نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ طریقہ پرایک رسم بنالی گئی ہے جس کو لازم سمجھا جاتا ہے کہ نماز کا سلام پھیرتے ہی تمام مقتدی کلمہ طیبہ زور زور سے پڑھتے ہیں اگر کوئی نہ پڑھے تو اس کو لعن طعن کرتے ہیں؛ اس لیے ایسا التزام بدعت ہوتا ہے؛ کیوں کہ کلمہ طیبہ کا کسی بھی وقت پڑھنا افضل ہے کسی خاص وقت میں اس کو لازم سمجھنا اس کو بدعت بنا دیتا ہے (۱) ایسی رسمی بدعات سے ہر مسلمان کو پرہیز لازم ہے جب کہ اس میں نقصان بھی ہے کہ مسبوقین کی نماز میں اس سے خلل پیدا ہوگا اور جس سے نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوجائے وہ جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات المعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعیین في الشریعۃ۔ (الشاطبي، الاعتصام، ’’الباب الأول في تعریف البدع‘‘: ج ۱، ص: ۷۲)
(۲) لما صح عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ أنہ أخرج جماعۃ من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال ما أراکم إلا مبتدعین۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۷۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز کی پہلی رکعت میں کسی سورہ کا بعض حصہ اور دوسری رکعت میں کسی دوسری سورہ کا بعض حصہ پڑھنا درست نامناسب ہے اور اس حکم میں قرآن پاک کی تمام سورتیں شامل ہیں کیوں کہ یہ حکم مطلقاً ہے۔
’’الأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ الفاتحۃ وسورۃ کاملۃ في المکتوبۃ … ولو قرأ في رکعۃ من وسط سورۃ أو من آخر سورۃ وقرأ في الرکعۃ الأخری من وسط سورۃ أخری أو من آخر سورۃ أخری، لا ینبغي لہ أن یفعل ذلک علی ماہو ظاہر الروایۃ، ولکن لو فعل ذلک لا بأس بہ۔ کذا في الذخیرۃ‘‘(۲)
اور اسی طرح مستحب یہ ہے کہ ہر رکعت میں پوری سورہ پڑھی جائے خواہ چھوٹی سورہ پڑھے یا بڑی سورہ پڑھے تاہم اگر کسی وجہ سے ایسا کرلیا گیا تب درست ہے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
’’والأفضل أن یقرأ في کل رکعۃ سورۃ فاتحۃ ولو قرأ بعض السورۃ في رکعۃ وباقیہا في رکعۃ قیل یکرہ والصحیح أنہ لا یکرہ الخ‘‘(۱)

(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶۔
(۱) الحلبي، غنیۃ المتملي: ص: ۴۶۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص231

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو سنت مؤکدہ ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق مواظبت ثابت ہیں ان کو ترک کرنے کی عادت بنا لینا باعث گناہ ہے، البتہ کبھی اگر اتفاقاً چھوٹ جائیں تو حرج نہیں ہے،(۱) ظہر سے قبل چار رکعت سنت مؤکدہ ہیں ان کو چھوڑنے سے گناہ ہوگا،(۲) جو سنن غیر موکدہ ہیں وہ نفل کے درجہ میں ہیں ان کو ترک کرنے سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا ہے۔

(۱) قلت: لکن کونہ سنۃ مؤکدۃ لا یستلزم الإثم بترکہ مرۃ واحدۃ بلا عذر، فیتعین تقیید الترک بالاعتیاد والإصرار توفیقاً بین کلامہم کما قدمناہ، فإن الظاہر أن الحامل علی الإصرار علی الترک ہو الاستخفاف بمعنی التہاون وعدم المبالاۃ، لا بمعنیٰ الاستہانۃ والاحتقار۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار: ’’باب صفۃ الصلاۃ: مطلب في قولہم الاسائۃ دون الکراہۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند)
الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم، والصحیح أنہ یأثم۔ (الحصکفي، رد المحتار  مع الدرالمختار: کتاب الطہارۃ ’’سنن الوضوء: مطلب في السنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰)
و یجاب عنہ بأن السنۃ المؤکدۃ بمنزلۃ الواجب في الإثم بالترک کما صرحوا بہ کثیرا۔ وصرح بہ في المحیط ہنا وأنہ لا یجوز ترک السنن المؤکدۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)
(۲) لأن فیہا وعیداً معروفاً قال علیہ الصلاۃ والسلام: من ترک أربعاً قبل الظہر لم تنلہ شفاعتي۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص359

 

متفرقات

Ref. No. 845 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  درود شریف پڑھنا ایک عمل خیر بلکہ افضل عبادات میں سے ہے، شریعت میں کارخیر کرنے پر ہی نہیں بلکہ ہر خیر کی چیز سننے اور دیکھنے پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اس لئے درود شریف پڑھنا اور سننا بھی لائق اجروثواب ہے۔ ظاہر ہے کہ جب غلط چیزوں کے دیکھنے اور سننے پر گناہ ہے تو اچھی چیزوں کے دیکھنے اور سننے پر ثواب یقینا ہوگا۔

واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 931/41-61

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے دوست کسی فانی شی کے حصول میں غالبا زیادہ منہمک رہے ہیں۔ اور عبادتیں بھی غالبا اسی کے حصول کی غرض سے زیادہ کرتے ہوں گے۔ جب عبادتیں حقیقی مقاصد سے ہٹ کر کی جاتی ہیں تو وہ کبھی سکون نہیں پہونچاتی ہیں۔ آپ کے دوست کو چاہئے کہ اپنی عبادتیں صرف اللہ کی رضاء کے لئے کریں،  اور اپنے گناہوں کی بھی صدق دل سے معافی مانگیں ۔ ان شاء اللہ  تمام دنیاوی مشکلات بھی حل ہوجائیں گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: واستغفروا ربکم انہ کان غفارا، یرسل السماء علیکم مدرارا ، ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنات ویجعل لکم انھارا۔

اللہ کی رضاء کے لئے عبادت کرنے اور اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگنے سے اللہ تعالی معاف بھی فرمائیں گے۔  رحمتیں بھی برسائیں گے، مال بھی دیں گے، اور لڑکا نہ ہو تو لڑکا بھی ملے گا، یعنی دنیا میں بھی ترقی ہوگی اور آخرت میں بھی اچھامقام نصیب ہوگا۔ یقینا اللہ کی یاد سے دل کو سکون ملتا ہے بشرطیکہ عبادت خالص رضائے الہی کے لئے ہو۔ قرآن میں ہے: الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ آپ کے دوست کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے اور مذکورہ خیالات سے توبہ کرے، اور اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔ واللہ الموفق۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1366/42-777

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is wajib (obligatory) to keep the clothes above the ankles, and it is strictly forbidden in the hadiths to keep them below.

عن أبى هريرة - رضى الله عنه - عن النبى - صلى الله عليه وسلم - قال «ما أسفل من الكعبين من الإزار ففى النار». (فیض الباری، باب من جر ثوبہ من الخیلاء 6/73) (فتح الباری لابن رجب، باب بالتنوین مااسفل من الکعبین 10/257) عَن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أُزرة المؤمن إلى نصف الساق ولا حرج ولا جناح فيما بينه وبين الكعبين ما كان أسفل من الكعبين فهو في النار، من جر إزاره بطراً لم ينظر الله إليه. (معالم السنن، ومن باب قدر موضع الازار 4/197)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1489/42-953

وباللہ التوفیق:۔ اے سی سے نکلنے والا پانی پاک ہوتاہے، اس سے وضو وغسل سب جائز ہے۔ البتہ اس بات کی تحقیق کرلی جائے کہ اس سے اعضاء کو کوئی نقصان تو نہیں پہونچتا۔ طبی اعتبار سے اگر مضر ہو تو بچنا چاہئے تاہم وضو و غسل ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 1866/43-1729

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ شروع کرنے کے بعد بلاکسی عذر شرعی کے توڑنا جائز نہیں ہے، البتہ  رمضان کے قضا روزے توڑنے پر ایک مزید روزہ کی  قضا یاایک مزید کفارہ لازم نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1962/44-1883

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  چھپکلی کی بیٹ ناپاک ہے، اس لئے  کپڑے اور جسم پر لگنے سے کپڑا اور جسم ناپاک ہوجائیں گے۔ اگر بیٹ خشک ہوگئی ہے تو کپڑے اور بدن پر نہیں لگے گی، لیکن اگر گیلی ہے تو کپڑے خراب ہوجائیں گے اور ناپاک ہوجائیں گے۔ مسجدوں میں صفائی کا اہتمام رکھنا چاہئے، ہر نمازی مسجد کی صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے، اسی طرح نماز سے پہلے نماز پڑھنے کی جگہ کو اچھی طرح دیکھ لینا چاہئے کہ کوئی نجاست مصلی پر نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 318):

"(و بول غير مأكول و لو من صغير لم يطعم) إلا بول الخفاش و خرأه ... (و خرء) كل طير لايذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولًا فطاهر و إلا فمخفف (و روث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. و قالا: مخففة. و في الشرنبلالية قولهما أظهر.

(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها و لانصراف الإطلاق إليها كما يأتي، و لقوله و قالا: مخففة، وأراد بالحيوان ما له روث أو خثي: أي: سواء كان مأكولا كالفرس والبقر، أو لا كالحمام وإلا فخرء الآدمي وسباع البهائم متفق على تغليظه كما في الفتح والبحر وغيرهما فافهم. (قوله: وفي الشرنبلالية إلخ) عزاه فيها إلى [مواهب الرحمن] لكن في النكت للعلامة قاسم أن قول الإمام بالتغليظ رجحه في المبسوط وغيره اهـ ولذا جرى عليه أصحاب المتون".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے مواقع پر زیارت گاہوں اور قبرستان پر جانا اور اس کو ضروری سمجھنا التزام مالایلزم کے قبیل سے ہے، جو بدعت اور گمراہی ہے۔ ایسے رسم ورواج قابل ترک ہیں، تاکہ بدعت وضلالت کے گناہ سے انسان بچ سکے۔ اور ایسی بدعات ورسم ورواج میں پڑ کر، نمازوں کو کھو بیٹھنا سخت ترین گناہ ہے۔(۱)

(۱) وبالجملۃ ہذہ بدعۃ شرقیۃ منکرۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۵)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ … (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہني عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ: ج ۲۲، ص: ۲۳۷، رقم: ۱۴۳۳۴)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص447