نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی مجلس کے اختتام کے وقت مذکورہ دعا کا ثبوت حدیث پاک سے ملتا ہے، امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من جلس في مجلس فکثر فیہ لغطہ، فقال: قبل أن یقوم من مجلسہ ذلک! سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک إلا غفر لہ ما کان في مجلسہ ذلک‘‘ (۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھا ہو جہاں بہت سی لغو باتیں ہوئی ہوں تو وہ شخص اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ دعاء پڑھ لے ’’سبحانک اللہم وبحمدک أشہد أن لا إلہ إلا أنت استغفرک وأتوب إلیک‘‘ ترجمہ: اے اللہ تو پاک ہے تیری تعریف کے ساتھ، نہیں ہے کوئی معبود بر حق مگر تو ہی، میں تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں، تو اس مجلس میں جو بھی غلطی ہوئی ہوگی اس کو اللہ بخش دیگا۔
فضائل اعمال کی تعلیم کے بعد یا کسی بھی اس طرح کی مجلس کے اختتام کے بعد دعاء کرنے کی شریعت مطہرہ میں نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ وہ شخص مستحق ثواب ہے، اس لئے اس دعاء کو لوگوں کی وضع کردہ دعاء سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب ما یقول إذا قام من مجلسہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۱، رقم: ۳۴۳۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص392

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: اگر ناپاک بستر پر گیلے پائوں پڑنے سے پائوں پر ناپاکی کے اثرات نمایاں ہوگئے، تو پائوں ناپاک ہوں گے ورنہ نہیں۔ نام أو مشی علی نجاسۃ، إن ظھر عینھا تنجس: و إلا لا۔ (قولہ: نام) أي فعرق، و قولہ: أو مشی: أي: وقدمہ مبتلۃ (قولہ: علی نجاسۃ) أي : یابسۃ لما في متن الملتقی: لو وضع ثوباً رطباً علی ماطین بطین نجس جاف لا ینجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبۃ الثوب من غیر عکس، بخلاف ما إذا کان الطین رطباً۔ اھـ (قولہ: إن ظھر عینھا) المراد بالعین ما یشمل الأثر؛ لأنہ دلیل علی وجودھا، لو عبر بہ کما في نور الإیضاح لکان أولی۔(۲)
(۲)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۰، قولہ: مشی حمام و نحوہ أي کما لو مشی علی ألواح مشرعۃ بعد مشی من رجلہ قذر لا یحکم بنجاسۃ رجلہ مالم یعلم أنہ وضع رجلہ علی موضعہ للضرورۃ: فتح، و فیہ عن التنجیس: مشی في طین أو أصابہ ولم یغسلہ و صلی تجزیہ مالم یکن فیہ أثر النجاسۃ لانہ المانع إلا أن یحتاط، و أما في الحکم فلا یجب۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستنقاء والاستنجاء، ج۱، ص:۵۶۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص446

متفرقات

Ref. No. 2716/45-4225

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ڈاکٹر سند یافتہ ہے اور اس نے بظاہر کوئی غلطی اور لاپرواہی نہیں کی ہے تو ڈاکٹر پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا، ہاں اگر ڈاکٹر نے واقعی لاپرواہی کی ہے جس کی وجہ سے مریض کو نقصان ہوا ہے تو ایسی صورت میں قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے شخص کی تقلید ناقص اور کمزور کہلائے گی، تاہم دوسروں کو چاہیے کہ اس کو حنفی دلائل سمجھائیں تاکہ یہ کمزوری دور ہو جائے اور وہ شخص مضبوط مقلد بن جائے۔ اور خواہش نفسانی سے بچے ، اس کے پیچھے نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۳)

(۳) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ …مِنْکُمْ ج} (سورۃ النساء: ۵۹)
یکونون في وقت یقلدون من یفسد النکاح وفي وقت من یصححہ بحسب الغرض والہوی، ومثل ہذا لا یجوز باتفاق الأمۃ۔ (ابن تیمیۃ، الفتاویٰ الکبریٰ: ج ۳، ص: ۲۰۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص279

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2761/45-4329

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناپاک پانی سے مصالہ یا اینٹیں جو زمین یا دیوار وغیرہ میں لگادی گئی ہیں اور وہ اس طرح ثبت اور نصب کردی گئی ہوں کہ ہلتی نہ ہوں، وہ خشک ہونے کے بعد مثل زمین کے پاک ہوجاتے ہیں، اس لیے جو مکان ناپاک پانی سے تعمیر ہوچکے ہیں وہ پاک ہیں، اسے پاک کرنے کی ضرورت نہیں۔ در مختارمیں ہے۔

’’وحکم آجر ونحوہ کلبن مفروش … کأرض فیطہر بجفاف وکذا کل ما کان ثابتاً فیہا لأخذہ حکمہا باتصالہ بہا فالمنفصل یغسل لا غیر‘‘ (الدر المختار: ج ۱، ص: ۵۱۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سر چھپانا، ٹوپی اوڑھنا اسلامی لباس میں داخل ہے اور اس کی خاص فضیلت واہمیت اسلام نے بیان کی ہے اور کھلے سر سامنے آنا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے اور شرفاء وائمہ کرام وصحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی عادت کے خلاف ہے۔(۱)
’’وتکرہ صلاتہ حاسراً  أي کاشفاً رأسہ للتکاسل در مختار وعن بعض المشائخ أنہ لأجل الحرارۃ والتخفیف مکروہ‘‘(۲)

وتکرہ الصلاۃ حاسراً رأسہ إذا کان یجد العمامۃ وقد فعل ذلک تکاسلاً أو تہاوناً بالصلاۃ، ولا بأس بہ إذا فعلہ تدللاً وخشوعاً، بل ہو حسن، کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مکروہات الصلاۃ و ما لا یکرہ، ومطلب في الخشوع‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،۴۰۸زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص132

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام کے ساتھ فرض نماز پڑھنے والا شخص اللہ اکبر کے بعد ثناء پڑھنے کے بعد خاموشی کے ساتھ قرأت سنے گا؛ کیوںکہ قرآن کریم کی آیت ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}(۱) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے، تو تم لوگ خاموش رہو اور غور سے سنو! تاکہ تم لوگوں پر رحمت نازل کی جائے؛ البتہ مقتدی رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ وغیرہ میں بدستور تسبیحات پڑھے گا، جیسا کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قرائۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ … وقال علي ابن طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، في الآیۃ قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۲)
’’قولہ: (في السریۃ) یعلم منہ نفي القراء ۃ في الجھریۃ بالأولی والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرأ کرہ تحریما) وتصح في الأصح وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ إنھا تفسد ویکون فاسقا وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرء خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}‘‘
’’قولہ (وینصت إذا أسر) وکذا إذا جھر بالأولی۔ قال في البحر:  وحاصل الآیۃ أن المطلوب بھا أمران: الاستماع، والسکوت فیعمل بکل منھما؛ والأول یخص الجھریۃ، والثاني لا، فیجري علی إطلاقہ فیجب السکوت عند القراء ۃ مطلقا‘‘(۳)

(۱) سورۃالأعراف: ۲۰۴۔
(۲) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’الجزء التاسع، سورۃ الأعراف‘‘: ج۲، ص:۲۷۲، ۲۷۳، دارالاشاعت دیوبند۔)
(۳) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۶، ۲۶۷، زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص243

 

متفرقات

Ref. No. 2835/45-4451

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ہم کسی بھی بچے کو از راہ شفقت بیٹا کہہ کر پکارتے  اور بلاتے ہیں، اسی طرح کسی بڑے کو  از راہ  احترام و عظمت  'ابا جی'  یا' بابا' یا 'باباجی' کہدیتے ہیں، اس  لئے  اپنے کفیل کو 'بابا ' وغیرہ کہنا احتراما ہے،  لہذا اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اس میں شبہہ نہ کیاجائے۔ رہی بات اپنی ولدیت اور نسبت تبدیل کرنا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو کہ قطعی حرام ہے۔

قال الحصکفي: ویکرہ أن یدعو الرجل أباہ، وأن تدعو المرأة زوجہا باسمہ۔ قال ابن عابدین: قولہ: ( ویکرہ أن یدعو الخ ) بل لابد من لفظ یفید التعظیم کیا سیدي و نحوہ لمزید حقہما علی الولد والزوجة۔۔۔ (رد المحتار مع الدر المختار: ۶/۴۱۸، کتاب الحظر والاباحة، ط: دار الفکر، بیروت )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

خوردونوش

Ref. No. 1110 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ گٹکہ نشہ آور ہوتا ہے،  نیز گٹکہ پر صاف  لکھاہوتا ہے کہ یہ  جان لیوا اورخطرناک ہے،اس سے بہت سی لاعلاج بیماریاں پیدا ہوسکتی  ہیں، اور آدمی کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں،جبکہ قرآن کریم نے  واضح  طور پر فرمایا ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکة کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ لہذا گٹکہ کھانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس کا استعمال مکرو ہ ہے۔جتنی کثرت ہوگی اسی قدر کراہت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہذا اس سے بچنا لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

                     

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous
Ref. No. 38/ 935 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful Then answer to your question is as follows: Your had a very pleasant dream. Allah Almighty is happy and pleased with him. In addition, you should continue conveying rewards (Isale sawab) to your deceased father. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband