Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2311/44-3469
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحاح ستہ میں کل چھ کتابیں ہیں ان کے نام یہ ہیں: بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، اور سنن ابن ماجہ۔
ان میں بھی ترتیب ہے ۔پہلا درجہ بخاری شریف کا ہے دوسرا درجہ مسلم شریف کا ،تیسرا درجہ ابو داود کا، چوتھا ترمذی کا ،اور پانچواں نسائی کا ہے ابن ماجہ کو تمام لوگ صحاح میں شامل نہیں مانتے ہیں، ابو طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کوصحاح میں شامل کیا ہے بعد میں لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، کتب احادیث میں صحاح کا مقام اہمیت کا حامل ہے اس لیے صحاح ستہ کا مطالعہ کرنا درست اور بہتر ہے تاہم بخاری ومسلم کے علاوہ کتب صحاح میں ضعیف احادیث بھی ہیں ان ماجہ میں بعض روایت موضوع بھی ہیں اس لیے تمام روایات سے استدلال درست نہیں ہے بلکہ حدیث کی حیثیت کو دیکھ کر استدلال کرنا چاہئے۔
ان کتب احادیث کے اردو ترجمے بھی ہوئے ہیں علماء دیوبند نے عموماً ان کی اردو شرحیں لکھی ہیں جن میں ترجمہ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، بخاری شریف کے لیے تحفۃ القاری (مفتی سعید احمد پالنپوریؒ) نصر الباری مولانا عثمان غنی صاحب، ترمذی شریف کے لیے تحفۃ الالمعی (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ) مطالعہ کے لیے بہتر ہیں۔
اردو ترجمہ مسلم (مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ابو داود کے لئے الدر المنضود (حضرت مولانا عاقل صاحب) ابن ماجہ کے لیے تکمیل الماجہ (مفتی غلام رسول قاسمی) مفید کتابیں ہیں جن میں ترجمہ کے ساتھ مطلب تشریف بھی ہے آپ ان کتابوں کے صرف تراجم پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2344/44-3531
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے لیے گواہ بنناشرعی شہادت ہے اور شرعی شہادت پراجرت و معاوضہ کا لین دین جائزنہیں ہے۔ ا لبتہ اگر اس طرح نکاح کیا گیا تو نکاح درست ہوجائے گا۔ نیز بوقت نکاح عقد کی مجلس میں وکیل کرنا ضروری نہیں ہے، اگر لڑکا ولڑکی مجلس میں موجود ہیں تو نکاح بغیر وکیل کے ہوسکتاہے۔ اور اگر کسی کو وکیل بنایاگیا اور اس نے اس پر اجرت کا مطالبہ کیا تو متعین اجرت دینے کی گنجائش ہے۔
(کفایت المفتی 2/275دارالاشاعت) واَقِیمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہ(قرآن)
إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة، فانه غير ممنوع شرعا إذ الوكالة عقد جائز لايجب على الوكيل اقامتها، فيجوز أخذ الأجرة فيها. (فتح القدیر،کتاب الوکالة،ج۷/ص۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں رسوم کی پابندی(۲) مزید براں غیر محرموں سے بے پردگی ہوتی ہے پس ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔(۳)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
(۳) وفي کتاب الخنثیٰ من الأصل إن نظر المرأۃ من الرجل الأجنبي بمنزلۃ نظر الرجل إلی محارمہ لأنہ النظر إلی خلاف الجنس أغلظ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: فصل في النظر والمس‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۳)
النظر إلی وجہ الأجنبیۃ إذا لم یکن عن شہوۃ لیس بحرام لکنہ مکروہ، کذا في السراجیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص434
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے پر جب کہ پابندی کی جارہی ہے اوریہ طریقہ قرونِ ثلاثہ میں سے کسی قرن میں اپنایا نہیں گیا نہ اسلاف ہی سے ثابت ہے اور نہ اکابر امت سے اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا۔ بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو عبادت کے طریقہ پر ثواب کی نیت سے کی جائے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا زمانہ صحابہؓ وتابعین میں علت پائے جانے کے باوجود نہ کی گئی ہو، اب اگرچہ آپ اس کو رسم نہیں مان رہے، لیکن مابعد میں ایسا نہ کرنے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے گی اور اس بدعت کے موجد آپ حضرات قرار دئیے جائیں گے اور حوادث بدعت بلاشبہ گناہ ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)…ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إیاکم ومُحدَثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب السنۃ، باب في لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص486
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتح مکہ کے بعد تمام غیر مسلموں کو امان دیدی گئی تھی؛لیکن اس وقت غیر مسلموں کے حالات مختلف تھے، ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے صلح کا معاہدہ ہوا تھا، مگر انہوں نے خود اس کو توڑ دیا تھا۔ دوسرے کچھ لوگ ایسے تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے ہوا تھا اور وہ معاہدہ پر قائم رہے، جیسے: بنو ضمرہ وبنو مدلج؛ تیسرے کچھ لوگ وہ تھے جن سے معاہدہ کی مدت متعین نہیں تھی۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں تھا۔
چنانچہ جن لوگوں نے صلح حدیبیہ کو توڑا ان کو حکم ہوا کہ اشہر حرم کے ختم ہوتے ہی جزیرۃ العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہو جائیں ورنہ ان سے جنگ ہوگی۔ اور جن سے خاص میعاد کے لیے معاہدہ تھا ان کے معاہدہ کو ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم ہوا۔ اور جن لوگوں سے بلا تعیین مدت معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ بالکل کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، سورۃ التوبۃ: ج ۴، ص: ۳۰۹، ۳۱۱؛ وعلامہ آلوسی، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ‘‘: ج ۶، ص: ۷۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص34
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسمائے الٰہی کا ورد کرنا باعث ثواب ہے، اور مسجد میں خاموشی کے ساتھ اسماء وآیات کا زبان سے ورد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو۔(۱) اور خاص عدد کا خاص اثر ہوتا ہے، اس لئے متعین تعداد کے مطابق وظیفہ کرنا بھی درست ہے۔(۲)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ کنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، رقم: ۸۴۱)
(۲) وحکمۃ السبع إن ہذا العدد فیہ برکۃ بالاستقراء (أحمد بن محمد الہتیمي، فتاویٰ حدیثیۃ، ’’مطلب في قولہ علیہ السلام أہریقوا علي سبع قرب لم تحلل أو کیتہن‘‘: ص: ۲۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص372
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں آنکھ کے اندرونی حصے کا دھونا ضروری نہیں ہے اس لیے کہ اس میں حرج اور مشقت ہے، درمختار میں ہے۔
’’ولا یجب غسل ما فیہ حرج کعین، وقال الشامي … لأن في غسلہا من الحرج ما لا یخفی لأنہا شحم لا تقبل الماء‘‘(۱)
بدائع میں ہے:
’’لأن داخل العینین لیس بوجہ لأنہ لا یواجہ إلیہ ولأن فیہ حرجاً‘‘(۲)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ولا یجب إیصال الماء إلی داخل العینین کذا في محیط السرخسي‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۶۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: أرکان الوضوء، غسل الوجہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص190
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حائضہ رمضان کا روزہ نہیں رکھے گی، بلکہ دوسرے وقت میں اس کی قضاء کرے گی۔(۳)
(۳)عن معازۃ قالت سالت عائشۃ فقلت ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاۃ؟ فقالت احروریۃ أنت؟ قلت لست بحروریۃ ولکن اسأل، قالت: کان یصیبنا ذالک فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ کتاب الحیض باب:وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ، ج۱، ص:۱۵۳، رقم : ۳۲۵مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛ و عن أبي سعید الخدري قال : خرج رسول اللّٰہ ﷺ في أضحی أو فطر إلی المصلي، اذ المصلی فمر علی النساء قال ألیس شھادۃ المرأۃ مثل نصف شھادۃ الرجل؟ قلن بلی فذلک من نقصان عقلھا، ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن: بلی،…قال فذلک من نقصان دینھا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم‘‘ ج۱، ص:۴۴، رقم ۳۰۴)؛ و عن عائشۃ قالت کنا نحیض علی عھد رسول اللّٰہ ﷺ ثم نطھر۔ فیأمرنا بقضاء الصیام، ولا یأمرنا بقضاء الصلاۃ۔ والعمل علی ھذا عند أھل العلم لا نعلم بینھم اختلافاً أن الحائض تقضي الصیام ولا تقضي الصلاۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الصوام، باب ما جاء في قضاء الحائض الصیام دون الصلوٰۃ‘‘ ج۱، ص:۱۶۳، رقم: ۷۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص383
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، اس لیے مقطوع اللحیہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ کسی بھی نماز میں ایسے شخص کو امام نہ بنایا جائے۔ تاہم جو نمازیں پہلے پڑھی جاچکی ہیں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ مسجد کی کمیٹی وکمیٹی کے ممبران کے انتخاب کے وقت ہی باشرع لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے، مقطوع اللحیہ اشخاص کو مسجد کا ٹرسٹی یا ممبر بنانا بالکل مناسب نہیں ہے، جو لوگ خوف خدا سے ڈاڑھی نہ رکھ سکیں وہ کوئی فیصلہ کرنے میں کیوں کر انصاف کا خیال کریں گے۔ تاہم اگر کوئی امامت کے لیے نہ ہو، تو ایسے مقطوع اللحیہ کے پیچھے نماز پڑھنا، تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔(۱)
(۱) وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بہم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال: بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم لما ذکرنا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ،مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
ولأن الإمامۃ أمانۃ عظیمۃ فلا یتحملہا الفاسق؛ لأنہ لا یؤدي الأمانۃ علی وجہہا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۷، زکریا دیوبند)
وإذا صلی خلف فاسق أو مبتدع یکون محرزا ثواب الجماعۃ لکن لا ینال ثواب من یصلي خلف إمام تقي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ تقلید الفاسق، ویعزل بہ إلا لفتنۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص164
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد کے علاوہ کسی جگہ پر نماز باجماعت پڑھی جائے تو جماعت کا پورا ثواب ملتا ہے اس میں تو کمی نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد میں نماز کا جو ثواب ہے اس سے محروم ہوجاتا ہے۔(۱)
(۱) عن انس بن مالک -رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ في مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ، وصلاتہ في المسجد الذي یجمع فیہ بخمس مائۃ صلاۃ وصلاتہ في المسجد الأقصی بخمسین ألف صلاۃ وصلاتہ في مسجدی بخمسین ألف صلاۃ وصلاۃ في المسجد الحرام بمائۃ ألف صلاۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔ (مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث‘‘: ص: ۵۲، رقم: ۷۵۲،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
عن أبي ھریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجمیع تزید علی صلاتہ في بیتہ و صلاۃ في سوقہ خمسا و عشرین درجۃ الخ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في مسجد السوق، ج۱، ص۶۹، رقم:۴۷۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص368