Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: (۱) حسب ضرورت رکعات کی تعداد بتلانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛ لیکن بغیر ضرورت بھی ہرہر مرتبہ رکعتوں کی تعداد بتانا اور اس کی عادت ڈالنا درست نہیں ہے۔ امام اور مقتدی سبھی کو رکعات یاد رکھنی چاہئے اس لیے امام کا یہ عمل بلاضرورت ہونے کی وجہ سے عبث ہے اس کو اس سے رکنا چاہئے۔(۱) (۲) نماز کے فوراً بعد دعا مسنون ہے اس لیے نماز کے بعد پہلے دعا کی جائے اس کے بعد چندہ کی ترغیب دی جائے، دعاء سے قبل چندہ کی ترغیب کی صورت میں نمازکے بعد دعاء کی فضیلت کا چھوڑنا لازم آتا ہے۔ جس کی عادت بنالینا مناسب نہیں ہے۔(۲) (۳) غیر عالم کا اپنے آپ کو عالم کہلوانا درست نہیں، ایسی چیز کو اپنے لیے ثابت کرنا جو اس میں نہ ہو اس سے بچنا ضروری ہے۔(۳)
(۱) من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) (۲) عن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال: یامعاذ واللّٰہ انی لاحبک، فقال: أوصیک یا معاذ لاتدعن فی دبر کل صلاۃ تقول: اللّٰہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۲۲) (۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیس من رجل ادعی لغیر أبیہ … وہو یعلمہ إلا کفر ومن ادعی مالیس لہ فلیس منا ولیتبوأ مقعدہ من النار۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۶۱، دار الاشاعت، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 60
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حفاظ کی کثرت کی وجہ سے مسجد سے الگ بھی تراویح میں کوئی حرج نہیں، خواہ وہ مسجد کے قریب ہی ہو، لہٰذا مذکورہ تراویح درست ہے، لیکن بلاوجہ اختلاف سے بچنا چاہئے، بالخصوص دینی امور میں اتفاق رائے سے کام لینا ہی بہتر اور ثواب کا باعث ہے۔(۱)
(۱) وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات کما في المنیۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)وإن تخلف واحد من الناس وصلاہا في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ ولا یکون مسیئاً ولا تارکاً للسنۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۵)إن أمکنہ أراؤہا في بیتہ مع مراعاۃ لسنۃ القراء ۃ وأشباہہا فلیصلہا في بیتہ، لقولہ علیہ السلام فعلیکم بالصلاۃ في بیوتکم فإن خیر صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:61
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3312/46-9109
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے لیکن والدین حق پر نہ ہوں بلکہ کسی ظلم و ناانصافی کا حکم دیں تو والدین کی اطاعت واجب نہیں ، اور والدین کی بات ماننے پر کوئی گناہ نہیں ، حضرات فقہا نے لکھا ہے کہ اگر ماں باپ بلاوجہ بیوی کی طلاق کا مطالبہ کریں تو بیوی کو طلاق دینا جائز نہیں ہے۔ آپ میں جو دوسری شادی کی استطاعت نہیں ہے اور نہ ہی آپ دونوں بیویوں میں برابری اور عدل کرپائیں گے تو دوسری شادی نہ کرنے میں ماں باپ کی نافرمانی لازم نہیں آتی اور اس پر کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔
اما باعتبار اصل الجواز فلایلزمہ طلاق زوجۃ امراتہ بفراقھا (مرقاۃ المفاتیح 1/132)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3310/46-9108
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ یقینا اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے اور حرام موت کو اختیار کیا مگر وہ پھر بھی مسلمان ہے ، اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کی قبرستان میں اس کو دفن کیاجائے گا۔ اور جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ درست ہے کہ آپ ﷺ منے نماز جنازہ اس کی نہیں پڑھی تھی مگر اس میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ آپ نے نماز جنازہ پڑھنے سے بھی منع فرمایا ہو، اس لئے یہی کہاجائے گا کہ آپ ﷺ نے بطور تنبیہ و توبیخ اس کی نماز نہیں پڑھی ، اسی لئے مقتدر اور بااثر لوگوں کا ایسے جنازہ میں شریک نہ ہونا بہتر ہوگا تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہو اور عبرت حاصل ہو۔
"(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى، وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي بِمَا فِي مُسْلِمٍ: «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»".
"(قَوْلُهُ: بِهِ يُفْتَى)؛ لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ، وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ، زَيْلَعِيٌّ. (قَوْلُهُ: وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي إلَخْ) أَيْ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ: إنَّهُ يُغَسَّلُ، وَلَايُصَلَّى عَلَيْهِ، إسْمَاعِيلُ عَنْ خِزَانَةِ الْفَتَاوَى. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ وَالْكِفَايَةِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ الْإِمَامِ السَّعْدِيِّ: الْأَصَحُّ عِنْدِي أَنَّهُ لَايُصَلَّى عَلَيْهِ لِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: فَقَدْاخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ، لَكِنْ تَأَيَّدَ الثَّانِي بِالْحَدِيثِ. اهـ. أَقُولُ: قَدْ يُقَالُ: لَا دَلَالَةَ فِي الْحَدِيثِ عَلَى ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ سِوَى «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ امْتَنَعَ زَجْرًا لِغَيْرِهِ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ كَمَا امْتَنَعَ عَنْ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْيُونِ، وَلَايَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ عَدَمُ صَلَاةِ أَحَدٍ عَلَيْهِ مِنْ الصَّحَابَةِ؛ إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَ صَلَاتِهِ وَصَلَاةِ غَيْرِهِ. قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ} [التوبة: ١٠٣] ثُمَّ رَأَيْت فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ بَحْثًا كَذَلِكَ" . [الدر مع الرد : ٢/ ٢١١-٢١٢]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3309/46-9075
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب کو نماز و روزوں کی سمجھ ہے؛ وہ احکام شریعت کو سمجھتے ہیں۔ البتہ احکام شریعت پر عمل کرنے میں ان سے بکثرت کوتاہی ہوتی ہے۔ نمازوں کے اوقات اور فرائض کی ادائیگی خود سے کرنے پر پورے طور سے قادر نہیں ہیں ۔ البتہ گھر والوں کے تعاون سے وہ ادا کرلیتے ہیں تو اایسی صورت میں نمازیں اور روزے ان پر فرض ہوں گے۔ اب یا تو ان کے سامنے کوئی نماز اداکرے کہ دیکھادیکھی وہ بھی ادا کرلیں یا کوئی ان کونماز کے ارکان بتاتا رہے اور وہ اداکرتے رہیں یا پھر کوئی ان کو باجماعت نماز پڑھادیاکرے۔ روزوں کی ادائیگی میں اگر خلل ہو تو فدیہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
مصل اقعد عند نفسه انسانا فيخبره اذا سھا عن ركوع او سجود یجزیہ اذالم یمکنہ الا بهذا (الھندیۃ 1/138)
وفي القنية مريض لا يمكنه الصلاة الا با صوات مثل اوه و نحوه يجب عليه ان يصلی۔ )البحر الرائق 5/24)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3308/46-9110
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ مدعی کے ذمہ اپنے دعوی پر دلیل قائم کرنا لازم ہے، اگر اس کے پاس اپنے دعوی پر کامل نصاب شہادت نہیں ہے تو پھر مدعی علیہ سے قسم لی جاتی ہے ، لہذا اگر زید کے پاس اپنے دعوی پر دلیل نہیں ہے تو مدعی علیہ عمرو سے قسم لے کر فیصلہ کیاجائے گا۔
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔ ھذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع (اعلاء السنن، کتاب الدعوی 15/350، ادارۃ القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3305/46-9072
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Friendship has a profound impact on those involved, that is why it is crucial to choose good friends carefully who will have a positive impact on you. In a society like India, where people of various religions live side by side, maintaining harmonious relationships and fostering tolerance is of utmost importance. If your non-Muslim classmates treat you with respect and kindness, cultivating a good relationship with them is certainly not contrary to Islamic principles. In fact, Islam teaches us to interact with others with good manners and to uphold their rights. The life of Prophet Muhammad (saws) is filled with examples of how to build positive relationships and show kindness, even towards non-Muslims.
The core message of this hadith is that your closest friends should be those who enhance your spiritual life and help you stay on the righteous path. It is important to be cautious of friendships that might jeopardize your beliefs, lead you astray, or cause harm in any way. If your non-Muslim friends respect your faith and treat you with kindness, then forming a friendship with them is permissible, as long as they do not negatively influence your religious views, and you are surrounded by companions who encourage you toward righteousness. May Allah grant us the wisdom to live with the best character and the guidance to follow the right path! Ameen
قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى۔۔۔ أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها". (فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفة بیروت)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Divorce & Separation
Ref. No. 3306/46-9073
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے دو مرتبہ طلاق کو دو کام پر معلق کیا تھا اور بیوی نے دونوں پر عمل نہیں کیا، اس لئے مذکورہ بیوی پر دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔ طلاق رجعی کی عدت میں رجعت کرنے سے بیوی باقی رہ جاتی ہے اور سوال میں صراحت ہے کہ دونوں نے جسمانی تعلق قائم کیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدت کے دوران رجعت ہوگئی۔ اس لئے مذکورہ بیوی آپ کے نکاح میں باقی ہے۔ البتہ اب آپ کو اس کا خیال رکھنا لازم ہے کہ آئندہ ایک طلاق بھی دیدی تو یہ طلاق مغلظہ ہوجائے گی اور مذکورہ بیوی آپ کے نکاح سے مکمل نکل کرحرام ہوجائے گی، جس سے پھر نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے اگر کبھی نااتفاقی ہوجائے تو آپسی صلح و صفائی ہی کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کریں اور ہرگز آئندہ اپنی زبان پر طلاق کا لفظ نہ لائیں، ورنہ کافی مشکل میں پڑجائیں گے۔
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقةً رجعيةً أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض". ( الھندیۃ، الباب السادس فيما تحل به المطلقة وما يتصل به ج:1، ص: 470، ط: ماجديه)
"(قوله وينكح مبانته في العدة، وبعدها) أي المبانة بما دون الثلاث لأن المحلية باقية لأن زوالها معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبلها، ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب، ولا اشتباه في الإطلاق له." (البحر الرائق، كتاب الطلاق،فصل فيما تحل به المطلقة،٦١/٤،ط : دار الكتاب الإسلامي]
"ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات". (المبسوط للسرخسی، ج:6، ص: 65، ط: دارالكتب العلميه بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندMiscellaneous
Ref. No. 3307/46-9074
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the unibrow is causing ugliness to the face, then it is permissible to manage it. Both married and unmarried women are equal in this regard. However, one should refrain from doing so merely for the purpose of beautification and arrogance.
"(والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب." (حاشية رد المحتار على الدر المختار كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس/ج:6/ صفحه:373/ط: ایچ، ایم، سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
Ref. No. 3303/46-9058
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح نیکی کی ترغیب دینے والے کو نیکی کا ثواب ملتاہے، اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے والے کو بھی گناہ کئے جانے پر گناہ ملتاہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ گناہ کی صرف ترغیب دینے پر گناہ نہیں ملتاہے بلکہ جب دوسرا شخص گناہ کا ارتکاب کرتاہے تو اس کا گناہ ترغیب دینے والے کو بھی جاتاہے۔ اور نیکی کی ترغیب دینے سے ہی ثواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
والمجاهرون هم الذين جاهروا بمعاصيهم وأظهروها وكشفوا ما ستر الله عليهم منها فيتحدثون يقال: جهر وجاهر وأجهر، أقول: قول الأشرف: كل أمتي لا ذنب عليهم لايصح على إطلاقه بل المعنى كل أمتي لايؤاخذون أو لايعاقبون عقابًا شديدًا إلا المجاهرون. و أما ما ذكره الطيبي من التقييد بالغيبة فلا دلالة للحديث عليه و لا عبرة بعنوان الباب كما لايخفى على أولي الألباب بل في نفس الحديث ما يؤيد ما ذكرناه و هو قوله على طريق الاستئناف البياني وإن من المجانة بفتح الميم وخفه الجيم مصدر مجن يمجن من باب نصر وهي أن لا يبالي الإنسان بما صنع ولا بما قيل له من غيبة ومذمة ونسبة إلى فاحشة أن يعمل الرجل بالليل أي مثلا عملا أي من أعمال المعصية ثم يصبح بالنصب وفي نسخة بالرفع أي ثم هو يدخل في الصباح وقد ستره الله أي عمله عن الناس أو ستره ولم يعاقبه في ليله حتى عاش إلى النهار فيقول بالنصب ويرفع أي فينادي صاحبا له يا فلان عملت البارحة أي في الليلة الماضية كذا وكذا أي من الأعمال السيئة وقد بات أي والحال أن الرجل العاصي دام في ليله يستره ربه أي عن غيره ولم يكشف حاله بالعقوبة ويصبح أي الرجل مع ذلك يكشف خبر يصبح أي يرفع ويزيل ستر الله عنه." (مرقاۃ المفاتیح ، باب حفظ اللسان والغیبة والشتم: ج؛7، ص:3034، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند