Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اس قسم کی رسوم اور پابندیاں جن کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت اور نہ ہی ائمہ دین سے اس کا ثبوت ہے؛ اس لئے مذکورہ کام باعث گناہ اور بدعت ہے۔(۱) ایسے ہی حلال چیز کو حرام سمجھنا بھی باعث گناہ ہے اور ان مذکورہ کاموں کو چھوڑ دینا ضروری اور لازمی ہے اور جو کام اب تک کیا اسی وقت توبہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا پکانا اور غرباء کو کھلانا باعث ثواب ہے۔ اس میں کسی تاریخ یا دن کو ثواب سمجھ کر ہمیشہ کے لیے مقرر کرلینا محض اپنے خیال میں (جس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو) باعث گناہ اور بدعت ہے اس کو ترک کر دینا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ائمہ دین سے جو طریقہ ثابت ہے اسی پر عمل کرنا چاہئے کہ اس میں نجات ہے، حدیث میں ہے۔ ’’کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔(۲) عید کا دن خوشی اور اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے۔ اس دن میں میٹھی چیز پکانا یا کھانا سلف صالحین کی سنت ہے؛ لیکن خوشی اور انعام کے دن میں حلال شئ مثلاً گوشت ہی کو اپنے اوپر حرام کرلینا کس قدر بدنصیبی اور بدبختی کی بات ہے، اور صورت مسئول عنہا میں جس سخت رسم کا ذکر ہے وہ تو ناجائز کیا؛ بلکہ حرام کے درجہ میں ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے اور اس جاہلانہ اور گندی رسم کو بالکل بند کردینا ضروری ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۲) أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
۱) من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، ج ۳، ص: ۱۱۵، رقم: ۲۹۸۸)
{ٰٓیاَیُّھَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ج تَبْتَغِيْ} (سوۃ التحریم: ۱)
فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج1ص505
اسلامی عقائد
Ref. No. 2148/44-2232
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص شرعا معذور ہے ، اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ دماغی مریضوں کے مخصوص ادارہ یا اسپتال میں داخل کردیا جائے، تاکہ اس کے ضرر سے بچاجاسکے، اس سلسلہ میں قانونی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال مذکور میں امام صاحب کی بات بالکل صحیح ہے، عذاب قبر برحق ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’’ویسلط علیہ عقارب وثعابین لو نفخ أحدہم في الدنیا ما أنبتت شیئاً تنہشہ وتؤمر الأرض فتضم حتی تختلف أضلاعہ‘‘ (۱)
جو شخص قبر میں منکر نکیر کا صحیح جواب نہیں دے گا اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلط کردئے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہو جائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔
’’یکفر بإنکار رؤیۃ اللّٰہ تعالیٰ عز وجل بعد دخول الجنۃ، وبإنکار عذاب القبر‘‘(۲)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے عذاب قبر کا منکر کافر ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے علاوہ امت مسلمہ کے قطعی عقیدے کی تکذیب کرنا ہے۔
’’عذاب القبر وقد ورد الشرع بہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: النار یعرضون علیہ غدوا وعشیا: واشتہر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والسلف الصالح الاستعاذۃ من عذاب القبر وہو ممکن فیجب التصدیق بہ‘‘(۳)
(۱) طبراني، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: …، رقم: ۴۶۲۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بیوم القیامۃ وما فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵۔
(۳) محمد بن محمد الغزالي، إحیاء علوم الدین، ’’الفصل الثالث: من کتاب قواعد العقائد، الرکن الرابع في السمعیات وتصدیقہ علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص252
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی درجہ میں مباح بھی مان لیا جائے، تو التزام اور زبردستی کی اجازت تو نہیں ہوسکتی۔(۱)
(۱) ودلت المسألۃ أن الملاہي کلہا حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۸)
عن عبد اللّٰہ بن السائب یزید عن ابیہ، عن جدہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: ((لا یأخذن أحدکم متاع أخیہ لاعباً، ولا بادّاً)) وقال سلیمان: ((لا لعباً ولا بدًّا)) ومن أخد عصا أخیہ فلیردہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ: ج ۲، ص: ۴۲۲، رقم: ۵۰۰۳)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پھول جھالر وغیرہ سے زیب وزینت کرنا عیدگاہ کی آمدنی سے جائز اور درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی آمدنی وقف علی اللہ ہے اور وقف کو خرچ کرنا ایسے کاموں پر جائز نہیں ہے(۲)۔ اور ذاتی پیسوں سے یا چندے کے پیسے سے جھالر لگانا ناجائز تو نہیں؛ لیکن کار ثواب بھی نہیں ہے اس لیے اس میں اسراف سے کام لینا درست نہیں ہے۔ (۱)
(۲) شرط الواقف کنص الشارح أي في المفہوم والدلالۃ ووجوب العمل بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في قولہم شرط الواقف کنص الشارع‘‘: ج ۶، ص: ۶۴۹)
(۱) {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاہ۲۷} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص506
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردہ پیر کے مرید ہونے کے کوئی معنی نہیں، اس لیے اپنی اصلاح وتربیت کے لیے بیعت کی جاتی ہے جب آدمی زندہ نہیں، تو ان سے تربیت کس طرح ہوگی(۱) بالغ اولاد پر والدین کو زبردستی کا یہ حق نہیں ہے۔ اگر مجلس عام ہے تو اس میں شرکت کی گنجائش ہے اور اگر خاص ہے ان کے مریدین اور مجلس کے شرکاء کے لئے تو پھر اس میں عام لوگوں کی شرکت درست نہیں ہے۔(۲)
(۱) لأن الفرض من البیعۃ أمرہ بالمعروف ونہیۃ عن المنکر وإرشادہ إلی تحصیل السکینۃ وإزالۃ الرذائل وإکتساب الحمائد الخ۔ (الشاہ الولي اللّٰہ الدہلوي، القول الجمیل مع شرحہ شفاء العلیل: ص: ۱۴)
فإذا عرفت أن الأخلاق الحسنۃ تارۃ تکون بالطبع والفطرۃ وتارۃ باعتبار الأفعال الجمیلۃ وتارۃ بمشاہدۃ أرباب الأفعال الجمیلۃ ومصاحبتہم۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف: باب الترغیب في مکارم الأخلاق‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۱)
(۲) وعن خنساء بنت خذام: أن أباہا زوجہا وہي ثیب فکرہت ذلک فأتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرد نکاحہا۔ رواہ البخاري وفي روایۃ نکاح أبیہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الولي في النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰، رقم: ۳۱۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص400
اسلامی عقائد
Ref. No. 2272/44-2433
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قدرتی طور پر جتنی داڑھی ہے، اسی کو باقی رکھنا مناسب ہے تاہم بالوں کو بڑھانے والے پاک تیل کا استعمال بھی جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وبا للّٰہ التوفیق:نفس دعا ثابت ہے، ’’الدعا مخ العبادۃ‘‘ نیز دعا کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے، کسی بھی وقت دعا کرسکتے ہیں، دعا کرنا پسندید عمل ہے قرآن کریم میں ہے {أدعوني استجب لکم} (۱) تاہم کسی وقت کو دعا کے لیے اس طرح خاص کردینا درست نہیں ہے کہ اس وقت دعا کو مباح ہی نہیں، بلکہ لازم وضروری سمجھا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو برا سمجھا جائے ایسا کرنا بدعت ہے حدیث ہے ’’من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘(۲) مذکورہ صورت میں چوں کہ دعا کو اس وقت میں لازم نہیں سمجھا جارہا ہے؛ بلکہ ایک مباح اور پسندیدہ امر کے طور پر دعا کرلیتے ہیں، اس لیے کبھی کبھی بعض لوگ دعا نہیں بھی کرتے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے؛ اس لیے یہ امر بدعت نہیں ہے۔ (۳)
(۱) (سورۃ غافر: ۶۰)
(۲) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
(۳) عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الدعاء ہو العبادۃ، ثم قرأ: {وقال ربکم ادعوني استجب لکم} (غافر: ۶۰) رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داؤد، والنسائي وابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الدعوات: الفصل الثاني‘‘: ج ۵، ص: ۵۰۲، رقم: ۲۲۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے التزام کا ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز اولیٰ ہے۔ تاہم بلا التزام دعاء مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (۲)
(۲) فافتتاح الدعاء علی اللّٰہ علی ما ہو أہلہ ثم الصلوٰۃ علیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإن کان لہ في الشریعۃ … ثم ہذا التزام ثم تشدید النکیر علی التارک کل ذلک بعید عن السنۃ۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن: ج ۳، ص: ۱۲۵)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ا ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ،ج۳، ص:۱۱۵ رقم: ۲۹۸۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص507
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ پیر کا اپنے مزعومہ کشف کے ذریعہ نہ ماننے والوں کو بے ایمان،منافق، راندۂ درگاہ کہنا، کھلی ہوئی گمراہی ہے یا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ معاف نہیں ہوئے ایسی گمراہی ہے جس پر کفر کا اندیشہ ہے(۱) اولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا اور اگر احتمال ہوتا بھی، تو قرآن کریم اور صحیح احادیث سے ان کی معافی کے اعلان کے بعد ایسا عقیدہ انتہائی غلط ہے،(۲) مذکورہ پیر کا لوگوں کو بیعت ہونے کے لئے مجبور کرنا یا خلفاء کے ذریعہ جھوٹی تشہیر کرانا، اپنے جھوٹے مشاہدات بیان کرنا یا کرانا، کسی دیندار جماعت کے بارے میں ایمان پر خاتمہ نہ ہونے کی پیشین گوئی کرنا یا اپنی قدم بوسی کرانا ناجائز ہے، ایسے پیر سے بیعت کا تعلق ختم کر کے علیحدہ ہو جانا فرض اور اس کے ساتھ رہنا حرام ہے، نیز ایسے پیر پر صدق دل سے توبہ کرنا فرض ہے۔(۳)
(۱) وقال مع ذلک إن معاصي الأنبیاء کانت عمداً فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
(۲) {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاہلا ۱ لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا ہلا ۲ } (سورۃ الفتح: ۱)
(۳) وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر، لا تنفعہ فتویٰ المفتي، ویؤمر بالتوبۃ، والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امرأتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص401