Business & employment

Ref. No. 3070/46-4981

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1:۔ مذکورہ معاملہ میں بہت سارے مفاسد پائے جارہے ہیں، اس لئے اس طرح  اجارہ کا معاملہ کرنا  درست نہیں ہے۔  یا تو پورے طور پر ہر چیز میں شرکت کا معاملہ کیاجائے اور نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں یا پھر عمرو کو اجیر رکھ کر کام کرایا جائے اور اس کو متعینہ اجرت دی جائے، تبھی معاملہ درست  ہوسکتاہے۔ 2:۔ گائے کے دودھ کو اجرت کے طور پر متعین کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ گائے کتنا دودھ دے گی  معلوم نہیں ہے اس لئے اجرت مجہول ہے، اور ہوسکتاہے کہ بالکل بھی دودھ نہ دے تو اجیر کو کچھ بھی اجرت نہیں ملے گی ۔ اس لئے یہ  معاملہ جائز  نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.   No.  3069/46-4922

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ قبر میں نیک اور برے ہمسایہ کا اثر دوسرے مردوں تک پہنچتا ہے۔ "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیک لوگوں کی  قبروں کے درمیان دفن کرو، اس واسطے کہ مردوں کو برے ہمسائے سے تکلیف پہنچتی ہے، جیسے زندوں کو برے ہمسایہ سے تکلیف پہنچتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارا کوئی مر جائے تو اس کو اچھا کفن دو اور جلدی لے جاؤ، اور قبر گہری تیار کرو، ،اور برے ہمسایہ سے اس کو دور رکھو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آخرت میں بھی نیک ہمسایہ سے نفع ہوتا ہے؟ آپ نے پوچھا دنیا میں نفع ہوتا ہے، سب نے عرض کیا : ہاں ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اسی طرح آخرت میں بھی ہوتا ہے۔"

 نیک ہمسایہ کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کرنا یا عذاب دور کردینا یہ اللہ تعالی کا فعل ہے،  کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی کے عذاب میں کمی کردے یا کسی سےعذاب دور کردے یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ۔  اس سلسلہ میں کسی پیر ،  ولی یا نبی کو خود مختارسمجھنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔

تاہم جس کی برائیاں ظاہر ہوں اس کو نیک لوگوں کے درمیان دفن  کرنے سے نیک لوگوں کو تکلیف ہوگی، اس لئے ایسے شخص کی تدفین نیک لوگوں سے  دورکرنی چاہئے۔

"وأخرج أبو نعيم، وابن مندة ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين، فإن الميت يتأذى بجار السوء ، كما يتأذى الحى بجار السوء .۔۔واخرج ابن عساكر في تاريخ دمشق ، بسند ضعيف ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله ﷺ : ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء  ..""وأخرج الماليني عن ابن عباس عن النبي الا الله قال : إذا مات لأحد كم ا لميت ، فأحسنوا كفته، وعجلوه بإنجا زوصيته وأعمقوا له في قبره ، وجنبوه الجار السوء ، قيل يا رسول الله !وهل ينفع  الجار الصالح في الاخرة:قال هل ينفع في الدنيا،قال: نعم، قال:كذالك ينفع في الاخرة..." (شرح الصدور بشرح حال المونى والقبور ،با ب دفن العبد في الأرض التى خلق منها ،ص: 133۔۔۔ 135، ط: المكتبة التوفيقية)

قال علماؤنا: ويستحب لك ـ رحمك الله ـ أن تقصد بميتك قبور الصالحين.ومدافن أهل الخير.فندفنه معهم، وتنزله بإزائهم، وتسكنه في جوارهم، تبركا بهم، وتوسلاً إلى الله عز وجل بقربهم، وأن تجتنب به قبور من سواهم، ممن يخاف التأذي بمجاورته، والتألم بمشاهدة حاله حسب ما جاء في الحديث."(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي (ت ٦٧١)، ص:٣١٥،  ط:دار المنهاج)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3063/46-4895

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا اور شوہر نے اس کو منظور کرلیا توخلع درست ہوگیا اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ خلع کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جس طرح طلاق کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور جس طرح فون پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح فون پر خلع بھی صحیح ہوجاتاہے۔

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No. 3067/46-4931

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this regard, you had better refer to Hafiz Ibne Hazm's book Ismat e Anbiyya translated by Hidayatullah Nadwi, and Risala Bayyinat by Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri, as well as Darul Uloom's online Fatwa No. 40922. And also you can show it to your brother. Everyone should refrain from discussing the disputes of the Prophets and Companions. This is the tact of Ahle Sunnat wal Jamaat.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Fiqh

Ref. No. 3061/46-4896

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فضائل اعمال ایک معتبر کتاب ہے، اور پانچ منٹ کا مدرسہ بھی معتبر ہے، دونوں کتابیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہی لکھی گئی ہیں، دونوں میں قرآن و حدیث ہی کی باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں کتابوں میں سے کوئی بھی تعلیم کے لئے منتخب کی جاسکتی ہے، اور کونسی کتاب زیر تعلیم ہو اس سلسلہ میں امام صاحب کو اختیار دیدینا چاہئے ورنہ ہر شخص اپنے حساب سے کتابیں لائے گا اور امام کو اپنی مطلوبہ کتاب پڑھنے کا مکلف کرے گا اور اس طرح مسجدکا نظم و نسق ایک مذا ق بن جائے گا۔ مقتدیوں پر لازم ہے  کہ وہ کتاب کی باتوں پر توجہ دیں اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو عمل پر لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اوراختلافی چیزوں میں ہرگز نہ پڑھیں۔ مسجد میں مختلف مزاج و مذاق کے لوگ آتے ہیں اور ہر ایک کی رعایت کرنا امام صاحب کے بس میں نہیں ہے، اس لئے کتاب کا انتخاب امام کے سپرد کردیا جائے، شاید  اسی میں خیرہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3063/46-4895

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The wife demanded khula from her husband and husband accepted it, so the khula with one Talaq e Bain did happen. It is not necessary to have a witness for Khula, just as it is not necessary to have a witness for divorce, and just as divorce takes place over the phone, Khula is also valid over the phone.

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Ijmaa & Qiyas

Ref. No. 3060/46-4982

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرات ائمہ کے نزدیک ادلہ شرع چار ہیں ان میں سے ایک اجماع امت بھی ہے اور اجماع کی حجیت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، حضور ﷺ نے فرمایا " لن تجتمع امتی علی الضلالۃ (حدیث) اسی طرح حدیث ہے "مارآہ المسلمون حسنا فھو عنداللہ حسن "، اسی طرح قرآن کریم کی آیت ہے " ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلہ جھنم وساءت مصیرا"، ۔ اجماع امت حجت شرعیہ ہے البتہ یہ دلیل قطعی ہے یا نہیں، یعنی اس کے منکر کو کافر کہا جاسکتاہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے، قاضی ابوزید دبوسی وغیرہ اس کے قائل ہیں  کہ اجماع دلیل قطعی ہے اور اس کا منکر کافر ہے ، دوسرا قول رازی اور آمدی  کا ہے کہ اجماع دلیل ظنی ہے اور تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جن صورتوں میں اجماع ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے وہ قطعی ہے اور جس کے اجماع ہونے میں اختلاف ہے وہ دلیل ظنی ہے ۔ امام غزالی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی اجماع کسی دلیل قطعی جیسے قرآن یا خبر متواتر پر مبنی ہے تو اس کے منکر کو کافر کہاجاسکتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اجماعی مسئلہ کے منکر کو کافر نہیں کہا جاسکتاہے۔ (ماخوز قاموس الفقہ 1/530)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3058/46-4893

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا اپنی جائداد کووقف علی الاولاد کرنا  شرعا معتبر ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس طرح وقف کرنا جائز ہے ،اور اِس سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے کہ ایک شخص کتنی جائداد وقف کر سکتا ہے ۔ اور اس سلسلہ میں آپ کا اپنی اولاد کو اپنے اعتماد میں لینا اور ان کا اس وقف پر راضی ہوجانا بھی شرعا پسندیدہ عمل ہے۔

متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ  وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3059/46-4894

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پسندیدہ نکاح یہی ہے کہ والدین کی رضامندی سے کیاجائے تاہم اگر بالغ لڑکا و لڑکی دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں تو نکاح فقہ حنفی کے اعتبار سے درست ہوجاتاہے،  نکاح کے بعد میاں بیوی کا اپنے گھروالوں کو نکاح کے بارے میں  بتانا شرعا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر نکاح میں ایک متعینہ مدت کی شرط  لگائی گئی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور یہ نکاح  دائمی  ہی ہوگا۔ جب نکاح ہوگیا تو میاں بیوی کا آپس میں ملنا، بوس و کنار ہونا سب کچھ  جائز ہوگیا اب شرعا کوئی ممانعت نہیں رہی۔تاہم سب کے سامنے بوس و کنار ہونا بے حیائی ہے اورناجائز ہے۔ اپنی بیوی سے بھی تنہائی میں ہی ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اگر میاں بیوی تنہائی میں نہیں ہوتے ہیں تو عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی۔ لہذااگر میاں بیوی کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے بھی خلوت (تنہائی) ہوگئی اور پھر طلاق ہوئی  تو بیوی پر عدت واجب ہے اور اگر خلوت بالکل نہیں ہوئی تو عدت واجب نہ ہوگی۔  خفیہ نکاح کرنے کے بعد جب والدین راضی ہوجائیں تو سب کے سامنے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس کو پہلا نکاح لکھوانے میں کوئی حرج نہیں ، نکاح پر نکاح کرنا پہلے نکاح کو ختم نہیں کرتاہے۔

قال في الدر وسبب وجوبہا عقد النکاح التأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوة أي صحیحة قال الشامي إن المذہب وجوب العدة للخلوة صحیحة أو فاسدةً (الدر مع الرد: ۲م۶۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref.  No.  3051/46-4879

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر شرط کے پائے جانے کی وجہ سے  طلاق واقع ہوگئی۔  طلاق مغلظہ کے واقع ہونے کے بعد عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(الھندیۃ، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠)

"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان." (الھندیۃ، كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند