Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کوئی ایسی حرکت نہ ہو کہ جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہو تو کہنی مارنے یا غلط لقمہ دینے سے نماز فاسد نہ ہوگی اور نہ ہی مقتدیوں کی نماز پر کوئی فرق پڑے گا لیکن سماعت کے لیے عاقل بالغ سمجھ دار ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ، قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری، وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال، ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح۔ ہکذا في الکافي۔ ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي۔ ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح؛ لأنہ یلجئہم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ماتجوز بہ الصلاۃ، وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری۔ کذا في الکافي۔ وتفسیر الإلجاء: أن یردد الآیۃ أو یقف ساکتا، کذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج۱، ص:۱۵۷، ۱۵۸)
فصار الحاصل: أن الصحیح من المذہب أن الفتح علی إمامہ لایوجب فساد صلاۃ أحد، لا الفاتح ولا الآخذ مطلقا في کل حال، بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقا لفاتح وآخذ بکل حال … وینوي الفتح لا القراء ۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق،’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘ ج۴، ص: ۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص116
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جنازہ کی نماز کے بعدمیت کا چہرہ دکھانے سے احتراز کیا جاناچاہئےکیونکہ بعض مرتبہ احوال برزخ شروع ہوجاتے ہیں، تاہم اگر کوئی قریبی رشتہ دار آجائے تو اس کو مردے کا چہرہ دکھانے کی گنجائش ہے، لیکن اگر کوئی تغیر دیکھے تو کسی سے بیان نہ کرے۔ البتہ اس کو رسم ہرگز نہ بنایا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 1015/41-169
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طوافِ زیارت کے بعد نفلی طواف سے بھی طواف وداع ادا ہو جاتا ہے، اور دم واجب نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اگر طواف زیارت کے بعد نہ تو طواف وداع کیا اور نہ ہی کوئی طواف ایسا کیا جو طواف وداع کے قائم مقام ہوجائے تو پھر اس پر دم واجب ہوگا۔ تاہم مناسک حج کےمکمل ہونے کی وجہ سے بیوی حلال ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1132/42-333
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (الف) زید کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیوی کو8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے (کل 42حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے (کل 14 حصے) ملیں گے۔
(ب) اگر کوئی اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، اور اس میں بہتر یہ ہے کہ تمام مذکرومؤنث اولاد کو برابر برابر حصہ دے۔ لیکن اگر وراثت کے اعتبار سے حصوں کی تقسیم کرے تو بھی جائز ہے؟ لیکن اسے ہبہ کہیں گے، وراثت نہیں۔
(ج) فاطمہ کی کل جائداد کو 32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے شوہر کو 8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 6 حصے(کل 18حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے (کل 6 حصے) ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1233/42-547
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اجتماعی دعا کرنا قرون مشہود لہا بالخیر میں ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کو رسم بنانا اور جو عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان پر نکیر کرنا اور ان کو ملامت کرنا یہ سب امور غلط ہیں۔ تاہم اگر اتفاقی طور پر اجتماعی دعا کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ کسی امر مندوب پر اصرار اس امر کو بدعت بنادیتا ہے۔ والاصرار علی المندوب یبلغہ الی حد الکراہۃ (السعایۃ 2/65 باب صفۃ الصلوۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
عائلی مسائل
Ref. No. 1754/43-1465
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علینہ بمعنی واضح ، ظاہر۔ یہ عربی لفظ ہے، بچی کا نام رکھ سکتے ہیں۔ تاہم امہات المومنین، صحابیات اور اچھے معانی والے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کرنا چاہئے۔ نام کا بچہ پر اثر پڑتا ہے، اور اسی نام کے ساتھ میدان محشر میں پکاراجائے گا، اس لئے بہت سوچ سمجھ کر اچھے نام کا انتخاب کریں۔ حدیث شریف میں میں بچوں کا اچھا نام رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خراب یا بدشگونی والے نام رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور آپ ﷺ نے بعض لوگوں کا نام تبدیل بھی کیا ہے۔
عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ‘۔( شعب الایمان، حدیث نمبر:۸۶۵۸)
اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔ (سنن ابی داؤد:2/676،المیزان ،کراچی)
عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔( ابوداؤد :۲ /۶۷۷، مصنف عبد الرزاق :۱۱/۴۱ ،السنن الکبرٰی :۹/۵۱۶ بخاری: ۲/۹۱۴ )
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَحَدَّثَنِي أَنَّ جَدَّهُ حَزْنًا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ? فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ اسْمِي حَزْنٌ قَالَ بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ فِينَا الْحُزُونَةُ بَعْدُ (صحيح البخاري-نسخة طوق النجاة - (1 / 88)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ واقعہ غلط ہے اسرائیلی روایات میں اس کا ذکر ہے جو کہ قابل اعتبار نہیں۔(۱)
(۱) ذکر ابن الجوزي بعد قصۃ طویلۃ: ’’ہذا حدیث موضوع‘‘:
کیف روي ومن أي طریق نقل؟ وضعہ جہال القصاص لیکون سببا في تبکیۃ العوام والنساء، فقد أبدعوا فیہ وأتوا بکل قبیح ونسبوا إلی عمر ما لا یلیق بہ، ونسبوا الصحابۃ إلی ما لا یلیق بہم، وکلماتہ الرکیکۃ تدل علی وضعہ، وبعدہ عن أحکام الشرع یدل علی سوء فہم واضعہ وعدم فقہہ۔
ہذا الذي ذکرہ محمد بن سعید في الطبقات وغیرہ۔ ولیس بعجیب أن یکون شرب النبیذ متأولا فسکر عن غیر اختیار، وإنما لما قدم علی عمر ضربہ ضرب تأدیب لا ضرب حد، ومرض بعد ذلک لا من الضرب ومات، فلقد أبدوا فیہ القصاص وأعادوا۔ وفي الإسناد الأول من ہو مجہول ثم ہو منقطع۔ (جمال الدین عبدالرحمن بن علي بنمحمد الجوزي، الموضوعات: ج ۳، ص: ۲۷۵)
(۲) {لَوْلَآ إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِأَنْفُسِھِمْ خَیْرًالا وَّقَالُوْا ھٰذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌہ۱۲} (سورۃ النور: ۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص230
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:عرس ایک بدعت واضحہ ہے جس کو سلطان اربل نے ۶۰۰ھ میں ایجاد کیا ، اور اس میں بعد میں جو شرعی قباحتیں داخل کرلی گئیں مثلاً گانا بجانا، عورتوں مردوں کا اختلاط اور دیگر خرابیاں ان کی وجہ سے اس کو ناجائز ہی کہا جائے گا۔(۱)
(۱) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ، پاني پتي، تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج)۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۷۵)
ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہ والدعاء عندہ قائما، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
والمستحب في زیارۃ القبور أن یقف مستدبر القبلۃ مستقبلا وجہ المیت وأن یسلم ولا یمسح القبر ولا یقبلہ ولا یمسہ فإن ذلک من عادۃ النصاری کذا في شرح الشرعۃ۔ (أحمد بن محمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص355