Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ امامت کا منصب بہت ہی مقدس ہے جو تقوی وطہارت، پرہیز گاری اور اعلیٰ اخلاقی رویئے کا تقاضا کرتا ہے اس لیے مذکورہ باتیں جو سوال میں ذکر کی گئی ہیں اگر صحیح ہیں تو امام صاحب کو اپنے کردار پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ وہ عامۃ الناس کے لیے نمونہ اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں؛ البتہ امام صاحب مذکورہ فعل کی وجہ سے اگرچہ گناہگار ہیں؛ لیکن ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں درست ہیں انہیں اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گالی دینے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے:
’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔(۱)
ابوداؤد شریف میں لکھا ہے:
فرض نماز کی ادائیگی لازم ہے ہر مسلمان کے پیچھے خواہ وہ نیک ہو یا بد، اگرچہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
’’الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان أو فاجرا وإن عمل الکبائر‘‘(۲)
البتہ اگر امام صاحب گالیاں دینے اور حرام مال کا استعمال کرنے سے نہ رکیں تووہ فاسق ہے ایسے شخص کو آئندہ امام مقرر نہیں کرنا چاہیے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ ’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق‘‘(۳)
ایسے کی اقتداء سے بہتر تنہا نماز پڑھنے کے سلسلے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر نمازی عام آدمی ہے، یعنی جس کے اختیار میں ایسے امام کو رکھنا یا ہٹانا نہ ہو اورقریب کی کسی مسجد میں کوئی متقی و صالح امام بھی میسر نہ ہو تو مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہوگا، البتہ اگر قریب میں اہلِ حق کی کسی مسجد کے امام متقی صالح ہوں تو وہاں جاکر نماز ادا کرے، اور اگر نمازی انتظامیہ میں سے یا با اثر شخصیت ہے تو اسے چاہیے کہ اولًا امام کی فہمائش یعنی آگاہ اور متنبہ کرے، اگر امام اصلاحِ اَحوال کرلیتا ہے تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا بلاکراہت درست ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ امام تبدیل کرے، امام تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(والأحق بالإمامۃ) تقدیمًا بل نصبًا۔ مجمع الأنہر۔ (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃً وفسادًا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: بشرط اجتنابہ إلخ) کذا في الدرایۃ عن المجتبی۔ وعبارۃ الکافي وغیرہ: الأعلم بالسنۃ أولی، إلا أن یطعن علیہ في دینہ؛ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۴۸۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إمامۃ البر والفاجر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۲، رقم: ۵۹۴۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا: ص: ۲۹۴۔
(۲) أیضًا:۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص159
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی اہمیت ہے اور نماز باجماعت میںبھی مسجد کی جماعت کی تاکید ہے، اس لیے حتی الامکان تو اسی کی کوشش کی جائے کہ مسجد میں ایک ہی جماعت قائم ہو اور تمام حضرات اسی ایک جماعت میں شریک ہوں، لیکن اگر اس پر عمل ممکن نہ ہو حکومتی پابندی کا سامنا ہو توپھر ایسی صورت میں بہتر ہے کہ مسجد میں کئی جماعتیں کرلی جائیں اور یہ حکم عارضی طورپر ہوگا، عذر کے ختم ہونے کے بعد مسجد میں تکرار جماعت کا سلسلہ بند کردیا جائے یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس لیے کہ جماعت سے نماز پڑھنا واجب اور مسجد میں جماعت کرنا یہ بھی واجب ہے، اگر گھر میںجماعت کی جائے تو اگر چہ جماعت کا اہتمام ہوجائے گا؛ لیکن دوسرا واجب چھوٹ جائے گا۔(۱)
یہاں ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں جماعت کا تکرار ہوگا تو لوگوں کے دلوں سے جماعت ثانیہ کی کراہت ختم ہوجائے گی؛ اس لیے بہتر ہے کہ گھروں میں ہی جماعت سے نماز پڑھ لیں مسجد میں تکرار نہ کیا جائے؛ لیکن اس میں ایک دوسری خرابی ہے لوگوں کے دلوں میں یہ بیٹھنا چاہیے کہ نماز مسجد میں جماعت سے پڑھنا ضروری ہے؛ لیکن اگر چند دن گھر میں جماعت بنا کر نماز پڑھیں گے تو دلوں سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی جو اہمیت ہے وہ بھی کم ہو سکتی ہے۔ پھر عارضی احوال میں اگر علاقے میں کئی مساجد ہوں جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ہے، وہاں پر مجبوری میں جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس سے یہ خدشہ ہے کہ بعد میں ان مساجد میں جمعہ باقی رہ جائے گا اور لوگ بند کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے جیسا کہ احوال واقعی ہے بہت سی جگہوں سے فتویٰ بھی طلب کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوری کی وجہ سے دوسری تمام مساجد میں جمعہ قائم کیا گیا تھا اب جب کہ حالات معمول پر آرہے ہیں تو کیا وہاں جمعہ بند کرنا چاہیے جب کہ بعض حضرات بند کرنے پر راضی نہیں ہیں ظاہر ہے کہ ان مساجد میں بند کرنے کا ہی حکم دیاجائے گا؛ اس لیے عارضی احوال میں اگر مسجد میں تکرار جماعت ہو یا گھر میں جماعت کا اہتمام ہو، دونوں کی گنجائش ہے۔ محض خدشہ کی بناپر عذر کی وجہ سے تکرار جماعت کو مکروہ نہیں کہا جائے گا۔
(۱) قلت دلالتہ علی الجزء الأول ظاہرۃ حیث بولغ فی تہدید من تخلّف عنہا وحکم علیہ بالنفاق، ومثل ہذا التہدید لایکون إلا في ترک الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعۃ لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما ہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بإحراق البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنہم صلوہا بالجماعۃ فی بیوتہم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعۃ، فمن صلاہا بجماعۃ في بیتہ أتی بواجب وترک واجبًا آخر … و أما مایدل علی وجوبہا في المسجد فإنہم اتفقوا علی أن إجابۃ الأذان واجبۃ لما في عدم إجابتہا من الوعید۔ (إعلاء السنن، باب وجوب إتیان الجماعۃ في المسجد عند عدم العلۃ‘‘: ج۴، ص: ۱۸۶، إدارۃ القرآن کراچی)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364,366
نماز / جمعہ و عیدین
ـالجواب وباللہ التوفیق: کسی بھی نماز کے لیے اذان دی جائے تو وقت کے داخل ہونے کے بعد دی جائے، اگر وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دی گئی تو دوبارہ اذان دی جائے۔ جنتریاں مختلف ہیں بعض میں مقررہ ٹائم ہوتا ہے، بعض میں احتیاط کے پیش نظر دو تین منٹ کی تاخیر سے لکھا ہوا ہوتا ہے اور اذان ونماز کا مدار وقت پر ہے، عام لوگوں کو چاہئے کہ جنتری کے حساب سے وقت داخل ہونے پر ہی اذان پڑھیں۔(۱)
(۱) فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ خلافاً للثاني في الفجر، قولہ: وقع بعضہ، وکذا کلہ بالأولیٰ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب بہا الأذان في غیر الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۰، زکریا دیوبند)… قولہ ولا یؤذن قبل وقت ویعاد فیہ، أي في الوقت إذا أذن قبلہ لأنہ یراد للإعلام بالوقت فلا یجوز قبلہ بلا خلاف في غیر الفجر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶، ۴۵۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص151
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افضل یہ ہے کہ عمل قلیل سے اپنی آستین اتارے ایسی صورت اختیار نہ کرے کہ عمل کثیر ہوجائے اس کی صورت یہ ہے کہ کچھ رکوع میں کچھ قومہ میں کچھ جلسہ میں دونوں آستین اتارے۔
شامی میں ہے ’’مثلہ ما لو شمر للوضوء ثم عجل لإدراک الرکعۃ مع الإمام وإذا دخل في الصلوٰۃ کذلک وقلنا بالکراہۃ فہل الأفضل إرخاء کمیہ فیہا بعمل قلیل أو ترکہما لم أرہ، والأظہر الأول بدلیل قولہ الآتي ولو سقطت قلنسوتہ فإعادتہا أفضل تامل ہذا وقید الکراہۃ في الخلاصۃ والمنیۃ بأن یکون رافعاً کمیہ إلی المرفقین وظاہرہ أنہ لا یکرہ إلیٰ ما دونہا‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا ، مطلب في الکراہۃ التحریمیۃ والتنزیہیۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۶۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 407
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: خاموش رہنا بہتر ہے۔ (۱)
(۱) ولو قرأ الإمام آیۃ الترغیب أو الترہیب فقال المقتدي: صدق اللّٰہ وبلغت رسلہ، فقد أساء، ولا تفسد صلاتہ۔ (فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في ما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷؛ وعلی ہامش الہندیۃ: ج ۱، ص: ۱۳۸، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع في ما یفسد الصلاۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، قدیم؛ ج ۱، ص: ۱۵۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص335
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 37/1190
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اپنی قربانی کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی طرف سے اور اپنے مرحومین کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے۔ حضرت علی جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف سے کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)۔اس لئے صورت مسؤولہ میں سب کی طرف سے قربانی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Manners & Behaviours
Ref. No. 39 / 805
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The fees that are agreed between two parties are valid but the fine that is levied in case of delay in payment is usury and interest which, as per Islamic rulings, is forbidden; hence it is not permissible to willingly pay or receive it.
Nevertheless, if one is forced to pay it, and there is no way to avoid it, then the payer is excused and the sin falls on the one who charges it.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 39/1079
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The deodorant (perfume) which contains alcohol made of grapes and dates is not permissible to use it. But if the perfume contains alcohol which is made of vegetables, then it is permissible to use and perform namaz. Nevertheless, it is better to refrain or use alcohol free perfumes.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1017/41-172
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱:۔ پیشاب کے قطروں سے حفاظت کے لئے ٹیشو پیپر کا استعمال کرنا درست ہے، اور اس قدر اہتمام سے بھی عذاب قبر سے نجات ہوگی ان شا٫ اللہ۔۲:۔ اگر قطرہ نکلنے کا شبہ ہوا تو کھول کر دیکھنا ضروری ہوگا، دیکھنے کے بعد تسلی ہوگئی ، اب پھر شبہ ہوا تو اب اسی میں نماز پڑھے جب تک نکلنے کا غالب گمان نہ ہوجائے۔ اور اس صورت میں اگر سوراخ کی جانب ٹیشو پیپر پر تری نظر نہیں آتی ہے تو پاک سمجھاجائے گا، اور اسی میں نماز ہوجائے گی۔ ۳:۔ اگر نماز کے بعد ٹیشو پیپر کھول کر دیکھا تو سوراخ سے چپکاہوا تھا لیکن اس کے علاوہ ٹیشو کے دوسرے حصے گیلے نہیں ہوئے تھے تو بھی نماز ہوگئی۔
قلت: ومن كان بطيء الاستبراء فليفتل نحو ورقة مثل الشعيرة ويحتشي بها في الإحليل، فإنها تتشرب ما بقي من أثر الرطوبة التي يخاف خروجها، وينبغي أن يغيبها في المحل ؛لئلا تذهب الرطوبة إلى طرفها الخارج (الدر المختار مع رد المحتار، فروع فی الاستبراﺀ 1/345)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ: (كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل، وإن متسفلة عنه لا ينقض (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت، فإن رطبه انتقض، وإلا لا. (الدرالمختار مع رد المحتار، باب سنن الوضوﺀ 1/148)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1116/42-342
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سودی معاملات پر مبنی ہونے کی وجہ سے انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (مسلم 2/72)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند