Family Matters

Ref. No. 41/1069

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned Hadith is recorded in ‘Mustadrak ala Sahihain’ and Hakim remarked it as Sahih.  (مستدرک علی الصحیحین 4/278- Hadith No. 7637)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1364/42-447

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The word ‘Marhoom’ means a person on whom Allah has mercy. It is permissible to say the word ‘Marhoom’ before the name of the deceased. When we say the word ‘Marhoom’, we pray for Allah's mercy on the deceased so that Allah Almighty may have mercy on him and forgive him.

(ويستحب الترضي للصحابة) وكذا من اختلف في نبوته كذي القرنين ولقمان وقيل يقال صلى الله على الأنبياء وعليه وسلم كما في شرح المقدمة للقرماني. (والترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار وكذا يجوز عكسه) الترحم وللصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم (على الراجح) ذكره القرماني وقال الزيلعي الأولى أن يدعو للصحابة بالترضي وللتابعين بالرحمة ولمن بعدهم بالمغفرة والتجاوز (شامی، مسائل شتی 6/753)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 1492/42-957

الجواب وباللہ التوفیق:۔  شرعا بارات کی کوئی اصل نہیں، اور سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس میں نام و نمود اور اسراف ہے جو شریعت میں قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے، اور جو بارات نام و نمود اور اسراف سے خالی ہو تو جس تعداد کو لڑکی والے برضاء و رغبت بلا کسی معاشرتی دباؤ کے صرف اپنی وسعت کے مطابق بلائیں تو اس تعداد کو لیجانا اور اس میں جانا و کھانا مباح ہے، یہ دعوت نہ سنت ہے نہ واجب اور نہ حرام ہی ہے، محض مباح ہے۔ (ماخوذ از کفایت المفتی 7/471، باب العرس والولیمۃ، مکتبہ فاروقیہ کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 1667/43-1275

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

On the day of Eid, it is Makrooh (Tahreemi) to offer Nafl prayers at home or in Masjid before Eid prayer. However, after Eid prayers, one can pray Nafl at home and it is forbidden to pray Nafl in Masjid.

ولايتنفل قبلها مطلقاً ... و كذا لايتنفل بعدها في مصلاه؛ فإنه مكروه عند العامة، و إن تنفل بعدها في البيت جاز ... قوله: (فإنه مكروه) أي تحريماً علی الظاهر..."الخ (طحطاوی علی الدر المختار، كتاب الصلاة، باب العيدين، ١/ ٣٥٣، ط: رشيدية)

ولا يتنفل في المصلى قبل صلاة العيد٬ لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يفعل ذلك مع حرصه على الصلاة ثم قيل الكراهة في المصلى خاصة وقيل فيه وفي غيره عامة لأنه صلى الله عليه وسلم لم يفعله "(الهداية شرح البدایۃ: ج1، ص85 ط. دار احیاء التراث العربی٬ بیروت)
ولا یتنفل قبلھا مطلقا وکذا لا یتنفل بعدھا فی مصلھا فانہ مکروہ عند العامۃ وان تنفل بعدہا فی البیت جاز الخ (الدر المختار مع الرد:کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج2، ص 169-170، ط: سعید کراچی

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 1762/43-1495

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسم کا مدار الفاظ کے استعمال پر ہے، سوال میں اطلاع دینے یعنی کسی واقعہ کی خبر دینے پر قسم کھائی ہے، اس لئے اگر کوئی اطلاع دیگا تو حانث ہوجائے گا، مگر انشاء سے یعنی کسی کو  کسی کام کا حکم کرنے اور منع کرنے سے اس  کی قسم کا تعلق نہیں ہوگا اور اس سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ نیز ایک بار قسم ٹوٹ گئی تو اس کا کفارہ اداکردے اس کے بعد کچھ لکھے گا یا اطلاع دے گا تو اب دوبارہ حانث نہیں ہوگا۔ اور باربار قسم نہیں ٹوٹے گی جب تک دوبارہ قسم نہ کھالے۔

إذا علمت ذلك ظهر لك أن قاعدة بناء الأيمان على العرف معناه أن المعتبر هو المعنى المقصود في العرف من اللفظ المسمى، وإن كان في اللغة أو في الشرع أعم من المعنى المتعارف، ولما كانت هذه القاعدة موهمة اعتبار الغرض العرفي وإن كان زائدا على اللفظ المسمى وخارجا عن مدلوله كما في المسألة الأخيرة وكما في المسائل الأربعة التي ذكرها المصنف دفعوا ذلك الوهم بذكر القاعدة الثانية وهي بناء الأيمان على الألفاظ لا على الأغراض، فقولهم لا على الأغراض دفعوا به توهم اعتبار الغرض الزائد على اللفظ المسمى، وأرادوا بالألفاظ الألفاظ العرفية بقرينة القاعدة الأولى، ولولاها لتوهم اعتبار الألفاظ ولو لغوية أو شرعية فلا تنافي بين القاعدتين (الدرالمختار مع رد المحتار، باب الیمین فی الدخول 3/744)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2485/45-3835

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عورت اپنے گھر میں تنہائی میں یا شوہر کے سامنے پینٹ شرٹ پہنتی ہے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن دیگر محارم اور بچوں کے سامنے ایسا لباس پہننا جائز نہیں جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہو۔شریعت نے عورت کے لیے لباس تو متعین نہیں کیا، البتہ اس کے اصول متعین کردیے ہیں، جن کی بنیاد یہ ہے کہ: 1- لباس ساتر ہو، یعنی جسم کے جس حصے کو چھپانا لازم ہے، اس حصے اور اس کی بناوٹ کو  چھپالے۔2- اجنبی کے لیے جاذبِ نظر نہ ہو۔3- غیر اقوام یا مردوں کی مشابہت نہ ہو۔ لہٰذا عورت کو ایسا ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہننا چاہیے جس سے نہ صرف اُس کا پورا بدن ڈھک جائے؛ بلکہ اعضاء کی بناوٹ اور اُبھار بھی ظاہر نہ ہو۔ اور عورت کے لیے اَجنبی مردوں کے سامنے پورے جسم (سر، چہرے، گردن، کلائیوں اور پنڈلی ٹخنوں سمیت) کا پردہ ہے، لہٰذا غیر محرم کے سامنے تو پورا جسم اور اس کی ساخت چھپانا لازم ہے، جب کہ محرم کے سامنے سر، چہرہ، گردن اور اس سے متصل (سینے سے اوپر)  حصہ، ہتھیلیاں، پاؤں، کلائیاں اور پنڈلی کھول سکتی ہے، باقی اعضاء  کا محرم سے بھی چھپانا لازم ہے، اور اگر کسی محرم سے اندیشہ ہو تو اس کے سامنے مذکورہ اعضاء بھی چھپانا لازم ہوگا۔اسلام نے عورت کو میک اپ کرنے سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کرنے سے منع کیا گیاہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن." (روح المعاني ۱۲؍۱۲۸)وقال تعالیٰ:{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی}[الأحزاب: ۳۳]۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نصوص قطعیہ شرعیہ کے انکار اور اسلام مخالف عقائد کی وجہ سے باتفاق علماء حق قادیانی کافر اور خارج از اسلام ہیں۔ مذکورہ اخباری بیان مکر وفریب اور شعبدہ بازی ہے، مسلمانوں کو اپنے کفریہ عقائد کے جال میں پھنسانے کی سازش ہے، یہ بیان کوئی نئی بات نہیں ہے، اس طرح کی سازشیں اس جماعت کے بانی اور اس کے متبعین ابتداء سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سازشوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔(۱)

(۱) {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَاہع۴۰}(سورۃ الأحزاب: ۴۰)…  عن أبي أسماء عن ثوبان، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … وأنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہ نبي، وأنا خاتم النبیین لا بني بعدي۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب المہدي‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۸، رقم: ۴۲۵۲)
عن ابن شہاب، عن محمد بن جبیر بن مطعم، عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لي خمسۃ أسمائٍ: أنا محمد، وأحمد وأنا الماحي الذي یمحو اللّٰہ بہ الکفر وأنا الحشر الذي یحشر الناس علی قدمي وأنا العاقب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفضائل: باب في أسمائہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۱، رقم: ۲۳۵۴)
قولہ: (ولک دعوی النبوۃ بعدہ وہوی) ش: لما ثبت أنہ خاتم النبیین علم أن من ادعی بعدہ النبوۃ فہو کاذب۔ (ابن أبي عز الحنفي، شرح العقیدہ الطحاوي: ج ۱۱، ص: ۱۶۶)
وقد أخبر تعالیٰ في کتابہ، ورسولہ في السنۃ المتواترۃ عنہ: أنہ لا نبي بعدہ، لیعلموا أن کل من ادعی ہذا المقام بعدہ فہو کذاب افاک دجال ضال مضل۔ (ابن کثیر، تفسیر إبن کثیر: ج ۶، ص: ۴۳۱)
ولا یجوز من الکفر إلا من أکفر ذلک الملحد (أي: غلام أحمد القادیاني) بلا تلعثم وتردد۔ (محمد أنور شاہ الکشمیري، إکفار الملحدین في ضروریات الدین: ج ۱، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص287

طلاق و تفریق

Ref. No. 2588/45-4116

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عثمان کو میسیج کرنے کا اختیار دیاگیا ہے ، طلاق دینے کا نہیں، اس لئے عثمان اگر علی کے موبائل سے علی کی بیوی کو طلاق کا میسیج بھیجے گا تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ تاہم اگر علی نے کبھی عثمان کو طلاق کا میسیج بھیجنے کا حکم دیا یا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار دیا اور پھر عثمان نے طلاق کا میسیج بھیجا تو حکم مختلف ہوگا۔ کس صورت میں طلاق ہوگی اور کس صورت میں نہیں ہوگی، پیش آمدہ واقعہ کے تناظر میں اس کا فیصلہ کیا جائے گا، اس لئے تفصیل سے سوال ارسال کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دوسرے پانی کے ہوتے ہوئے ایسا پانی استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی شخص اس بالٹی (جس میں وضو میں استعمال شدہ پانی بھرا ہوا ہے) سے پانی لے کر آب دست کرلے یا استنجا کرلے، تو اس پانی سے پاکی حاصل ہو جاتی ہے۔ مفتی بہ قول کے مطابق اس طرح کے ماء مستعمل سے نجاست حقیقیہ کو پاک کرنا درست ہے جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’قولہ: علی الراجح مرتبط بقولہ بل لخبث: أی نجاسۃ حقیقیۃ، فإنہ یجوز إزالتہا بغیر الماء المطلق من المائعات خلافا لمحمد‘‘
’’وحکمہ أنہ لیس بطہور لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘(۲)
’’ولا یجوز بماء استعمل لأجل قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ۔ وہو طاہر ولو من جنب وہو الظاہر‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص103

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علامہ ابن عابدین نے مسواک کوسنت مؤکدہ لکھا ہے؛ لیکن اصح قول یہ ہے کہ مستحب ہے، کلی کرتے وقت ہی مسواک کرنا سنت ہے، اس وقت صفائی زیادہ ہوتی  ہے اور پورے طور پر ہوتی ہے والسواک سنۃ مؤکدۃ کما في الجواہر عن المضمضۃ، وقیل: قبلہا وہو للوضوء۔(۱) وفي الہدایۃ الأصح أنہ أي السواک مستحب۔(۲) وکونہ لیناً مستویا بلا عقد في غلظ الخنضر وطول شبر(۳)
اس عبارت سے یہ بات واضح ہے کہ مسواک نرم اور برابر ہو اور اس میں گرہ نہ ہو چھوٹی انگلی کے برابر موٹی ہو اور بالشت بھر لمبی ہو۔

(۱)أبوبکر بن علي الحنفي، الجوہرۃ النیرۃ، ج۱، ص:۷، (دارالکتاب دیوبند)؛ و بدرالدین العیني، البنایہ شرح الہدایہ، ج۱، ص:۳۲(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۲) ابن عابدین الدمشقی الحنفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم،‘‘ ج۱، ص:۲۳۲؛ و ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج ۱، ص:۴۲
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفھوم، کتاب الطہارۃ۔‘‘ ج۱، ص:۲۳۴ (مکتبۃ زکریا دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص203