Frequently Asked Questions
Prayer / Friday & Eidain prayers
روزہ و رمضان
Ref. No. 41/837
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہاں مخلوط آبادی ہوتی ہے وہاں سحری کے وقت اعلانات سے دوسرے افراد کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ اعلانات اور نظم وغیرہ پڑھنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ لوگوں کو بیدارکرنے کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کئے جائیں۔ موجودہ دور میں بیدار ہونے کے لئے بہت سے راستے ہیں، یہ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے، الارم وغیرہ کے ذریعہ لوگ بیدار ہوسکتے ہیں، اور کلینڈر کے ذریعہ وقت معلوم ہوسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 998/41-184
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
درہم: تین گرام، اکسٹھ ملی گرام، آٹھ میکروملی گرام
دینار: چار گرام تین سو چوہتر ملی گرام
رطل بغدادی: چارسو گرام نو سو پانچ ملی گرام
صاع: تین کلو ایک سو اننچاس گرام دو سو اسی ملی گرام
قیراط: دوسو اٹھارہ ملی گرام سات میکروملی گرام
وسق: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ صاع کی جو مقدار لکھی گئی ہے اس کو ساٹھ گنا کرلیں۔ (الاوزان المحمودۃ ص17، 39، 69)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 1138/42-376
In the name of Allah the most gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, it is permissible.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر غصہ جنون کے درجہ تک تھا تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا اوراگر جنون کے درجہ میں نہیں تھا تو کافر ہوجائے گا۔(۱) تاہم وہ کلمات کفر کیا ہیں ان کی وضاحت بھی ضروری ہے بلا تحقیق کسی کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔ (۲)
(۱) وشرائط صحتہا، العقل، فلا تصح ردۃ المجنون ولا الصبي الذي لا یعقل، أما من جنونہ ینقطع فإن ارتد حال الجنون لم تصح، وإن ارتد حال إفاقتہ صحت۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین‘‘: ج ۲،ص: ۲۶۶)
(۲) في الفتاویٰ الصغریٰ: الکفر شيء عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً متی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’ کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۸)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، اگر اسلامی ناموں کو برا اور غیروں کے ناموں کو اچھا سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو اندیشہ کفر ہے اور اگرایسا مصلحت کی وجہ سے کیا ہے تو گنجائش ہے مگر ناموں کے معنی اچھے ہونے چاہئے تا ہم اس سے گریز ہی کریں اس میں تشبیہ بالغیر معلوم ہو رہا ہے، بعض علماء تو کفر ہی کے قائل ہیں۔ (۱)
(۱) ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم، وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي و یؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب إن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا إلا نزیل عنہ إسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
الجواب صحیح:
دار العلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2262/44-2416
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو سگی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بنص قطعی حرام ہے۔ اور جو شخص جان بوجھ کر کھلم کھلا ایسا کرے اور مسئلہ معلوم ہونے پر بھی اس سے باز نہ آئے تو اس کا بائیکاٹ کیاجائے، اسکے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ رکھاجائے، اس کے ساتھ میل جول رکھنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھناجائز نہیں ہے۔
﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24]
’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي‘‘ (الفتاوى الهندية (1/ 277)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خلفاء راشدین واہل بیت کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، ان کی فضیلت کے بیان کے لئے حدیث کی کتابوں میں مستقل ابواب ہیں؛ اس لئے خطبہ میں ان کا تذکرہ افضل و مستحب ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو امت بھی اس کا اظہار کرے اور ان کے لئے دعا کرے۔(۱)
۱) وذکر الخلفاء الراشدین رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم أجمعین مستحسن بذلک جری التوارث، کذا في التنجیس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰت: الباب السادس عشر: في صلاۃ الجمعۃ ومن الستحب‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۸)
عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ، قال: لما نزلت ہذہ الآیۃ {ندع أبنائنا وأبنائکم} دعا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- علیاً وفاطمۃ وحسناً وحسیناً فقال: أللہم ہٰولاء أہل بیتي، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸، رقم: ۶۱۳۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص229
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسلمانوں کے لئے وہی عمل باعث خیر و برکت اور باعث نجات ہوگا جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے اربعہ یا ان صحابۂ کرامؓ سے ثابت ہو جنہوں نے قرآن اور حدیث اور فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنایا اور عمل کیا اور اسی کے مطابق اسلاف و اکابر نے عمل کیا۔(۱) جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک طریقہ کو ان حضرات نے اختیار نہیں کیا یہ سب بہت بعد کی ایجادات ہیں اور ان پر عمل بلاشبہ بدعت ہے(۲) اور بدعت کو ضلالت سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے ترک ضروری ہے۔(۳)
(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
(۲) أنکر الخطابي ومن تبعہ وضع الجرید الیابس، وکذلک ما یفعلہ أکثر الناس من وضع ما فیہ رطوبۃ من الریاحین والبقول ونحوہما علی القبور لیس بشیء۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب ما جاء في غسل البول‘‘: ج ۳، ص: ۱۲۱)
ومن المنکرات الکثیرۃ کإیقاد الشموع والقنادیل التي توجد في الأفراح، وکدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرۃ علی الذکر وقراء ۃ القرآن، وغیر ذلک۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۹)
(۳) وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب اجتناب البدع والجدل‘‘: ج ۱، ص: ۱۸؛ مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353