طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1061 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عام حالات میں جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو تواس پر غسل فرض  ہوگا۔  ایک حدیث میں ہے ۔ ،من توضا یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا  تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس  کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ قال النووی المراد بالوجوب وجوب اختیار کقول الرجل لصاحبہ حقک واجب علی قالہ علی القاری وقال محمد فی موطاہ اخبرنا محمد بن ابان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعی قال ای حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعة والغسل من الحجامة والغسل فی العیدین قال ان اغتسلت فحسن وان ترکت فلیس علیک فقلت لہ الم یقل رسول اللہ ﷺ من راح الی الجمعة فلیغتسل قال بلی ولکن لیس من الامور الواجبة وانما ھو کقولہ تعالی واشھدوا اذا تبایعتم الحدیث ویویدہ مااخرج ابوداود عن عکرمة ان ناسا من اھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس اتری الغسل یوم الجمعة واجبا فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا والد کا تعاون ہے؛ صرف اس وجہ سے وراثت میں زید کو زیادہ حصہ نہیں ملے گا، والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے اگر کوئی ماہانہ تنخواہ وغیرہ طے ہوئی تھی تو اس کا حساب کرکے پہلے اس کو دیدیا جائے گا پھر وراثت ےتقسیم ہوگی اور تمام لڑکوں کو برابربرابر حصہ ملے گا۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد کل جائداد کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، 7 حصے بیٹی کو، اور چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1008/41-167

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صدقات واجبہ کسی سید کے لئے حلال نہیں ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جو سید ضرورتمند ہیں  ان کی  اللہ کے واسطہ مدد کریں۔  للہ کا مطلب ہے اللہ کی رضا کے لئے ان کی نفلی صدقات سے مدد کریں۔ مسلمانوں پر صرف زکوۃ ہی فرض نہیں ہے بلکہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے  بہت ساری چیزیں بھی لازم ہوتی ہے، اسی لئے حدیث میں فرمایا کہ  زکوۃ کے علاوہ بھی تمہارے مال میں حق ہے۔  کوئی سید اگر ضرورتمند ہو اور مسلمان اس کی نفلی صدقات سے مدد نہ کریں تو یہ شرم کی بات ہے۔ اللہ ہمیں اس فیملی کی قدر کی توفیق بخشے، آمین۔    

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد جلال قاسمی غفرلہ

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1355/42-758

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی جائز کام کی نذر ہو تو ٹھیک ہے اور یہ در اصل وقف کرنے کی نذر ہے ، اس لئے مسجد میں بھی وہ چیز دی  جاسکتی ہے۔  لیکن اگر چادر چڑھانے وغیرہ کی نذر ہے تو نذر منعقد نہیں ہوگی اور جوکچھ مسجد میں بطور صدقہ دینا چاہے دے سکتاہے۔

ولذا صححوا النذر بالوقف لأن من جنسه واجبا وهو بناء مسجد للمسلمين كما يأتي مع أنك علمت أن بناء المساجد غير مقصود لذاته (شامی، کتاب الایمان 3/735) (ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً (بدائع الصنائع 5/82)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1585/43-1117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد شادی سے ایک دودن پہلے کچھ ضروری چیزیں بھیج دی جاتی ہیں تاکہ دلہن کا کمرہ سیٹ کرنے میں آسانی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کو رشوت کہنا درست نہیں ہے۔

ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها (الموسوعة الفقهية الكويتية ، 16/166، دار السلاسل)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»(" إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 5/1974، دار الفكر) "والمعتمد البناء على العرف كما علمت (شامی باب المھر 3/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1753-43-1470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو بلانے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن میں پیار اور نرمی ہو، اور سننے والے کو برا محسوس نہ ہو، اگر بہو کو اس طرح بلانے سے اپنائیت کا احساس ہوتاہے تو اس طرح بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اکثر لوگ  بے تکلف اس طرح بولتے ہیں اور سننے والے کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک گونہ اپنے پن کا احساس ہوتاہے ۔ اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔

عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن الله رَفيق يحب الرفق، ويعطي علي الرفق ما لا يعطي علي العنف" (مسند احمد 1/552)

عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من يحرم الرفق يحرم الخير" (سنن ابن ماجہ، باب الرفق 4/646)

عن عائشة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "إن الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله" (سنن ابن ماجہ، باب الاحسان الی الممالیک 4/647)

عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: "مَا كانَ الرِّفْقُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إلاَّ زَانَهُ، ء وَلا كَانَ الْفُحْشُ فِي شيءٍ قَطُّ إِلاَّ شَانَهُ" (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، باب ماجاء فی الرفق 6/187)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2378/44-3590

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو چیز جس نیک کام کے لئے وقف ہو اس کو اسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہئے، قبرستان  کے لئے چندہ کی گئی رقم کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگانا بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف ہے، جبکہ شریعت میں واقف کے منشاء کی رعایت بہرحال ضروری ہوتی ہے۔ اور اگر قبرستان کی رقم کسی درخت  وغیرہ کے فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ہے  اور وہ قبرستان کی ضرورت سے زائد ہو، بظاہر مستقبل قریب میں قبرستان کو اس کی ضرورت نہ ہو، تو انتظامیہ کے مشورہ سے اس کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگایا جاسکتاہے۔

وفي فتاوى الشيخ قاسم: وما كان من شرط معتبر في الوقف فليس للواقف تغييره ولا تخصيصه بعد تقرره ولا سيما بعد الحكم. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب في أحكام الوقف على فقراء قرابته، ج:4، ص:453)

وإذا لزم الوقف وتم لا يملك أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارجعن ملكه. (دررالحكام شرح غرر الأحكام، كتاب الوقف، ج:2، ص:135)

شرط الواقف كنص الشارع فيجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب القاضي اذا قضى في مجتهد فيه، ج:4، ص:495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت وغیرہ کے مواقع پر بدعات سے اجتناب لازم ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہئے اس کے لیے لٹریچر وغیرہ لکھنا بھی مفید ہے، لوگوں سے فرداً فرداً کبھی ملاقات کرکے ان کو صحیح طور سے آگاہ کرنا بھی مفید ہے، محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کی جائے، ہدایت تو اللہ کا کام ہے بندہ کوشش کرسکتا ہے۔(۱)

(۱) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ فی غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص490

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو، ایک ہی کتاب کی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے لازم سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ حسب ضرورت قرآن کریم کے مذکورہ تراجم وتشریحات کو پڑھ کر سنانا بھی بلا شبہ درست ہے۔ لیکن تفسیری نکات پر بغیر علم کے ناواقف کا کلام کرنا درست نہیں ہے۔ بعض علماء نے تفسیری نکات کو بیان کرنے کے لیے پندرہ علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اپنی رائے سے تفسیر کے اصول کو نظر انداز کر کے کچھ بھی تفسیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱) جس جگہ پر کچھ لوگ فضائل اعمال کے پڑھنے پر اصرار کریں اور کچھ لوگ دوسری کتاب کے پڑھنے پر اصرار کریں تو الحمد للہ اوقات نماز پانچ ہیں، کسی وقت پر نماز کے بعد ایک کی اور دوسرے وقت پر دوسری کتاب کی تعلیم متعین کرلی جائے یا اس کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرلیا جائے، اسی کو باعث اختلاف بنا لینا درست نہیں ہے۔
فضائل اعمال میں احادیث بھی ہیں اور دیگر واقعات وتشریحات بھی ہیں، صرف حدیث کی کتاب کہنا اور اس پر اصرار درست نہیں ہے۔

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في کتاب اللّٰہ عز وجل برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔… … (شیخ عبد اللّٰہ کاپودروي، قواعد التفسیر: ص: ۹۸)
اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القرائات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص42

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس خواب سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دادی مرحومہ کو اللہ تعالیٰ نے بلند مقام عطا فرمایا ہے، اور مغفرت فرمادی ہے۔ اور اس کی خصوصی وجہ قرآن کریم سیکھنا ہے۔ اور یہ کہ باقی مذکورہ افراد بھی خوش وخرم ہیں۔(۱)

(۱) (سورۃ القرآن) التي تقرأ علی الأموات غالباً قرائتہا في المنام تدل علی موت المریض وقرائۃ سورۃ تصاریف المریض سرور وأفراح ورزق وتجدید۔ (العبد الغني بن إسماعیل، …بقیہ  …تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۱۵۰)
(قرآن) ہو في المنام قرائتہ من مصحف أمر ونہي وشرف وسرور ونصر۔ (ومن رأی) أنہ یقرأ القرآن ظاہراً من غیر مصحف، فإنہ رجل یخاصم في حق ودعواہ حق ویؤدي ما في یدہ من الأمانۃ ویکون مؤمناً خاشعاً یأمر بالمعروف وینہی عن المنکر۔ (العبد الغني بن إسماعیل، تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۲۷۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص175