Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے، اس سے کم اگر خون آئے تو وہ بیماری اور استحاضہ کا خون کہلاتا ہے۔ استحاضہ کی حالت میں عورت عام حالات کی طرح نماز اور روزہ ادا کرے گی۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں تیسرے دن پورے دن انتظار کرے۔ اگر تیسرے دن خون آیا تو تین دن حیض کے ہوگئے اور اگر تیسرے دن بالکل بھی خون نہیں آیا تو یہ دو دن استحاضہ اور بیماری کے شمار ہوں گے اور عورت ان دونوں دنوں کی نمازوں کی قضا کرے گی۔ حیض کی اکثر مدت دس دن ہے۔ اگر دس دن پورے ہونے سے پہلے کسی دن بھی خون آگیا تو سارے ایام حیض کے شمار ہوں گے، اور اگر دو دن کے بعد خون بند ہوگیا اور ۹ ؍دن بند رہنے کے بعد پھر شروع ہوا تو یہ گیارہواں دن ہے اس لیے یہ ایام حیض کے شمار نہ ہوں گے۔(۱)
(۱)و أقلّہ ثلاثۃ أیام بلیالیھا… و أکثرہ عشرۃ، و ما نقص عن أقلہ أو زاد علی أکثرہ، فھو استحاضۃ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر مع مجمع الأنہر، ’’باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۷۷-۷۸) ؛ وأقل الحیض ثلاثۃ أیام و ثلاث لیال في ظاھر الروایۃ، ھکذا في التبیین، و أکثرہ عشرۃ أیام و لیالیھا، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ للنساء، الفصل الأول: في الحیض، و منھا النصاب‘‘ ج۱،ص:۹۱)؛ و أقل الحیض ثلاثۃ أیام و لیالیھا وما نقص من ذلک فھو استحاضۃ، و أکثرہ عشرۃ أیام والزائد استحاضۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ج ۱، ص:۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص388
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے باوجود علم کے عدت میں نکاح پڑھایا ہے تو نکاح پڑھانے والا اور اس نکاح میں شریک گاؤں کے لوگ سب کے سب گناہگار ہوں گے ان سب پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {إِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَ أَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا}(۱)
’’یدل علی أن التوبۃ من الکتمان إنما یکون بإظہار البیان، وأنہ لا یکتفی فی صحۃ التوبۃ بالندم علی الکتمان فیما سلف دون البیان فیما استقبل‘‘(۲)
’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’من رأی منکم منکراً فلغیرہ بیدہ، فإن لم یستطع فبلسانہ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان‘‘(۳)
نیز اگر مذکورہ امام سے بہتر اور لائق کوئی دوسرا شخص امامت کے لیے موجود ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ البتہ توبہ اور استغفار کے بعد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمی ومبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً، وولد الزنا، ہذا إن وجد غیرہم، وإلا فلا کراہۃ‘‘(۱)
(۱) سورۃ البقرۃ: ۱۶۰۔
(۲) الجصاص، أحکام القرآن: ’’سورۃ البقرۃ: ۱۶۰‘‘ ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۳) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب: النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص170
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مغرب کی نماز میں تعجیل بہتر ہے؛ البتہ کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہوجائے اور وقت کے اندر ہی نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں مذکورہ صورت میں عذر بھی ہے اور تاخیر بھی اتنی نہیں ہے جس سے نماز میں کوئی کمی آئے اس لیے درست ہے۔(۱)
(۱) تأخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدۃ، (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۵۷، مکتبہ اتحاد دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص372
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں سلف و صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نمازیں کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں میں نمازیں پڑھیں، آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں، کمپاس یا قبلہ نماکی تعیین کا لازمی اعتبار نہیں ہے۔ ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیں ہے۔
اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ صفیں اس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہو جائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے؛ لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہا أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقی شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند۔
ومن کا خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ ہو الصحیح: ہکذا في التبیین۔
وجہۃ الکعبۃ تعرف بالدلیل، والدلیل في الأمصار والقریٰ المحاریب التي نصبہا الصحابۃ والتابعون فعلینا اتباعہم فإن لم تکن فالسوال من أہل ذلک الموضع، وأما في البحار والمفاوز فدلیل القبلۃ النجوم ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص270
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تشہد میں اثبات کے وقت انگلی اٹھانے کے بعد انگلیوں کا حلقہ بنایا جاتا ہے۔ آخر نماز تک اس کا باقی رکھنا افضل ہے اس کو کھولنے کا تذکرہ کسی کتاب میں نظر سے نہیں گذرا۔ شامی میں ہے ’’أي حین الشہادۃ فیعقد عندہا الخ‘‘(۱) لیکن اگر کوئی حلقہ کھول دے تو اس کو مطعون نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ صرف افضلیت کی بات ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸۔
عن عبد اللّٰہ بن الزبیر أنہ ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یشیر بأصبعہ إذا دعا ولا یحرکہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الرکوع والسجود باب:الإشارۃ في التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۲، رقم: ۹۹۰)
قال الطحطاوي في حاشیۃ علی مراقي الفلاح: قولہ، وتسن الإشارۃ، أي من غیر تحریک فإنہ مکروہ عندنا۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۱۱۲)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 416
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب سے پہلے نجاست کو دور کیجیے۔ پھر کپڑے کو تین بار دھوییے اور ہر باراچھی طرح نچوڑیے۔ اس طرح تین بار دھونے سے اور ہر بار نچوڑنے سے آپ کا کپڑا پاک ہوجاءے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 919/41-37
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ زمین جو باپ نے چھوڑی ہے، اگر اس کے علاوہ بھی کوئی مال ہو تو تمام مال و جائداد کو جمع کر کے سب میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر صرف یہی زمین ہے جس کا معاوضہ پچاس لاکھ ملنے والا ہے تو اس رقم کو تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور بیٹی کو بھی حصہ ملے گا جیسے بیٹوں کو ملے گا۔ فقہ اسلامی کے اعتبار سے پوری جائداد میں سے ماں کو آٹھواں حصہ دے کر باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم ہوں گے کہ بیٹی کو اکہرا اور بیٹوں کو دوہرا حصہ ملےگا۔ اب کل پچاس لاکھ میں سے مرحوم کی بیوی کو چھ لاکھ پچیس ہزار (625000)اور بیٹی کو چار لاکھ چھیاسی ہزار ایکسو گیارہ (486111)، اور ہر ایک بیٹے کو نو لاکھ بہتر ہزار دو سو بائیس (972222) روپئے حصہ میں ملیں گے۔ بیٹی کو شریعت نے حصہ دار بنایا ہے، والد وصیت کرے یا نہ کرے اس کو شریعت کا متعین کردہ حصہ ضرور ملے گا، اگر اس کے بھائیوں نے اپنی بہن کو حصہ نہیں دیا تو گنہگار ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1574/43-1100
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ euthanasia کا مطلب: لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ بیماری یا ناقابل واپسی کوما میں مبتلا مریض کو بلا کسی تکلیف و درد کے بذریعہ انجکشن یا دوا جان سے مارڈالنااور قتل کرنا۔
زندگی اللہ کی امانت ہے، اللہ نے دی ہے اور وہی اس کا مالک ہے، اپنی حیات کو ختم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا اس لئے خود کشی حرام ہے اور احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگرخدا نخواستہ کوئی بقول ڈاکٹر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے تو بھی خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خودکشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز کسی آدمی کا خودکشی کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے، دونوں حرام ہیں۔کوئی کسی ناقابل برداشت تکلیف میں ہو اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہے تو یہ ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ بلاوجہ خودکشی کرنا حرام ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو موت کا سبب بن جائے وہ بھی بحکم خودکشی کے ہے۔ان سب کی ممانعت بہت صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔تاہم اگر دوا سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو اور دوا چھوڑدی جائے تو یہ قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح اگر مصنوعی آلہ تنفس کو اگر ہٹادیاجائے اور سانس رک جائے اور موت واقع ہوجائے تو یہ بھی قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ قتل نفس کے لئے انجکشن لینا یا دینا دونوں حرام ہے اور بعض صورتوں میں لگانے والے یا دوا دینے والے پر دیت بھی لازم ہوسکتی ہے۔ جو صورت پیش آئے اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کرلیا جائے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جاسکے۔
”وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورۃ الانعام 151) ”یکرہ تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین أحدکم الموت لضرّ نزل بہ(شامی 5/270) ”استعجالا للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی 1/73) ”وان قیل: لا ینجو أصلا․ لا یتداوی بل یترک، کذا فی الظہیریة“ ((الھندیۃ 6/239) ”الأسباب المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس محظورا“ ((الھندیۃ کتاب الکراہیة باب الثامن عشر) بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“(شامی 5/512) ”من تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا (مسلم مع فتح الملہم 1/265) ن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ قولہ فحدیدتہ فی یدہ، قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ (فتح الملہم: 1/562)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند