اسلامی عقائد

Ref. No. 1761/43-1493

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جنت  کے معنی ٹھیک ہیں ، اس لئے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم کسی صحابی اور کسی بزرگ نے اپنی بیٹی کا نام اس طرح نہیں  رکھا، حدیث میں اس کی نظیر بھی نہیں ملتی ہے، اس لئے  بہتر ہے کہ کسی صحابیہ کے نام پر بیٹیوں کا نام رکھاجائے۔   جنت کے معنی باغ کے ہیں اور آخرت میں ایمان والوں کا جو مسکن ہے اس کو جنت کہتے ہیں۔  

الجنۃ: الحدیقۃ ذات النخل والشجر ، الجنۃ: البستان، الجنۃ: دارالنعیم فی الاخرۃ، والجمع جنان (معجم الوسیط)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہندوستان میں بہت کثرت سے وہ برا در یاں اور خاندان ہیں، جن کے اجداد اور بزرگوں نے سیکڑوں سال قبل عارفین باللہ اور صوفیائے کرام کی تعلیمات، اخلاق، رواداری اور بزرگی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ان بزرگوں نے ان کو ذکر واشغال (جو صوفیائے کرام کا معمول تھا) اور فرائض وواجبات، سنن ونوافل تو ان کو بتلائے اور عمل بھی کرایا؛ لیکن ان میں جو برادری اور خاندانی رسم ورواج تھے ان کے بارے میں ان کو ہدایت نہیں دی جاسکی، چوںکہ برادری اور خاندان کی غیر مسلموں سے قربت اور قرابت تو تھی ہی؛ اس لیے وہ مشرکانہ رسمیں ان میں باقی رہیں اور سماجی اصلاح کی طرف علماء نے بھی خصوصی توجہ نہیں دی، جس کا اثر یہ ہے کہ وہ رسمیں اب بھی مسلم خاندانوں میں چلی آرہی ہیں اور بعض علماء کی غلط روش سے بدعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ باہر سے جومسلمان آئے اور مستقل باشندے اور ملکی ہوگئے، اختلاط کی وجہ سے وہ خاندان بھی ان رسموں اور بدعات سے نہ بچ سکے اور عام ابتلاء ہوگیا۔
نکاح وشادی کرنی نئی چیز یا نئی ایجاد نہیں، فقہائے اسلام نے اس کو عبادت میں شمار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں نکاح کرنا فرض ہے، بعض صورتوں میںواجب یا سنت اور بعض صورتوں میں مکروہ بھی ہے اور حرام بھی، نکاح اور تقریبات شادی کے موقع پر جو طریقہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین یا علماء وصوفیاء اور مقتدائوں نے اپنایا اور اختیار کیا ہو وہ اسلامی طریقہ ہی نہیں؛ بلکہ ایک ضابطہ ہے، جس پر مسلمانوں کو عمل کرنا ضروری ہے، نیوتہ کی رسم اسلامی رسم نہیں، یہ برادریوں کی رسم ہے، ایک نے اگر دیا ہے، تو دوسرے کو بھی دینا پڑتا ہے، یہ گویا ایک ہلکے قسم کا قرض ہوتا ہے، نیت امداد کی ہو، تو اس کو مباح کہہ سکتے ہیں؛(۱) لیکن اس رسم کو تو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس لئے بدعت بن جاتا ہے، بدعت سے بچنا اور بچانا ضروری ہے۔

۱) لیس لنا عبادۃ شرعت من عہد آدم إلی الآن ثم تستمر في الجنۃ إلا النکاح والإیمان۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح‘‘: ج ۴، ص:۵۷)
وفي الفتاوی الخیریۃ: سئل فیما یرسلہ الشخص إلی غیرہ في الأعراس ونحوہا ہل یکون حکمہ حکم القرض فیلزمہ الوفاء بہ أم لا؟ أجاب: إن کان العرف بأنہم یدفعونہ علی وجہ البدل یلزم الوفاء بہ مثلیا فبمثلہ، وإن کان قیمیا فبقیمتہ، وإن کان العرف خلاف ذلک بأن کانوا یدفعونہ علی وجہ الہبۃ ولا ینظرون في ذلک إلی إعطاء البدل فحکمہ حکم الہبۃ في سائر أحکامہ فلا رجوع فیہ بعد الہلاک أو الاستہلاک، والأصل فیہ أن المعروف عرفا کالمشروط شرطاً، قلت: … والعرف في بلادنا مشترک، نعم في بعض القریٰ یعدونہ قرضا حتی أنہم في کل ولیمۃ یحضرون الکاتب یکتب لہم ما یہدی، فإذا جعل المہدي ولیمۃ یراجع المہدی الدفتر فیہدی الأول إلی الثاني مثل ما أہدی إلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الہبۃ‘‘: ج ۵، ص: ۹۶، درر الحکام في شرح مجلۃ الأحکام: ج ۲، ص: ۴۸۱)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، ر
قم: ۲۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص450

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان راتوںمیں افضل ترین شب قدر ہے، جو رمضان المبارک میں ہوتی ہے۔ (۲) پھر شب براء ت ہے جو پندرہ شعبان کو ہوتی ہے، (۳) پھر دوسری راتیں ہیں۔
۲) {إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہجصلے ۱  وَمَآ أَدْرٰئکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِہط ۲  لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍہ۳ط   تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ  وَالرُّوْحُ  فِیْھَا بِإِذْنِ رَبِّھِمْ ج مِنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ھِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ہع۵    } (سورۃ القدر)
(۳) عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا یومہا فإن اللّٰہ تعالیٰ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر، رواہ ابن ماجۃ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، رقم: ۱۳۰۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص498

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کا تابعی ہونا مشہور اور مسلّم ہے اور آپ کی سن پیدائش ۸۰ھ ؁ہے۔(۲)

(۲) فأبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أدرک جماعۃ من الصحابۃ وعاصرہم ومولدہ یقتضی ذلک،فإنہ ولد سنۃ ثمانین وعاش إلی سنۃ خمسین ومأۃ، فقد أمکن اللقاء لوجود جماعۃ من الصحابۃؓ في ذلک العصر۔ (تاریخ بغداد، ذکر ما قالہ العلماء في ذم رأیۃ: ج ۲۲، ص: ۷۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص188

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر کسی شرعی عذر کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
’’وقالت عامۃ العلماء: البول قائماً مکروہ إلا لعذر وہي کراہیۃ تنزیہ لا تحریم الخ‘‘ (۱)
البتہ اگر آفس، ائیر پورٹ، پیٹرول پمپ، شوپنگ مالز وغیرہ میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی کوئی جگہ یا کوئی انتظام نہ ہو، تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی گنجائش ہے؛ لیکن پیشاب کی چھینٹوں سے بچنا بہر حال لازم اور ضروری ہے۔
’’ویکرہ أن یبول قائماً أو مضطجعا أو متجردا عن ثوبہ من غیر عذر‘‘ (۲)
’’قولہ: ’’وأن یبول قائما‘‘: لما ورد من النھي عنہ ولقول عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: من حدثکم أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبول قائماً فلا تصدقوہ، ماکان یبول إلا قاعداً‘‘ رواہ أحمد، والترمذي، والنسائي وإسنادہ جید، قال النووي في شرح مسلم: وقد روي في النھي أحادیث لا تثبت ولکن حدیث عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا ثابت فلذا قال العلماء: یکرہ إلا لعذرٍ وہي کراہۃ تنزیہ لا تحریم الخ، وأما بولہ في السباطۃ التي بقرب الدور فقد ذکر عیاض أنہ لعلہ طال علیہ مجلس حتی حفزہ البول فلم یمکنہ التباعد، أو لما روي ’’أنہ بال قائماً لجرح بمأبضہ‘‘ بھمزۃ  ساکنۃ بعد المیم وباء موحدۃ وھو باطن الرکبۃ، أو لوجع کان بصلبہ والعرب کانت تستشفی بہ أو لکونہ لم یجد مکاناً للقعود أو فعلہ بیاناً للجواز‘‘ (۱)
(۱)  بدرالدین العیني،  عمدۃ القاري، ’’کتاب الوضوء: باب البول قائما وقاعداً‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۲، رقم: ۲۲۴۔ (مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع: في النجاسۃ وأحکامہا الفصل الثالث في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۶۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص102

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسواک کرنے کی تاکید کتب حدیث میں بکثرت آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت پر شاق گذرنے کا خوف نہ ہوتا، تو انھیں ہر وضو کے لیے مسواک کرنے کا حکم دیتا اور بعض میں ہر نماز کا لفظ ہے۔ قال أبوہریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال : ولولا أن أشق علی أمتي أو علی الناس  لأمرتہم بالسواک،  دوسری روایت میں لفظ مع کل صلوٰۃ کے ساتھ آیا ہے۔(۱)
اس حدیث سے مسواک کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
 احناف کے نزدیک مسواک وضو کے لیے سنت ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک نماز کے لیے سنت ہے۔ و ہو أي السواک للوضوء عندنا أي عند الأحناف أي سنۃ للوضوء و عند الشافعي السواک للصلوٰۃ (۲) مثلاً ایک شخص نے وضو کیا، اس میں مسواک بھی کی اورایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو احناف کے نزدیک کافی ہے، جب کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک دوسری نماز جو پڑھی اس میں مسواک کی سنت ادا نہیں ہوئی۔قال في البحر: فائدۃ الخلاف تظہر فیمن صلی بوضوء واحد صلوات یکفیہ عندنا (الأحناف) لا عندہ (الشافعي)(۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ،  کتاب التمني، باب ما یجوز من اللو، ج۲، ص:۱۰۷۵، رقم:۱۳۸۰(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم، ج۱، ص:۲۳۳
(۳) أیضًا

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص202

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے ساتھ علاج معالجہ کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ امام کو لازم ہے کہ فرائض امامت میں کوتاہی نہ آنے دے۔(۱)

(۱) {رِجَالٌلا لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَإِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِصلا یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُہقلا ۳۷ } (سورۃ النور: ۳۷)
لما استخلف أبو بکر الصدیق قال لقد علم قومي أن حرفتي لم تکن تعجر عن مؤنۃ أہلي وشغلت بأمر المسلمین فسیأکل آل أبي بکر من ہذا المال ویحترف للمسلمین فیہ۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۲۰۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص39

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کی اولاد اگر عالم اور صالح ہو تو ان کی امامت درست ہوگی؛ بلکہ افضل ہوگی اور خود اس شخص کی امامت بھی درست ہے جب کہ وہ خود بھی صالح اور عالم ہو۔(۱)

(۱) وکرہ إمامۃ العبد والأعمی وولد الزنا الذي لاعلم عندہ ولا تقوی فلذا قیدہ مع ماقبلہ بقولہ الجاہل، إن لو کان عالماً تقیاً لاتکرہ وولد الزنا من ولد الرشد، قولہ، وولدالزنا لأنہ لیس لہ أب یعلمہ فیغلب علیہ الجہل فلو کان عندہ علم لا کراہۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وولد الزنا إذا کان أفضل القوم فلا کراہۃ إذا لم یکونا محتقرین بین الناس لعدم العلۃ للکراہۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص64

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام صاحب سے جو پڑھانا وغیرہ طے ہوا تھا اس کی طرف امام صاحب کو سنجیدگی سے توجہ دلائی جائے اور اگر مقتدی امام صاحب کی غلطی کی وجہ سے ناراض ہوں تو محلہ ومسجد کے ذمہ داران امام صاحب سے بات کرکے تصفیہ کرادیں بصورت دیگر ذمہ داران دوسرے امام کا نظم کرسکتے ہیں۔(۲)

(۲) لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولانہم أحق بالإمامۃ منہ …کرہ لہ ذلک تحریماً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص194

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایسا شخص جو خود بھی مسجد کی نماز اور جماعت سے بغیر عذر شرعی اعراض کرتا ہے اور دوسروں کے اعراض کا ذریعہ بنتا ہے وہ شخص خود بھی گنہگار ہے اور دوسروں کو گناہوں میں ملوث کر رہا ہے اسلامی احکام (نماز باجماعت مسجد میں) غریب، فقیر، بادشاہ، حقیر  سب کے لیے برابر ہیں بغیر عذر شرعی کے اس کے خلاف کرنے والا گناہگار ہے اور خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا، اس کو ایسی گمراہ کن حرکتوں سے باز آنا چاہئے اور دوسرے حضرات کو چاہئے کہ اس کی روش چھوڑ دیں اور اس کے گمراہ کن طریقہ کار کو بالکل نہ اپنا ئیں ورنہ تو وہ بھی گناہگار ہوں گے۔(۱)

(۱) وعن ابن عباس -رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع المنادي فلم یمنعہ من اتباعہ عذر، قالو: وما العذر؟ قال: خوف أو مرض لم تقبل منہ    الصلاۃ التي صلی۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ترک الجماعۃ‘‘: ص: ۹۶، یاسر ندیم دیوبند)
عن عبداللّٰہ بن ام مکتوم أنہ قال: یارسول اللّٰہ ان المدینۃ کثیرۃ الہوام والسباع۔ قال ہل تسمع حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح؟ قال نعم۔ قال: فحي ھلا ولم یرخص لہ۔  (أخرجہ النساء في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، المحافظۃ علی الصلوات حیث ینادی بہن،  ج۱، ص:۱۰۹، رقم:۸۵۱)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص389