اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات موجود ہیں ان کو تلقی بالقبول بھی حاصل ہے اور ان پر توارث بھی ہے؛ اس لیے شب برأت کی فضیلت کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں اس سلسلے میں بعض روایات ضعیف اور کمزور ہیں؛ لیکن بعض صحیح اور حسن درجہ کی بھی روایتیں ہیں؛ اس لیے مجموعہ روایات سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ابن ماجہ کی حدیث:
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فإن اللّٰہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا، فیقول: ألا من مستغفر لي فأغفر لہ ألا مسترزق فأرزقہ ألا مبتلی فأعافیہ ألا کذا ألا کذا حتی یطلع الفجر‘‘(۱) کا تعلق ہے اس کو متعدد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے التقریب میں اس پر رد کیا ہے وہ میری نظر سے نہیں گزرا ہاں دیگر محدثین نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے؛ لیکن اس رات کی فضیلت صرف اسی ایک حدیث سے ثابت نہیں ہے؛ بلکہ اس کے علاوہ دیگر احادیث بھی ہیں جن سے اس رات کی فضیلت پر استدلال کیا گیا ہے مثلاً:
’’وعن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: یطلع اللّٰہ إلی جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو لمشاحن‘‘(۱) اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث ہے:
’’إذا کان لیلۃ النصف من شعبان إطلع اللّٰہ إلی خلقہ فیغفر للمؤمنین ویمہل الکافرین ویدع أہل الحقد بحقدہم حتی یدعوہ‘‘(۲) اس حدیث پر شیخ البانی نے بھی صحیح کا حکم لگایا ہے۔ ترمذی میں روایت ہے:
’’إن اللّٰہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا، فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب‘‘(۳)
اس طرح کی متعدد احادیث ہیں جن میں اگرچہ بعض ضعیف ہیں؛ لیکن تعدد طرق کی وجہ سے ان کا ضعف ختم ہو جاتا ہے اور وہ روایت قابل قبول ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے علماء کا ان روایات پر عمل رہاہے، محض ابن ماجہ کی ضعیف روایت کو دیکھ کر پندرہویں شعبان کا فضیلت کا بالکلیہ انکار کرنا درست نہیں ہے۔

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔
(۱) الترغیب والترہیب، ’’کتاب الأدب وغیرہ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۷، رقم: ۴۱۸۸۔
(۲) صحیح الترغیب والترہیب، ’’الترغیب في الحیاء‘‘: ج ۳، ص: ۳۴، رقم: ۲۷۷۱۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في لیلۃ النصف من شعبان‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۶، رقم: ۷۳۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص495

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتابیں اسرائیلی روایات کی حامل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہوگئی ہیں، (۱) چونکہ ان میں اکثر وبیشتر واقعات وقصص غیر معتبر ہیں ؛ اس لیے پرہیز اولیٰ ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط واقعات کا بیان عقائد اسلامیہ میں رخنہ اندازی کا باعث، البتہ اگر فضائل وشمائل کے باب میں اسرائیلی روایات بھی ہوں، تو چونکہ مقصد راہ خدا وندی کی طرف ترغیب دلانا ہے؛ اس لئے اس میں مضائقہ نہیں ہے۔
مذکورہ کتابوں میں جو باتیں دوسری معتبر کتابوں میں بھی آئی ہیں، وہ مذکورہ کتابوں میں بھی معتبر ہیں، علماء حقانی سے معلوم کرکے کتاب پڑھیں یا سنیں۔

(۱) وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج أي: الحرج الضیق والإثم وہذا لیس علی معنی إباحۃ الکذب علیہم بل دفع لتوہم الحرج في التحدیث عنہم وإن لم یعلم صحتہ وإسنادہ لبعد الزمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص185

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ بالا صورت میں جب استنجا کے لیے جاتے ہوئے دعا یاد نہیں رہی، تو گندی جگہ پر پہونچنے سے پہلے اور ستر کھولنے سے پہلے دعا یاد آ جائے، تو دعا پڑھ لینی چاہئے؛ لیکن اگر بیت الخلا میں گندی جگہ ہے یا ستر کھول چکا ہے، تو اب زبان سے دعا نہ پڑھے، ہاں بہتر ہے کہ دل ہی دل میں دعاء پڑھ لے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعاء پر بھی اجر عطا فرمائیں گے۔
’’قبل الاستنجاء وبعدہ إلا حال انکشاف وفي محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ،قال ابن عابدین: فلو نسی فیہا سمی بقلبہ ولا یحرک لسانہ تعظیماً لإسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۲)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقي لا بعمنی جمیع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص98

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک ہی مسواک جب تک وہ کام دے سکے، اس کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اگر مسواک سستی ہو اور عام طور پر ملتی بھی ہو؛ لیکن اس کو ضائع کر دینا یا ترک کر دینا جب کہ اس سے کام لیا جا سکتا ہواوردوسری مسواک خرید کراستعمال کرنا، اس پر اسراف کا شبہ ہوتا ہے۔(۱)

(۱) فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک بالشت کے بقدر ہونی چاہیے اس لیے اگر مسواک کرتے کرتے ایک بالشت سے چھوٹی ہوجائے، تو مسواک کو بدلا جاسکتا ہے و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر و طول شبر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب: في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص:۲۳۴)؛ و ندب إمساکہ بیمناہ و کونہ لینا مستویا بلا عقد في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في غلظ الخنصر و طول شبر الظاھر أنہ في ابتداء استعمالہ فلا یضر نقصہ بعد ذلک بالقطع منہ لتسویتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’قبیل مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱،ص:۲۳۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص200

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر لائق امامت ہو تو اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام والبلوغ والعقل،… والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸،۷۷، مکتبہ عطاظ دیوبند)
أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلوٰۃ مع أداء الأرکان، وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، ومن السنۃ حدیث صلو خلف کل برو فاجر۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۱۰، زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص61

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: (۱) مجبوری میں غلط کام کرکے پھر توبہ کرلی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲) جو لوگ سودی کاروبار میں ملوث ہوں ان کو امام نہ بنایا جائے امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیک اور متقی ہو اور معاشرہ میں نیک نام ہو اس لیے اگر ایسے لوگ امام کے منصب پر ہوں تو ان کو جلد از جلد توبہ کرلینی چاہئے اور اگر توبہ نہ کریں اور سودی کاروبار نہ بند کریں تو ان کی جگہ دوسرے کو امام بنادیا جائے۔(۱)

(۱) {یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
عن جابر قال: (لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ) ہم سواء۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساقات، باب لعن آکل الربا مؤکلہ‘‘: ج۳، ص: ۱۲۱۹، رقم: ۱۵۹۸)
عن ابن سیرین قال: کل شيء فیہ قمار فہو من المیسر۔
 (أخرجہ ابن أبي شیبہ،  في مصنفہ، ’’کتاب البیوع والأقضیۃ‘‘: ج۴، ص: ۴۸۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص191

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مردوں کے لیے بغیر کسی عذر کے گھر پر نماز ادا کرنے کے سلسلے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں، حضرات فقہا نے فرض نماز جماعت کے ساتھ مساجد میں ادا کرنے کو حکماً واجب لکھا ہے؛ اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ مسجد کی جماعت ترک نہ ہو پائے، لیکن اگر کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت چھوٹ جائے تو گھر والوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا درست ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ دو فریقوں کے درمیان صلح کے لیے تشریف لے گئے جب واپس آئے تو جماعت ہو چکی تھی اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے:
’’ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی‘‘(۱)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں مرد اپنی بیوی اور بچوں کو نماز جماعت سے پڑھانا چاہے تو وہ پڑھا سکتا ہے، لیکن جب گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں اس وقت صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ مرد خود آگے کھڑا ہوجائے یعنی امام بنے، پہلی صف میں بچے (لڑکے) کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا جو گھر کی خواتین ہوں، کھڑی ہوں۔ اور اگر ایک بچہ ہو تو وہ مرد کے دائیں طرف کھڑا ہو اور باقی خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔
نیز گھر میں جماعت کرتے وقت اذان واقامت کہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، تاہم افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ  جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت شوہر کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو اذان بھی شوہر دے یا اگر کوئی سمجھ دار بچہ ہو تو وہ اذان دے سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(وکرہ ترکہما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وکذا ترکہا) لا ترکہ لحضور الرفقۃ (بخلاف مصل) ولو بجماعۃ (وفي بیتہ بمصر) أو قریۃ لہا مسجد؛ فلایکرہ ترکہما إذ أذان الحی یکفیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: في بیتہ) أي فیما یتعلق بالبلد من الدار والکرم وغیرہما، قہستاني، وفي التفاریق: وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفی بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریبًا وإلا فلا۔ وحد القرب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ إسماعیل۔ والظاہر أنہ لایشترط سماعہ بالفعل، تأمل‘‘
’’(قولہ: لہا مسجد) أي فیہ أذان وإقامۃ، وإلا فحکمہ کالمسافر صدر الشریعۃ‘‘
’’أن قزعۃ مولی لعبد القیس أخبرہ أنہ سمع عکرمۃ قال: قال ابن عباس: صلیت إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعائشۃ خلفنا تصلی معنا، وأنا إلی جنب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أصلی معہ‘‘(۱)
’’(ویقف الواحد) ولو صبیاً، أما الواحدۃ فتتأخر (محاذیاً) أي مساویاً (لیمین إمامہ) علی المذہب، ولا عبرۃ بالرأس بل بالقدم، فلو صغیراً فالأصح ما لم یتقدم أکثر قدم المؤتم لاتفسد، فلو وقف عن یسارہ کرہ (اتفاقاً وکذا) یکرہ (خلفہ علی الأصح)؛ لمخالفۃ السنۃ، (والزائد) یقف (خلفہ) فلو توسط اثنین کرہ تنزیہاً، وتحریماً لو أکثر‘‘(۲)
’’(وإن أم نساء، فإن اقتدت بہ) المرأۃ (محاذیۃ لرجل في غیر صلاۃ جنازۃ، فلا بد) لصحۃ صلاتہا (من نیۃ إمامتہا) لئلایلزم الفساد بالمحاذاۃ بلا التزام (وإن لم تقتد محاذیۃ اختلف فیہ) فقیل: یشترط، وقیل: لا کجنازۃ إجماعًا، وکجمعۃ وعید علی الأصح خلاصۃ وأشباہ، وعلیہ إن لم تحاذ أحدا تمت صلاتہا وإلا‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲،ص: ۲۸۸۔            (۲) وفیہ أیضاً۔
(۱) أخرجہ النسائي في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، رقم: ۸۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلوۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲،ص: ۳۰۷۔            (۳) أیضاً۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص384

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کو بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھائی۔
انبیاء علیہم السلام جب صفیں درست کرچکے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امامت کے لیے آگے بڑھادیا اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے قریب حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے تھے اور داہنی جانب حضرت اسماعیل علیہ السلام کھڑے تھے اوربائیں جانب حضرت اسحاق علیہ السلام کھڑے تھے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پھر تمام انبیاء علیہم السلام کھڑے ہوئے تھے۔(۱)
(۱)  فحانت الصلوٰۃ فأممتہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الإسراء برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ج۱ ، ص:۹۶ ، رقم: ۲۷۸)
ولعل المراد بہا صلوۃ التحیۃ أو یراد بہا صلوٰۃ المعراج۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفضائل والشمائل: باب في المعراج الأول‘‘: ج۱۰، ص:۵۷۱، رقم: ۵۸۶۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:امام کا اذان پڑھنا درست ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے روایات سے ایک ہی شخص کا اذان دینا اور نماز پڑھانا ثابت ہے۔(۳)

(۳) عن عقبۃ بن عامر، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: یعجب ربک من راعي غنم، في رأس شظیۃ بجبل، یؤذن للصلاۃ ویصلي، فیقول اللّٰہ عز وجل: انظروا إلی عبدي ہذا: یؤذن ویقیم للصلاۃ یخاف مني، قد غفرت لعبد، وأدخلتہ الجنۃ۔ (أخرجۃ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان في السفر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۰، رقم: ۱۲۰۳)
عن عقبۃ بن عامر قال: کنت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر، فلما طلع الفجر أذن وأقام، ثم أقامنی عن یمینہ۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، فيمصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ:  باب من کان یخفف القراء ۃ في السفر، مؤسسۃ علوم القرآن‘‘: ج ۳، ص: ۲۵۴، رقم: ۳۷۰۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص168

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی مخصوص طریقہ پر پڑھ لیا جائے تو حرج نہیں؛ لیکن اس کو لازم سمجھنا اور اس پر دوام اور استمرار درست نہیں؛ اس لیے غیر لازم چیز کو لازم سمجھنا شرعاً جائز نہیں(۱) آیت کریمہ (مذکورہ فی السوال) کے سنتے ہی درود فرض نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیرًا علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین،  رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ولو قرأ القرآن فمر علی إسم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ فقراء ۃ القرآن علی تالیفہ ونظمہ أفضل من الصلوٰۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأصحابہ في ذلک الوقت فإن فرغ ففعل فہو أفضل وإن لم یفعل فلا شيء علیہ کذا في الملتقط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع في الصلاۃ والتسبیح‘‘: ج ۵،ص: ۳۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص436