اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عیدگاہ تک جاتے ہوئے راستہ میں تکبیر تشریق (عید الفطر میں آہستہ آہستہ اور عید الاضحی میں بلند آواز کے ساتھ) پڑھنا مسنون و مستحب ہے(۱) اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے پس مذکورہ صورت میں اس کے برعکس جھنڈے لے کر جلوس بناکر نظمیں اور اشعار پڑھتے ہوئے جانا یقینا طریقہ مسنونہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے بدعت ہے جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔(۲)

(۱) (اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد) ہو المأثور عن الخلیل۔ والمختار أن الذبیح إسماعیل۔ فقال: تکبیر التشریق سنۃ ماضیۃ نقلہا أہل العلم وأجمعوا علی العمل بہا۔ قال العینی: صفتہ  (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)
(۲) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص504

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی متعدد کتابوں میں نصوص مذکور ہیں کہ جس طرح انسان دنیا میں سمجھ بوجھ عقل وشعور رکھتا ہے، ایسے ہی عالم برزخ وقبر میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی عقل وشعور لوٹا دے گا: مسند احمد میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت نقل کی ہے: ’’عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذکر فتاني القبر، فقال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: وأترد علینا عقولنا یا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، فقال: نعم کہیئتکم الیوم، قال: فبفیہ الحجر‘‘۔(۱) (۱) محمد ابن حبان، في صحیح ابن حبان، ’’ذکر الأخبار بأن الناس یسألون في قبورہم‘‘: ج ۷، ص: ۳۸۴، رقم: ۳۱۱۵۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص251

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناجائز ہے، کوئی گنجائش نہیں، اس رسم کو بھی بند کرانے والے عنداللہ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔(۱)

(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر الجہیني، رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۷)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم والخیر قال الطیبي: ہذا عام في الخلق والخلق والشعار۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الباس: الفصل الأول‘‘: ج ۵، ص: ۹۶، رقم: ۴۳۴۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص457

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:اس قسم کی رسوم اور پابندیاں جن کی اصل نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے ثابت اور نہ ہی ائمہ دین سے اس کا ثبوت ہے؛ اس لئے مذکورہ کام باعث گناہ اور بدعت ہے۔(۱) ایسے ہی حلال چیز کو حرام سمجھنا بھی باعث گناہ ہے اور ان مذکورہ کاموں کو چھوڑ دینا ضروری اور لازمی ہے اور جو کام اب تک کیا اسی وقت توبہ کرنا ضروری ہے۔ تاکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے یہاں پکڑ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نام پر کھانا پکانا اور غرباء کو کھلانا باعث ثواب ہے۔ اس میں کسی تاریخ یا دن کو ثواب سمجھ کر ہمیشہ کے لیے مقرر کرلینا محض اپنے خیال میں (جس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو) باعث گناہ اور بدعت ہے اس کو ترک کر دینا چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و ائمہ دین سے جو طریقہ ثابت ہے اسی پر عمل کرنا چاہئے کہ اس میں نجات ہے، حدیث میں ہے۔ ’’کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔(۲) عید کا دن خوشی اور اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے۔ اس دن میں میٹھی چیز پکانا یا کھانا سلف صالحین کی سنت ہے؛ لیکن خوشی اور انعام کے دن میں حلال شئ مثلاً گوشت ہی کو اپنے اوپر حرام کرلینا کس قدر بدنصیبی اور بدبختی کی بات ہے، اور صورت مسئول عنہا میں جس سخت رسم کا ذکر ہے وہ تو ناجائز کیا؛ بلکہ حرام کے درجہ میں ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے اور اس جاہلانہ اور گندی رسم کو بالکل بند کردینا ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۲) أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
۱) من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا  ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، ج ۳، ص: ۱۱۵، رقم: ۲۹۸۸)
{ٰٓیاَیُّھَا النَّبِيُّ  لِمَ  تُحَرِّمُ  مَآ  أَحَلَّ اللّٰہُ  لَکَ ج تَبْتَغِيْ} (سوۃ التحریم: ۱)


فتاوی دارالعلوم، وقف دیوبند ج1ص505

اسلامی عقائد

Ref. No. 2148/44-2232

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا شخص شرعا معذور ہے ، اس کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ دماغی مریضوں کے مخصوص ادارہ یا اسپتال میں داخل کردیا جائے، تاکہ اس کے ضرر سے بچاجاسکے، اس سلسلہ میں  قانونی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال مذکور میں امام صاحب کی بات بالکل صحیح ہے، عذاب قبر برحق ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’’ویسلط علیہ عقارب وثعابین لو نفخ أحدہم في الدنیا ما أنبتت شیئاً تنہشہ وتؤمر الأرض فتضم حتی تختلف أضلاعہ‘‘ (۱)
جو شخص قبر میں منکر نکیر کا صحیح جواب نہیں دے گا اس پر ایسے بچھو اور سانپ مسلط کردئے جاتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین میں پھونک مار دے تو زمین کے تمام نباتات جل کر راکھ ہو جائیں، پھر زمین کو حکم دیا جاتا ہے اور وہ سکڑ جاتی ہے حتی کہ اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے ہیں۔
’’یکفر بإنکار رؤیۃ اللّٰہ تعالیٰ عز وجل بعد دخول الجنۃ، وبإنکار عذاب القبر‘‘(۲)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے عذاب قبر کا منکر کافر ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے علاوہ امت مسلمہ کے قطعی عقیدے کی تکذیب کرنا ہے۔
’’عذاب القبر وقد ورد الشرع بہ، قال اللّٰہ تعالیٰ: النار یعرضون علیہ غدوا وعشیا: واشتہر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم والسلف الصالح الاستعاذۃ من عذاب القبر وہو ممکن فیجب التصدیق بہ‘‘(۳)

(۱) طبراني، المعجم الأوسط: ج ۵، ص: …، رقم: ۴۶۲۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بیوم القیامۃ وما فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵۔
(۳) محمد بن محمد الغزالي، إحیاء علوم الدین، ’’الفصل الثالث: من کتاب قواعد العقائد، الرکن الرابع في السمعیات وتصدیقہ علیہ السلام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص252

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کسی درجہ میں مباح بھی مان لیا جائے، تو التزام اور زبردستی کی اجازت تو نہیں ہوسکتی۔(۱)

(۱) ودلت المسألۃ أن الملاہي کلہا حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۴۸)
عن عبد اللّٰہ بن السائب یزید عن ابیہ، عن جدہ أنہ سمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول: ((لا یأخذن أحدکم متاع أخیہ لاعباً، ولا بادّاً)) وقال سلیمان: ((لا لعباً ولا بدًّا)) ومن أخد عصا أخیہ فلیردہا۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ: ج ۲، ص: ۴۲۲، رقم: ۵۰۰۳)
وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شيء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین الرجال۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص458

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پھول جھالر وغیرہ سے زیب وزینت کرنا عیدگاہ کی آمدنی سے جائز اور درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی آمدنی وقف علی اللہ ہے اور وقف کو خرچ کرنا ایسے کاموں پر جائز نہیں ہے(۲)۔ اور ذاتی پیسوں سے یا چندے کے پیسے سے جھالر لگانا ناجائز تو نہیں؛ لیکن کار ثواب بھی نہیں ہے اس لیے اس میں اسراف سے کام لینا درست نہیں ہے۔ (۱)

(۲) شرط الواقف کنص الشارح أي في المفہوم والدلالۃ ووجوب العمل بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في قولہم شرط الواقف کنص الشارع‘‘: ج ۶، ص: ۶۴۹)
(۱) {إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًاہ۲۷} (سورۃ الإسراء: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص506

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردہ پیر کے مرید ہونے کے کوئی معنی نہیں، اس لیے اپنی اصلاح وتربیت کے لیے بیعت کی جاتی ہے جب آدمی زندہ نہیں، تو ان سے تربیت کس طرح ہوگی(۱) بالغ اولاد پر والدین کو زبردستی کا یہ حق نہیں ہے۔ اگر مجلس عام ہے تو اس میں شرکت کی گنجائش ہے اور اگر خاص ہے ان کے مریدین اور مجلس کے شرکاء کے لئے تو پھر اس میں عام لوگوں کی شرکت درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) لأن الفرض من البیعۃ أمرہ بالمعروف ونہیۃ عن المنکر وإرشادہ إلی تحصیل السکینۃ وإزالۃ الرذائل وإکتساب الحمائد الخ۔ (الشاہ الولي اللّٰہ الدہلوي، القول الجمیل مع شرحہ شفاء العلیل: ص: ۱۴)
فإذا عرفت أن الأخلاق الحسنۃ تارۃ تکون بالطبع والفطرۃ وتارۃ باعتبار الأفعال الجمیلۃ وتارۃ بمشاہدۃ أرباب الأفعال الجمیلۃ ومصاحبتہم۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الأدب والتصوف: باب الترغیب في مکارم الأخلاق‘‘: ج ۱۸، ص: ۴۶۱)
(۲) وعن خنساء بنت خذام: أن أباہا زوجہا وہي ثیب فکرہت ذلک فأتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرد نکاحہا۔ رواہ البخاري وفي روایۃ نکاح أبیہا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الولي في النکاح‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰، رقم: ۳۱۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص400

اسلامی عقائد

Ref. No. 2272/44-2433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قدرتی طور پر جتنی داڑھی ہے، اسی کو باقی رکھنا مناسب ہے تاہم  بالوں کو بڑھانے والے پاک تیل کا استعمال بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند