Frequently Asked Questions
روزہ و رمضان
Ref. No. 3265/46-8094
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سحر و افطار کے اوقات میں مذکورہ احتیاط درست بلکہ ضروری ہے، اس لئے کہ جنتری کے اوقات میں پانچ چھ منٹ تو عام طور پر مختلف جنتریوں کا فرق رہتاہے، چنانچہ تھانویؒ نے دس منٹ کے احتیاط کو ضروری قرار دیاہے ، لکھتے ہیں: نقشہ ہذا میں صبح صادق کا وقت جو درج ہے وہ علم ہیئت جدید اور مشاہدہ سے بالکل ابتدائے صبح ہے مگر احتیاطا لازم ہے کہ صبح کی اذان کم از کم دس منٹ بعد ہی کہی جائے ، سحری بیس منٹ پہلے ہی ختم کردی جائے، اس میں بداحتیاطی سے کام نہ لیاجائے۔ (بوادرالنوادر 429)۔ اس لئے مذکورہ احتیاط بالکل درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3269/46-8075
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In matters of Waqf, it is crucial to respect the intent of the donor (Waqif), and the land dedicated for a specific purpose must be utilized strictly for the same purpose. Consequently, land designated as a cemetery for the burial of the deceased cannot be repurposed or incorporated into an Eidgah.
However, if the cemetery is extensive and the portion of land near the Eidgah under consideration is clearly not required for burial purposes now or in the foreseeable future (e.g., the next 10-20 years), certain conditions may permit its use. This would only be allowed if the graves in that area are very old and the buried remains have fully decomposed into the soil. In such cases, a few graves may be leveled, and the land incorporated into the Eidgah.
If, on the other hand, the graves are relatively recent, it would not be permissible to include that portion of the cemetery in the Eidgah premises.
قد تقرر عند الفقہاء أن مراعاة غرض الواقفین واجبة و أن نص الواقف کنص الشارع، کذا في عامة کتب الفقہ والفتاوی،مستفاد:البقعة الموقوفة علی جھة إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھة یجوز بلا خلاف تبعاً لھا، فإن وقفھا علی جھة أخری ، اختلفوا في جوازہ ، والأصح أنہ لا یجوز(الفتاوی الھندیة، ۲: ۳۶۲،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)عن الغیاثیة) اھ، وإن اختلف أحدھما بأن بنی رجلان مسجدین أو رجل مسجداً ومدرسة ووقف علیھما أوقافاً لا یجوز لہ ذلک (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۵۱،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الخیر الرملي: أقول: ومن اختلاف الجھة ما إذا کان الوقف منزلین أحدھما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدھما إلی الآخر، وھي واقعة الفتوی اھ (رد المحتار ۶: ۵۵۱)۔
"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد". (عمدة القاري شرح صحیح البخاري / باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد ۴؍۱۷۴And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 3260/46-8071
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3264/46-8076
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جملہ نمبر چار اور پانچ سے دو طلاقیں واقع ہوئیں لیکن آخری جملہ میں صرف لفظ طلاق کس موقع پر بولا گیا اگر طلاق کی بات کے دوران بولا گیا تو اس سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fasting & Ramazan
Ref. No. 3263/46-8077
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر آپ نے اپنے دوستوں سے صرف وعدہ کیاتھا کہ اب میں کرکٹ نہیں کھیلوں گا، اگر کھیلا تو تیس دن کے روزے رکھوں گا؛ آپ نے یہ نہیں کہا کہ میرے ذمہ تیس دن کے روزے ہوں گے،یا میں قسم کھاتاہوں وغیرہ، اس لئے یہ نذر منعقد نہیں ہوگی، اور تیس دن کے روزے لازم نہ ہوں گے۔ اور اگر قسم کھائی یا نذر مانی تو پھر تیس دن کے روزے لازم ہوں گے، جو الگ الگ بھی رکھ سکتے ہیں اور مسلسل بھی۔
واما اذا کان لشھر غیرمعین فان شاء تابعہ وان شاء فرقہ (شامی ، ج5ص525)
(2) اگر کسی کھانے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی نیت سے آپ نے حرام کہہ دیا اور پھر کھالیا یا کسی نے زبردستی آپ کو کھلادیا تو آپ حانث ہوں گے، اور آپ پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا، یعنی دس فقراء کو کھانا کھلانا، یا کپڑا دینا، یا پھر تین دن مسلسل روزے رکھنالازم ہوگا۔ کھانے کا بل دوسرا کوئی اداکرے اور آپ اس پر حرام کہہ دیں تو اس سے نہ تواس پر کوئی چیز لازم ہو گی اور نہ آپ حانث ہوں گے۔ البتہ آئندہ ایسے جملوں سے احتراز کریں۔
ومن حرم علی نفسہ شیئا مما یملکہ لم یصر محرما وعلیہ ان استباحہ کفارۃ یمین (مختصرالقدوری ص229)
(3) سب سے پہلے اس شنیع عمل پر توبہ واستغفار لازم ہے،صورت مذکورہ میں انزال ِ منی کی وجہ سے روزہ فاسد ہوگیا ، قضا لازم ہے ، کفارہ لازم نہیں ہے۔ دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ کے حضور بہت عاجزی کے ساتھ توبہ کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا بھی اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتاہے۔
"وإذا قبل امرأته، وأنزل فسد صومه من غير كفارة، كذا في المحيط. ... والمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة، كذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 204)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 3262/46-8073
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمام فرائض و واجبات کی ادائیگی تو بہرحال ضروری ہے، تاہم اس کے علاوہ جو نفلی چیزیں ہیں، جیسے صدقہ کرنا، کسی غریب کی مدد کرنا، کسی پریشان حال کی پریشانی دور کرنا ، کسی مغموم ورنجیدہ کی تسلی کا سامان فراہم کرنا، نفلی نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، مریض کی عیادت کرنا یا اہل میت کی تعزیت کرنا وغیرہ جو ثواب کے کام ہیں ان کے کرنے میں بھی پیش پیش رہنا چاہئے۔ اگر کسی کو دیکھے کہ وہ کوئی نیک کام کررہاہے تو خود بھی اس نیت سے کہ میں زیادہ نیکی کا ضرورتمند ہوں اس کام کو کرے، کبھی صدقہ کرتا کسی کو دیکھے تو اس سے بڑھ کر صدقہ کرنے کی کوشش کرے کہ میں بھی صدقہ کی نیکی کے ثواب میں فلاں شخص سے بڑھ جاؤں ۔البتہ کبھی کوئی کام کسی دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہرگزنہ کرے بلکہ نیکی کے جتنے کام ہیں ان میں اخلاص کے ساتھ اپنا بھرپور تعاون پیش کرے اور سب سے آگے رہنے کی کوشش کرے اور خود کو ثواب کا زیادہ ضرورتمند سمجھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 3261/46-8074
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ کی رقم مدرس کے پاس بطور امانت کے ہوتی ہے، مدرس کو چندہ کی رقم خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، اس لئے مدرس کا خود ہی بچوں پر خرچ کرنا مناسب نہیں ہے، گوکہ وہ چندہ مدرسہ کے بچوں کے ہی لئے ہوا ہے، طلبہ پر خرچ کرنے کے لئے بھی مہتمم یا متعلقہ ذمہ دار افراد کو مطلع کرنا اور ان سے اجازت لینا ضروری ہے، تاکہ شفافیت اور امانت داری برقرار رہے۔ بغیر اطلاع یا اجازت کے چندے کی رقم خرچ کرنا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس سے اعتماد مجروح ہوتاہے اور خیانت کا الزام آسکتاہے۔ یہ کسی بھی ادارہ کی پالیسی اور انتظام کے خلاف عمل ہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اب تک جو ہوا اس کا ضمان اس مدرس پر نہیں لگایا جاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3260/46-8071
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3259/46-8056
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح و طلاق کے باب میں مذاق بھی حقیقت کا حکم رکھتاہے، لہذا مذاق میں بھی اگر نکاح ہوگا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا اور اس سلسلہ میں گواہوں کا ایجاب و قبول سن لینا کافی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3258/46-8057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
BottoTop of Form
دارالعلوم وقف دیوبند