Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں جان بوجھ کر دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت پڑھنا مناسب نہیں ہے۔ فقہاء نے مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔ البتہ اگر بھول سے ایسا ہوا تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرصورت نہ سجدہ سہو کی ضرورت ہے اور نہ ہی نماز لوٹانے کی ضرورت ہے۔ اور نوافل میں ایک ہی سورت دو رکعتوں میں پڑھنا بلاکراہت جائز ہے۔
’’لا بأس أن یقرأ سورۃً ویعیدہا في الثانیۃ۔ (قولہ: لا بأس أن یقرأ سورۃً إلخ) أفاد أنہ یکرہ تنزیہا، وعلیہ یحمل جزم القنیۃ بالکراہۃ، ویحمل فعلہ علیہ الصلاۃ والسلام لذلک علی بیان الجواز، ہذا إذا لم یضطر، فإن اضطر بأن قرأ في الأولیٰ: {قل أعوذ برب الناس} أعادہا في الثانیۃ إن لم یختم، نہر‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فروع في القراء ۃ خارج الصلاۃ، مطلب: الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص232
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جان بوجھ کر خلاف ترتیب پڑھنا مکروہات قرأت میں سے ہے۔ اور اگر غلطی سے ہوجائے، تو مکروہ بھی نہیں ہے، تاہم بہر صورت نماز درست ہوجاتی ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں۔ باقی رکعتوں میں سورہ ناس بھی پڑھ سکتے ہیں اور اگر یاد ہو، تو سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یا کوئی بھی سورت پڑھ لیں نماز درست ہوجائے گی۔(۱)
(۱) ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹)
قالوا: یجب الترتیب في سور القرآن، فلو قرأ منکوساً أثم، لکن لا یلزمہ سجود السہو؛ لأن ذلک من واجبات القرائۃ لا من واجبات الصلاۃ کما ذکرہ في البحر في باب السہو۔ (الحصکفي، ردالمحتار مع الدرالمختار، باب صفۃ الصلاۃ، ’’مطلب کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۸، زکریا دیوبند؛ و ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص360
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Red. No. 2832/45-4435
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے اور اس سے بھی آدمی برئ الذمہ ہو جائے گا گرچہ بہتر یہی ہے کہ رمضان شروع ہونے کے بعد ہی آداکرے، لیکن اگر کسی نے رمضان سے پہلے اداکردیا تو واجب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے۔
"(وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس (بشرط دخول رمضان في الأول) أي مسألة التقديم (هو الصحيح) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية. قلت: فكان هو المذهب.
(قوله: اعتبارا بالزكاة) أي قياسا عليها. واعترضه في الفتح بأن حكم الأصل على خلاف القياس فلا يقاس عليه؛ لأن التقديم، وإن كان بعد السبب هو قبل الوجوب وأجاب في البحر بأنها كالزكاة بمعنى أنه لا فارق لا أنه قياس اهـوفيه نظر والأولى الاستدلال بحديث البخاري وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين قال في الفتح وهذا مما لا يخفى على النبي صلى الله عليه وسلم بل لا بد من كونه بإذن سابق فإن الإسقاط قبل الوجوب مما لا يعقل فلم يكونوا يقدمون عليه إلا بسمع اهـ(قوله: فكان هو المذهب) نقل في البحر اختلاف التصحيح ثم قال لكن تأيد التقييد بدخول الشهر بأن الفتوى عليه فليكن العمل عليه وخالفه في النهر بقوله واتباع الهداية أولى. قال في الشرنبلالية قلت: ويعضده أن العمل بما عليه الشروح والمتون، وقد ذكر مثل تصحيح الهداية في الكافي والتبيين وشروح الهداية. وفي البرهان وابن كمال باشا وفي البزازية الصحيح جواز التعجيل لسنين رواه الحسن عن الإمام اهـوكذا في المحيط. اهـ.
قلت: وحيث كان في المسألة قولان مصححان تخير المفتي بالعمل بأيهما إلا إذا كان لأحدهما مرجح ككونه ظاهر الرواية أو مشى عليه أصحاب المتون والشروح أو أكثر المشايخ كما بسطناه أول الكتاب وقد اجتمعت هذه المرجحات هنا للقول بإطلاق فلايعدل عنه، فافهم".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 367):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 849 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: مذکورہ فیصلہ شرعی دارالقضاء سے ہوا ہے، اور شرعی دارالقضاء کے فیصلہ پر دارالقضاء ہی سے نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ اس لئے اسی دارالقضاء میں اپیل کریں یا کسی دوسرے دارالقضاء سے رجوع کیا جائے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/872
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمعہ کے خطبہ کے دوران کسی بھی قسم کا چندہ کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 930/41-64
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سجدہ تلاوت نماز فجر و عصر کے بعد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو سجدے ذمہ میں واجب ہیں ان کو مکروہ اوقات میں ( طلوع شمس، زوال سے قبل اور بوقت غروب) اداکرنا درست نہیں ہے۔تاہم اگرآیت سجدہ کی تلاوت مکروہ وقت میں کی اور اسی وقت سجدہ کیا تو درست ہے۔
ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب۔۔۔هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت (الفتاوی الھندیۃ 1/52)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1365/42-0000
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Wearing pajamas, trousers, lingerie, etc. which hang loose below the ankles is a grave sin for men. There are many warnings in Ahadith for those who let the garment come below the ankles. Thus, one must avoid it in each and every case.
عن أبى هريرة - رضى الله عنه - عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففى النار». (فیض الباری، باب من جر ثوبہ من الخیلاء 6/73) (فتح الباری لابن رجب، باب بالتنوین مااسفل من الکعبین 10/257) عَن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أُزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا حرج ولا جناح فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو في النار، من جر إزاره بطراً لم ينظر الله إليه. (معالم السنن، ومن باب قدر موضع الازار 4/197)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1491/43-1313
الجواب وباللہ التوفیق:۔ داڑھی مونڈنے پریا ایک مشت سے کم کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بال کاٹنے یا سر مونڈنے کی اجرت جائز ہے۔ اس لئے ایسا شخص قربانی کے جانور میں اگر حصہ لیتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، حلال کمائی کے ساتھ شرکت مان کر تمام شرکاء کی قربانی درست ہوگی۔ البتہ اگر کسی کا کام محض داڑھی تراشنا ہو اور پوری کمائی اس کی یہی ہو اور وہ اس ناجائز آمدنی کے ساتھ قربانی کے جانور میں شرکت کرے تو بھی بعض علماء نے گنجائش دی ہے تاہم ایسے شخص کو شریک نہ کیاجائے یہی احوط ہے، اور اگرشریک کرلیا ہے تو اس شخص سمیت سب کی قربانی درست ہوجائے گی۔ اگر شریک کرتے وقت یقینی طور پر معلوم نہ ہوکہ اس کی رقم حرام ہے تو بھی باقی شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی۔
ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل أو شيء من اللهو ولا على الحداء وقراءة الشعر ولا غيره ولا أجر في ذلك، وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد، لأنه معصية ولهو ولعب (البنایۃ علی الھدایۃ اجارۃ المشاع 10/183)۔ ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا (المبسوط للسرخسی، باب الاجارۃ الفاسدۃ 16/38) (ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتحب الزکاۃ ویورث عنہ) لان الخلط استہلاک اذا لم یمکن تمییزہ عند امام ابی حنیفہ (شامی، باب زکوۃ الغنم 2/290)
وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ اذبحو عنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل ولو ذبحوھا بلا اذن الورثۃ لم یجزھم لان بعضھا لم یقع قربۃ وان کان شریک الستۃ نصرانیا او مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم لان الاراقۃ لا تتجزا ھدایہ لما مر۔ وقولہ وان کان شریک الستۃ نصرانیا الخ وکذا اذا کان عبدا او مدبرا یرید الاضحیۃ لان نیتہ باطلۃ لانہ لیس من اھل ھذہ القربۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز اصلا بدائع۔(شامی، کتاب الاضحیۃ 6/326) زکاۃ المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوھبانیۃ انہ یجزئ عندالبعض۔(شامی، باب زکوۃ الغنم 2/291)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1759/43-1494
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے اور احادیث میں خودکشی کرنے والے کے بارے میں سخت عذاب کی خبر دی گئی ہے۔تاہم خودکشی کرنے والے کی موت تقدیر سے الگ نہیں ہے، اور تقدیر اللہ رب العزت کے علم ازلی اور ابدی کو کہتے ہیں، اور اللہ کے علم میں ماضی اور مستقبل دونوں برابر ہیں۔ لہذا اللہ کے علم میں اس کی موت اسی طرح واقع ہونی تھی ،اور یہ حقیقت ہےکہ سب کچھ اللہ کی قضاء و قدر کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوتاہے۔ بادی النظر میں معلوم ہوتاہے کہ موت وقت سے پہلے آگئی یا موت کا مالک وہ خود ہوگیا ، سو ایسا نہیں ہے، یہ سب کچھ تقدیر الہی کے تابع ہوکر ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔ اور رہی بات ایسے لوگوں کی روحوں کا بھٹکنا ، سو ایسا عقیدہ شرعا درست نہیں ہے۔ جس طرح تمام روحوں کا حال ہے کہ اللہ نے ان کے حسب مرتبہ عالم برزخ میں مقامات متعین کررکھے ہیں اسی طرح خودکشی کرنے والے کی روح بھی انہیں مقامات میں سے کسی جگہ عالم برزخ میں رہتی ہے، دنیا میں ایسی روحوں کا بھٹکتے رہنے کا عقیدہ اغلاط العوام میں سے ہے، ایسا عقیدہ فاسد اور بے بنیاد ہے، اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنَ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِى يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِى بَطْنِهِ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ شَرِبَ سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدَّى فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا (صحيح مسلم: 313، باب غلظ تحريم قتل الانسان نفسه)۔
وقد قال أبو عبيد إن مما أجل الله به رسوله أن يسلم عليه بعد وفاته كما كان يسلم عليه في حياته وهذا من جملة خصائصه صلى الله عليه وسلم وقد استنبط جوازه مما روى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يخرج إلى المقبرة ويقول: "السلام عليكم دار قوم مؤمنين" فإنه إذا أجاز ذلك في أهل المقبرة كان في النبي صلى الله عليه وسلم أجوز وهذا حسن قال القاضي لكن قول أبي عبيد أحسن لأنه عليه السلام سلم على أهل القبور بحضرتهم وقد جاء أن الأرواح قد تكون بأفنية القبور. (المعتصر من المختصر من مشکل الآثار، فی التشھد 1/54)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند