Hadith & Sunnah

Ref. No. 3242/46-9016

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کے نام کو جوڑ نا اور اپنا نام تبدیل کرنا جائز اور درست ہے اور آپ اپنا ثاقب بن محسن (Saqib bin mohsin) رکھ سکتے ہیں۔ عربی میں نام کے بعد ابن بن اور بنت کا ضابطہ یہ ہے کہ نام یا تو مذکر ہوگا یا مؤنث ہوگا، اگر مذکر ہو تو مندرجہ ذیل شروط پائی جائیں گی تو پھر نام کے بعد لفظ بن لکھا جائے گا۔(۱) لفظ ابن سے پہلے اور بعد میں کوئی علم ہو۔(۲) ابن اور اس علم کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو، بلکہ دونوں متصل ہوں۔ (۳) لفظ ابن ماقبل والے اسم کی صفت ہو۔(۴) دوسرا اسم پہلے والے اسم کا حقیقی والد ہو۔تو اگر مذکورہ چاروں شرطیں پائی جائیں تو پھر لفظ بن بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسا کہ:(۱) جب کسی انسان کی نسبت دادا، یا پر دادا یا اس سے اوپر شجرہ نسب کی طرف کردی جائے، جیسے محمد ابن عبد المطلب، یاابن آدم وغیرہ۔(۲) جب دونوں میں باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن الجزائز، ابن السبیل وغیرہ۔(۳) جب دونوں میں حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن محمد۔(۴) جب دونوں (لفظ بن اور علم) کے درمیان اتصال نہ ہو، جیسے طارق ہوا بن زیاد۔(۵) جب بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہو، جیسے عیسی ابن مریم۔(۶) جب پہلے یا بعد میں علم نہ ہو، جیسے زید ابن الشجعان۔(۷) جب لفظ ابن سے ابتداء کی جائے جیسے ابن عبد اللہ، ابن مسعود۔(۸) جب التقائے ساکنین ہو، جیسے رسولنا ابن عبد اللہ۔(۹) جب لفظ ابن خبر واقع ہو، جیسے کوئی پوچھے محمد ابن من؟(۱۰) جب فلاں کو ولد اور فلاں کو والد بنایا جائے جیسے فلاں ابن فلاں۔(۱۱) جب لفظ ابن کو تثنیہ بنایا جائے جیسے قاسم، ابراہیم، ابا محمد۔ (۱۲) جب لفظ ابن پر حرف ندا داخل ہو جیسے یا ابن اخی۔پس مذکورہ سب صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا اور اگر وہ مؤنث ہے تو پھر لفظ بنت لکھا جائے گا، جیسے فاطمۃ بنت محمد۔نیز اسلامی نام رکھنے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے، بہتر ہے کہ اچھے معنی پر مشتمل نام رکھا جائے، نام کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اس لیے یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھا جائے یا جو آپ نے نام پسند کئے ہیں وہ نام رکھے جائیں، مختلف احادیث میں محمد نام رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، اس سلسلہ میں آب نام کیسے رکھیں مصنف مفتی خالد قاسمی، راہنمائے اسلامی نام مصنف مولانا عبد الشکور قاسمی ،نام ہوں تو ایسے ہوں مصنف مولانا غیاث الدین رشادی، اسلامی ناموں کی فہرست مصنف مفتی محمد رضوان راولپنڈی ،اسلامی ناموں کی لغت مصنف پروفیسر ندیم احمد صدیقی جیسی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

’’ما ضر أحدکم لو کان في بیتہ محمد ومحمد ان وثلثۃ‘‘ (فیض القدیر: ج ۵، ص: ۴۵۳)’’قال بعض الحفاظ واصحہا أي اقربہا للصحۃ مر ولد لہ مولود فسماہ محمد حبایی وتبرکا باسمي کان ہو ومولودہ في الجنۃ‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ: ج ۱، ص: ۱۲۱، دار الکتب، العلمیۃ، بیروت)’’عن ابن عمر عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أحب الأسماء إلی اللّٰہ عز وجل عبد اللّٰہ وعبد الرحمن‘‘ (ابن ماجہ: رقم الحدیث: ۳۷۲۸)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Ijmaa & Qiyas

Ref. No. 3241/46-8027

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ این ایف ٹی کے بارے میں  پڑھنے سے معلوم ہوا کہ  اس میں جاندار یا غیرجاندار تصویر کی خریدوفروخت ملٹی لیول مارکیٹنگ کےطور پرکرپٹو کرنسی کے  ذریعہ  ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کا  معاملہ ناجائز ہے، اور کرپٹو کرنسی کو ابھی تک حکومت کی ذمہ  داری ، منظوری اور کرنسی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی  ہے۔ اس لئے اگر صرف غیرجاندار کی تصویر کی خریدوفروخت ہو اور معاملہ مروجہ پیسوں میں اور حکومت کی منظورشدہ کرنسی میں قیمت طے کی جائے  تو اس حد تک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن اگر تصویر جاندار کی ہو یاغیرجاندار کی تصویر ہو جس کی قیمت میں کئی لوگ شریک ہوں  اور اس میں شاخ در شاخ لوگ جڑتے ہوں ، اور اس کو کسی ملک کی خاص کرنسی میں نہ بیچاجاتاہو تو ایسامعاملہ ناجائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3240/46-8007

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز  یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3239/46-8009

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال  اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں،  اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ،  اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔

"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3238/46-8028

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   لیٹر آف کریڈٹ کی شرعی حیثیت کفالت اور ضمانت کی ہے یعنی لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے والا بینک گاہک کی جانب سے کفیل اور ضامن بنتاہے اور اس کے عوض بینک اپنی اجرت مثل وصول کرتاہے یہ شرعا درست ہے جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بینک بائع سے یہ کہتاہے کہ مشتری کو یہ سامان دے دو اور چار ماہ میں یہ پیسے ادا کردے گا لیکن اگر اس مدت میں اس نے ادا نہ کیا تو بینک خود ادا کرے گا ۔یہاں تک کا معاملہ شرعا درست ہے لیکن صورت مسؤلہ میں گویا بائع 120 دن کے لیٹر آف کریڈٹ سے راضی نہیں ہوتاہے اور وہ اپنی رقم جلدی لینا چاہتاہے اس کے جواب میں گاہک نے اس کو یہ پیش کش کی ہے کہ لیٹر آف کریڈت کا ڈسکاؤنٹ کرائے یعنی وہ بینک سے وہ رقم تیس دن میں وصول کرے اور اس کا ڈسکاؤنٹ چارج گاہک برداشت کرے گا یہ صورت ناجائز ہے اس لیے کہ اس صورت میں بینک گویا گاہک کی جانب سے بطور قرض بائع کو رقم دیتاہے اور گاہک سود کے ساتھ اس قرض کوواپس کرتاہے لہذا بینک سے سودی قرض لینا ہوا اور سودی قرض بلا ضرورت شدیدہ کے لینا جائز نہیں ہے اس لیے یہ دوسری صورت ناجائز ہے ۔تجوز التجارۃ عن طریق فتح الاعتماد فی البنک ویجوز دفع عمولۃ فتح  الا عتماد الی البنک تجاہ الخدمات التی یقدمہابشرط ان لا یستلزم دفع فائدۃ ربویۃ ( فقہ البیوع،2/1168( جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ ہمارے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ محض حالات اور مارکیٹ کی صورت حال دیکھ کر چاہے وہ سودی قرضے پر مشتمل ہو یا ناجائز طریقے پر مشتمل ہو عمل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت کو پیش نظر رکھ اس میں موجود گنجائش پر ہی عمل کرناچاہیے خواہ اس کی وجہ سے کاروبار کا کچھ نقصان کیوں نہ ہوجائے ۔اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے کاروبار کے متبادل پر غور کرنا چاہیے نہ یہ ہے کہ حلال و حرام سے بے پرواہ ہوکر کاروبار کرنا چاہیے ۔  فقط واللہ اعلم بالصواب

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3237/46-8006

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ بخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)

 خیال ہے کہ حقوق العباد میں بہت محتاط رہنا چاہئے، تاہم اگر کسی کی حق تلی ہوجائے تو اس سے معافی مانگنا چاہئے، اگر آپ نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا مگر اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اب اس سے معافی مانگنے کی کوئی شکل تو نہیں ہے، تاہم اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اور اس کی طرف سے صدقہ وغیرہ دینے  سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ سے اس بارے میں بازپُرس نہ فرمائیں گے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 3236/46-8012

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا اپنے محرم کے سامنے نہ تو سر کا کھولنا واجب ہے اور نہ ہی چھپانا واجب ہے۔ عورت کا اپنے محارم کے سامنے اپنے سر کو چھپانا احترام و ادب کے طور پر ہوتاہے۔ اس کو شرعی واجب خیال رکھنا تو یقینا غلط ہے تاہم ادب و حترام کے طور پر اگر وکئی عورت اپنے والد اور بڑے بھائی وغیرہ کے سامنے سر کو ڈھانکتی ہے تو اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا، کیونکہ ہمارے معاشرہ میں بڑوں کے سامنے سر ڈھانکنا ادب کا حصہ شمارکیاجاتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3235/46-8011

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا اس لڑکی سے بات چیت کرنا شرعا حرام تھا اور غلط تھا۔ اب شریعت کی اتباع میں اگر آپ نے اس سے بات چیت بند کردی اور اس کی وجہ سے وہ ٹینشن میں آئی اور حادثہ ہوا تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ کی رضا کے لئے کام کرتے ہوئے کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ ایکسیڈنٹ مقدر تھا وہ ہوگیا۔ اب آپ  اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، اللہ تعالی ہی گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3234/46-8058

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق:قرآن پاک کی تلاوت چاہے انفرادی طورسے ہو یا کسی جگہ اکھٹے ہوکر دونوں طرح صحیح اور مستحسن ہے، قرآن کریم کی تلاوت کا اصل مقصد تو رضائے الٰہی ہے، لیکن دوسرے مقاصد خیرکے لئے بھی قرآن کریم کا پڑھنا احادیث وآثار سے ثابت ہے، چناں چہ ایصال ثواب کے لئے جو ایک شرعی مقصد ہے قرآن کریم کا پڑھنا ثابت ہے۔ میت کے عزیز واقارب کے لیے نفس قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور میت کے لیے دعاء وغیرہ کرنا درست ہے بلا کسی بلاوے اور دن کی تعیین کے تعزیت کے طور پر میت کے گھر جانے پر کچھ دیر تلاوت کردینا درست ہے۔

لیکن مروجہ طریقہ جس میں اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونا، اور اجتماعی قرآن خوانی کرنا، لوگوں کو دعوت دے کر بلانا اور نہ آنے پر ناراضگی کا اظہار کرنا، دسویں اور بیسویں اس طرح چالیسویں تاریخ طے کرنا اور اس کو دین کا حصہ سمجھنا وغیرہ شامل ہے یہ بدعت ہے اور ناجائز ہے۔اس وجہ سے علماء نے ایصال ثواب کے لیے اتفاقاً جمع ہو کر تلاوت کو بھی ناپسند کیا ہے اور انفرادی تلاوت کو ترجیح دی ہے۔

اس گفتگو کے بعد اب آپ کے مسئلہ کا جواب یہ ہے کہ جو عبارت آپ نے جواز کی پیش کی ہیںوہ تمام کی تمام نفس تلاوت اور نفس ایصال ثواب کے لیے ہیں، جیساکہ مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری کے فتوی سے بھی واضح ہے کہ اجتماعی قرآن خوانی التزام کے بغیر درست ہے۔

اسی طرح مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب فتاوی محمودیہ میں لکھتے ہیں: نہ میت کی قید ہے، نہ سورتوں اورآیتوں کی تخصیص ہے، یہ سب قید ختم کردیا جائے یہ شرعاً بے اصل ہے صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہونچایا ہے۔ (محمودیہ: ج ۱، ص: ۲۰۶، قدیم(

اور جو عبارتیں بدعت ہونے کی پیش کی گئی ہیں اس سے مراد وہی ہیئت ہے جس میں اجتماع لازمی ہے جو آج اکثر جگہ رواج پاچکا ہے اور لوگ اسے ضروری سمجھنے لگے ہیں، جس میں تاریخ کی تعیین ہوتی ہے،اور چالیسواں بیسواں کے نام پر ایسا قاعدہ چل پڑا ہے کہ لگتا ہے یہ اسلام اور دین کا حصہ ہے، اس وجہ سے ہمارے سبھی اہل فتاوی اسے ممنوع قرار دیتے ہیں۔

اگر اخیر میں پیش کردہ عبارت کو اس پر محمول نہ کیا جائے تو تلاوت کے ذریعہ ایصال ثواب پر جو روایات ہیں ان کا انکار لازم آئے گا جو کہ درست نہیں ہے، اس وجہ سے تطبیق کی یہ صورت بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3233/46-8026

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے زمین مسجد کے لئے وقف کردی اور اس جگہ مسجد  بھی بن گئی تو اب رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ وقف تام ہونے کے بعد زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے،  اب واقف اس کا مالک نہیں ہے۔ اگر زبردستی واپس لے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر واقف زمین کو مسجد کے لئے وقف کرچکاہے اور اس کو واپس نہیں لے رہاہے بلکہ محض مسجد کے نام رجسٹری کرانے سے منع کررہاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس  کوسمجھایاجائے کہ جب زمین وقف کردی ہے تو  بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے اس کی رجسٹری ضروری ہے، ورنہ بعد میں ورثہ لوگوں کو پریشان کریں گے اور مسجد جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ محفوظ نہیں رہے گی۔البتہ اگر وہ رجسٹری کے لئے تیار نہ ہوں تو ایک کاغذ پر ان سے اقرارنامہ لکھوالیاجائے کہ انھوں نے فلاں فلاں گواہوں کی موجودگی میں اتنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی ہے تاکہ مستقبل میں  ممکن ہے کہ اس کاغذ کی ضرورت پڑے ۔  (۱) پوری زمین خواہ اس پر عمارت ہو یا نہ ہو وقف شدہ ہے، اس کو واپس لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔مسجد میں  تواب کوئی تبدیلی  بھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ (۳،۲) اب اس مسجد میں واقف کا کوئی اختیار باقی نہیں ہے بلکہ وہ مسجد اب اللہ کی ملکیت  ہے، اور عام مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، جو نمازیں پڑھی گئیں سب  درست ہوگئیں اورآئندہ بھی اس میں نماز جاری رکھی جائے۔  واقف کو بالکل اختیار نہیں کہ کسی کو مسجد سے نماز اداکرنے سے روک ٹوک کرسکے۔

نوٹ:  اس مسئلہ کو سنجیدگی سے آپسی مشورہ اور بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الھندیۃ، كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

"وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج،" (الھندیۃ، کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریفه،وسببه وحكمه، ج:2، ص:351، ط:مکتبه رشیدیه)

"وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند