نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نابالغ کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ یہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے، امام شافعی ؒ فرض اور نفل ہر نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ فرض نمازمیں اقتداء کو درست نہیں کہتے ہیںاور نفل نماز میں اقتداء کو درست کہتے ہیں اور احناف کے یہاں مفتی بہ روایت یہ ہے کہ فرض اور نفل دونوں میں نابالغ کی اقتداء درست نہیں ہے ۔ امام شافعیؒ نے عمرو بن سلمہؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ان کی قوم نے ان کو امام بنایا تھا جب کہ ان کی عمر صرف سات سال یا آٹھ سال کی تھی ،لیکن امام احمد ؒاو ر امام مالکؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عمر و بن سلمہؓ کے واقعہ کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھااور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر و بن سلمہؓ کو امام بنانے کا حکم دیا تھا؛ بلکہ یہ لوگوں کااپنا اجتہاد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو وہ امامت کرے لوگو ں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ قرآن جاننے والے عمر و بن سلمہؓ ہیںاس لیے ان کو امام بنادیا، نیز یہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے۔ علامہ شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں یہی جواب نقل کیا ہے۔’’قال أحمد بن حنبل: لیس فیہ اطلاع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أجیب بأن إمامتہ بہم کانت حال نزول الوحي و لایقع حالہ  التقدیر لأحد من الصحابۃ علی الخطاء‘‘(۱)نیز یہ مسئلہ ائمہ مذاہب کے ساتھ خود احناف کے یہاں بھی مختلف فیہ ہے، احناف کے یہاں مشائخ بلخ نے نفل نماز کو جائز قرار دیا ہے؛ اس لیے کہ نفل نماز میں بہت سی رعایت ہوتی ہے جس کی فرض میں گنجائش نہیں ہوتی ہے، پھر نابالغ کی نماز اور تراویح کی نماز دونوں نفل ہونے میں برابر ہیں؛  لیکن احناف کے یہاں مفتی بہ قول یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میںبھی امام نہیں بناسکتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بالغ کی نفل اور نابالغ کی نماز میں فرق ہوتا ہے ، اگر چہ نابالغ کی نماز نفل ہوتی ہے اور تراویح پر بھی نفل کا اطلاق ہوتا ہے لیکن نابالغ کی نماز، بالغ کی نماز کی طرح نہیں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر بالغ مرد نفل نماز شروع کرکے اس کو فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم ہوتی ہے اور نابالغ اگر نفل نماز شروع کرکے فاسد کردے تو اس پر قضاء لازم نہیں ہوتی ہے معلوم ہوا کہ نابالغ کی نماز اگر چہ نفل ہے؛ لیکن بالغ مردوں کی طرح نہیں ہے، بلکہ بالغ کی نفل نماز قوی ہے اور نابالغ کی نفل نماز ضعیف ہے اور قوی نماز پڑھنے والا ضعیف کی اقتداء نہیں کرسکتا ہے۔ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الامام ضامن‘‘(۱) کہ امام مقتدی کی نماز کا ضامن ہوتا ہے ، جب کہ نابالغ خود اپنی نماز کا ضامن نہیں ہوتا ہے تو وہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن کس طرح ہوگا؟ علامہ شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کاقول ہے کہ بالغ مردوں کی نماز حقیقی نماز ہے اور نابالغ کی نماز حقیقی نماز نہیں ہے اس لیے نابالغ کو امام بناکر اس کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے۔(۲)جن حضرات نے جائزقرار دیا ہے ان کے سامنے بھی دلائل ہیںاور جنہوں نے ناجائز قرار دیا ہے ان کے پاس بھی دلائل ہیں، احناف کے دلائل مضبوط ہیں ؛اس لیے کہ حدیث کے مطابق امام مقتدی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن ہوتاہے جب کہ نابالغ کسی کی نماز کی صحت و فساد کا ضامن نہیں ہوسکتا ہے؛ اس لیے کہ وہ مکلف ہی نہیں ہے ۔ اس لیے نابالغ کو تراویح میں امام بنانا درست نہیں ہے۔

(۱) شوکاني، نیل الأوطار، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الإمامۃ وصفۃ الأئمۃ، باب ما جاء في إمامۃ الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أبواب الأذان، باب ما جاء أن الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۲۰۷۔(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یفسد الصلاۃ وما لا یفسدہ‘‘: ج۱، ص: ۴۰۷، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 78

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: حضرات ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ تراویح بیس رکعت سنت مؤکدہ ہے، صرف امام مالک کی ایک روایت یہ ہے کہ تراویح چھتیس رکعت سنت ہے،بیس سے کم کسی کا قول نہیں ہے۔ ابن قدامہ نے المغنی میں بیس رکعت تراویح پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے(۱) اس لیے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بیس رکعت تروایح پر جمع کیا تو کسی بھی صحابی نے انکار نہیں کیا؛ جب کہ صحابہؓ دین میں مداہنت کے قائل نہیں تھے، او رنہ ہی سست یا بزدل تھے کہ کسی امر کو خلاف شریعت محسوس کریں اور اس پر انکار نہ کریں، اس عہد میں ایک عورت بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ٹوک دیا کرتی تھی اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بالکل یہ امر بعید ہے؛ بلکہ قرین قیاس یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس رکعت تروایح پڑھائی تھی؛ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، اس کی دلیل یہ ہے کہ سنن بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں بیس رکعت کا تذکرہ ہے۔’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یصلی في شہر رمضان في غیر جماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر‘‘(۲)اس حدیث میں ایک راوی عثمان ابوشیبہ ہیں جو ضعیف ہیں اس بنیاد پر یہ روایت ضعیف ہے؛ لیکن حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل اور اجماع اور تواتر عملی سے اس کا ضعف ختم ہوجاتا  ہے۔امام ترمذی فرماتے ہیں:’’أکثر أہل العلم علی ما روي علی وعمر وغیرہما من أصحاب النبي عشرین رکعۃ‘‘(۱)علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:’’اعلم أن صلاۃ التراویح سنۃ باتفاق العلماء و ہي عشرون رکعۃ یسلم من کل رکعتین‘‘(۲)امام شافعی کا قول ہے: ’’أدرکت ببلدنا بمکۃ یصلون عشرین رکعۃ‘‘ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’أحب إلي عشرون و کذلک یقومون بمکۃ‘‘حافظ ابن حجر نے التلخیص الحبیر میں حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھائی پھر تیسرے دن آپ فرضیت کے اندیشے سے تشریف نہیں لائے(۳) اس طرح دلائل بہت زیادہ ہیں جس میں تراویح کی نماز بیس رکعت ہونے کا اجماع نقل کیا گیا ہے۔بعض حضرات کو تراویح کے آٹھ رکعت ہونے پر اصرار ہے اور جب کہ بعض حضرات اختیار کے قائل ہیں کہ جتنا چاہیں پڑھ لیں اس میں گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ کا ایک قول نقل کیا جاتا ہے کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اگر چاہے تو بیس رکعت تراویح پڑھے، جیسا کہ امام شافعی اور احمد کی رائے ہے اور چاہے توچھتیس رکعت تراویح پڑھے جیسا کہ امام مالک کی رائے ہے اور چاہے تو گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت پڑھے یہ سب درست ہے اور یہ رکعت کی کمی اور زیادتی قیام کی کمی زیادتی کی بناء پر ہے یعنی اگر قیام لمبا کرے تو گیارہ بھی پڑھ سکتا ہے اوراگر قیام مختصر کرے تو بیس رکعت یا چھتیس رکعت پڑھے،ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے کہ آپ اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو، پھر جب  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو تراویح کی جماعت پر مجتمع کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اس درجہ قیام کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں تھی؛ اس لیے طول قیام کی تلافی کے لیے رکعت کا اضافہ کردیا گیااور دس کی جگہ بیس رکعت تراویح ہوگئی انہوں نے دونوں روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہ توجیہ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں حقیقت کا احتمال ہوسکتا ہے یقین نہیں ہے پھر بھی جو لوگ ابن تیمیہ کے فلسفہ کو تسلیم کرتے ہیں ان کو بھی بیس رکعت کا ہی اہتمام کرنا چاہے؛ اس لیے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طول قیام کو برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی تو آج کون لوگ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تراویح کی نماز پڑھیں گے؟ اس لیے ابن تیمیہ کی توجیہ کے مطابق بھی بیس رکعت تراویح کا اہتمام کرنا چاہیے۔علامہ ابن تیمیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:’’ثبت أن أبي بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ في قیام رمضان، ویوتر بثلاث فرأی کثیر من العلماء إن ذلک ہو السنۃ لأنہ أقامہ بین المہاجرین و الأنصار و لم ینکرہ منکر و استحب آخرون تسعۃ و ثلاثین رکعۃ بناء علی أنہ عمل المدینۃ القدیم وأبي بن کعب لما قام بہم وہم جماعۃ واحدۃ لم یمکن أن یطیل بہم القیام فکثر الرکعات لیکون عوضا عن طول القیام وجعلوا ذلک ضعف عدد رکعاتہ فإنہ یقوم باللیل إحدی عشرۃ أو ثلاث عشرۃ ثم بعد ذلک کان الناس بالمدینۃ ضعفوا عن طول القیام فکثروا الرکعات حتی بلغت تسعا و ثلاثین‘‘(۱)ذرا ایک نظر اس روایت پر بھی ڈال لیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیا رہ رکعت پڑھا کرتے تھے تم اس کے حسن اور طول کے بارے میں مت پوچھو کہ وہ کتنی اچھی اور لمبی ہوتی تھی۔(۲) اس روایت سے تراویح کے آٹھ رکعت  پر استدلال کیا گیا ہے۔ لیکن اس استدلال میں بڑی خامی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تہجد اور تراویح کی نماز کوخلط ملط کردیا گیا ہے اس روایت میں تہجد کا تذکرہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان دونوں میں گیا رہ رکعت پڑھتے تھے اس کا صاف مطلب ہے کہ تہجد کی نماز ہے؛ کیوں کہ غیر رمضان میں تروایح نہیں ہے۔ اور اس روایت میں ایسی کوئی صراحت نہیں ہے کہ اس گیا رہ رکعت کے علاوہ آپ رمضان میں مزید نمازیں نہیں پڑھتے تھے، ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آ پ کے تہجد کا معمول اور اس کی عمدگی کو بیان کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء کی پیروی کرنا، یہ صحیح سندسے ثابت ہے بیس رکعت حضرت عمر کے زمانے میں طے ہوگئی تھی جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اتفاق کیا تھا۔(۱) ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: باب الساعات التي نہی عن الصلاۃ فیہا، صلاۃ التراویح، فصل والمختار عند أبي عبد اللّٰہ رحمہ اللّٰہ فیہا عشرون رکعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶)(۲) أخرجہ البیہقي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما روي في عدد رکعات القیام في شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، رقم: ۴۷۹۹، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔)(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’کتاب الصوم: باب ما جاء في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶۔(۲) النووی، کتاب الأذکار، ’’باب أذکار صلاۃ التراویح‘‘: ص:۹۹۲۔(۳) ابن حجر، التلخیص الحبیر، ’’باب صلاۃ التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۵۴۰۔(۱) ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ’’باب تنازع العلماء في مقدار القیام في رمضان‘‘: ج ۲۳، ص: ۱۱۲، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد: باب قیام النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في رمضان وغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۴، رقم: ۱۱۴۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 74

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفق: فرض نمازوں کے لیے عورتوں کا مسجد میں آنا ناپسندیدہ ہے تو تراویح جو نفل نماز ہے اس کے لیے مسجد میں آنے کی حوصلہ افزائی کس طرح ہوسکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں مسجد میں نماز کے لیے آتی تھیں اس لیے کہ وہ زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا اورتعلیم کے لیے اس وقت دیگر ذرائع نہیں تھے، اس لیے آپ نے عورتوں کو مسجد میںآنے کی اجازت دی تھی، لیکن پھربھی گھروں میں پڑھنے کو افضل کہا تھا۔ ایک حدیث ہے حضرت امّ حمید رضی اللہ عنہا نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا شوق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا شوق (اور دینی جذبہ) بہت اچھا ہے، مگر تمہاری نماز اندرونی کوٹھری میں کمرے کی نماز سے بہتر ہے اور کمرے کی نماز گھر کے احاطے کی نماز سے بہتر ہے، اور گھر کے احاطے کی نماز محلے کی مسجد سے بہتر ہے، اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد (مسجد نبوی) کی نماز سے بہتر ہے؛ چناں چہ حضرت امّ حمید ساعدی رضی اللہ عنہا نے فرمائش کرکے اپنے کمرے (کوٹھری) کے آخری کونے میں جہاں سب سے زیادہ اندھیرا رہتا تھا مسجد (نماز پڑھنے کی جگہ) بنوائی، وہیں نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا اور اپنے خدا کے حضور حاضر ہوئیں۔(۱) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آج جو صورت حال ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ صورت حال ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرمادیتے؛ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہؓ کی موجودگی میں عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا گیا۔

پھر تراویح کی نماز رات میں ہوتی ہے او ربہت سی جگہوں پر اندھیرا ہوتاہے جس میں عورتوں کا رات میں آنا اور اتنی لمبی نماز پڑھ کر اندھیرے میں جانا فتنہ کا باعث ہوسکتاہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں تراویح کا نظام نہ بنایا جائے عورتیں گھروں میں ہی تروایح پڑھ لیا کریں اگر گھر میں کوئی محرم تراویح پڑھانے والا ہو تو ان کے ساتھ جماعت سے بھی پڑھ سکتی ہیں ورنہ انفرادی طورپر تراویح پڑھ لیاکریں۔’’عن أمّ سلمۃ رضي اللّٰہ عنھا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: خیر مساجد النساء قعر بیوتھن‘‘(۱)’’عن عبد اللہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہا عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتھا أفضلُ من صلاتھا في حجرتھا، وصلاتھا في مِخدعھا أفضل من صلاتھا في بیتھا‘‘(۲)’’لو أدرک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما أحدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بني إسرائیل‘‘(۳)(۱) عن أم حمید امرأۃ أبي حمید الساعدي رضي اللّٰہ عنہا، أنہا جاء ت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: یا رسول اللّٰہ إنی أحب الصلاۃ معک قال: قد علمت أنک تجین الصلاۃ معي وصلاتک في بیتک خیر من صلاتک في حجرتک الخ۔ (عبد العظیم بن عبد القوی، الترغیب و الترہیب، ’’کتاب الصلاۃ: ترغیب النساء في الصلاۃ في بیوتہن‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۰)(۱) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث أم سلمۃ‘‘: ج ۴۴، ص: ۱۶۴، رقم: ۲۶۵۴۲۔(۲) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب التشدید في ذالک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۵۷۰۔(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب خروج النساء إلی المساجد‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۹، رقم: ۸۶۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 72

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب واللہ التوفیق: تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے، اورپورے رمضان تراویح کی نماز پڑھنا سنت ہے، جماعت سے نماز پڑھنا سنت کفایہ ہے۔ بعض لوگ اگر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھ لیں اور باقی لوگ تنہا تروایح کی نماز پڑھ لیں تو بھی درست ہے۔یہ سوال کہ کیا ایک حافظ دو جگہ تراویح کی امامت کر سکتا ہے؟ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ ایک حافظ چند دنوں میں ایک جگہ قرآن ختم کرکے دوسری جگہ قرآن پڑھائے تو یہ صورت درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔اسی طرح ایک حافظ ایک جگہ دس رکعت پڑھائے اور پھر دوسری جگہ دس رکعت پڑھائے اور باقی دس رکعت ان کو کوئی دوسرا شخص پڑھا دے تو یہ صورت بھی درست ہے۔ لیکن ایک شخص مکمل بیس رکعت ایک جگہ پڑھائے پھر اسی رات میں دوسری جگہ جاکر بیس رکعت تراویح پڑھائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اور جن لوگوں نے اس کے پیچھے دوسری مرتبہ میں اقتداء  کی ہے ان کی نماز نہیں ہوئی ان کو پھر سے تراویح کی نماز پڑھنی ہوگی؛ اس لیے کہ تراویح رات میں ایک ہی مرتبہ پڑھنا مسنون ہے، جب حافظ صاحب نے ایک جگہ تراویح کی نماز پڑھادی تو اس کی سنت ادا ہوگئی، اب جب وہ دوسری جگہ پڑھائے گا تو اس کی نماز نفل ہوگی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز سنت ہوگی گو سنت پر بھی نفل کا اطلاق کیا جاتا ہے؛ لیکن دونوں میں فرق ہے اس لیے یہاں پر اقتداء القوی با لضعیف لازم آئے گا جو درست نہیں ہے۔’’إمام یصلي في مسجدین علی وجہ الکمال لا یجوز لأنہ لا یتکرر ولو اقتدی بالإمام في التراویح وہو قد صلی مرۃ لابأس بہ و یکون ہذا اقتداء التطوع بمن یصلي السنۃ و لوصلوا التراویح ثم أراد أن یصلوا ثانیا یصلوا فرادی‘‘(۱)’’ولایصلي إمام واحد في مسجدین في کل مسجد علی الکمال و لالہ فعل ولا یحتسب التالي من التراویح و علی القوم أن یعیدوا لأن صلاۃ إمامہم نافلۃ و صلاتہم سنۃ والسنۃ أقوی فلم یصح الاقتداء لأن السنۃ لا تتکرر في وقت واحد‘‘(۲)(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۰۔(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في سنۃ صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 71

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:ٹیپ ریکارڈ سے تراویح پڑھنے سے ادا نہ ہوگی، اس لیے کہ ٹیپ ریکارڈر کی آواز صدائے باز گشت ہے جب کہ امامت کے لیے امام کا عاقل ہونا ضروری ہے۔(۲)

(۲) وشروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۸۷)وشروط الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل والذکورۃ والقرائۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: شروط الإمامۃ الکبریٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 70

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چاند کی اطلاع ملنے کے لیے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے وقت مقررہ پر نماز پڑھی جائے۔ تراویح اور وتر جماعت کے ساتھ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز معمولی انتظار میں بھی حرج نہیں ہے، لیکن زیادہ تاخیر نہ کی جائے کہ چاند بھی ہوا ہو اور اکثر لوگ بھی غائب ہو جائیں۔(۱)(۱) ولایصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر ولاخلاف في صحۃ الاقتداء إذ لا مانع نہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)ویوتر بجماعۃ في رمضان فقط علیہ إجماع المسلمین، کذا في التبیین الوتر في رمضان بالجماعۃ أفضل من أداء ہا في منزلہ وہو الصحیح۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي،  حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر وأحکامہ‘‘: ص: ۳۸۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 69

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر چار رکعت تراویح کی چھوڑیں اور آخر شب میں اس کی جماعت کریں تو یہ درست ہے جب کہ مقتدی بھی تراویح پڑھنے والے ہوں، سوائے تراویح کے دیگر نوافل کی جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔ اسی طرح تہجد کی جماعت بھی تداعی کے ساتھ مکروہ ہے۔’’واعلم أن النفل بالجماعۃ علیٰ سبیل التداعي مکروہ‘‘(۱)’’ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أي یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدي أربعۃ بواحد‘‘(۲)(۱) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیری، ’’کتاب الصلاۃ: تتمات من النوافل‘‘: ص: ۴۳۲۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک سورۂ نمل کے علاوہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ قرآن کریم کا جزو ہے کسی سورت کا جزو نہیں؛ لہٰذا پورے قرآن میں کسی ایک سورت پر ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ لینا (جہراً) کافی ہے اور ’’قل ہو اللّٰہ‘‘ کے شروع میں پڑھے یا کسی بھی سورت کے شروع میں؛ البتہ ’’قل ہو اللّٰہ‘‘ کے ساتھ پڑھنے کو لازم سمجھنا اور اس کا عقیدہ رکھنا بدعت ہے، اس کو ترک کردیں ہاں اتفاقاً ایسا کرنے میں یا بلا عقیدہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)(۱) التسمیۃ من القرآن أنزلت للفصل بین السور والبدایۃ منہا تبرکا ولیست بآیۃ من کل واحدۃ منہا ویبنی علی ہذا أن فرض القراء ۃ تتأدی بہا عند أبي حنیفۃ إذا قرأہا علی قصد القراء ۃ دون الثناء لأنہا آیۃ من القرآن۔ (بدر الدین العینی، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲)وہي من القرآن آیۃ أنزلت للفصل بین السور، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ: الثالث: في سنن الصلاۃ، وآدابہا، وکیفیتہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 68

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے مسلک کی وضاحت:اس مسئلہ میں امام اعظم رحمہ اللہ کا مسلک تو یہ ہے کہ امام ہو یا منفرد اگر قرآن پاک اٹھا کر یا سامنے رکھ کر اس کو دیکھ کر پڑھے گا، خواہ ایک آیت کی مقدار ہو تو نماز امام کی فاسد ہوجائے گی اور جب امام کی نماز فاسد ہوگئی تو مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر کوئی منفرد ایسا کر رہا ہے تو اس کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔اگر نمازی قرآن پاک دیکھ کر پڑھے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہوجائے گی امام اعظم ؒ کے نزدیک اس کی دو وجوہ ہیں، ایک تو یہ کہ قرآن پاک کا اٹھانا، اوراق کا پلٹنا اور اس میں دیکھنا یہ مجموعہ نماز کی جنس سے خارج اور عمل کثیر ہے جس کی نماز میں کوئی گنجائش نہیں ہے؛ لہٰذا اس سے نماز فاسد ہوجائے گی(۱) دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نمازی قرآن پاک سے سیکھ رہا ہے؛ اس لئے کہ قرآن پاک سے پڑھنے والے کو متعلم کہا جاتا ہے تو یہ استاد سے سیکھنے کے مترادف ہوگیا اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس علت کی بنیاد پر دونوں صورتیں مفسد ہوں گی خواہ قرآن اٹھاکر اوراق پلٹتا رہے خواہ قرآن سامنے رکھ کر بغیر اوراق کے پلٹے ہوئے پڑھے۔(۲)صاحبین کا مسلک:امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا قول یہ ہے کہ نماز تام ہوجائے گی؛ لیکن بنا بر تشبہ کے مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے کہ وہ بھی نماز میں توریت اور انجیل دیکھ کر پڑھتے ہیں اور یہود کی مشابہت سے صحیح حدیث میں منع کیا گیا ہے۔ بدائع الصنائع میں ہے۔امام ابویوسف ومحمد رحمہما اللہ کے نزدیک نماز تام ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی؛ اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے۔(۱)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بکراہت نماز درست ہوجائے گی، المغنی کی عبارت سے یہی معلوم ہوتا ہے۔  نماز سے غافل کرنے والی کسی چیزکی طرف دیکھنا یا کتاب میں دیکھنا مکروہ ہے۔(۲)ایک دوسری جگہ پر ہے کہ:ترجمہ:   یہ فعل مکروہ ہے کہ ایک نماز پڑھنے والا دوسری (الگ) نماز پڑھنے والے کو یا خارج از صلوٰۃ شخص نماز پڑھنے والے کو لقمہ دے۔(۳)امام شافعی رحمہ اللہ بغیر کسی کراہت کے صحت نماز کے قائل ہیں، امام شافعی اور ایک جماعت کی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ قراء ت ایک عبادت ہے اور مصحف پر نظر ڈالنا بھی عبادت ہے نماز میں  دونوں کو ملا لیا تو فساد کی کوئی وجہ نہیں نیز امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ نماز میں اوراق کا پلٹنا مفسد صلوٰۃ نہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ کی مستدل یہ روایت بھی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان ماہ رمضان میں ام المؤمنین کی امامت کرتے تھے اور مصحف سے پڑھا کرتے تھے لیکن اس حدیث کی صحت متفق علیہ نہیں بلکہ محتمل ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے ۲؍ دلیلیں بیان کی گئی ہیں جو کہ فساد نماز کے قائل ہیں لیکن امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اصل میں اور ابن حزم ظاہری رحمۃ اللہ علیہ نے محلی میں کہا کہ یہی قول سعید بن المسیب رحمۃ اللہ علیہ کا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کی وجہ اول یہ تھی کہ مصحف کو اٹھائے رہنا، اس میں نظر ڈالنا اور اوراق الٹنا یہ مجموعہ عمل کثیر ہے اور یہ عمل بلا ضرورت ہے لیکن ’’کافی‘‘ میں ہے کہ اس تعلیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر قرآن پاک خود اٹھائے ہوئے نہ ہو بلکہ اونچی جگہ رکھا ہوا ہو اس کو دیکھ کر پڑھتا جاوے یا محراب پر رکھا ہو اس کو دیکھ کر پڑھے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔امام شافعی رحمہ اللہ بلا کراہت صحتِ نماز کے قائل ہیں جن کی دلیل بدائع صنائع میںبایں الفاظ ذکر کی ہے کہ:امام شافعیؒ عدم کراہت کے قائل ہیں اور ان کی دلیل یہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے غلام ذکوان رمضان میں لوگوں کی امامت فرماتے اور قرآن میں دیکھ کر پڑھتے تھے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کو دیکھنا اور پڑھنا دونوں عبادت ہیں اوردو عبادتوں کے اجتماع سے کوئی فساد لازم نہیں آتا۔(۱)امام ابویوسف وامام محمد جو کراہت کے قائل ہیں بنا بر تشبہ بالیہود۔ امام شافعی رحمہ اللہ ان کا جواب دیتے ہیں کہ: ہر قسم کی مشابہت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بدائع میں ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی مشابہت ممنوع نہیں ہے اسی لئے جو وہ کھاتے ہیں ہم بھی کھاتے ہیں۔(۲)امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے جو حدیث ذکوان استدلال میں پیش کی گئی ہے اولاً تو اس حدیث کی تصحیح ہی ثابت نہیں جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا۔ دوسرے یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہؓ جو اہل فتویٰ میں سے تھے ان سے ایسا کرنا ثابت نہیں بلکہ ان کو اس کا علم ہی نہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فعل مکروہ ہی تھا اور اس کی کراہت میں اختلاف نہیں تھا اور یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ پورے مہینے ایک مکروہ فعل کیا جاتا اور صحابہؓ باوجود علم کے اس پر نکیر نہ فرماتے۔ بدائع میں ہے۔ حدیث ذکوان میں احتمال ہے کہ عائشہؓ اور دیگر صحابہؓ جو کہ اہل فتویٰ سے تھے ان کو اس کا علم نہ ہو؛ اس لئے کہ یہ باتفاق مکروہ ہے اگر ان کو اس کا علم ہوتا تو وہ پورے رمضان ذکوان کو عمل مکروہ نہ کرنے دیتے۔(۱)اس حدیث پر ایک یہ بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ راوی کا منشا دو حالتوں کا ذکر کرنا ہو کہ رمضان میں ذکوان امامت کرتے تھے اور غیر صلوٰۃ میںمصحف دیکھ کر پڑھتے تھے۔ بدائع میں ہے کہ: راوی کا جو قول ہے کہ ذکوان رمضان میں امامت فرماتے اور مصحف سے پڑھتے تھے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ دو مختلف حالتوں کے متعلق خبر دے رہے ہوں کہ وہ رمضان میںامامت فرماتے تھے اور نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں مصحف سے پڑھتے تھے۔(۲)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فسادِ نماز کے قائل ہیں اور امام ابویوسفؓ، امام محمدؓ اور امام احمد بن حنبلؓ کراہت کے قائل ہیں اور امام شافعیؒ عدم کراہت کے قائل ہیں جن کا مستدل حدیث ذکوان ہے اس پر بھی کئی اشکالات ہیں جن کی تفصیل ہم نے بدائع الصنائع کے حوالے سے ذکر کی ہے تمام تر تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے اس عمل کے مکروہ ہونے میں کوئی اشکال نہیں اور پورے مہینے ایک فعل مکروہ کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ تکرار کی وجہ سے مکروہ تحریمی کے درجہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ ’’المغنی‘‘ میں ہے ’’وہذا لواجتمع کان کثیراً‘‘ کہ تھوڑا تھوڑا جمع ہوکر کثیر اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ بنا بریں مقتضائے احتیاط یہی ہے کہ اس سے نماز فاسد ہو جائے گی یہی امام ابو حنیفہ کا قول ہے اور ای پر احناف کے یہاں فتوی ہے۔(۱) لو قرأ المصلی من المصحف فصلاتہ فاسدۃ عند أبي حنیفۃ … ولأبي حنیفۃ طریقتان إحداہما أن ما یوجد من حمل المصحف و تقلیب الأوراق والنظر فیہ أعمال کثیرۃ لیست من أعمال الصلاۃ ولا حاجۃ إلی تحملہا في الصلاۃ فتفسد الصلاۃ … والطریقۃ الثانیۃ أن ہذا یلقن من المصحف فیکون تعلما منہ ألاتری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم وإذا یفسد الصلاۃ وہذہ الطریقۃ لا توجب الفصل بین ما إذا کان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق وبین ما إذا کان موضوعا بین یدیہ ولا یقلب الأوراق۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) وذکروا لأبي حنیفۃ في علۃ الفساد وجہین إحداہما أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، والثاني أنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ وعلی الثاني لا فرق بین الموضوع والمحمول عندہ وعلی الأول افترقا وصح الثاني في الکافي تبعاً لتصحیح السرخسي وعلیہ لو لم یکن قادراً علی القراء ۃ إلا من المصحف فصلی بلا قراء ۃ ذکر الفضلی أنہا تجزیہ وصحہا في الظہیریۃ عدمہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)(۱) وعند أبي یوسف ومحمد (رحمہما اللّٰہ) تامۃ ویکرہ … وقال: إلا أنہ یکرہ عندہما لأنہ تشبہ بأہل الکتاب۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) ویکرہ أن ینظر إلی ما یلہیہ أو ینظر في کتاب۔ (ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل یکرہ أن یترک شیئاً من سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲ ، ص: ۱۹۰)(۳) یکرہ أن یفتح من ہو في الصلاۃ علی من ہو في صلاۃ أخری أو علی من لیس في الصلاۃ۔ (ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: فصل یکرہ أن یفتح من ہو في الصلاۃ علی من ہو في صلاۃ أخریٰ، حکم من فتح علی إمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۴)(۱) وقال الشافعي لا یکرہ واحتجوا بما روي أن مولی لعائشۃ رضي اللّٰہ عنہا یقال لہ ذکوان کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف ولأن النظر في المصحف عبادۃ والقراء ۃ عبادۃ وانضمام العبادۃ إلی العبادۃ لا یوجب الفساد۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: مفسدات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)(۲) والشافعي یقول مانہینا عن التشبہ بہم في کل شيء فإنا ناکل ما یأکلون۔ (أیضاً)(۱) وأما حدیث ذکوان یحتمل أن عائشۃ ومن کان من أہل الفتویٰ من الصحابۃ لم یعلموا بذلک وہذا ہو الظاہر بدلیل أن ہذا الصنیع مکروہ بلا خلاف ولو علموا بہ لما مکنوہ من عمل المکروہ في جمیع شہر رمضان۔ (أیضاً) (۲) ویحتمل أن یکون قول الراوی کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف اخباراً عن حالتین مختلفتین أي کان یؤم الناس في رمضان وکان یقرأ من المصحف في غیر حالۃ الصلاۃ الخ۔ (أیضاً)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 63

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: امام تراویح کو اگر قرآن کریم یاد نہ ہو تو تقلیل جماعت کاسبب بنتا ہے اس لیے منتظمہ کمیٹی ومصلیانِ مسجد باہمی مشورے سے جو طے کرلیں وہ درست ہے۔(۱)

(۱) إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ۔ (محمد بن الحسن الشیباني، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۹)وقد استدل قوم بہذا الحدیث علی أن الأفضل لکثیر الجماعۃ علی قلیلہا۔ (ابن بطال، شرح ابن بطال علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب صلاۃ الجماعۃ والإمامۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 62