Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1583/43-1115
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کپڑے پر نجاست مرئیہ (دکھائی دینے والی) لگی ہو تو عین نجاست کوزائل کرنے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اگر نجاست غیرمرئیہ(جو نظر نہیں آتی )ہے تو اس جگہ کو تین مرتبہ دھونے اور ہر بار نچوڑنے سے پاکی حاصل ہوگی۔ جس جگہ نجاست لگی ہو صرف اس حصہ کو پانی سے تین بار دھودیں پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرتین بار اچھی طرح دھونے کے بعد بھی نجاست کا رنگ محسوس ہو تو اس سے پاکی میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ کپڑا پاک ہوجائے گا۔
المني إذا أصاب الثوب فإن كان رطبا يجب غسله وإن جف على الثوب أجزأ فيه الفرك استحسانا. كذا في العناية والصحيح أنه لا فرق بين مني الرجل والمرأة وبقاء أثر المني بعد الفرك لا يضر كبقائه بعد الغسل. هكذا في الزاهدي. (الھندیۃ الفصل الاول فی تطھیر الانجاس 1/44)
"والفصل الثاني: أنه ما دام رطبًا لايطهر إلا بالغسل (المبسوط للسرخسی«كتاب الطهارة»،«باب الوضوء والغسل» (1/ 81)،ط.دار المعرفة – بيروت)
(وأما) سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل، سواء كانت رطبة أو يابسة، وسواء كانت سائلة أو لها جرم ولو أصاب ثوبه خمر، فألقى عليها الملح، ومضى عليه من المدة مقدار ما يتخلل فيها، لم يحكم بطهارته، حتى يغسله. ولو أصابه عصير، فمضى عليه من المدة مقدار ما يتخمر العصير فيها، لا يحكم بنجاسته، وإن أصاب الخف أو النعل ونحوهما، فإن كانت رطبة لا تزول إلا بالغسل كيفما كانت. (بدائع الصنائع، فصل فی بیان ما یقع بہ التطھیر 1/84)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ کا مقصد معلوم ہوئے بغیر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانویں احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفیٔ کفر کا ہو تو بھی کفر کا فتویٰ وفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔
’’إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر، ووجد واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسیناً للظن بالمسلم‘‘ (۱)
مذکورہ فی السوال اشعار میں کفریہ بات کہی گئی ہے؛ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین‘‘ سے یہ کلام (دو اشعار) معارض ہیں اور اس قسم کے کلام سے کفر یا گناہِ کبیرہ لازم آتا ہے؛ پس مقصد شاعر معلوم ہونے کے بعد ہی صریح بات کہی جا سکتی ہے؛ لہٰذا مقصد معلوم کر کے تحریر فرمائیں؛ نیز اس قسم کے محتمل کلام کی اشاعت اور اسے پڑھنا درست وجائز نہیں ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸۔
(۲) إذا کان في المسألۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي
أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
طلاق و تفریق
Ref. No. 1959/44-1873
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر مذکورہ جملہ اسی طرح کہا تھا جیسا کہ بیان کیاگیاہے تو بہن کے گھر جانے پریمین پوری ہوگئی اور ایک طلاق واقع ہوگئی،اور عورت کی عدت شروع ہوگئی، اب دوبارہ یا سہ بارہ بہن کے گھر جانے پر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے اب اگر شوہر نے عدت (طلاق کے بعد تین حیض) کے زمانہ میں بیوی سے رجعت کرلی تو ٹھیک ہے ، اور اگر عدت گزرگئی تو اب جدیدمہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔" )ہندیہ (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 1 /420،ط:دار الفكر(
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها )الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الطلاق،باب التعليق،مطلب زوال الملك لا يبطل اليمين، 3/ 355، ط: سعید(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں شرعی مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس سے انکار کرنے والے کا منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتوی کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو اس پر عمل نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہوجاتا ہے۔ ’’کما صرح بہ في العالمگیریۃ‘‘ (۱) اور اگر منشاء یہ ہو کہ سوال، واقعہ کے خلاف لکھ کر فتویٰ حاصل کیا گیا ہے، یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے، تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وجزئیات سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں؛ بلکہ وہ خاطی، اور گنہگار ہے ۔(۲
(۲) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ، فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال: لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرہ۔ (أیضا:ص: ۲۸۴)
)
فقط: واللہ اعلم بالصواب
دار العلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 2146/44-2203
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
After one divorce, when the three menstrual periods have passed, it became irrevocable divorce and your marriage is no longer obtainable. Hence, she became a stranger to you. Nevertheless, if the woman wants to marry another man, she can do that. And if she is ready to marry you and both of you agree to get married again, then you can get married and live together, but it should be kept in mind that in the future you will have right to only two divorces.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 418):
"(والزوج الثاني يهدم بالدخول) فلو لم يدخل لم يهدم اتفاقًا قنية (ما دون الثلاث أيضًا)."
Darul Uloom Waqf Deoband
And Allah knows best
Darul Ifta
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2264/44-2418
In the name of Allah the most Gracious the most mMerciful
The answer to your question is as follows:
If one wants to marry someone, then there is no harm in supplicating for her\him and one can supplicate Allah Ta'ala for the said purpose. However, one is not allowed to talk to a stranger man or to a stranger woman before marriage. Just being engaged does not eliminate the strangeness.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 2548/45-3886
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
(1) The water coming out of the private parts is impure. If it gets on the clothes, the clothes become impure. However, it is not obligatory for you to perform ghusl, but it is sufficient to wash the private part and the portion of the clothes where the impurity existed. (2) If the amount of impurity is more than one dirham (coin), it is necessary to wash the clothes. Even if it is dried up, it is not permissible to wear it and pray without washing away the impurity. It will be necessary to wash the area. (3) If there was impurity in the organ and it was washed and purified in the sink, the sink was also purified, it is not necessary to wash it separately, but for comfort, one should wash it again and perform ablution in that place.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2682/45-4141
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی جو رقم معاف کی گئی ہے وہ میت سے معاف کی گئی ہے لہذا اگر قرض خواہ اپنا قرض لے کر میت کے بچوں کو دیدیتے تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن جب انہوں نے قرض معاف کیا ہے تو باقی ماندہ کل رقم میں یعنی چالیس ہزار میں سے ماں کو سدس ملے گا اور اس کے ساتھ جو دیگر مال واسباب ہوں ان کو بھی تقسیم سے قبل شامل کرکے ماں کو سدس دیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا، تو اجازت ہوگئی، اب امام صاحب سے صراحۃً اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، نماز بہرصورت درست ہوگئی۔(۱)
(۱) عن أوس بن ضمعج، عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:… لایؤم الرجل في سلطانہ و لایجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الأدب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۵، ص: ۹۹، رقم: ۲۷۷۲، وکذا في أبواب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
(ولایؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أي: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو في محل یکون في حکمہ، ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلي خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ، وکذلک إذا أمہ في قومہ وأہلہ أدی ذلک إلی التباغض والتقاطع، وظہور الخلاف الذي شرع لدفعہ الاجتماع، فلا یتقدم رجل علی ذي السلطنۃ، لا سیما في الأعیاد والجمعات، ولا علی إمام الحي ورب البیت إلا بالإذن۔ قالہ الطیبي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص265