متفرقات

Ref. No. 2600/45-4099

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    کسی کے انتظار کرنے کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہوتاہے کہ آدمی تمام فرائض و طبعی تقاضوں کو چھوڑ کر آنے والے کی راہ تکتا رہے، اس لئے  فکری طور پر کسی کا انتظارکرنے کے ساتھ عبادت میں مشغول ہونا یا اپنی طبعی ضرورت کو پورا کرنا وغیرہ سارے امور ممکن ہیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2696/45-4158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ معاملہ (گروی رکھنا) درست ہے، کسی سے کوئی چیز گروی رکھ کر قرض لینا جائز ہے، دوکان اور مکان کو گروی رکھنا بھی درست ہے، تاہم مکان یا دوکان سے کسی طرح فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2731/45-4212

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زانی اور فاسق گناہ گار بلکہ مرتکب کبیرہ ہے لیکن ایمان سے خارج نہیں ہے اس لیے اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے تاہم مقتدا حضرات اگر تنبیہ کے لیے نہ پڑھیں تو بہتر ہے یہی حکم جنازہ کو کندھا دینے کا ہے کہ عام لوگوں کے لیے فاسق کے جنازہ کو کندھا دینا باعث اجر و ثواب ہے اس لیے کہ وہ مومن کا جنازہ ہے ہاں اگر تنبیہ کےلیے مقتدا حضرات کندھا نہ دیں تو بہتر ہے ،میت کو کندھا دینے کا ثواب مومن کی قید کے ساتھ ہے اور فاسق بھی مومن ہے ،فاسق کے جنازہ کو کندھا دینے کوعام لوگوں کے لئے مکروہ کہنا یا منع کرنا درست نہیں ہے۔ ان رجلا من أسلم جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاعترف بالزنا، فأعرض عنه حتى شهد على نفسه أربع مرات، فقال: أبك جنون؟ قال: لا قال: أحصنت؟ قال: نعم فأمر به فرجم بالمصلى فلما أذلقته الحجارة فر فأدرك فرجم حتى مات فقال له - أي عنه - النبي صلى الله عليه وسلم خيرا وصلى عليه(سنن ابی داؤد،6/480)ان رجلا مات بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صلوا على صاحبكم إنه قد غل في سبيل الله» قال: ففتشنا متاعه، فوجدنا خرزا لا يساوي درهمين.قال عطاء: لا أدع الصلاة على من قال: لا إله إلا الله قال تعالى: {من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم}.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع … (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا وآخر خلفہا ولا تفسد أکثر من ذلک۔ ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتوی۔ کذا في التتارخانیۃ والمرأتان صلاۃ أربعۃ واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما واثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن وآخر عن یسارہن وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)

(۱) ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل  الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج ۱، ص: ۱۴۶؛ وأحمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹، ط: قدیمی)
(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص513

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے اس صورت میں نماز مکروہ ہوگی اور ریشم کو بچھاکر اس پر نماز پڑھنا اس کو فقہاء نے جائز کہا ہے۔ ’’کما ورد في المختار بخلاف الصلاۃ علی السجادۃ منہ إلی من الحریر لأن الحرام ہو اللبس دون الانتفاع‘‘ احتیاط یہ ہے کہ ریشم کے کپڑے پر نماز نہ پڑھی جائے کہ یہ ہی تقویٰ ہے۔ لیکن اگر اس کپڑے پر نماز پڑھ لی تو ادا ہوگئی اس کا اعادہ ضروری نہیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن زریر یعني  الغافقي أنہ سمع علي بن أبي طالب یقول: إن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ حریراً فجعلہ في یمینہ، وأخذ ذہبا فجعلہ في شمالہ، ثم قال:إن ہذین حرام علی ذکور أمتي‘‘(۱)
’’عن سوید بن غفلۃ، أن عمر بن الخطاب خطب بالجابیۃ، فقال نہی نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن لبس الحریر إلا موضع إصبعین، أو ثلاث، أو أربع‘‘(۲)
’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما یلبس الحریر في الدنیا من لاخلاق لہ في الآخرۃ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، فی سننہ، ’’کتاب اللباس، باب في الحریر للنساء‘‘: ج ۲، ص۵۶۱قم:۴۰۵۷، مکتبہ نعیمیہ)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب: تحریم استعمال إناء الذھب و الفضۃ‘‘:ج۲، ص۱۹۲ رقم: ۲۰۶۹، اعزازیہ دیوبند۔)
(۳) محمد بن إسماعیل، الصحیح البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للجال و قدر ما یجوز منہ‘‘: ج۲، ص۸۶۷ رقم: ۵۸۳۵۔مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص112

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب واللّٰہ الموفق: فقہا احناف کے یہاں قنوت نازلہ کے سلسلے میں دوطرح کی روایات ہیں ایک تو تمام جہری نمازوں میں دعائے قنوت پڑھنے کی بات مذکورہ ہے؛ چناں چہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں :
’’فیقنت الامام فی الجہریۃ‘‘(۲)
ملتقی میں ہے: ’’فیقنت الإمام في الصلاۃ الجہریۃ‘‘(۳)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی بھی یہی رائے ہے:
’’فإن الشیخ العیني رحمہ اللّٰہ تعالٰی نقل عن الطحاوي ما یدل علی أنہا ثابتۃ عندنا أیضاً، وقنوت النازلۃ عندنا في الجہریۃ، کما في شرح الہدایۃ للأمیر الإتقاني، وفي شرح شمس الدین النووي: جوازہا في الصلوات مطلقاً‘‘(۱)
دوسری رائے یہ ہے کہ صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے، باقی جہری نمازوں میں قنوت نازلہ نہیں ہے۔ علامہ شامی نے اسی کو راجح قرار دیا، انہوں نے ایک خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ اصل فقہاء احناف کے یہاں فجر ہے اسی کو غلطی سے جہر کردیا گیا؛ لیکن چوں کہ متعدد کتابوں میں ہے اس لیے دوسرا خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں احناف کے یہاں دو روایات ہوں ’’ولعل في المسئلۃ قولین‘‘(۲) اکثر ارباب فتاوی نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے کہ صرف فجر کی نماز میں دعائے قنوت کا اہتمام کیاجائے لیکن اگر کبھی یا کسی جگہ مغرب میں بھی دعائے قنوت پڑھی گئی تو فقہاء کی عبارات کی روشنی میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

(۲) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۸، زکریا دیوبند۔)
(۳)إبراھیم الحلبي، ملتقی الأبحر علی ہامش المجمع: ج ۱، ص: ۱۲۹۔)
(۱) الکشمیري، فیض الباري: ج ۲، ص: ۳۷۶۔)
(۲)ابن عابدین، منحۃ الخالق علی ہامش البحر: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص341

طلاق و تفریق

Ref. No. 2827/45-4418

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شوہر کے قول 'میری ابھی شادی ٹوٹی ہے' اگر اس سے طلا ق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی، اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین
coming soon....

اسلامی عقائد

Ref. No. 1115

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خریدوفروخت کی مذکورہ صورت درست ہے، کیونکہ دو ملکوں کی کرنسی  کوکمی بیشی کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے۔ یہاں پر پیسوں کے عوض ڈالر کی بیع ہورہی ہے اس لئے بیع کی یہ صورت درست ہے۔ چیک بھی پیسوں کے حکم میں ہے اسی وجہ سے چیک کے ذریعہ سونا چاندی کی خریدوفروخت درست ہے، اس لئے مجلس میں چیک پر قبضہ کرنا احد البدلین پر قبضہ مانا جائے گا۔

وقد یقع تسلیم النقود عن طریق الشیکات، والشیکات جمع شیک وھو ورق یصدرہ  من لہ حساب فی بنک، فیرید ان یسحب بہ مبلغا من رصیدۃ عند البنک اما لیاخذ ذلک المبلغ بنفسہ او لیاخذ منہ شخص آخر مکتوب علیہ اسمہ او لیاخذہ من ذلک الحساب  من یعرضہ علی البنک بدون تسمیۃ فی ھذہ الحالۃ الاخیرۃ یسمی البنک الشیک لحاملہ (cheque-bearer)، واجمع جمع من المعاصرین ینبغی ان یعتبر تسلیم الشیک قبضا لمبلغہ اما احتمال فشل الشیک فلایلتفت الیہ لان القانون یفرض عقوبات شدیدۃ علی من اصدر شیکا بدون رصیدۃ (فقہ البیوع1/442)۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1030

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The number 786 is written in order to save Allah’s name from desecration. So, there is nothing wrong in writing 786 as an alternative of bismillah.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband