اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گیارہویں منانا کہیں سے ثابت نہیں، یہ محض ایک رسم ہے، نیز بہت سے اعتقادی، عملی واخلاقی مفاسد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے واجب الترک ہے۔ (۱)

۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو باطلٌ وحرامٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص485

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ مومنون میں ہے {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہ}(۱)  اس میں خالقین سے مراد پیدا کرنے والے نہیں ہیں؛ بلکہ صناع یعنی صرف جوڑ توڑ کرنے والے مراد ہیں۔(۲) حقیقت میں حیات دینا اور بغیر کسی وسیلہ کے پیدا کرنا خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اور لفظ خلق کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبارسے دوسرے صناع پر کردیا گیا ہے۔ لفظ خلق کے حقیقی معنی شئ معدوم کو بغیر کسی انسانی وسائل کے وجود میں لانا ہے جو صرف ذات باری تعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے۔ آیت مذکورہ میں ظاہری تقابل ہے مگر حقیقت میں دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔(۳)

(۱) سورۃ مؤمنون: ۲۳۔
(۲) عن مجاہد: {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہط۱۴} قال: یصنعون ویصنع اللّٰہ واللّٰہ خیر الصانعین۔ (الطبري، تفسیر طبري: ج ۱۵، ص: ۱۹)
(۳) وقال الآخرون: إنما قیل: {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہط۱۴}  لأن عیسی ابن مریم کان یخلق فأخبر جل تنارہ عن نفسہ أنہ یخلق أحسن مما کان یخلق۔ (الطبري، تفسیر طبري، ’’سورۃ المؤمنون: ۲۲‘‘: ج ۸، ص: ۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص33

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث مسلم شریف کی ہے، جس میںحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے تھے اور اسلام کی ماہیت وحقیقت کے بارے میں سوال نہیں کیا تھا؛ بلکہ شرائع اسلام کے بارے میں سوال کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نماز کے بارے میں بتایا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی نمازیں فرض ہیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کے علاوہ فرض نہیں ہیں؛ الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو، تو اب شروع کرنے کی وجہ سے وہ تمہارے اوپر لازم اور ضروری ہوجائیں گی، اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ رمضان کے روزے فرض ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور بھی روزے فرض ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں؛ مگر یہ کہ تم نفل روزے رکھو، پھر آپ نے زکوۃ کا تذکرہ کیا، انہوں نے پوچھا کیا فرض زکوۃ کے علاوہ مزید مال کا کوئی حق ہے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں؛ مگر یہ کہ تم نفلی صدقات ادا کیا کرو، وہ صحابی چلے گئے اور جاتے وقت یہ کہا کہ خدا کی قسم میں نہ اس پر اضافہ کروں گا اور نہ ہی میں اس میں کوئی کمی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جذبہ اور خلوص کو محسوس کرکے فرمایا: یہ کامیاب ہوگیا، اگر اپنی بات میں سچا ہے۔ مسلم کی روایت میں اسی قدر ہے؛ لیکن بخاری میں اسماعیل بن جعفر کی روایت میں یہ اضافہ ہے ’’فأخبرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشرائع الإسلام‘‘ (۱)  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کے تمام احکام ہی بتلائے، ان الفاظ کے عموم میں تمام مامورات، منہیات، حج، وتر، صدقہ فطر، اور نوافل وسنن وغیرہ تمام احکام آگئے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تمام احکام کی اطلاع دی، اور انہوں نے جاتے ہوئے یہ کہا، کہ خدا کی قسم میں ان باتوں کی تبلیغ میں اور خود بھی ان باتوں پر عمل کرنے میں کوئی کمی زیادتی نہیں کروں گا۔
مذکورہ باتوں سے حدیث کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے، بعض حضرات اس روایت سے نفل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا اور باقی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل قرار دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض پڑھنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ ضروری نہیں ہے۔ حالاں کہ اگر روایت کے ظاہر کو دیکھا جائے، تو جو حضرات یہ استدلال کرتے ہیں، ان پر بھی اعتراض ہوجائے گا، روایت میں صدقہ فطر کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ بہت سے ائمہ کے یہاں صدقہ فطر واجب اور فرض ہے۔ اسی طرح وتر کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ وتر کے بارے میں خودحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الوتر حق فمن لم یؤتر فلیس مني‘‘ وتر واجب ہے، جو وتر نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا (۲) اسی طرح حدیث میں صرف مامورات کا بیان ہے، منہیات کا بیان نہیں ہے۔ کیا کوئی شخص صرف فرائض کو بجا لاکر، منہیات سے بچے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے اور کیا کوئی اس حدیث کی بناء پر ترک منہیات کو غیر ضروری کہہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ منہیات سے بچنا بھی ضروری ہے، اس لیے مذکورہ روایت سے سنت کے ترک یا فرض کے علاوہ تمام نوافل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ بخاری کی روایت کو سامنے رکھ کر یہی کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام احکام کا تذکرہ کیا تھا اور انہوں نے ان تمام احکام کو قبول کرتے ہوئے یہ کہا کہ میں ان احکام میں کمی یا زیادتی نہیں کروں گا۔ بخاری کی بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ ’’لا أتطوع شیئا ولا أنقص مما فرض اللّٰہ علی شیئا‘‘ یعنی صرف فرائض پر عمل کر وں گا، نہ فرائض میں کمی کروں گا اور نہ ہی نفلی عبادت کروں گا، بظاہر اسماعیل بن جعفر کی دونوں روایت میں تعارض ہے؛ اس لیے ان میں سے ایک کے الفاظ صحیح ہیں اور دوسری روایت بالمعنی ہیں۔
’’لا أزید علی ہذا و لا أنقص‘‘ کا حضرات محدثین نے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ علامہ ابن بطال فرماتے ہیں: اس حدیث کا مطلب اوامر کی محافظت کا اور اہتمام سے ان کو بجا لانے کا عہد اور خبر ہے اور یہ قول اس درجہ میںہے کہ جب جب اس کے سامنے اللہ یا رسول اللہ کا کوئی امر آئے گا، خواہ فرض سے متعلق ہو یا سنت سے متعلق ہو، وہ اس کی طرف سبقت کرے گا؛ لہٰذا یہ کہناکہ سنت کے ترک میں کوئی حرج نہیں اور کوئی گناہ نہیں، اس کا مذکورہ حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’’یحتمل أن یکون قولہ: تمت واللّٰہ لا أزید علی ہذا ولا أنقص علی معنی التأکید في المحافظۃ علی الوفاء بالفرائض المذکورۃ، من غیر نقصان شیئٍ من حدودہا، کما یقول العبد لمولاہ إذا أمرہ بأمر مہم عندہ: واللّٰہ لا أزید علی ما أمرتني بہ ولا أنقص، أي أفعلہ علی حسب ما حددتہ لي، لا أخل بشیئٍ منہ، ولا أزید فیہ من عند نفسي غیر ما أمرتني بہ، ویکون الکلام إخبارًا عن صدق الطاعۃ وصحیح الائتمار۔ ومن کان فی المحافظۃ علی ما أُمِرَ بہ بہذہ المنزلۃ، فإنہ متی ورد علیہ أمرٌ للّٰہ تعالیٰ أو لرسولہ فإنہ یبادر إلیہ، ولا یتوقف عنہ، فرضًا کان أو سُنَّۃً۔ فلا تعلق في ہذا الحدیث لمن احتج أن تارک السُّنن غیر حَرجٍ ولا آثمٍ، لتوعد اللّٰہ تعالیٰ علی مخالفۃ أمر نبیہ۔ وبہذا التأویل تتفق معاني الأٓثار والکتاب، ولا یتضاد شيء من ذلک‘‘(۱)
(۱)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصوم: باب وجوب صوم رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۱۸۹۱۔
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في من لن یوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۱، رقم: ۱۴۱۸۔
(۱)ابن بطال، شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج۱، ص: ۱۹۵۔
(۱) علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’باب الزکاۃ من الإسلام‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱، رقم: ۴۶۔
(۲) مولانا اکرام علي، نفع المسلم: ص: ۱۲۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۲۲۰۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الضحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۵۔
(۳) السرخسي، أصول السرخسي، ’’فصل في بیان المشروعات من العبادات وأحکامہا‘‘: ج ۱، ص:
۱۱۴۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص81
 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود شریف کی کثرت رکھیں ہفتہ میں کم از کم ایک مرتبہ صلاۃ حاجت پڑھ لیا کریں(۱) اور رو رو کر اللہ سے دعا کریں، اور روزانہ پانچ تسبیح ’’یاَ رَزَّاقُ‘‘ کی پڑھا کریں ان شاء اللہ جلد ہی کشادگی اور خوشی حاصل ہوگی، یہ اللہ رب العزت کی طرف سے نیک بندوں کا امتحان ہوتا ہے، ایسے مواقع پر صبر اور شکر سے کام لیا جائے صرف اللہ تعالیٰ سے دعاء کریں {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ}۔(۲)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّط ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۳)
(۲) سورۃ الیوسف: ۸۶۔
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام، فقال: یا أیہا الناس اذکروا اللّٰہ اذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي، فقال: ما شئت؟ قال: قلت الربع، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قلت: النصف، قال: ما شئت، فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت فالثلثین، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفی ہمک ویغفر لک ذنبک، قال: أبو عیسی ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص371

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بدن پر ٹیٹو بنوانا نا جائز اور حرام ہے، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے:
’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ‘‘(۱)
ٹیٹو مختلف قسم کا ہوتا ہے اور اس کی تمام قسمیں ناجائز ہیں اگر کسی نے ٹیٹو بنوا لیا ہے، اسے توبہ واستغفار کے ساتھ حتی المقدور اس کو چھڑانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ٹیٹو کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل کا مسئلہ ٹیٹو کی مختلف اقسام کے اعتبار سے یہ ہے۔
اگر وہ جلد کو گدوا کر بنایا گیا ہے، تو وہ جلد ہی کے حکم میں ہوگا؛ لہٰذا اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب درست ہو جائے گا۔
اگر رنگ لگا کر بنوایا ہے جس سے مہندی کی طرح بدن پر تہہ یا پرت نہیں بنتی، تو اس کے ہوتے ہوئے بھی وضو اور غسلِ واجب درست ہو جائے گا۔
اور اگر ایسے رنگ سے بنوایا ہے جس کی تہہ اور پرت بن جاتی ہو، تو وضو اور غسلِ واجب کے وقت اس کا چھڑانا ضروری ہے اس کے ہوتے ہوئے وضو اور غسلِ واجب صحیح نہیں ہوگا۔
اگر کوشش کے باوجود یہ پرت والا ٹیٹو کسی صورت نکل نہ رہا ہو اور نماز فوت ہونے کا خطرہ ہو، تو بدرجہ مجبوری وضو اور غسل درست ہو جائے گا۔
’’وإن کان علی ظاہر بدنہ جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف فاغتسل ولم یصل الماء إلی ما تحتہ لا یجوز‘‘(۲)
’’والمراد بالأثر اللون والریح فإن شق إزالتہما سقطت‘‘(۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس: باب المستوشمۃ‘‘:  …ج ۲، ص: ۸۸۰، رقم: ۵۹۴۷۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني: في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱،ص: ۴۱۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص189

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں تیسری بار جب تیس دن۳۰؍ میں خون بند ہوگیا، تو وہ غسل کرکے نماز پرھے اور رمضان ہو تو روزہ رکھے، لیکن صحبت مکروہ ہے، البتہ ۳۵؍ دن کے بعد صحبت درست ہو جائے گی؛ کیونکہ یہ اس کی عادت ہے(۱)’’لوانقطع دمہا دون عادتہا، یکرہ قربانہا، و إن اغتسلت حتی تمضي عادتہا، وعلیہا أن تصلي وتصوم للاحتیاط ہکذا في التبیین‘‘ ۔(۲)

(۱)و إن انقطع لدون أقلہ تتوضأ و تصلي في آخر الوقت، و إن لأقلہ فإن لدون عادتھا لم یحل، و تغتسل و تصلي و تصوم احتیاطاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذہ الأقوال‘‘ج ۱، ص:۴۸۹)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السادس: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع في أحکام الحیض الخ، و منھا، وجوب الاغتسال، عند الانقطاع‘‘ ج ۱، ص:
۹۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص382

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کا ثبوت زانی کے اقرار یا چار عینی ثقہ گواہوں کی گواہی سے ہوتاہے، اس کے بغیر زنا کا ثبوت نہیں ہوسکتاہے؛ لہٰذا اگر مذکور ہ شخص کے زنا کے شرعی ثبوت ہوں، تو جب تک وہ اس گندے فعل سے توبہ نہ کرلے اس وقت تک اس کی امامت شرعاً مکروہ تحریمی ہے۔ ’’ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا، فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱) ’’بل مشی فی شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ؛ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس، في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص163

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جذامی سے جمعہ وجماعت ساقط ومعاف ہے، اس لیے وہ مسجد میں نہ آئے؛ بلکہ گھر پر نماز پڑھے۔(۲)
(۲) ویمنع منہ (أي المسجد) وکذا کل موذ قال الشامي: وکذلک القصاب والسماک والمجذوم والأبرص أولی بالإلحاق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵، زکریا دیوبند)
وتسقط الجماعۃ بالأعذار حتی لا تجب علی المریض والمقعد والمزن ومقطوع الید والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا یستطیع المشي والشیخ الکبیر العاجز والأعمیٰ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الأول في الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰، زکریا دیوبند)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص367

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:واضح رہے کہ اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگوں تک آواز پہونچ جائے اور لوگوں کو نماز کی خبر مل جائے اور یہ اطلاع عصر حاضر میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ عام طور پر دی جاتی ہے؛ اس لیے حدودِ مسجد یا مسجد کے اندر کہیں بھی اذان دی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، جیسا کہ علامہ بدر الدین العینیؒ عمدۃ القاری شرح البخاری میں اور علامہ ظفر عثمانی  ؒنے اعلاء السنن میں تفصیل سے ذکر کیا ہے:
’’قال العیني: ذکر ما یستفاد منہ: فیہ استحباب رفع الصوت بالأذان لیکثر من یشہد لہ ولو أذن علی مکان مرتفع لیکون أبعد لذہاب الصوت وکان بلال رضي اللّٰہ عنہ یؤذن علی بیت امرأۃ من بني نجار بیتہا أطول بیت حول المسجد‘‘(۱)
’’واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقاً کما فہم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہذا الأذان؛ بل مقیداً بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر إلی قولہ في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولیٰ إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم‘‘(۲)

نیز مسجد کے اندر اذان نہ دینے کا حکم اس وقت لگایا جائے گا جب کہ اذان کا مقصد فوت ہو رہا
ہو اور لاؤڈ اسپیکر میں اذان دینے کی صورت میں مقصد بالکل بھی فوت نہیں ہو تاہے؛ اس لیے مسجد کے اندر اذان دینے میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے، البتہ جب مسجد کے اندر بغیر مائک کے اذان دی جائے اور لوگوں تک آواز کا پہونچنا ممکن نہ ہو تواس صورت میں مسجد کے اندر اذان دینے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔
’’وینبغي أن یؤذّن علی المئذنۃ أو خارج المسجد ولا یؤذن في المسجد، کذا في فتاوی قاضي خان‘‘(۳)

(۱) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري،’’کتاب الأذان،… باب رفع الصوت بالنداء‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۲۔
(۲) ظفر عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلوۃ، أبواب الجمعۃ، باب التأذین عند خطبۃ‘‘: ج ۸، ص: ۸۶۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما: ج ۱، ص: ۱۱۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص153

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صفوں کے سیدھا کرنے اور خالی جگہوں کو پر کرنے کی تعلیم احادیث میں موجود ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رہی ہے، اس لیے صف کو سیدھا کرنے یا خالی جگہ کو پر کرنے کے لیے مکبر کا آگے یا پیچھے ہٹنا جائز ودرست ہے۔(۱)
(۱) سووا صفوفکم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب: تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول منہا‘‘:ج۱، ص: ۱۸۲، رقم: ۴۳۳)
اتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن في الصف المؤخر۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج۲۱، ص: ۱۱۴، رقم: ۱۳۴۰)
ألا تصفون کما تصف الملائکۃ عند ربہم جل وعز؟ قلنا: وکیف تصف الملائکۃ عند ربہم؟ قال: یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون في الصف۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ،’’کتاب الصلاۃ: تفریع أبواب الصفوف، باب: تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۶۶۱۰)
وینبغي للقوم إذا قاموا إلی الصلاۃ أن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا بین مناکبہم في الصفوف، ولا بأس أن یأمرہم الإمام بذلک: لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: (سووا صفوفکم؛ فإن تسویۃ الصف من تمام الصلاۃ)۔ (فخر الدین عثمان بن علي،  تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  409