Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر وتر کی جماعت سے پہلے چھوٹی ہوئی تراویح کے ادا کرنے کا موقع نہ ملے تو وتر کے بعد چھوٹی ہوئی رکعات تراویح کو پورا کرے۔(۲)
(۲) قولہ: یصح تقدیم الوتر علی التراویح الخ وقیل وقتہا بعد العشاء قبل الوتر وبہ قال عامۃ مشایخ بخاري وأثر الخلاف یظہر فیما لو فاتتہ ترویحۃ لو اشتغل بہا یفوتہ الوتر بالجماعۃ یشتغل بالترویحۃ علی قول مشایخ بخاري وبالوتر علی قول غیرہم۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۳)التراویح سنۃ للرجال والنساء ووقتہا بعد صلاۃ العشاء قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ ثم صلی ما فاتہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۹۴ - ۴۹۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 41نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں بیک وقت دو تراویح کی نماز ادا کرنا مثلا ایک جماعت اوپر کی منزل میں اور دوسری نیچے کی منزل میں مکروہ ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ حضرات فقہاء نے ایک مسجد میں تراویح کے تکرار کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اس میں دوسرے مفاسد بھی ہیں بسا اوقات اوپر کی منزل میں تین پارے یومیہ پڑھے جاتے ہیں اس لیے زیادہ تر حضرات اوپر تراویح پڑھ کر دس دن میں فارغ ہوجاتے ہیں اور تراویح کی اصل جماعت جو تحتانی منزل پہ ہوتی ہے وہ بے رونق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب ایک مسجد میں دو جماعت ہوتی ہیں تو لوگ دونوں امام کی قرأت کا موازنہ کرنے لگتے ہیں اس سے کبھی کبھی انتشار اور خلفشار بھی پیدا ہوتا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے اور دوسری جماعت مسجد سے علاحدہ کسی مقام پر کرلی جائے۔
’’ولو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶۔ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 40نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تراویح پڑھی اور بیس رکعت پڑھیں۔
علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس جماعت کے ساتھ دو رات تراویح پڑھی اس کے بعد جماعت کے ساتھ تراویح نہ پڑھی اور فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہیں تمہارے اوپر تراویح فرض نہ قرار دیدی جائے اور تم آزمائش میں پڑ جاؤ۔ ’’ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما واظب علیہا بل أقامہا في بعض اللیالي روي أنہ صلاہا للیلتین بجماعۃ ثم ترک وقال: أخشی أن تکتب علیکم لکن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم واظبوا علیہا فکانت سنۃ الصحابۃ‘‘(۱)
نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بھی منقول ہے اور اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قولِ مبارک بھی ہے۔
’’والدلیل علیہ ما روي أبوہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرغب في قیام رمضان من غیر أن یأمرہم فیہ بعزیمۃ قال من قام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘(۲)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھیں؛ لیکن اس پر مواظبت نہیں فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی اور بلا نکیر اس پر امت مسلمہ کا عمل چلا آرہا ہے، ہاں تراویح کی سنت کا تأکد بظاہر مواظبت صحابہ رضی اللہ عنہم سے معلوم ہوتا ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے کہ جس طرح میری سنت کا اختیار کرنا لازم ہے اسی طرح خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی سنت کی پیروی بھی لازم ہے۔
’’التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ أي أکثرہم لأن المواظبۃ علیہا وقعت في أثناء خلافۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ ووافقہ علی ذلک عامۃ الصحابۃؓ ومن بعدہم إلی یومنا ہذا بلا نکیر وکیف لا وقد ثبت عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجذ کما رواہ أبوداؤد‘‘(۳)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ:صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۴۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب قیام شہر رمضان‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۵، رقم: ۱۲۹۶۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 38
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد میں امام نماز پڑھا رہا ہو (خواہ تراویح ہی ہو) تو مکان میں کھڑے ہوکر اس کی اقتدا شرعاً درست نہیں۔ ہاں اگر مسجد سے مکان تک صفیں متصل ہوں اور درمیان میں دو صفوں کی جگہ خالی نہ ہو، تو اقتداء شرعاً درست ہے۔
’’عن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً وموقوفاً علیہ من کان بینہ وبین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ‘‘(۱)
’’وفي الدر المختار ویمنع من الاقتداء صف من النساء الخ أو طریق تجری فیہ عجلۃ الخ أو النہر الخ یسع صفین فأکثر الخ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ التي ہي ظاہر الروایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۱۔
(۲) ’’أیضاً:‘‘۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 37
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح و وتر پڑھانے والا ایک ہی شخص ہو یہ ضروری نہیں اگر ایک آدمی نے تراویح پڑھائی اور وتر دوسرے نے پڑھا دئیے تو درست ہے۔(۱)
(۱) ولو لم یصلہا أي التراویح بالإمام أو صلاہا مع غیرہ لہ أن یصلي الوتر معہ وفي الشامیۃ أیضا أما لو صلاہا جماعۃ مع غیرہ ثم صلی الوتر معہ لاکراہۃ۔ (الحصکفي، رد المختار مع الدر المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰ - ۴۹۹)جاز أن یصلي الفریضۃ أحدہما ویصلي التراویح الآخر، وقد کان عمر رضي اللّٰہ عنہ یؤمہم في الفریضۃ والوتر وکان أبي یؤمہم في التراویح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: 7، ص: 37نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز مسجد میں ادا کرنی چاہئے یہی سنت ہے۔
’’وظاہر کلامہم ہنا أن المسنون کفایۃ إقامتہا بالجماعۃ في المسجد حتی لو أقاموہا جماعۃ في بیوتہم ولم تقع في المسجد أثم الکل‘‘(۱)
لیکن اگر صورت یہ ہو کہ مسجد میں بھی جماعت نماز تراویح ہو رہی ہو اور چند لوگ گھر میں بھی جماعت کرلیں مسجد کی جماعت بند نہ ہو تو درست ہے مگر ان لوگوں کو بھی مسجد کی فضیلت کے ثواب سے محرومی رہے گی۔
’’وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵۔
(۲) أیضا:۔
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 36
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: سورہ تراویح ہی بہتر ہے، معاوضہ دے کر قرآن نہ سنا جائے اور نہ سنوایا جائے(۲) ہاں اگر معاوضہ طے نہ ہو اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو، بلکہ ختم کے بعد اپنے طور پر کوئی ہدیہ و تحفہ سننے یا سنانے والے کو دیدے تو اس میں مضائقہ نہیں اس لیے کہ وہ معاوضہ نہیں ہے۔(۳)
(۲) فالحاصل أن ماشاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقرائۃ لأجل المال۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الإجارۃ: باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر مہم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۷)
(۳) کفایت المفتی میں ہے: اسی طرح اگر بلا تعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطور اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور جواز میں داخل ہو سکتی ہے۔ (کفایت المفتی: ج ۳، ص: ۳۹۵، ۴۱۰، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 35
Usury / Insurance
Ref. No. 3222/46-7092
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In response to your previous question, it was explained that the amount of profit cannot be fixed, as doing so, it would make the transaction interest-based. (1) In the scenario you presented here, where a fixed amount of four thousand is specified, it clearly becomes an interest-based transaction. (2) In profit-sharing agreements, the profit should be divided according to an agreed-upon percentage, where, for example, on a sum of one hundred thousand, the profit would be distributed such as that X receives a certain percentage and Y receives another. In your case, whether there is profit or not, and regardless of whether it is large or small, specifying a fixed profit amount or determining a percentage from the principal amount is completely un-Islamic and constitutes an interest-based transaction. Both of the forms you mentioned in your question are unlawful (haram). Please review your previous question carefully and refrain from asking further questions on this matter. If you do not understand, kindly consult a qualified scholar in your area face to face for clarification.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3221/46-7093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ میں انسانی اعضاء و اجزاء کے احترام کے پیش نظر بلاضرورت شدیدہ ان کا استعمال اور ان سے انتفاع جائز نہیں ہے۔ عورت کا دودھ اس کا جزء ہے اس سے بھی انتفاع جائز نہیں ہے، تاہم بچے کی شیرخوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً بچے کے لیے ماں کا دودھ پینے کی اجازت ہے اور بچہ کے دو سال کا ہوجانے کے بعد جب ضرورت نہیں رہی تو اب دودھ پینا بچہ کے لئے بھی جائز نہیں رہتاہے۔یعنی کسی بڑے یا چھوٹے کا کسی عورت کا دودھ پینا جائز نہیں ہے چاہے عورت کی مرضی سے ہو ، اور شوہر کے لئے بھی اپنی بیوی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کبھی پستان منھ میں لیا اور دودھ نکل آیا تو اس کو تھو ک دے، اس کو نگل لیناجائز نہیں ہے ۔ تاہم اس سے رشتہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى،.... لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية". (شامی، كتاب الرضاع، ج:3، ص:209/210/211، ط:ايج ايم سعيد)
"(ولم يبح الإرضاع بعد مدته)؛ لأنه جزء آدمي، و الانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 211(
"مص رجل ثدي زوجته لم تحرم". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 225(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3220/46-8005
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ نے جو زیور یا مال کسی بیٹی یا بیٹے کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کا ہوگیا اس میں دیگر ورثہ کا حصہ نہیں ہوگا،اور زندگی میں کسی کو کچھ دیدینے سے مرنے کے بعد وراثت کے حصہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔الیکن اگر زبانی طور پر ہبہ کیا اور قبضہ میں نہیں دیا تو ہبہ مکمل نہیں ہوا، اور یہ زیور بھی مرحومہ کا ترکہ ہوگا، لڑکی اس کی مالک نہ ہوگی۔ہاں جو زمین لڑکی کے نام کردی گئی ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کو وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
البتہ مرنے کے وقت آپ کی والدہ کی ملکیت میں جو کچھ تھا چاہے وہ زمین ہو یا مکان یا زیورات اور روپئے پیسے ہوں۔ کل جائداد کو اس کے شوہر، بیٹی اور بیٹوں میں اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ شوہر کو کل جائداد کا چوتھا حصہ دینے کے بعد مابقیہ مال بیٹی اور بیٹوں کو للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے دیدیں گے۔ چنانچہ اگر کل ملکیت 6400000 روپئے ہی ہیں تو ان میں سے سولہ لاکھ (1600000) مرنے والی کے شوہر کو، چھ لاکھ پچاسی ہزار سات سو چودہ روپئے (685714) بیٹی کو، اور تیرہ لاکھ اکہتر ہزار چار سو اٹھائیس روپئے (1371428) ہر ایک بیٹے کو دیئے جائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند