Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 929/41-72
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جومال حرام طریقہ سے کمایا گیا ہو اس کو کسی حیلہ یا بہانے سے مسجد میں لگانا درست نہیں ہے۔ مال حرام کا حکم مالک کو واپس کرنا ہے، اور اگر مالک کا عمل نہ ہو تو بلانیت ثواب صدقہ کرنا ہے۔
لان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ والحاصل انہ ان علم اربان الاموال وجب ردہ علیھم والا فان علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (شامی 5/99)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1760/43-1491
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب دونوں نے پیسے لگاکر کاروبار شروع کیا تو دونوں برابر کے حصہ دار اور حقدار ہوئے، اب اگر ایک شخص نے سارے کاروبار پر قبضہ کرلیا اور نفع و نقصان کا کلی طور پر مالک ہوگیا تو شرکت کے خلاف عمل ہوا، اب شرکت ختم ہوگئی اور جو کچھ رقم اس کے پاس دوسرے کی ہے وہ لوٹانا ضروری ہے۔ دوسرے کو بلا اسکی رقم لوٹائے سارے کاروبار پر اور سارے مال پر قبضہ کرلینا حرام ہے۔ البتہ اس کاروبار میں چونکہ اس کا مال بھی شامل ہے، اس لئے اس کی پوری آمدنی حرام نہیں ہے بلکہ جو کچھ حصہ دوسرے کا ہے اس میں تصرف حرام ہے۔ اس لئے اس کا مدرسہ میں چندہ دینا درست ہے اور مدرسہ والے اس پیسے کو اس کے مصرف میں خرچ کرسکتے ہیں، تاہم اگر بطور تنبیہ مدرسہ والے ایسے شخص کا پیسہ قبول نہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔
ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتجب الزکاة فیہ ویورث عنہ لأن الخلط استہلاک إذا لم یمکن تمییزہ عند أبي حنیفة ․ ․․․ ففي البزازیة قبیل کتاب الزکاة: ما یأخذہ من المال ظلماً ویخلطہ بمالہ وبمال مظلوم آخر یصیر ملکاً لہ وینقطع حق الأوّل فلا یکون أخذہ عندنا حراماً محضاً ( الدر المختار مع رد المحتار 3/217 کتاب الزکاة، زکریا دیوبند)
توضيح المسألة ما في التاتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ۔(رد المحتار ، كتاب البيوع ، باب المتفرقات ، ج: 7 ص: 490)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1867/43-1726
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ کمپنی کے طریقہ کار کا علم نہیں ہے، اس لئے اس کے تعلق سے کوئی بات نہیں کہی جاسکتی ہے، البتہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں بہت سی خرابیوں کی بناء پر خطرات ہیں اس لئے احتیاط ضروری ہے۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵) ، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ( المائدة، ۹۰) ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱) ، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰) ، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2071/44-2066
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سجدہ تلاوت کے لئے سجدہ کی آیت کا ذہن میں ہونا یا اس کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو سجدہ ذمہ میں ہے اس کی نیت کرے۔ سجدہ کے وقت سجدوں کے تعداد کے مطابق سجدہ کرلینا کافی ہے، ہر آیت یا یاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ جب آدمی تلاوت کرے تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد تلاوت روک کر سجدہ کرلے پھر آگے پڑھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف
مساجد و مدارس
Ref. No. 2137/44-2197
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی اشیاء مسجد کے کاموں کے لئے ہی استعمال کی جائیں، مسجد کی چیز دوسرے کسی کام میں یہاں تک کی رفاہی کام میں بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ امور کے لئے مسجد کا مائک استعمال کرنا بالکل درست نہیں ہے، یہ سلسلہ فوری طور پر بند کردینا چاہئے، اور ذاتی یا رفاہی استعمال کے لئے ایک الگ مائک کا نظم کرنا چاہئے اور مسجد کے باہر سے مذکورہ امور کے لئے اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ نماز کے اوقات کا خیال رکھاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 2318/44-3494
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you have a fair job or business, then a bank job involving any kind of usury is not allowed for you. It is clearly mentioned in the Hadith that involvement in usurious business transactions is not permissible, and the writers of interest based transactions, and the witnesses, are equal partners in the sin.
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربا وموکلہ وشاھدیہ وکاتبہ" (سنن الترمذی: 239/1)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ سوال میں جن رسوم کا تذکرہ ہے، وہ بلاشبہ غیر اصولی رسوم ہیں، اس قسم کی رسوم پر عمل کرنا بسا اوقات گناہ کبیرہ تک پہنچادیتا ہے، پس مذکورہ صورت میں جو رسم ذکر کی گئی ہے کہ اگر بغیر چالے کے لڑکی شوہر کے گھر جا کر پندرہ دن رہے اور وہاں شوہر اس سے صحبت کرے تو اس صحبت کو بھی حرام سمجھا جاتا ہے اور بچہ کو بھی برادری کے لوگ حرام سمجھتے ہیں؛ حالاںکہ وہ شریعت اسلامیہ کی رو سے حلال ہے۔ (۱) پس برادری کے لوگوں کو ایسی رسم جاری کرنا بھی گناہ اور صحبت اور بچے دونوں کو حرام سمجھنا بھی گناہ در گناہ ہے اور برادری کے چودھری جو ان رسوم کو بتلاتے ہیں، وہ بھی سخت گناہگار ہیں۔ نکاح کے بعد لڑکی کو روکنا، رسوم کی پابندی کرنا اور شوہر کا بیوی سے جدا رہنا، یہ سب رسوم گناہ کا باعث ہیں؛ بلکہ مذکورہ رسوم پر عمل کرنا گناہ کبیرہ ہے اور اس رسم کو ختم کرنا باعث ثواب ہے۔(۱)
(۱) {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَہ۸۷} (سورۃ المائدہ: ۸۷) (۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ما أحدث مما یخالف الکتاب أو السنۃ أو الأثر أو الإجماع فہو ضلالۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص449
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب معراج کی کوئی حتمی تاریخ ثابت نہیں ہے، اور نہ اس میں عبادت کرنی ثابت ہے،(۳) البتہ شب قدر،(۴) شب براء ت،(۵) عنداللہ بہت متبرک ہیں اور ان راتوں میں جتنی عبادت کی جائے باعث اجر و ثواب ہے؛ لیکن نوافل با جماعت نہ پڑھنی چاہئیں کیوںکہ وہ بدعت اورمکروہ ہے۔(۱)
(۳) إنا لم نجد فی کتب الأحادیث لا إثباتا ولا نفیا ما اشتہر بینہم من تخصیص الخامس عشر من رجب بالتعظیم والصوم والصلاۃ۔ (ما تثبت بالسنۃ: ص: ۱۹۲)
(۴) {إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ہجصلے ۱ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۵لا خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَھْرٍہ۳ط ؔ} (سورۃ القدر: ۱، ۳)
(۵) إذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان، الفصل الثالث‘‘: ص: ۱۱۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص497
اسلامی عقائد
Ref. No. 2484/45-3772
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روٹی کو اس طرح باندھنے کی گنجائش ہے، تاہم کوئی اور طریقہ علاج استعمال کیا جائے تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مستفتی نے جو حضرت مولانا حقانی کے متعلق حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ کا جو فیصلہ نقل کیا وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں حضرت رحمۃ اللہ نے بیان فرمایا ہے، جو اپنی جگہ پر مسلم اور قابل اعتماد ہے حضرت کے بالمقابل دیگر ہر کس وناکس کی بات معتبر نہیں ہوگی، حضرت کا فیصلہ کافی ہے دوسروں کی طرف قطعاً توجہ کی ضرورت نہیں۔(۱)
(۱) وعن أبي الدرداء قال سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما حد العلم الذي إذا بلغہ الرجل کان فقیہاً، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حفظ علی أمتي أربعین حدیثاً في أمر دینہا بعثہ اللّٰہ فقیہا وکنت لہ یوم القیامۃ شافعاً وشہیداً۔
قال الطیبي فإن قیل کیف طابق الجواب السؤال أجیب بأنہ من حیث المعنی کأنہ قیل معرفۃ أربعین حدیثا بأسانیدہا مع تعلیمہا الناس … والظاہر أن معرفۃ أسانیدہا لیست بشرط الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۸، رقم: ۲۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص187