اسلامی عقائد

Ref. No. 2737/45-4261

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام اہل السنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ برزخ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ دنیوی کے ساتھ زندہ ہیں۔ لہٰذا منکر حیات النبی قطع نظر اس کے وہ کسی جماعت سے نسبت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اہل السنہ والجماعہ سے خارج ، مبتدع اور اہل ہویٰ میں سے ہے۔ لہذا اگر امام عقیدہ حیات النبی ﷺ کا منکر ہے  تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ البتہ اب تک جو نمازیں پڑھی گئی ہیں وہ ادا ہوچکی ہیں ان کے لوٹانے کی ضرورت نہیں۔

فتلک حیاة أخری لا من جنس الحیاة الدنیویة فھو میت باعتبار ہذہ الحیاة الدنیویة حيٌ باعتبار تلک الحیاة البرزخیة المغایرةلھذہ الحیاة۔ (إعلاء السنن)

کما قال ابن القیم في کتابہ کتاب الروح الرابع تعلقہا بہ في البرزخ فإنہا وإن وتجردت عنہ فإنہا لم تفارقہ فراقًا کلیًا بحیث لا یبقی بھا التفات إلیہ البتة? (کتاب الروح، المسألة السادسة ہل الروح تعاد إلی المیت في قبرہ وقت السوٴال أم لا، ص:۶۰، مکتبہ فاروقیہ پشاور)

نوٹ: اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے امام سیوطی کا رسالہ ?شرح الصدور، انباء الأذکیاء بحیاة الأنبیاء? ابن قیم علیہ الرحمة کی کتاب الروح، اور مولانا یوسف صاحب کا رسالہ  مسئلہ حیات النبی  کا مطالعہ کیا جائے جو آپ کے مسائل اور ان کا حل کی دسویں جلد میں مذکور ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں پیشاب کے شدید تقاضے کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حکم یہی ہے کہ قضاء حاجت کے بعد میں نماز پڑھے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن أرقم أنہ خرج حاجا أو معتمرًا ومعہ الناس وہو یؤمّہم فلما کان ذات یوم اقام الصلوٰۃ، صلوٰۃ الصبح ثم قال لیتقدم أحدکم وذہب الخلاء فإني سمعت رسول اللّٰہ علیہ وسلم یقول إذا أراد أحدکم أن یذہب الخلاء وقامت الصلوٰۃ فلیبدأ بالخلاء‘‘(۱)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا یحل لرجل یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن یصلی وہو حقن حتی یتخفف‘‘(۲)

(۱) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۸۸، نعیمیۃ دیوبند
(۲) أخرجہ ابوداؤد، في صحیحہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب أ یصلی الرجل وہو حاقن‘‘: ج ۱، ص: ۱۲، نعیمیۃ دیوبند
قولہ (وصلاتہ مع مدافعۃ الأخبثین الخ) أي البول والغائط: قال في الخزائن: سواء کان بعد شروعہ أو قبلہ فإن شغلہ قطعہا إن لم یخف فوت الوقت وإن خاف أتمہا أثم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب ما یفسد الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۸، زکریا دیوبند)

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص394

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ایک اہم عبادت ہے، اور نماز کی ادائیگی میں عبادت ہی کا پہلو پیش نظر رہنا چاہئے۔ تاہم یہ بھی مسلم ہے کہ نما ز میں ورزش بھی بہت عمدہ ہے، یہ طبی طور پر تسلیم شدہ ہے، اس میں ماہرین طب کی بات معتبر ہے۔(۱)
(۱)  فلم یجعل قصدہ تشـریکاً وترکاً للإخلاص بل ہو قصد العبادۃ علی حسب وقوعہا لأن من ضرورتہا حصول الحمیۃ أو الـتـداوي۔ (شرح الحموي علی الأشباہ، ’’الفن الأول في القواعد الکلیۃ، النوع الأول: القاعدۃ الثانـیـۃ: الأمور بمقاصدہا‘‘: ص: ۱۴۳، دار الکتاب دیوبند)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص: 41 و 42

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام کے لیے طریقہ نیت مقتدی جیسا ہے؛ البتہ اس کے ساتھ مقتدیوں کے لیے امامت کی نیت زیادہ ہے کہ فلاں امام کی اقتداء کی نیت کرتا ہوں امام کو یہ نیت کرنا ضروری نہیں ہے کہ میں مقتدیوں کی امامت کر رہا ہوں۔(۲)

(۲) ولا یحتاج الإمام في صحۃ الاقتداء بہ إلی نیۃ الإمامۃ، حتی لو شرع علی نیۃ الإنفراد فاقتدی بہ یجوز إلا في حق جواز اقتداء النساء بہ، فإن اقتداء ہن بہ لا یجوز ما لم ینو أن یکون إماماً لہن أو لمن تبعہ عموماً۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: الشرط السادس النیۃ‘‘: ص: ۲۱۹، دار الکتاب دیوبند)
والخامس منہا: نیۃ المتابعۃ مع نیۃ أصل الصلاۃ للمقتدي … وقیدنا بالمقتدي لأنہ لا یشترط نیۃ الإمامۃ للرجال بل للنساء۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۲۱، ۲۲۲، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص301

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا مسنون اور احادیث سے ثابت ہے۔
’’حدثنا محمد بن أبي یحییٰ: قال رأیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ورأی رجلا رافعاً یدیہ بدعوات قبل أن یفرغ من صلاتہ فلما فرغ منہا قال: إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ لم یکن یرفع یدیہ حتی یفرغ من صلاتہ‘‘(۱)
’’ما من عبد مؤمن یبسط کفیہ في دبر کل صلوۃ ثم یقول: اللّٰہم إلہي وإلٰہ إبراہیم … إلا کان حقا علی اللّٰہ أن لا یرد یدیہ خائبتین‘‘(۲)
(۱) المعجم الکبیر للطبراني، محمد بن أبي یحییٰ الأسلمي، عن ابن الزبیر‘‘: ج ۱۳، ص: ۱۲۹، رقم: ۳۲۴۔(شاملہ)
(۲) علاء الدین الہندي،کنز العمال، ’’کتاب الأذکار: قسم الأقوال، الفرع الثاني أدعیۃ بعد الصلاۃ ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، رقم: ۳۴۷۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔ عن المطلب عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الصلوٰۃ مثنی مثنیٰ أن تشہد في کل رکعتین وأن تباء س وتمسکن وتقنع بیدیک وتقول اللّٰہم اللّٰہم فمن لم یفعل ذلک فہي خداج۔ (أخرجہ أبوداود في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في صلاۃ النہار‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۳، رقم: ۱۲۹۸، مکتبہ اتحاد، دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص445

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 861 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم:موبائل کی اسکرین پر اگر قرآنی آیات کھلی ہوں تو ان کو چھونا درست نہیں ہے۔ جب تک قرآنی آیات میموری کے اندر ہیں اسکرین پر ہاتھ لگانا یا موبائل چھونا منع نہیں ہے؛  لیکن جب الفاظ اسکرین پر نظر آئیں تو ان کا قرآنی آیات کا سا احترام لازم ہوگا۔ واللہ  اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39/1096

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ان دونوں نمازوں  کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس نیت سے پڑھیں گے اس کے ثمرات مرتب ہون گے ان شاء اللہ۔بغیر نیت کے نماز نہیں ہوتی ہے۔   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 41/874

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال ہے، تاہم اگر کسی مفسدہ کا اندیشہ ہو تو لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1671/43-1341

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کی درستگی کا مسئلہ بہت اہم ہے، ، حدیث شریف میں صفوں کی درستگی پر بہت زور دیاگیا ہے اور اس میں کوتاہی پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسجد میں مقتدی حضرات صف میں کب کھڑے ہوں، اس سلسلہ میں مختلف طریقے ثابت ہیں:

 (1) امام جب اپنے کمرے سے باہر آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی حضرات کھڑے ہوجائیں، اور صفیں درست کرلیں،۔  (2) امام  جس صف سے گزرے اس صف کے مقتدی حضرات کھڑے ہوتے ہیں اور صفیں درست کرتے رہیں۔ (3) مؤذن اقامت شروع کرے اور مقتدی حضرات اپنی صفیں درست کرلیں اور پھر نماز شروع کریں۔ اول الذکر دونوں طریقے اسی وقت قابل عمل ہیں جبکہ امام اپنے کمرے سے نکلے اور مسجد میں پہلے سے موجود نہ ہو۔  لیکن اگر امام پہلے سے مسجد میں موجود ہو جیسا کہ آج کل عموما ہوتاہے تو پھر تیسرا طریقہ اختیار کریں کہ اقامت کے شروع سے ہی لوگ کھڑے ہوکر صفیں درست کرنا شروع کردیں تاکہ اقامت ختم ہوتے ہی جب امام نماز شروع کرے تو تکبیر اولی کے ساتھ مقتدی نماز شروع کرسکیں ۔ اگر لوگ حی علی الصلوۃ تک اپنی جگہ بیٹھے رہیں گے  تو اما م کے نماز شروع کرنے سے پہلے صفیں درست نہیں کرسکیں گے۔ جن کتابوں میں " حی علی الصلوۃ "پر کھڑے ہونے کی بات لکھی ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے  کہ حی علی الصلوۃ کے بعد بیٹھے رہنا درست نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حی علی الصلوہ سے پہلے کھڑاا ہونا درست نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی ، باب مایتعلق بالاقامۃ ، 3/526 زکریا دیوبند) وقال الطحاوی تحت قولہ : والقیام لامام و مؤتم والظاہر انہ احتراز عن التاخیر لاالتقدیم حتی لو قام اول الاقامۃ  لاباس بہ۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر ، باب صفۃ الصلوۃ 1/215، بیروت) (شامی، آداب الصلوۃ 2/177 زکریا دیوبند)   

حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّاسَ، " كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيَقُومُ النَّاسُ لِلصَّلَاةِ، وَلَا يَأْتِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:120] مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ " (المراسیل لابی داؤد، جامع الصلاۃ 1/119) (مصنف  عبدالرزاق ، باب قیام الناس عندالاقامۃ  1/507)  (فتح الباری، باب لایقوم الی الصلوۃ مستعجلا 2/120)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 219/44-2339

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض نے جو دوا آرڈر پر بنوائی ہے اور وہ دوا بن کر تیار ہوگئی تو اب مریض کو اختیار نہیں کہ وہ دوا لینے سے انکار کردے، اس لئے جب دوا بن کر تیار ہوگئی تو وہ دوا مریض کی ملک ہوگئی۔ کمپنی نے دوا بھیجی تو کمپنی نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، اب اگر دوا پہنچنے سے پہل؛ے میرض فوت ہوگیا تو چونکہ کمپنی نے اپنا کام پورا کردیاتھا اس لئے وہ پوری رقم کی مستحق ہے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قانون پر دستخط کرنے کی بناء پر اس کی پاسداری آپ پر لازم ہوگی، فقہ کا قاعدہ ہے: :"الناس عند شروطہم"۔ لہذا مریض کے اہل خانہ اس دوا کو وصول کرکے کسی سے بیچ سکتے ہیں۔

وعن ابی یوسف انہ لاخیار لہما ، اما الصانع فلما ذکرنا، واما المستصنع فلان فی اثبات الخیار لہ اضرارا بالصانع لانہ لایشتریہ غیرہ بمثلہ  (ہدایہ ج3ص107 ، اشرفی بکڈپو دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند