، غسل دیاجائے گا اور ایک کپڑے میں لپیٹ کردفن کردیاجائے گا، مسنون کفن نہیں دیاجائے گا اور نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔

"(وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه).

 (قوله: وإلا يستهل غسل وسمي) شمل ما تم خلقه، ولا خلاف في غسله وما لم يتم، وفيه خلاف. والمختار أنه يغسل ويلف في خرقة، ولا يصلى عليه كما في المعراج والفتح والخانية والبزازية والظهيرية شرنبلالية. وذكر في شرح المجمع لمصنفه أن الخلاف في الأول، وأن الثاني لا يغسل إجماعاً. اهـ.

واغتر في البحر بنقل الإجماع على أنه لايغسل فحكم على ما في الفتح والخلاصة من أن المختار تغسيله بأنه سبق نظرهما إلى الذي تم خلقه أو سهو من الكاتب. واعترضه في النهر بأن ما في الفتح والخلاصة عزاه في المعراج إلى المبسوط والمحيط اهـ وعلمت نقله أيضاً عن الكتب المذكورة. وذكر في الأحكام أنه جزم به في عمدة المفتي والفيض والمجموع والمبتغى اهـ فحيث كان هو المذكور في عامة الكتب فالمناسب الحكم بالسهو على ما في شرح المجمع لكن قال في الشرنبلالية: يمكن التوفيق بأن من نفى غسله أراد غسل المراعى فيه وجه السنة، ومن أثبته أراد الغسل في الجملة كصب الماء عليه من غير وضوء وترتيب لفعله كغسله ابتداء بسدر وحرض. اهـ. قلت: ويؤيده قولهم: ويلف في خرقة حيث لم يراعوا في تكفينه السنة فكذا غسله (قوله: عند الثاني) المناسب ذكره بعد قوله الآتي وإذا استبان بعض خلقه غسل لأنك علمت أن الخلاف فيه خلافاً لما في شرح المجمع والبحر (قوله: إكراماً لبني آدم) علة للمتن كما يعلم من البحر، ويصح جعله علة لقوله فيفتى به (قوله: وحشر) المناسب تأخيره عن قوله هو المختار لأن الذي في الظهيرية والمختار أنه يغسل. وهل يحشر؟ عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر، وإلا لا. والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر، وهو قول الشعبي وابن سيرين. اهـ. ووجهه أن تسميته تقتضي حشره؛ إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه. وذكر العلقمي في حديث: «سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم» الحديث.

فقال: فائدة سأل بعضهم هل يكون السقط شافعا، ومتى يكون شافعاً، هل هو من مصيره علقة أم من ظهور الحمل، أم بعد مضي أربعة أشهر، أم من نفخ الروح؟ والجواب أن العبرة إنما هو بظهور خلقه وعدم ظهوره كما حرره شيخنا زكريا (قوله: ولم يصل عليه) أي سواء كان تام الخلق أم لا (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 228)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2777/45-4327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کے بعد اگر  ہاتھ پر تری باقی ہو تو اس سے سر کا مسح کرنا کافی ہوگا، سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا ضروری نہیں ہے۔ البتہ سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا سنت ہے۔

  عن الربیع ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسح براسہ من فضل ماء کان فی یدہ(ابوداؤد

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود شریف کی تعظیم اولیٰ ہے، تعظیم اس کے پڑھنے ہی میں ہے، جو کہ خلوص قلب سے پڑھا جاتا ہے(۱) امام صاحب کا طریقہ نو ایجاد اور بدعت ہی میں شمار ہوگا،(۲) البتہ بعض لوگ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہط ۱۳۷} یا ’’یانور‘‘ ۱۱؍ مرتبہ پڑھ کر انگلی اور انگھوٹھے پر دم کر کے آنکھوں پر پھیرتے ہیں، آنکھوں کی روشنی وحفاظت کے لیے یہ عمل پڑھا جاتا ہے فرض رکعات کا سلام پھیر کر اور یہ عمل جائز ہے۔(۳)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّطٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۶)
(۲) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا، ذکرہ الدیلمي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمد رسول اللّٰہ قال ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ وکذا ما أوردہ أبو العباس أحمد ابن أبي بکر الرداد الیماني المتصوف في کتابہ ’’موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ‘‘ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ۔ (شمس الدین أبو الخیر محمد بن عبد الرحمن، المقاصد الحسنہ، ’’حرف المیم‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۵)
(۳) {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہط ۱۳۷} فقال نافع بصرت عیني بالدم علی ہذہ الآیۃ وقد قدم۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر’’البقرۃ: ۱۳۷‘‘ ج ۱، ص: ۳۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر مذکورہ امام کی عادت الائچی یا لونگ ثابت رکھنے کی ہو تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی؛ لیکن یہ عادت نا پسندیدہ ہے اس سے احتراز ضروری ہے اور اگر الائچی یا لونگ کو چبایا اور اس کے ذرات لعاب کے ذریعہ حلق کے اندر چلے گئے تو نماز فاسد ہوگی اور اس حالت میں پڑھی گئیں تمام نمازیں قابل اعادہ ہیں۔(۱)

(۱) و یکرہ وضع شيء لا یذوب في فمہ وہو یمنع القراء ۃ المسنونۃ أو یشغل بالہ کذہب۔ قولہ: لا یذوب احترز بہ عما یذوب کالسکر یکون في فیہ إذا ابتلع ذوبہ فإنہا تفسد، ولو بدون مضغ، ذکرہ السید۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۵)
ویکرہ أیضا عند الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ وضع شيء في فمہ لا یمنعہ من القراء ۃ؛ لأنہ یشغل بالہ، وصرح الحنفیۃ بأن یکون ہذا الشيء لا یذوب، فإن کان یذوب کالسکر یکون في فیہ، فإنہ تفسد صلاتہ إذا ابتلع ذوبہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’مادۃ: الصلاۃ: الأماکن التي تکرہ الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۲۷، ۱۱۶، ط: وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الکویت)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص120

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2801/45-4390

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے، جس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔  میاں بیوی کے درمیان جو عوض طے ہوجائے  وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ گفٹ میں ملی ہوئی چیزیں واپس کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم  جس چیز کے عوض خلع  کیا گیا ہو  اس کی ادائیگی بیوی کے ذمہ لازم  ہو گی۔

خلع کے اندر مہر کی مقدار سے زیادہ  لینا شوہر کے لئے  جائز ہے لیکن مکروہ ہے، اس لئے خلع میں کل مہر یا بعض مہر کی معافی  یا واپسی پر ہی عقد کیا جائے  تو بہتر ہے۔

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حکمه، جلد:1، ص:488، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند