Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 38/ 875
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ریکارڈنگ کا حکم آوازبازگشت کا ہے، اس لئے اس صورت میں سجدہ تلاوت کرنایا درود شریف پڑھنا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم موبائل یا کمپیوٹر پر قرآن کریم کی تلاوت سننے کے بجائے ازخود تلاوت کریں تو یہ زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1068
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The term ‘Taqwa’ means fearing Allah and being very mindful of Allah. Abiding by all the orders of Allah and refraining from all His prohibitions out of fear of Allah is called ‘Taqwa’.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Death / Inheritance & Will
Ref. No. 1048/41-213
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Parents devote their life to upbringing their children, so it is duty of children to respect the emotions of their parents at any cost. However, whatever you possess in your lifetime is your own property and you have full right to do what and how you wish to do with your wealth. You have full right to give it to whom you like and don’t give whom you dislike, but evicting a child from property is not recommended and sometimes it is not considered to be legitimate in shariah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1669/43-1276
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلوت صحیحہ ، صحبت کے حکم میں ہے، خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوجانے کی صورت میں عورت پر عدت لازم ہوگی گرچہ صحبت نہ ہوئی ہو، اورشوہر پر پورا مہر بھی لازم ہوگا۔ اور یہ طلاق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔
(سئل) في امرأة طلقها زوجها بعدما خلا بها خلوة صحيحة ولم يطأها فهل يلزمها العدة؟ (الجواب) : نعم وتجب العدة في الكل أي كل أنواع الخلوة ولو فاسدة احتياطا وتمامه في شرح التنوير للعلائي من المهر.(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، باب العدۃ 1/56)
رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الباب الثالث عشر فی العدۃ 1/526) (وفي الطلاق بعد الخلوة قبل الدخول بها) يكتب هذا ما شهد الشهود المسمون آخر هذا الكتاب أن فلانا طلق امرأته بعدما خلا بها خلوة صحيحة خالية عن الموانع الشرعية والطبيعية كلها تطليقة واحدة بائنة نافذة جائزة فحرمت عليه بهذه التطليقة ووجب لها عليه كمال ما سمي لها من الصداق، وهو كذا ونفقة عدتها وهي كذا ويتم الكتاب. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی الطلاق 6/260)
والثاني: الدخول أو ما هو في معناه، وهو الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح لعموم قوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها} [الأحزاب: 49] من غير تخصيص إلا أن الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح ألحقت بالدخول في حق وجوب العدة لما ذكرنا أنها ألحقت به في حق تأكيد كل المهر ففي وجوب العدة أولى احتياطا، وتجب هذه العدة على الحرة، والأمة. (بدائع الصنائع، فصل فی عدۃ الحبل 3/192)
والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه. والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لأن طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطا، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائنا، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح طلاق بائن آخر فإنه يفيد أن الأول بائن أيضا، ويدل عليه ما يأتي قريبا من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولا وثانيا وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك. (شامی، مطلب فی حط المھر والابراء منہ 3/119)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 2139/44-2198
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈارون کا نظریہ اسلامی نظریہ کے خلاف ہے، آپ اگر اس نظریہ کو مانتے نہیں ہیں تو اس نظریہ کو پڑھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، ، اسی طرح سودی نظام کو سمجھنے کے لئے اس کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح غیراسلامی چیزوں کو سمجھنے کے لئے تاکہ ہم سمجھ کر اس کی حقیقت وقباحت لوگوں کے سامنے واضح کرسکیں، اور لوگوں کو اسلام کی حقانیت سے متعارف کراسکیں۔ ان چیزوں کوپڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر مذکورہ مقاصد کو پیش نظر رکھ کر پڑھاجائے تو امید ہے کہ اجر کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2555/45-3882
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں پڑی ہوئی کوئی چیز پائی جائے تو وہ ’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہے، اگر اس سامان کے اس جگہ رہنے دینے سے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو متولی پر لازم ہے کہ اس سامان کی حتی الوسع تشہیر کرے نمازوں کے بعد اعلان کرے، اور جس مدرسہ سے بچے آتے ہوں ان سے رابطہ کرکے اصل مالک تک اس لقطہ کو پہونچانے کی کوشش کرے۔ اگر باربار تشہیر اور پوری کوشش کے باوجود اصل مالک کا پتا نہ چل سکے تو اس کو اپنے پاس محفوظ رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل ادائیگی میں آسانی ہو اور کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ لیکن اگرمالک کا پتا دشوار ہو اور مایوسی ہی ہاتھ لگے تو پھر مالک ہی کی طرف سے وہ لقطہ کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر ملتقط خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔تاہم اس کا خیال رہے کہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد اگر اصل مالک آجاتاہے تو یا تو وہ صدقہ کو نافذ کردے اور اس پر راضی ہوجائے تو ٹھیک ہے ، اور اگر اپنے سامان کا مطالبہ کرے تو پھر ملتقط پر ضمان لازم ہوگا۔
"وللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر". (ملتقی الابحر ، جلد ١،ص: ٥٢٩-٥٣١،ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکر کردہ سوال میں استنجا کے صحیح طریقہ کے سلسلے فقہاء نے لکھا ہے کہ پیشاب سے فراغت کے بعد جب اطمینان حاصل ہو جائے، تو ڈھیلے جو پاک ہوں یا ٹیشو پیپر وغیرہ سے اولا پیشاب کو خشک کرے پھر پانی سے مقامِ استنجا دھوئے، اسی طرح قضائے حاجت کے بعد تین ڈھیلوں یا ٹیشو پیپر سے پہلے مقعد کو صاف کرے پھر پانی سے دھونا افضل طریقہ ہے، نیز ڈھیلوں کے استعمال میں کسی خاص کیفیت اور طریقہ کو اختیار کرنا لازم نہیں ہے، اصل مقصود صفائی اور پاکی حاصل کرنا ہے اسی لئے اگر ڈھیلے یا ٹیشو وغیرہ دستیاب نہ ہوں، تو صرف پانی کا استعمال بھی کافی ہے۔
’’وعدد الثلاثۃ في الاستنجاء بالأحجار أو ما یقوم مقامہا لیس بأمر لازم، والمعتبر ہو الإنقاء، فإن أنقاہ الواحد کفاہ وإن لم ینقہ الثلاث زاد علیہ‘‘(۲)
’’(قولہ: ولایتقید الخ) أي بناء علی ما ذکر من أن المقصود ہو الإنقاء فلیس لہ کیفیۃ خاصۃ وہذا عند بعضہم‘‘(۱)
’’وأشار بقولہ: منق إلی أن المقصود ہو الإنقاء وإلی أنہ لا حاجۃ إلی التقیید بکیفیۃ من المذکورۃ في الکتب نحو إقبالہ بالحجر في الشتاء وإدبارہ بہ في الصیف لاسترخاء الخصیتین فیہ لا في الشتاء۔ وفي المجتبی: المقصود الإنقاء فیختار ما ہو الأبلغ والأسلم عن زیادۃ التلویث‘‘(۲)
(۲) برہان الدین، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الأول في الوضوء فصل في الاستنجاء وکیفیتہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء: مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۸۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص104
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مسواک کے اوقات استحباب کے بارے میں علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد، منھ میں بدبو پیدا ہونے کے وقت، مجلس میں بیٹھنے سے قبل، گھر میں داخل ہونے کے وقت مسواک کرنا مستحب ہے ۔ اسی طرح نماز کے وقت اور وضو کے وقت بھی مسواک کرنا مستحب ہے۔فإنہ یستحب في حالات منہا: تغیر الفم و القیام من النوم إلی الصلوٰۃ۔ ودخول البیت۔ والاجتماع بالناس۔ و قراء ۃ القرآن لقول أبي حنیفۃ(۴)
نیز قرآن کی تلاوت سے پہلے مسواک کرنا امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مستحب ہے۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في دلالۃ المفہوم،‘‘ج۱، ص:۲۳۳؛ و یتأکد طلبہ عند ارادۃ الصلاۃ، و عند الوضوء و قراء ۃ القرآن والاستیقاظ من النوم و عند تفسیر الفم (بدالدین العیني،البنایۃ شرح الہدایہ، ’’کیفیۃ الاستیاک،‘‘ ج۱، ص:۲۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص204
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر وہ جگہ مذکورہ شخص سے قریب ہے تو خود یا بذریعہ خط وغیرہ اہل مسجد کو مطلع کر دیا جائے کہ فلاں روز کی نماز کسی وجہ سے درست نہیں ہوئی،(۱) اس روز جو حضرات جماعت میں شریک تھے اپنی اپنی نماز لوٹا لیں، یہ بات نماز وجماعت کے اس وقت بتا دی جائے کہ جس میں زیادہ نمازی آتے ہوں اور امام جس نے نماز پرھائی اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔
(۱) ولنا قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الإمام ضامن معناہ تتضمن صلاتہ صلاۃ القوم وتضمین الشيء فیما ہو فوقہ یجوز وفیہا ہو دونہ لا یجوز وہو المعنیٰ في الفرق فإن الفرض یشتمل علی أہل الصلاۃ فإذا کان الإمام مفترضاً فصلاتہ تشتمل علی صلاۃ المقتدي وزیادۃ فصح اقتداء ہ بہ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلوۃ، باب أذان العبد والأعمی وولد الزنا والأعرابي‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص40
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہونچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کرے وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔
’’إن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤ مکم خیار کم فإنھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبراني وفي روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے کہ: تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیوں کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے۔
فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے:
’’فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجھا ثم للأشرف نسباًثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوباً‘‘(۲)
الحاصل: امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جودین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو اگر سرکاری ٹیچر دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور ان سے کوئی بہتر نہ ہو تو ان کی امامت اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز درست ہے، نیز امام صاحب ٹیچر کی ذمہ داریاں پوری کر کے تنخواہ لے رہے ہیں اس لیے ان کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز بلا کراہت درست ہے۔
’’قال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللّٰہ تعالی: اختلف الناس في أخذ الجائزۃ من السلطان، قال بعضہم: یجوز ما لم یعلم أنہ یعطیہ من حرام، قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی: وبہ نأخذ ما لم نعرف شیئا حراما بعینہ، وہو قوْل أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وأصحابہ کذا في الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وفي شرح حیل الخصاف لشمس الأئمۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن الشیخ أبا القاسم الحکیم کان یأخذ جائزۃ السلطان وکان یستقرض لجمیع حوائجہ وما یأخذ من الجائزۃ یقضی بہا دیونہ‘‘(۲)
(۱) أخرجہ الحاکم، في المستدرک علی الصحیحین: ج ۳، ص: ۲۲۲، رقم: ۷۷۷۔
(۲) الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۸۳، ۸۴۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۲۔
(۲) أیضاً۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص65