متفرقات

Ref. No. 3231/46-8010

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱۔ جب باپ الگ کمائی کرتاہے اور بیٹا الگ کمائی کرتاہے تو ہر ایک اپنی اپنی کمائی کا مالک ہے، کسی کو دوسرے سے حساب مانگنے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر والدین محتاج و ضرورتمند ہیں وت ان کا نفقہ اولاد پر لازم ہے۔ ۲۔ والد کے ذریعہ لئے گئے قرض کی ادائیگی اگرچہ بیٹے پر لازم نہیں  ہے لیکن اسلام نے غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک وہمدردی کی تعلیم دی ہے۔ والدین اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جیسے انسان سپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتاہے والدین کا بھی خیال رکھے۔ والدین نے یہ قرض اولادکی وجہ سے لیا ہے تو اس کی ادائیگی پر تعاون کرنا باعث اجروثواب بھی ہے اور والدین کی دعاوں کا ذریعہ بھی ۔ ۳۔ قرآن کریم و احادیث میں بدگمانی ، غیبت اور تجسس سے منع کیاگیا اور اس کو گناہ  قراردیا۔ نیز قطع تعلق سے منع کیاگیاہے بلکہ صلہ رحمی اور تعلق جوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ (سورۃ الحجرات ۱۲)

وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ (سورۃ الرعد ۲۱) وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ البقرۃ 27) وقال النبی ﷺ صل من قطعک واحسن الی من اسائ الیک و قل الحق ولو علی نفسک (صحیح الجامع 3769)

اس لئے آپ کے والدین کا یہ عمل شرعا جائز نہیں ہے۔

۴۔ شادی کے بعد شوہر کو اپنی بیوی کو اپنے ساتھ  ہی رکھنا چاہئے، اس میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ علیحدہ رہنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے یا دیگر مفاسد کا اندیشہ ہوتاہے، البتہ اگر والدین ضرورت مند ہیں تو ان کے نفقہ وضروریات کا خیال رکھنا یاجسمانی اعتبار سے کمزور ہیں تو ان کی خدمت کا خیال رکھنا بھی اولاد پر لازم ہے۔ اگرآپ باہر رہتے ہیں اور ازخود ان کی خدمت نہیں  کرسکتےتو ان کے لئے کسی خادم وغیرہ کا انتظام کردینا بھی کافی ہے۔

وعلی الرجل الموسر ان ینفق علی ابویہ واجدادہ وجداتھا اذا کانوا فقرا وان خالفوہ فی الدین (الھدایۃ ، باب النفقۃ 2/440)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 3229/46-8021

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ عام بول چال کے الفاظ ہیں، اس سے کسی کے ذہن میں طلاق کے معنی کاخیال بھی نہیں آتاہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

وركنه لفظ مخصوص».  (قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه." (شامی، کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3227/46-7095

Answer 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the stock market involves investments in lawful (halal) business activities, and profits are distributed based on a fair percentage without the involvement of interest (riba) or gambling (qimar), engaging in such stock market trading is permissible (halal). However, investing in businesses that are considered unlawful (haram), setting a fixed return on investments, or engaging in any transactions that involve interest or gambling is prohibited (haram).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3230/46-8008

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی کی جو ثمن کی حیثیت  ہے وہی حیثیت اگر کسی چیز کو حاصل ہوجائے تو اس میں کاروبار کرنے یا تبادلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  بٹ کوائن ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے کسی حکومت یا مرکزی ادارے کی حمایت حاصل نہیں ہے۔بٹ کوائن کو ابھی سونے اور چاندی جیسی ثمنیت کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔  اس لئے  اس کی  خریدوفروخت  سے علماء نے منع کیا ہے، کیونکہ بٹ کوائن کی قیمتوں میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بنگلہ دیشی ٹکہ سے ڈالرخریدنا یا کسی ملک کی کرنسی سے دوسرے ملک کی کرنسی کی خریدوفروخت اس شرط کے ساتھ  جائز ہے کہ  معاملہ دونوں طرف نقد ہو یا کم از کم ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف کرنسی میں معاملہ طے ہوجائے۔ سونے چاندی کی خریدوفروخت کے احکام الگ ہیں اور کرنسی کی خریدوفروخت کے احکام الگ ہیں۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 3226/46-7096

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شاید مرحوم کے ذمہ کچھ روزوں اور نمازوں کی قضا تھی، جن کاوہ خواب میں آکرکفارہ اداکرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو اور ٓپ اپنی طرف سے کفارہ اداکردیں تو مرحوم کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اور اگرقضا روزوں اور نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو اپنی مرضی سے جو کچھ میسر ہو صدقہ کردیں یا کچھ مسکینوں کو کھانے کھلادیں، تو امید ہے کہ کچھ تلافی ہوجائے گی۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3225/46-7096

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۱) کتاب المسائل کا مسئلہ درست ہے، کتب فقہ سے اسی مسئلہ کی تائید ہوتی ہے کہ سجدہ کرنے سے پہلے پہلے واپس آکر سورہ ملانا  واجب ہے اور دوبارہ رکوع کرنا فرض ہے ، اس لئے کہ ضم سورہ کی طرف عود کرنے سے رکوع  ختم ہوگیا ، اب اگردوبارہ رکوع نہیں کیا تو فرض کے ترک کی وجہ سے نماز سجدہ سہو کے باوجود درست نہیں ہوگی۔   (٢) فقہی عبارتوں سے یہی واضح ہوتاہے کہ رکوع  سے قیام کی طرف عود کرکے سورہ ملانا واجب ہے ، اگر عود نہ کرے بلکہ نماز کو جاری رکھے اور سجدہ سہو کرلے تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔  (٣، ۴) سورہ ملانے کے لئے رکوع سے قیام کی طرف عود کرنے سے رکوع  کالعدم ہوگیا، اس لئے کہ قرات فرض ہے اور قرات کا جو کچھ حصہ پڑھاجائے وہ پہلے ہو یا بعد میں وہ فرض ہی واقع ہوگا ، نیز  قرات اور رکوع میں ترتیب کو  فرض قراردیاگیاہے، اس لئے دوبارہ رکوع نہ کرنے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائےگی اور سجدہ سہو سے بھی نماز درست نہ ہوگی بلکہ نمازلوٹانی  ہوگی۔ 

 (و تذكرها) أي السورة (فی رکوعہ قرأها) أي بعد عوده إلى القيام (وأعاد الركوع) لأن ما يقع من القراءة في الصلاة يكون فرضاً فيرتفض الركوع ويلزمه إعادته لأن الترتيب بين القراءة والركوع فرض كما مر بيانه في الواجبات، حتى لو لم يعده تفسد صلاته (رد المحتار مع الدر المختار،کتاب الصلاۃ، ج02، ص311)

لوتذکر فی الرکوع او بعد ما رفع رأسہ منہ  أنہ ترک الفاتحۃ أو السورۃ یعود وینتقض رکوعہ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،فصل فی القنوت، ج02 ،ص234)

لو قرأ الفاتحۃ و آیتین فخر راکعاً ساھیاً ثم تذکر عاد و اتم ثلاث آیات و علیہ سجود السھو (فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ، ج01، ص126)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 3224/46-7094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے سر ، بال، گردن، کان، بازو، ہاتھ ، پاؤں ، پنڈلی، ، چہرہ اور گردن سے متصل سینہ کا اوپری حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ چہر ہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا باقی اعضاءکو محارم کے سامنے بھی  ڈھکا رکھا جائے۔ نیز محرم عورتوں کے   پیٹ، کمر اور  پیٹھ اور گھٹنے کا بھی پردہ ہے ان اعضاء کی  طرف  بھی دیکھنا جائز نہیں ہے۔

ینظر الرجل من ذوات محارمہ إلی الوجہ والرأس والصدر․․․ ولا ینظر إلی ظہرہا وبطنہا وفخذہا (ہدایہ: ۴۶۱/۴) قال فی الشامی:وقال الرحمتی: الظہر ما قابل البطن من تحت الصدر إلی السرة․․․ أی فما حاذی الصدر لیس من الظہر الذی ہو عورة اھ ومقتضی ہذا أن الصدر وما قابلہ من الخلف لیس من العورة وأن الثدی أیضًا غیر عورة وسیأتی فی الحظر والإباحة أنہ یجوز أن ینظر من أمة غیرہ ما ینظر من محرمہ، ولا شبہة أنہ یجوز النظر إلی صدر محرمة وثدیہا فلا یکون فی عورة منہا ولا من الأمة (شامی: ۷۷/۲، ط: زکریا دیوبند)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: گنہگاری کا شبہ بے محل ہے، وہ گنہگار نہیں ہوں گے؛ بلکہ ثواب ہی کے مستحق ہوں گے۔(۱)

(۱) {لاَ یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} (سورۃ البقرۃ: ۲۸۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 443.

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز تراویح کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں نماز عشاء، تو درست ہو گئی، لیکن وقت سے پہلے پڑھی جانے کی وجہ سے تراویح درست نہیں ہوئی، در مختار میں ہے۔

’’ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر قبل الوتر وبعدہ‘‘(۱)

اس کی شرح میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’قدر لفظ صلاۃ إشارۃ إلی أن المراد بالعشاء الصلاۃ لا وقتہا وإلی ما في النہر من أن المراد مابعد الخروج منہا حتی لو بني التراویح علیہا لا یصح وہو الأصح‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح: ج ۱، ص: ۴۹۳۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص۹۴ - ۴۹۳۔ووقتہا ما بعد صلاۃ العشاء علی الصحیح إلی طلوع الفجر و لتبعیتہا للعشاء یصح تقدیم الوتر علی التراویح وتأخیرہ عنہا وہو أفضل حتی لو تبین فساد العشاء دون التراویح والوتر۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 43.

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی قضا نہیں ہے اور اگر وقت گزر نے کے بعد تراویح کی قضاء کی تو نفل کا ثواب ملے گا۔ تراویح کی سنت ادا نہ ہوگی ایسے میں جو پارہ چھوٹ گیا اس کو پڑھ لے یا سن لے پورے قرآن کا ثواب تو مل جائے گا مگر سنت تراویح میں قرآن کے پورا سننے کا ثواب نہ ملے گا۔(۱)

(۱) ولا تقضي إذا فاتت أصلاً ولا وحدہ في الأصح (فإن قضاہا کانت نفلا مستحبا ولیس بتراویح) کسنۃ مغرب وعشاء، قولہ: کسنۃ مغرب وعشاء أي حکم التراویح في أنہا لا تقضی إذا فاتت إلخ کحکم بقیۃ رواتب اللیل لأنہا منہا لأن القضاء من خواص الفرض وسنۃ الفجر بشرطہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل: مبحث التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)

ولا تقضی التراویح أصلا بفواتہا عن وقتہا منفردا ولا بجماعۃ علی الأصح۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 42.