Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1134/42-355
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کل خون کی بہت کثرت سے ضرورت پڑتی ہے اور بسا اوقات جس گروپ کا خون چاہئے افرادِ خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہوتاہے جس کا گروپ موافق ہو، اور بسا اوقات کسی حادثے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس کا فوری طور پر دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس ضرورت کے پیشِ نظر بلڈ بینک کا قائم کرنا بھی جائز ہے، حضرت مفتی نظام الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گجائش ہوگئی تو چوں کہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسڈینٹ کے موقع پر - -- پھر اس میں بھی خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لئے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لئے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا، اور اس کا ایک خزانہ بنانا لازم ہوگا، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے ، لأن الشيء إذا ثبت ثبت بجمیع لوازمہ۔ (منتخبات نظام الفتاوی، ۱؍۴۲۲)
حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ بینک کا قیام جائز ہے اور جب بلڈ بینک کا قیام جائز ہوا تو بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے، اس کے لئے بلڈ کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا بھی جائز ہے ، اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنا بلڈ بینک قائم کرنا بھی مفید ثابت ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو بلا شرط وعوض کے خون فراہم کرکے کمزور اور معذور انسانوں کی خدمت کی جاسکے، اس کے لئے کسی مخصوص دن کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا بھی درست ہے، نیز اگر بینک کسی مریض کو خون دیتے وقت اس کے کسی رشتہ دار سے خون کا مطالبہ کرے تو یہ ہبہ بالعوض ہے، اس لئے بینک کایہ مطالبہ جائز ہے، تاکہ بینک میں خون کا اسٹاک موجود رہے اور آئندہ دوسرے مریض کی ضرورت پوری کی جاسکے، علامہ شامی لکھتے ہیں:
وہب لرجل عبدا بشرط أن یعوضہ ثوبا إن تقایضا جاز وإلا لا۔
(رد المحتار ۸؍۵۰۸، مکتبہ زکریادیوبند)
اگر کسی مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو اور اس کا خون نادر گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دستیاب نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جس شخص کے پاس اس گروپ کا خون ہے اگر اس کے خون دینے میں اس کو کوئی جسمانی ضررلاحق نہ ہو اور اس کو جس مقدار خون کی ضرورت ہے اس کے جسم میں اس سے زیادہ خون ہوتو ایسے شخص کے لئے ایک انسان کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا مستحب ہوگا، اس لئے کہ یہ مصیبت زدہ شخص کی مصیبت دور کرنا اور کسی کے ساتھ احسان اور تعاون علی البر والخیر کی قبیل سے ہے، جس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں کسی مصیبت کو دور کردے گااللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرمادیں گے۔(مسلم شریف، رقم الحدیث:۳۸)۔معلوم ہوا کہ فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز صحیح اور معتبر ہیں فقط
واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1236/42-552
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد اور والدہ کی کل جائداد کو ایک ساتھ تقسیم کریں گے۔ان کی کل جائداد کے ایک سو بانوے(۱۹۲) حصے کریں گے، جن میں سے ہر ایک بیٹے کو چھیالیس (۴۶) اور ہر ایک بیٹی کو تیئیس (۲۳) حصے ملیں گے۔ اور پھر والدہ کے والدین یعنی نانا نانی میں سے ہر ایک کو چار(۴) حصے ملیں گے۔ اس طرح کل ایک سو بانوے (۱۹۲) حصے ہوگئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1358/42-769
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ ایک اچھا نام ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور بچے اکثر ضدی ہی ہوتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ سمجھدار ہوگی اور ضد بھی کم ہوتی جائے گی ۔صرف اس وجہ سے نام بدلنے ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ بدلنا چاہیں تو بدل سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1661/43-1269
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہر مسلمان پر اس قدر علم حاصل کرنا فرض عین ہے جس سے فرائض و واجبات، حلال و حرام کی تمیز ہوسکے پورا عالم بننا ہر شخص کے لئے ضروری نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی عقیدہ کا صحیح علم نہ رکھنے کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوگا تو اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا، اسی طرح اگر کوئی کسی حرام کام میں لگاہواہو لاعلمی کی وجہ سے تو وہ چیز اس کے لئے حلال نہیں ہوگی، وہ حرام کام کرنے والا ہی شما ر ہوگا۔ اگر کسی نے فرض چھوڑدیا لاعلمی میں تو اس کے ذمہ سے فریضہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ وہ گنہگار ہوگا، اور اس سے مواخذہ ہوگا۔ اس لئے عقیدہ وغیرہ کا ضروری علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(2) آپ کے لئے فی الحال آئی اے ایس آفیسر بننا زیادہ آسان ہے، اس میں مہارت پیدا کریں اور قوم کی خدمت کریں، اور ساتھ ساتھ دینی علوم میں کسی ماہر عالم دین سے مستقل طور پر رابطہ میں رہیں، اس طرح دونوں کے تقاضے پورے کرسکیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔(۳
۳) {وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ إِنَّمَاکُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُط قُلْ أَبِا اللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵} (سورۃ التوبہ: ۶۵)
قال البیضاوي: (قد کفرتم) قد أظہر ثم الکفر بإیذاء الرسول والطعن فیہ۔ (عبد اللّٰہ بن عمر البیضاوي: ’’سورۃ التوبۃ: ۶۵‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۵)
{إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِي الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَأَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاہ۵۷} (سورۃ الأحزاب: ۵۷)
قال ابن تیمیۃ: إن المسلم یقتل إذا سب من غیر استتابۃ وإن أظہر التوبۃ بعد أخذہ کما ہو مذہب الجمہور۔ (ابن تیمیۃ، ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول، المسألۃ الثالثۃ، فصل: دلیل أن المسلم الساب یقتل بغیر استتابۃ‘‘: ص: ۲۵۷)
قال ابن عابدین: إن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
دار العلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2135/44-2201
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدارس میں غریب بچوں کے لئے چندہ دینا اسی طرح جائز ہے جس طرح کسی دوسرے غریب کو دینا بلکہ دینی علوم سے انتساب کی وجہ سے اس کی حیثیت مضاعف ہے۔ اور مدارس میں عوام کی دینی ضرورت پوری کرنے کے لئے افراد تیار کئے جاتے ہیں جو قرآن و حدیث کا علم حاصل کرکے عوام میں جاکر ان کے ایمان کی حفاظت کے لئے محنتیں کرتے ہیں۔ ہر علاقہ کا مدرسہ اپنے علاقے کی دینی تمام ضرورتوں کے لئے کافی ہوتاہے۔ آغاز اسلام میں مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا، جو کام بھی ہوتا اس کے لئے اجتماعی چندہ ہوتا تھا، ظاہر ہے بڑی بڑی مسجدیں اور دیگر امور اسی اجتماعی چندہ سے انجام پاتے تھے۔ پہلے لوگ اناج غلہ اور سامان سے چندہ دیتے تھے ان کے لئے وہ آسان تھا، اور آج شکلیں بدل گئیں، ہر کام کے لئے پیسے دئے جاتے ہیں، اور یہی لوگوں کے لئے آسان ہے۔
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
مَنْ بَنَی مَسْجِدًا لِلَّهِ، بَنَی اللهُ لَهُ فِی الْجَنَّةِ مِثْلَه. مسلم، الصحيح، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل بناء المساجد والحث عليها، 1: 378، رقم: 533، دار إحياء التراث العربي
عن أبی بردة بن أبی موسیٰ عن أبیہ رضی اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا جاء ہ السائل أو طُلبت إلیہ حاجةٌ، قال: اشفعوا توجروا، ویقضی اللّٰہ علی لسان نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما شاء(صحیح البخاری، کتاب الزکاة / باب التحریض علی الصدقة والشفاعة فیہا ص: ۳۴۱رقم: ۱۴۳۲دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2209/44-2334
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرأت میں ہر طرح کی غلطی سے اور معنی میں تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کی تلاوت میں اگر اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، اور ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے تو اس کی اصلاح نہ کرنے کی صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں کوئی اتغیر فاحش نہیں پایا گیا لہذا نماز درست ہوگئی، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر چادر چڑھانا بدعت، گناہ اور ناجائز ہے، (۲) ہندہ کے ماں باپ کا اس پر اصرار درست نہیں، شریعت وسنت کے پابند شخص کی بیٹی سے نکاح کرنا بہتر ہے؛ تاہم اگر ہندہ سے نکاح کر لیا اور ولیمہ میں ناجائز امور کا ارتکاب نہ ہو، تو دعوت ولیمہ میں شرکت درست ہے۔ (۳)
(۲) وبالجملۃ ہذہ بدعۃ شرقیۃ منکرۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۵)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص444
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2554/45-3890
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is the responsibility of both husband and wife to make married life happy and must ignore petty altercation. However, in the case mentioned above, the husband has given a revocable divorce. So, if the husband takes his wife back into his marriage before the expiry of the period (three menstrual periods), the marriage will remain intact and there is no need to do anything else.
The Iddat of a menstruating woman is three menstrual periods; there are no fixed days, so if 90 days have passed but the menstruation has not yet completed, Raj’at (revocation) can be performed and the husband should establish a relationship with his wife or verbally say that I took my wife back in my nikah. However, if three periods have completely passed, both the spouses can live together only by remarrying and with a fresh dowry. The husband will be entitled of two divorces only in the future.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو کاغذ استنجے کے لیے بنائے گئے ہیں، ان کا استعمال ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے مانند ہے؛ اگرچہ اس میں مٹی والے فوائد نہیں ہیں؛ لیکن پانی کے قائم مقام یہ کاغذ نہیں ہے؛ لہٰذا اس کاغذ کو استعمال کرنے کے بعد پانی کا استعمال کیا جانا چاہیے، اگر مجبوری ہو (پانی اور ڈھیلا نہ ملے، یا بیماری کی وجہ سے پانی نقصان دہ ہو)، تو اس کاغذ پر اکتفاء کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) و یسنّ أن یستنجي بحجر منق و نحوہ من کل طاھر مزیل بلا ضرر، ولیس متقوما ولا محترماً قولہ (و نحوہ من کل طاھر الخ) کالمدر، وھو الطین الیابس، والتراب، والخلقۃ البالیۃ، والجلد الممتھن۔ قال في المفید: و کل شيء طاھر غیر متقوم یعمل عمل الحجر۔ (طحطاوي، حاشیۃالطحطاوي علی المراقي، ج۱، ص:۴۵)؛ و کرہ تحریماًبعظم و طعام و روث و آجرّ و خزف و زجاج و شيء محترم۔ قال الشامي : و قولہ (و شيء محترم) … أما غیر المحترم … فیجوز الاستنجاء بہ۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۴۸، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87