نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا نیت ہی نماز شروع کردی، پھر یاد آیا کہ نیت نہیں کی یا غلط نیت کر لی، مثلاً: عصر کی جگہ ظہر کی نیت کرلی، تو اب نیت کا وقت ختم ہوگیا؛ اس لیے نماز کے اندر نیت کر لینے کا اعتبار نہیں ہوگا، پھر از سر نو نیت کرے، تکبیر تحریمہ کہے۔(۱)

(۱) قولہ: ولا عبرۃ بنیۃ متأخرۃ لأن الجزء الخالي عن النیۃ لا یقع عبادۃ فلا ینبني الباقي علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في حضور القلب والخشوع، ج۲، ص: ۹۴)
إنما الأعمال بالنیات۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب کیف کان بدء الوحي‘‘: ج ۱، ص: ۲، رقم : ۱)
(النیۃ) بالإجماع (وہي الإرادۃ المرجحۃ) المرجحۃ لأحد المتساویین أي إرادۃ الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ علی الخلوص۔۔۔۔ (المعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکفیہ اللسان مجتبیٰ (وہو) أی عمل القلب (أن یعمل) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي)۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲،ص: ۹۱،۹۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص294

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد آپ جو عمل ’’نصر من اللّٰہ وفتح قریب‘‘ وغیرہ پڑھتے ہیں اس کا پڑھنا درست اور جائز ہے؛ لیکن مناسب یہ ہے کہ سنتوں کے بعد پڑھیں، عذر معقول کے بغیر فرض اور سنت میں زیادہ فصل مناسب نہیں۔(۱)
(۱) الأولیٰ أن لا یقرأ الأوراد قبل السنۃ، ولو فعل لابأس بہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج۱، ص: ۴۴۱)
 فروع: قراء ۃ الأوراد بین الفرض والسنۃ لابأس بہا، قالہ الحلواني : ولو قام في مصلاہ إن شاء قرأ جالسا وإن شاء قرأ قائما، وفي شرح الشہید القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون، وفي الثاني کان النبي علیہ السلام، إذا سلم یمکث قدر ما یقول اللّٰہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والإکرام، ولو تکلم بعد السنۃ قبل الفریضۃ ہل تسقط السنۃ، قیل: تسقط، وقیل: لا (تسقط)، ولکن ثوابہ أفضل من ثوابہ قبل التکلم۔ (العیني، البنایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، عدد رکعات التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۰؛ وابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الصلاۃ المسنونۃ کل یوم‘‘: ج۲، ص: ۵۲)
فصل (الأذکار الواردۃ بعد الفرض) القیام إلی السنۃ متصلا بالفرض مسنون وعن شمس الأئمۃ الحلواني لابأس بقراء ۃ الأوراد بین الفریضۃ والسنۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ج۱، ص: ۳۱۲؛ و حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ج۱، ص: ۱۱۸)
لکنہ إن کانت الصلاۃ مما بعدہا سنۃ فالسنۃ وصلہا بالفرض ورجح کراہۃ الفصل بینہا وبین الفرض بالأذکار والأوراد والأدعیۃ ومقابل ما رجح أنہ لابأس بأن یقرأ بینہما الأوراد کما في شرح المنظومۃ لابن الشحنۃ۔ (علي حیدر، درر الحکام، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الإمامۃ ‘‘ ج۱، ص: ۸۰) (شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص439

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ الموفق: اصل نماز دو رکعت ہی فرض ہوئی ہے باقی دو رکعتوں کا بعد میںاضافہ ہوا ہے ا س لیے نفس قرأت کو پہلی دو رکعتوں میںہی فرض قرار دیا گیا ہے باقی دو رکعتوں میںقرأت فرض نہیںہے فاتحہ بھی ضروری نہیںہے اگر کوئی ذکر کرلے یا کچھ بھی نہ کرے تو بھی جائز ہے۔
’’وأما بیان محل القراء ۃ المفروضۃ فمحلہا الرکعتان الأولیان عینا في الصلاۃ الرباعیۃ ہو الصحیح من مذہب أصحابنا‘‘(۱)
’’بخلاف الشفع الثاني؛ لأنہ لیس بتکرار الشفع الأول بل ہو زیادۃ علیہ، قالت عائشۃ رضي اللہ عنہا: الصلاۃ في الأصل رکعتان، زیدت في الحضر وأقرت في السفر، والزیادۃ علی الشيء لا یقتضي أن یکون مثلہ۔ ولہذا اختلف الشفعان في وصف القراء ۃ من حیث الجہر والإخفاء، وفي قدرہا، وہو قراء ۃ السورۃ، فلم یصح الاستدلال، علی أن في الکتاب والسنۃ بیان فرضیۃ القراء ۃ؛ ولیس فیہما بیان قدر القراء ۃ المفروضۃ‘‘(۲)

(۱)الکاساني، بدائع الصنائع فيترتیب الشرائع ’’کتاب الصلاۃ: فصل في أرکان الصلاۃ، الکلام في القرائۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۵، دارالکتاب ،دیوبند۔)
(۲) أیضاً، ص:۲۹۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص236

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ چار سنت قبل العشاء غیر مؤکدہ ہیں اس لیے ان کو مستحب کہا جائے گا(۱) مظاہر حق میں ہے، آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شخص عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے اس رات میں تہجد کی نماز پڑھی۔ اور جو کوئی عشاء کے بعد چار رکعت پڑھے گا گویا اس نے چار رکعت شب قدر میں پڑھی۔(۲)

(۱)إن التی قبل العشاء مندوبۃ فلا مانع من قضائہا بعد التي تلي العشاء۔ الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)
(۲) رجح في الفتح تقدیم الرکعتین۔ قال في الإمداد: وفي فتاویٰ العتابي أنہ المختار۔ وفي مبسوط شیخ الإسلام أنہ الأصح، لحدیث عائشۃ: أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إذا فاتتہ الأربع قبل الظہر یصلیہن بعد الرکعتین وہو قول أبي حنیفۃ، وکذا في جامع قاضي خان قال الترمذي: حسن غریب، فتح (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإسائۃ دون الکراھۃ الخ، ج ۲، ص: ۵۱۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص362

طلاق و تفریق

Ref. No. 2833/45-4453

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وکیل کو جس کام کے لئے وکیل بنایاجاتاہے وہ اسی خاص امر میں وکیل ہوتا ہے، وہ مؤکل کے تمام امور میں وکیل نہیں بن جاتا، اس لئے آپ کا یہ سوال بہت مہمل ہے۔ اس طرح کا وسوسہ پالنے والے ہمیشہ پریشان رہیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1089 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  لائف انشورنس کرانا جائز نہیں ہے۔ اگر کسی مجبوری میں کرایا گیا ہے توصرف  اپنی جمع کردہ رقم  لے سکتے ہیں ،اس کے علاوہ جو رقم کمپنی دے اس کو بلانیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: Give an estimated amount as charity with the intention that its rewards will be received by the persons whom I owe the amounts and the rewards to them will be in proportion to the amount due on me. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 39 / 0000

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:

Yes, you can subtract loan amount during calculating Zakat.
And Allah knows best


Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband

آداب و اخلاق

Ref. No. 39/1076

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حدود شرعیہ میں رہ کرعصری علوم جائز ہیں ،والدین کو اللہ تعالی ان کی نیتوں کےمناسب اجر دیں گے ۔ اور اگر حدود شرعیہ کا لحاظ نہیں کیا گیا اور مخلوط کالجوں میں اپنی بڑی بچیوں کو بھیجا گیا تو یہ جائز نہیں ہے۔  دینی تعلیم بھی ضروری ہے اس سے آنکھیں موند کر صرف عصری تعلیم پر زور دینا درست نہیں ہے۔ گھر میں خود  اس کی دینی تعلیم کا نظم کریں ۔  اور جب اردو کی کچھ سمجھ پیدا ہوجائے تو بہشتی زیور وغیرہ کا مطالعہ کرائیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/873

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جماعت کی اہمیت کی وجہ سے احناف کے نزدیک ایک مسجد میں ایک ہی جماعت افضل ہے، جبکہ دیگر ائمہ  کرام کے نزدیک متعدد جماعتیں ہوسکتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند