Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1053 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 

Doing masah on socks made of leather is permissible. But to do masah on socks made out of leather there are few conditions to be met. i.e. The Socks must be so thick that water cannot be strained through them, they stay upright because of their thickness, and the person can walk with it about 3 miles. If the socks fulfill all those conditions then it is permissible to do Masah on them. Otherwise it will not. So, in the past, if you did mahas on common socks and performed Salah, then you have to offer those salah again as they were performed without valid wuzu. (and Allah knows best)

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 37/1184

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا  "امام اس لئے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے ، لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرنے لگے  تو خاموش ہوجاؤ"(بخاری 779)۔ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ جب امام اللہ اکبر کہے تو اللہ اکبر کہو اور جب قراءت کرے تو خاموش رہو اور جب امام غیرالمغضوب علیہم ولاالضالین کہے تو آمین  کہو  (ابن ماجہ 846)۔ حضرت جابر  سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد  فرمایا جب کوئی امام کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت ہی اس کی قراءت ہے۔ (ابن ماجہ 85)۔ اس لئے احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی کو امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ اور اگر پڑھ لیا تو گو کراہت سے خالی نہیں مگر نماز درست ہوجائے گی۔( شامی ج2ص266)۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 39/1057

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف بدنظری سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے بلکہ مکروہ ہوجاتا ہے،  البتہ اگر انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/913

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمان مسلمان کا دینی بھائی ہے اور غیرمسلم وطنی بھائی ہیں اور کچھ تو نسبی بھائی بھی ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 41/1011

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے پاس سے آنے کے بعد بھی نکاح باقی ہے اور جب شوہر طلاق دے گا اس کے بعد  عدت گزارنی ہوگی۔جن عورتوں کی ماہواری آتی ہے اور وہ حمل سے نہیں ہیں ان کی عدت تین حیض  ہے۔ طلاق کے بعد تین حیض مکمل ہونے دیں پھر کسی دوسرے  مردسے نکاح  کریں، بلاعدت گزارے دوسرے مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 909/41-24B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے،

و فی شرح الآثار  التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر بالمال۔  شرح الآثار 4/61)

شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا موجب گناہ ہے،۔ ارشاد باری ہے جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف  حکم  جاری کریں  وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔ (المائدہ 47)

چونکہ مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے، اس لئے وہ رقم مالک کو واپس کرنی ضروری ہے۔ مالی جرمانہ  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1570/43-1236

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون سودی قرض پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ بلا ضرورت شدیدہ سودی معاملہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔  اور مندرجہ بالا وجوہات کسی مجبوری کی حالت کو نہیں بتاتے، اس لئے صورت مذکورہ میں ہوم لون کی اجازت نہیں ہوگی۔ انتہائی مجبوری ، اور جان و مال کے خطرہ کے وقت  ہی اس کی گنجائش دی جاسکتی ہے ورنہ تھوڑی بہت ضرورت تو ہر ایک کو رہتی ہے۔ البتہ والد محترم کی مکان نہ بیچنے کی شرط اگر پوری نہیں ہوسکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، اب آپ اس پلاٹ کے پورے مالک ہیں  بوقت ضرورت آپ کے لئے اس کو فروخت کرنا  بھی جائز ہے۔

﴿ يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون﴾ ( البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

وفي فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - سئل أبو نصر عن رجل قال لآخر: أبرأتك عن الحق الذي لي عليك على أني بالخيار، قال: البراءة جائزة والخيار باطل، ألا يرى أنه لو وهب له شيئا على أنه بالخيار جازت الهبة وبطل الخيار فالبراءة أولى، كذا في المحيط. (الھندیۃ، الباب الثامن فی حکم الشرط فی الھبۃ 4/396)  ولو قال هي لك عمرى تسكنها أو هبة تسكنها أو صدقة تسكنها ودفعها إليه فهو هبة لأنه ما فسر الهبة بالسكنى لأنه لم يجعله نعتا فيكون بيانا للمحتمل بل وهب الدار منه ثم شاوره فيما يعمل بملكه والمشورة في ملك الغير باطلة فتعلقت الهبة بالعين (بدائع، فصل فی شرائط رکن الھبۃ 6/118)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1875

Ref. No. 1850/43-1660

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تین طلاق  کے بعد  بیوی حرام ہوگئی تو اب حکم یہ ہے کہ بعد عدت مطلقہ عورت آزاد ہوگئی وہ جہاں چاہے اپنا عقد ثانی کرسکتی ہے، تین طلاق دینے والے شوہر کو اب اس عورت پر کچھ اختیار نہیں،  عورت کو کوئی  نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا ہے کہ تین طلاق دینے والے سے دوبارہ نکاح کرے؛ عورت ہرطرح سے آزاد ہے کہ تین طلاق دینے والے شخص کے علاوہ کہیں بھی نکاح کرلے یا نہ کرے۔  البتہ طلاق مغلظہ کے بعد بغیر شرعی حلالہ کے سابق  شوہر سے نکاح جائز نہیں ہے۔  شرعی طور پر شوہر ثانی کا اپنی بیوی سے صحبت کرنا ضروری ہے۔ پھر عدت تین ماہواری گزرنے کے بعد شوہر اول سے اس عورت کا نکاح کیاجاسکتاہے۔

مذکورہ صورت میں جبکہ محمد افتخار سے نکاح کے بعد صحبت نہیں ہوئی ، صرف پانی کا گلاس پیش کرنا صحبت کے قائم مقام نہیں ہوسکتاہے۔ اس لئے   یہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے ابھی نکاح نہیں کرسکتی ہے۔  عورت کسی دوسرے مرد سے یا پھر  محمد افتخار سے اگراس نے  ایک یا دو طلاقیں دیں  یا تین متفرق طلاقیں دیں  ، نکاح کرے، اور اس کے ساتھ زندگی گزارے۔ صرف حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا گناہ کی بات ہے۔  شوہر ثانی اگر صحبت کرنے کے بعد طلاق دیدیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے تو اب عورت شوہر اول سے نکاح کرسکتی ہے۔  الغرض شوہر اول سے نکاح کے حلال ہونے کے لئے  تین باتیں ضروری ہیں 1- دوسرے مرد سے نکاح کا صحیح ہونا، 2- شوہرثانی کا اس عورت سے صحبت کرنا، 3- عورت کی مکمل تین ماہواری کا گزرنا۔ اگر ان میں سے کہیں کمی رہ گئی تو عورت شوہر اول کے لئے حلال نہ ہوگی۔

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1948/44-1860

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی ہے تو عدت کے اندر رجوع کرسکتاہے، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔ لیکن اگر شوہر نے تین طلاقیں دی ہیں  تواب شرعی اعتبار سے عورت مکمل طور پر نکاح سے نکل گئی ، اور عورت و مرد میں میاں بیو ی کا رشتہ باقی نہیں رہا، دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوگئے، پردہ لازم ہوگیا۔ اب ان کا آپس میں ملنا یا ایک ساتھ رہنا  شرعا حرام ہے۔  اب وہ عورت  عدت گزارکر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 187)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً".

فتاوی ہندیہ: "المطلقة الرجعية تتشوف وتتزين ويستحب لزوجها أن لايدخل عليها حتى يؤذنها أو يسمعها خفق نعليه إذا لم يكن من قصده المراجعة وليس له أن يسافر بها حتى يشهد على رجعتها كذا في الهداية". (10/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مذکورہ شخص نے غیر اللہ کی پوجا کی ہو، تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت حرام ہے اور مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ اس لئے بشرط صحت سوال مذکورہ شخص (جو پوجا پاٹ دسہرا ودیوالی پر ہندؤں سے بھی آگے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے) ایمان سے خارج ہو گیا ہے، پھر سے ایمان قبول کرے اس کی نماز جنازہ یا مسلم قبرستان میں تدفین درست نہیں إلا یہ کہ وہ پھر سے ایمان لے آئے (اور آئندہ ایسا نہ کرے)۔(۱)

(۱) وقال غیرہ من مشائخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ: إذا سجد واحد لہٰؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن أراد بہ العبادۃ یکفر، وإن أراد بہ التحیۃ لم یکفر ویحرم علیہ ذلک وإن لم تکن لہ إرادۃ الکفر عند أکثر أہل العلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘:  ج ۲، ص: ۲۹۲)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند