نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گھر میں نماز پڑھنے والوں کے لیے اذان واقامت ضروری نہیں ہے تاہم اذان واقامت کے ساتھ نماز ادا کی جائے تو بہتر ہے تاکہ گھر کی نماز بھی مسجد کی جماعت کی ہیئت پر ہو جائے؛ لیکن اگر اذان واقامت کوترک کر دیا تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ مسجد محلہ کی اذان واقامت کافی ہے، تاہم اقامت کا اہتمام پھر بھی کرنا چاہئے۔
شامی میں ہے ’’لکن لا یکرہ ترکہ بمصلی في بیتہ في المصر لأن أذان الحي یکفیہ کما سیأتي‘‘(۱)

(۱) حصکفي، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴۔
(بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفی بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ  لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ۔ (ابن عابدین،رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا، دیوبند)
فإن صلی في بیتہ في المصر یصلي بأذان وإقامۃ ’’لیکون الأداء علی ہیئۃ الجماعۃ‘‘ وإن ترکہما جاز، لقول ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أذان الحي یکفینا۔ (المرغیناني، الہدایۃ في شرح بدایۃ المبتدي، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۹۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص141

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے باریک کپڑے میں نماز پڑھنا کہ جسم کا اندرون حصہ دکھائی دے درست نہیں ہے، اس لیے کہ نماز میں ستر عورت فرض ہے اور فرض کے فوت ہونے سے نماز نہیں ہوتی ہے ہاں اگر لباس اتنا موٹا ہو کہ جسم کا اندرون دکھائی نہ دیتا ہو لیکن لباس قدرے تنگ ہو کہ جسم کی ساخت معلوم ہوتی ہو تو اس صورت میں نماز درست ہوجائے گی اس لیے کہ ستر عورت پایا جارہا ہے لیکن اس طرح کا لباس پہننا جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہویہ درست نہیں ہے۔
’’أما لو کان غلیظا لا یری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لا یمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۱)
’’في شرح شمس الائمۃ السرخسي: إذا کان الثوب رقیقا بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرۃ لا یحصل بہ ستر العورۃ إذ لا ستر مع رؤیۃ لون البشرۃ‘‘(۲)
’’وکشف ربع عضومن أعضاء العورۃ یمنع صحۃ الصلاۃ‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۰۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلی، ’’مباحث و فروع تتعلق بستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴۔)
(۳) حسن بن عمار الشرنبلالي، نورالإیضاح، ص: ۶۶۔
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص99

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: قرآن کریم کی تلاوت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مخارج وصفات کی رعایت کے ساتھ صاف تلفظ میں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائے خواہ ترتیل سے (خوب ٹھہر ٹھہر کے) پڑھے یا حدر کے ساتھ (قدرے روانی سے پڑھے)۔ باقی لہجے وغیرہ کے حوالے سے قرآنِ مجید کی تلاوت کا کوئی خاص طرز نہیں ہے، البتہ ترنم و نغمات سے پرہیز کرتے ہوئے بلاتکلف عربی لب و لہجے میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ایک روایت میں ہے ’’حسنوا القرآن بأصواتکم‘‘ کہ اپنی آواز کے ذریعہ قرآن کو خوبصورت بناکر پڑھو۔ معلوم ہوا کہ تجوید کی رعایت کے ساتھ بلاتکلف قرآن پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اس لیے نماز میں خاص طورپر خطابی لب ولہجہ جس میں تکلفات کا سہارا لیا جاتا ہے درست نہیں ہے۔
’’وعن حذیفۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتہا) عطف تفسیری، أي: بلا تکلف النغمات من المدات والسکنات في الحرکات والسکنات بحکم الطبیعۃ الساذجۃ عن التکلفات (وإیاکم ولحون أہل العشق): أي: أصحاب الفسق (ولحون أہل الکتابین)، أي: أرباب الکفر من الیہود والنصاری، فإن من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘(۱)
’’قال الجزري: اللحون والألحان جمع لحن، وہو التطریب وترجیع الصوت وتحسین قراء ۃ القرآن أو الشعر أو الغناء (وأصواتہا) أي ترنماتہا الحسنۃ التي لا یختل معہا شي من الحروف عن مخرجہ لأن ذلک یضاعف النشاط۔ قال القاري: وأصواتہا عطف تفسیری أي بلا تکلف النغمات من المدات والحرکات الطبیعیۃ الساذجۃ عن التکلفات‘‘(۲)
’’وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: زینوا القرآن بأصواتکم۔ وقال عبد اللّٰہ بن مسعود: لا تنثروہ نثر الدقل، ولا تہذوہ ہذّ الشّعر وقفوا عند عجائبہ، وحرکوا بہ القلوب أي لا تسرعوا في قرائتہ کما تسرعون في قراء ۃ الشعر، والہذ: سرعۃ القطع ہذا، ولیس معنی قولہ سبحانہ {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا} أن یقرأ بطریقۃ فیہا تلحین أو تطریب یغیر من ألفاظ القرآن، ویخل بالقرائۃ الصحیحۃ من حیث الأداء، ومخارج الحروف، والغن والمد، والإدغام والإظہار … وغیر ذلک مما تقتضیہ القراء ۃ السلیمۃ للقرآن الکریم‘‘
’’وإنما معنی قولہ تعالی: {وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیلًا} أن یقرأ ہ بصوت جمیل، وبخشوع وتدبر، وبالتزام تام للقرائۃ الصحیحۃ، من حیث مخارج الحروف، ومن حیث الوقف والمد والإظہار والإخفاء، وغیر ذلک‘‘(۳)
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب فضائل القرآن: باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن، الفصل الأول‘‘: ج ۵، ص: ۸۶، رقم: ۲۲۰۷۔
(۲) المبارکفوري، مرعاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: باب آداب الصلاۃ:ودروس القرآن‘‘ج ۹، ص: ۱۹۴، رقم: ۲۲۲۹۔
(۳) التفسیر الوسیط للطنطاوي: ج ۱۵، ص: ۲۱۸، قاہرہ۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص216

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہمارے یہاں بہتر اور راجح تو یہی ہے کہ قنوت نازلہ صرف فجر کی نماز میں پڑھی جائے مگر چوں کہ بعض علماء نے دوسری جہری نمازوں میں بھی جائز کہا ہے اس لیے تراویح میں اگر قنوت نازلہ پڑھ لی تو بھی نماز درست ہوگئی۔
قنوت نازلہ میں درود شریف کا پڑھنا بھی جائز ہے کیوں کہ درود شریف کے پڑھنے سے دعاء جلد قبول ہوتی ہے۔
’’وقال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في صلاۃ الفجر من غیر بلیۃ، فإن وقعت فتنۃ أو بلیۃ فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ وأما القنوت في الصلوات کلہا للنوازل فلم یقل بہ إلا الشافعي، وکأنہم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاۃ والسلام أنہ قنت في الظہر والعشاء کما في مسلم‘‘
’’وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبۃ والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاۃ والسلام اھـ۔ وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص324

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسئلہ یہ ہے کہ نفل شروع کرنے سے واجب ہوجاتی ہے پس جب کسی نے نماز نفل شروع کرنے کے بعد کسی وجہ سے توڑ دی تو اس پر اس نماز کا اعادہ واجب ہے بشرطیکہ شروع کرنا صحیح ہو مگر یہاں پر شروع کرنا ہی صحیح نہیں ہوا اس لیے کہ مصلی کے کپڑے شروع سے ہی ناپاک تھے لہٰذا اعادہ اس نماز کا واجب نہیں ہے۔
’’ولزم نفل شرع فیہ …… شروعاً صحیحاً‘‘(۲)

(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۷۴، ۴۷۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص435

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1010 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اجازت ہے، مگراتنا خیال رکھیں کہ جب قرآن اسکرین پر کھلا ہو تو اس کا حکم قرآن جیسا ہوگا اس کو بلا وضو نہ چھوئیں  اور اس حالت میں بیت الخلاء میں بھی نہ لیجائیں۔ تاہم اگر قرآنی آیات اسکرین پرکھلی نہ ہوں تو پھرکوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 39/1066

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  1/اس کو اجرت کہنا درست نہیں ہے۔ 2/مسجد کا فنڈ مسجد کی ضروریات کے لئے ہے، مسجد کے فنڈ سے  تراویح کے امام یا کسی کو بھی ہدیہ دینا جائز نہیں ہے۔3/ جائز نہیں ہے۔4/ تراویح کے امام کواجرت دینا درست نہیں ہے، واقعۃً انعام و ہدیہ کے طور پر کچھ دیاجائے تو درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1075

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

A Hadith with reference to a book namely ‘Musannaf e Abdur Razzaq’ is stated about the same. But it does not exist in ‘Musannaf Abdur Razzaq’. The Hadith is labeled with Mauzoo.

ومنها ما ذكره العجلوني في كشف الخفا [1/ 265] ، قال: روى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله قال: قلت: يا رسول الله بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء؟، قال: يا جابر إن الله تعالى خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ... الحديث بطوله۔ وهذا لم نقف عليه في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق، (شرف المصطفی 1/307، السیرۃ الحلبیۃ 1/214) (کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء 1/302)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1216/42-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ  کے دوستوں نے آپ پر اعتماد کرکے آپ  سے گھی منگوایا  ہے، آپ اس معاملہ میں ایک وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے  بغیر بتائے کمیشن   اور نفع لینا جائز نہیں ہوگا۔ 

إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1472/42-918

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال۔ اللواط من اشد المعاصی التی تخوفتھا الشریعۃ علی الامۃ لفسادہ للفطرۃ البشریۃ ، قال رسول اللہ ﷺ  ان اخوف مااخاف علی امتی من عمل قوم لوط۔ (ابن ماجہ 2563)۔   وذهب الشافعي في ظاهر مذهبه والإمام أحمد في الرواية الثانية عنه إلى أن عقوبته وعقوبة الزاني سواء .  وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن عقوبته دون عقوبة الزاني وهى التعزير ".  

و لکن ھناك أمر مھم یجب ان یتضح ان الحدود والعقوبات ھی مسؤولية قاضي الحكومة الإسلامية فی المملکۃ الاسلامیۃ خاصۃ۔ ھو یقدرھا وینفذھا لا غیر۔ ویحرم علی المرء ان ینفذ الحدود والعقوبات بنفسہ۔ بل علیہ ان یتوب توبۃ نصوحا و يتخلى عن السيئات جملة ويصمم على عدم الاقتراب منها مرة أخرى،و یصلی ركعتين للتوبۃ معربا عن الندم والعار علی ما اقترفہ من عمل شنیع۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند