اسلامی عقائد

الجواب وبا للّٰہ التوفیق:نفس دعا ثابت ہے، ’’الدعا مخ العبادۃ‘‘ نیز دعا کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، کسی بھی وقت دعا کرسکتے ہیں، دعا کرنا پسندید عمل ہے قرآن کریم میں ہے {أدعوني استجب لکم} (۱) تاہم کسی وقت کو دعا کے لیے اس طرح خاص کردینا درست نہیں ہے کہ اس وقت دعا کو مباح ہی نہیں، بلکہ لازم وضروری سمجھا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برا سمجھا جائے ایسا کرنا بدعت ہے حدیث ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۲) مذکورہ صورت میں چوں کہ دعا کو اس وقت میں لازم نہیں سمجھا جارہا ہے؛ بلکہ ایک مباح اور پسندیدہ امر کے طور پر دعا کرلیتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی بعض لوگ دعا نہیں بھی کرتے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے؛ اس لیے یہ امر بدعت نہیں ہے۔ (۳)

(۱) (سورۃ غافر: ۶۰)
(۲)  (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۳) عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الدعاء ہو العبادۃ، ثم قرأ: {وقال ربکم ادعوني استجب لکم} (غافر: ۶۰) رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داؤد، والنسائي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات: الفصل الثاني‘‘: ج ۵، ص: ۵۰۲، رقم: ۲۲۳۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے التزام کا ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز اولیٰ ہے۔ تاہم بلا التزام دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۲)

(۲) فافتتاح الدعاء علی اللّٰہ علی ما ہو أہلہ ثم الصلوٰۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإن کان لہ في الشریعۃ … ثم ہذا التزام ثم تشدید النکیر علی التارک کل ذلک بعید عن السنۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۳، ص: ۱۲۵)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ا  ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ،ج۳، ص:۱۱۵ رقم: ۲۹۸۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص507

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ پیر کا اپنے مزعومہ کشف کے ذریعہ نہ ماننے والوں کو بے ایمان،منافق، راندۂ درگاہ کہنا، کھلی ہوئی گمراہی ہے یا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ معاف نہیں ہوئے ایسی گمراہی ہے جس پر کفر کا اندیشہ ہے(۱) اولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا اور اگر احتمال ہوتا بھی، تو قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ان کی معافی کے اعلان کے بعد ایسا عقیدہ انتہائی غلط ہے،(۲) مذکورہ پیر کا لوگوں کو بیعت ہونے کے لئے مجبور کرنا یا خلفاء کے ذریعہ جھوٹی تشہیر کرانا، اپنے جھوٹے مشاہدات بیان کرنا یا کرانا، کسی دیندار جماعت کے بارے میں ایمان پر خاتمہ نہ ہونے کی پیشین گوئی کرنا یا اپنی قدم بوسی کرانا ناجائز ہے، ایسے پیر سے بیعت کا تعلق ختم کر کے علیحدہ ہو جانا فرض اور اس کے ساتھ رہنا حرام ہے، نیز ایسے پیر پر صدق دل سے توبہ کرنا فرض ہے۔(۳)

(۱) وقال مع ذلک إن معاصي الأنبیاء کانت عمداً فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع،  ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
(۲) {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاہلا ۱  لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ  صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہلا ۲  } (سورۃ الفتح: ۱)

(۳) وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر، لا تنفعہ فتویٰ المفتي، ویؤمر بالتوبۃ، والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امرأتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص401

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔(۱) لیکن مروجہ میلاد درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۱)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وإظہار الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من مولدٍ وقد احتوی علی بدعٍ ومحرماتٍ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن محمد، المدخل: ج ۲، ص: ۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص459


 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا التزام درست نہیں ہے(۱) اور کیف ما التفق میں حرج نہیں ہے۔(۲)

(۱) ومنہا وضع الحدود والتزام الکیفیات والہیئات والمعینۃ والتزام العبادات المعینۃ في أوقات معینۃ لم یوجد لہا ذلک التعین في الشریعۃ۔ (أبو إسحاق، الشاطبي، الاعتصام، ’’الباب الأول في تعریف البدع إلخ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵، ۲۶)…(۲) قولہ بزیارۃ القبور أي لا بأس بہا بل یندب کما في البحر عن المجتبیٰ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508

اسلامی عقائد

الجواب:تصور شیخ بوقت مراقبہ کسی مقدس و بزرگ خاص طور پر اپنے پیر و مرشد کا خیال کرنے کو کہتے ہیں تاکہ ان کے نیک اعمال اور زہد و تقویٰ کو دعاؤں کی قبولیت اور جائز مقاصد میں کامیابی کے لئے وسیلہ بنایا جائے، تصور شیخ میں بقول حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ کی صورت کا خیال امر فضول ہے جیسے کسی کے تذکرہ کے وقت کسی کا خیال آتا ہے ایسا ہی تصور شیخ ہے؟ (فیوض قاسمیہ) مشائخ چشتیہ نے اس طریقہ کو علاج نفس و تزکیۂ باطن کے لئے اختیار فرمایا ہے۔ سید الطائفہ حضرت الحاج امداد اللہ قدس سرہ نے اپنے خلیفہ خاص حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو مراقبہ تصور شیخ کے اختیار کرنے کی اجازت و ترغیب دی، حضرت حاجی صاحبؒ اپنے ایک مکتوب بنام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’و اگر فراغ باشد بعد نماز صبح و یا مغرب یا عشاء علیحدہ در حجرہ وغیرہ بہ نشینند و دل را از جمیع خیالات خالی کردہ متوجہ بایں جانب شوند و تصور کنند کہ گویا پیش شیخ خود نشستہ ام و فیضان الٰہی از سینۂ او بسینۂ ام می آید‘‘ (رقومات امدادیہ) حضرت مولاناشاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے جواز کو اختیار فرمایا وہ فرماتے ہیں: ’’والرکن الأعظم ربط القلب بالشیخ علی وصف المحبۃ والتعظیم الخ وہذا السر نزل الشرع باستقبال القبلۃ الخ فیکون کالمراقبۃ‘‘ (القول الجمیل) لیکن مراقبۂ تصورِ شیخ میں شرط ہے کہ جب شیخ سے دور ہو تو تصور و خیال تو یہ رہے کہ گویا میں شیخ کے سامنے ہوں اور اعتقاد پختگی کے ساتھ یہ رہے کہ شیخ اپنے وطن میں ہے ۔(۱)

(۱) وہذہ النسبۃلا تکاد تحصل إلا بصحبۃ المشایخ الکمل الذین استنارت قلوبہم بنور ہذہ النسبۃ العظمیٰ وہي التي لم تزل تنتقل من قلب إلی قلب: ومبدأہا مشکاۃ النبوۃ ومعدن الرسالۃ قلب سیدنا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأما ما سوی ذلک من المجاہدات والأعمال والأخلاق فیمکن تحصیلہا بصرف الہمۃ من غیر احتیاج إلی صحبۃ المشایخ وإن کان حصولہا بصحبتہم مع صرف الہمۃ متیسراً بسہولۃ وبدون صحبتہم متعسراً في کلفۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب: باب الذکر والدعاء‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص402

اسلامی عقائد

Ref. No. 2806/45-4388

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذاق اور غصہ میں بھی اپنے آپ کو کافر کہنا جائز نہیں ہے، ایسا آدمی مرتد کا حکم رکھتاہے، اس لئے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی لازم ہوگا۔ البتہ اگرسخت  مجبوری  ہو اور جان یا عضو کے تلف کا خوف ہو تو ایسی صورت میں دل میں ایمان پر اطمینان کے ساتھ محض زبان سے کلمہ کفر کہنے سے آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوگا، تاہم  ایسی مجبوری میں بھی کلمہ کفر کے تکلم سے احتراز  ہی اولی ہے۔

من ہزل بلفظ کفر ارتدً إلی آخر ما فی ردالمختار (درمختار مع الشامی: ۶/۳۵۶، ط:زکریا، کتاب الجہاد ، باب المرتد)

"مسلم قال: ‌أنا ‌ملحد يكفر، ولو قال: ما علمت أنه كفر لا يعذر بهذا." (الھندیۃ، (کتاب السیر ،باب احکام المرتدین،ج:2،ص:279،ط:رشیدیہ)

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰـكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(106)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1257/42-602

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قبرستان میں پرنالے رکھنا اور کوڑا کرکٹ  - تعمیرات کا  مٹیریل ہو یا کوئی اور قسم کا کچرا -  ڈالنا سب ناجائز ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کی روک تھام کریں۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:

ویکرہ ان یبنی علی القبر او یقعد او ینام علیہ او یوطا علیہ او تقضی حاجۃ الانسان من بول وغائط (کتاب الصلوۃ ، الباب الحادی والعشرون،  فی الجنائز  2/227 زکریا دیوبند) وکرہ تحریما (قضاء الحاجۃ) ای البول والغائط علیھا بل وقریبا منھا وکذا کل مالم یعھد من غیر فعل السنۃ (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی  ص623، کتاب الصلوۃ ، فصل فی زیارۃ القبور، مکتبہ شیخ الھند دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کراما کاتبین انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے  ہیں، قرآن میں ہے (تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ (جو) بہت معزز ہیں، (تمہارے اعمال نامے) لکھنے والے ہیں۔ وہ ان (تمام کاموں) کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو)۔
حضرت ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس (انسان) کے دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔(۱)

(۱) قولہ تعالیٰ: {وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ ہلا ۱۰ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ ہلا ۱۱ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ہ۱۲} یعني وإن علیکم ملائکۃ حفظۃ کراماً فلا تقابلو ہم بالقبائح، فإنہم یکتبون علیکم جمیع أعمالکم۔ ……
عن مجاہد عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أکرموا الکرام الکاتبین الذین لا یفارقونکم إلا عند إحدی حالتین الجنابۃ، والغائط۔ وروایۃ آخر: لایفارقونکم إلا عند إحدی ثلاث حالات: الغائط والجنابۃ، والغسل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الإنفطار: ۱۲‘‘: ج ۴، ص: ۴۱۷)
(۲) عن ابن جریج رحمہ اللّٰہ تعالیٰ، قال: ملکان أحدہما عن یمینہ یکتب الحسنات وملک عن یسارہ یکتب السیئات فالذي عن یمینہ یکتب بغیر شہادۃ من صاحبہ، والذي عن یسارہ لا یکتب إلا عن شہادۃ صاحبہ إلخ۔ (أبو محمد عبد اللّٰہ الأصبہاني، العظمۃ: ج ۳، ص: ۹۹۹، رقم: ۵۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص253

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں بھی شادی ونکاح وغیرہ سارے کام کرنا جائز ہیں، اس کو برا سمجھنا یا بد فال سمجھنا بالکل غلط ہے؛ ایسا عقیدہ خلاف شریعت اور واجب الترک ہے۔(۳)

(۳) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:…  لا عدوي ولا ہامۃ ولانوء ولا صفر۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب السلام: باب لا عدوي ولا طہري لا ہامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۱)
اللہم لا طیر إلا طیرک ولا خیر إلا خیرک ولا رب لنا غیرک۔ (مصنف ابن أبي شیبہ، ’’باب من رخص في الطیرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۶۴۱۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص460