اسلامی عقائد

Ref. No. 1675/43-1290

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اوجھڑی کو صاف کرکے اس کو کھانا جائز ہے،  حلال جانوروں کے مندرجہ ذیل اعضاء کا کھانا ممنوع ہے: مادہ کی شرمگاہ، خصیہ، مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی، نر کا ذکر، غدود، پتہ جس میں کڑوا پانی رہتاہے، اور بہنے والا خون۔

کرہ تحریما علی الاوجہ من الشاة سبعة اشیاء وہو الفرج، والخصیہ، والمثانة، والذکر، والغدة، والمرارة، والدم المسفوح للاثر الوارد فی کراہة ذلک لکن فی عد الدم من المکروہ تسامح اھ ج: ۲/۷۴۳قال ابوحنیفة رحمہ اللہ تعالیٰ الدم حرام واکرہ الستة اھ زیلعی: ۶/۶۶۶

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ  محمد اسعد جلال قاسمی

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر میں عذاب وثواب کے سلسلے میں علماء کی مختلف رائےہیں، بعض کے نزدیک عذاب وثواب صرف جسم یا صرف روح کو ہوتا ہے؛ جبکہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: قبر کی زندگی میں عذاب یا نعمتیں جسم اور روح دونوں کو ملتی ہیں:
’’محلہ الروح والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ، وکذا القول في النعیم‘‘(۱)
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہؒ سے قبر کی زندگی کے متعلق سوال کیا: تو انھوں نے جواب دیا عذاب اور ثواب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔
’’وقد سئل شیخ الإسلام عن ہذہ المسألۃ، قال: العذاب والنعیم علی النفس والبدن جمیعا باتفاق أہل السنۃ‘‘(۲)
’’واختلف فیہ أنہ بالروح أو بالبدن أو بہما وہو الأصح منہما إلا أنا لا نؤمن بصحتہ ولا نشتغل بکیفیتہ‘‘(۳)
’’فیعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلا بالجسد‘‘(۴)

(۱) جلال الدین، سیوطی، شرح الصدور، ’’فصل في فوائد ما ہو عذاب القبر ومتی یرفع‘‘: ص: ۳۵۰۔
(۲) ابن قیم، الروح، ’’قول السائل ہل عذاب القبر علی النفس والبدن الخ‘‘: ۵۹۔
(۳) أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن عذاب القبر حق وبیان أن الأرواح تعاد للمیت‘‘: ص: ۱۷۴۔
(۴) علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث عذاب القبر‘‘: ص: ۹۸۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص249

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر اذان اور تکبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں اگر یہ کام کرنا اچھا ہوتا تو حضرات صحابہؓ ضرور اس کام کو انجام دیتے پس ایسا کرنا بدعت اور گمراہی ہے اوردین کے اندر زیادتی ہے ہر مسلمان کو ایسی بدعات سے پرہیز کرنا واجب ہے۔ (۳) البتہ قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے، لیکن قبر سامنے نہ ہو اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھائے تاکہ صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔(۱)

(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)

۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ التثبیت فإنہ ألأٰن یسئل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص368

اسلامی عقائد

Ref. No. 2279/44-2428

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خواب دیکھنے والے کی معیت فی الحال  غیر صالحین کی ہے، اس میں اشارہ ہے کہ ان سے عنقریب نجات حاصل ہوگی اور وہ اصلاح کی طرف بڑھے گا، ۔ آخرت کی نہ صرف فکر لاحق ہوگی بلکہ آخرت سنوارنے کا راستہ ہموار ہوگا ۔ کثیر پانی کے اندر نہانا طہارت حاصل ہونے کی دلیل ہے ، اور پتھر کے اندر گھسنا دین و شریعت کے مضبوط قلعہ میں امان حاصل ہونے کی دلیل ہے ۔ جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو ان کی قوم سے اسی طرح نجات حاصل ہوئی تھی۔ اور یا ارحم الراحمین کا خواب میں دیکھنا اس بات کی دلیل ہے ہے اسماء حسنیٰ میں سے جو اسماء بھی بے ساختہ زبان پر جاری ہوجائیں ان کا ورد کرکے دعائیں کریں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے و للّٰہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بہا  تو جو بھی جائز دعائیں مانگیں گے حسب مصلحت اللّٰہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے ۔ "حصن حصین" دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس میں اسماء حسنیٰ کی خصوصیات بھی درج ہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قطعاً جائز نہیں ہے،(۲) اس طریقہ کو چھوڑ کر توبہ و استغفار لازم ہے۔ (۳)

(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۳) {وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ  یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاہ۱۱۰} (سورۃ النساء: ۱۱۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص369

اسلامی عقائد

Ref. No. 1598/43-1150

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سلسلہ میں آپ خود مختار ہیں، آپ پر کوئی پابندی نہیں اور کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں۔ آپ بکرا اپنی جانب سے کریں  یا حضور ﷺ کی طرف سے، اس میں کوئی  فرق نہیں۔  ایک قربانی واجب ہے وہ بھی ادا ہوگی اور حضور ﷺ کی طرف سے نفلی قربانی ہوگی۔ اس لئے آپ کا دل جس پر مطمئن ہو وہ کرلیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2204/44-2318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صاحب شریعت کے لئے اس طرح کا جملہ  بطور اہانت کے استعمال کرنا موجب کفر ہے، ایسے شخص پر تجدید ایمان لازم ہے۔

ما کان في کونہ کفرا اختلافٌ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح و بالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط، وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمنٌ علی حالہ، ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ و تجدید النکاح، وظاہرہ أنہ أمر احتیاطي۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

وإذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بہا فہي نفي العجز عنہ ومحال أن یوصف غیر اللّٰہ بالقدرۃ المطلقۃ۔ (أبو القاسم الحسین بن محمد، المفردات في غریب القرآن، ’’قدر‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵(

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کا جواب مولانا احمد رضا خان صاحب نے یہ دیا ہے کہ بلاشبہ غیرکعبہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسہ قبر میں علماء کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلہ پر کھڑا ہو یہ ادب ہے پھر تقبیل کیونکر مقصود ہے؛ لہٰذا مذکورہ تمام امور بدعت سیئہ ہیں، جن کو ترک کردینا ضروری ہے۔(۱)

(۱) احکام شریعت: ج ۳، ص: ۳، ۴۔ بہار شریعت: ج ۴، ص: ۱۵۷۔
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ض1ص370

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/990

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے موقع پر کوئی جلسہ وغیرہ کرنا جس میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ بیان کرکے لوگوں کو شریعت کے مطابق شادی کرنے کی ترغیب دی جائے اور غلط رسم و رواج سے لوگوں کو روکا جائے، تو درست ہے۔ اس موقع پر دیگر غیرشرعی امور کے ارتکاب سے بچنا بھی ضروری ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2075/44-2065

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا اور اس کو ضروری بھی نہیں سمجھتا تو اس کا یہ عمل موجب گناہ ہے، لیکن یہ عمل کفریہ نہیں ہے، (2) داڑھی چونکہ انبیاء کی سنت ہے اور جمہور کے مطابق اس کا رکھنا واجب ہے اس لئے اس کا مذاق اڑانا کفریہ عمل ہوگا کیونکہ اس میں استخفاف دین ہے۔ (3) حجاب کا حکم قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو غیرضروری سمجھنا درست نہیں ہے لیکن اس کی وجہ سے تکفیر نہیں ہوگی،  اور نہ ہی تجدید ایمان وتجدید نکاح کی ضرورت ہوگی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند