اسلامی عقائد

Ref. No. 1258/42-590

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ چھ اہم اور بنیادی باتیں ہیں، جبکہ ان کے علاوہ بھی بہت ساری باتیں دین کی ہی ہیں۔ البتہ جو ان چھ نمبرات پر پورے طور سے عمل کرے گا تو دین پر چلنا آسان ہوجائے گا۔ اس لئے تبلیغی جماعت میں ان پر زور دیاجاتاہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  لیکن ان کو پورا دین سمجھنا غلط ہے، تبلیغی جماعت کے ذمہ دار بھی اس کو پورا دین نہیں کہتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتے نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں، وہ تمام بشری تقاضوں سے پاک ہوتے ہیں۔(۱)

(۱) {ھَلْ أَتٰئکَ حَدِیْثُ ضَیْفِ إِبْرٰھِیْمَ الْمُکْرَمِیْنَ ہم ۲۴  إِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ سَلٰمٌ ج قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ہج ۲۵  فَرَاغَ إِلٰٓی أَھْلِہٖ فَجَآئَ  بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ ہلا ۲۶  فَقَرَّبَہٗٓ إِلَیْہِمْ قَالَ ألََا تَأْکُلُوْنََ ہز  ۲۷ } (سورۃ الذٰریات: ۲۴ - ۲۷)
عن ابن عباس {وَعَلَّمَ أٰدَمَ الْأَسْمَآئَ کُلَّھَا} قال علمہ أسماء ولدہ إنسانا إنسانا والدواب، فقیل: ہذا الحمار، ہذ الجمل، ہذا الفرس، وقال: أیضاً: ہي ہذہ الأسماء التي یتعارف بہا الناس: إنسان ودابۃ، وسماء، وأرض، وسہل، وبحر، وجمل، وحمار، وأشباہ ذلک من الأمم وغیرہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ البقرۃ: ۳۱‘‘: ج ۱، ص: ۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص254

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت جبرئیل اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں (۲) اورفرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نور سے پیدا فرمایا ہے ان میں تو الد و تناسل کا وہ طریقہ نہیں ہے جو دنیا میں رائج ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بغیر ماں باپ کے پیدا فرمایا ہے۔ (۱)

(۲) {وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ہلا ۱۶۴} (سورۃ الصافات: ۱۶۴)
{ذُوْمِرَّۃٍط فَاسْتَوٰی ہلا ۶  وَھُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلٰی ہط ۷  } (سورۃ الصافات: ۱۶۴)

(۱) ولا یوصفون بذکورۃ ولا أنوثۃ إذ لم یرد بذلک نقل ولا دل علیہ عقل۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الملائکۃ عباد اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ص: ۱۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص254

اسلامی عقائد

Ref. No. 1594/43-1140

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عام مسلمان کو برا بھلا کہنا گناہ کبیرہ ہے ،اور فسق ہے  لیکن  عالم اورقاضی کو برا بھلا کہنا سخت گناہ اورشدید فسق کا عمل ہے،اور بعض صورتوں میں کفر کا اندیشہ ہے؛  جس سے اجتناب ہر ایک کے لئے لازم ہے۔  تاہم ایسے شخص کو کافر قرار نہیں دیاجائے گا جب تک کہ وہ صریح کسی حکم شرعی کا انکار نہ کرے۔ اس شخص کو بہت شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہئے۔ 

(ومنها ما يتعلق بالعلم والعلماء) في النصاب من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة. ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، (الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر انواع منھا ما یتعلق 2/270) (إذا كان المقول له فقيها) أي: عالما بالعلوم الدينية على وجه المزاح فلو قال بطريق الحقارة يخاف عليه الكفر؛ لأن إهانة العلم كفر على المختار (أو علويا) أي: منسوبا إلى علي - رضي الله تعالى عنه۔ وفي القهستاني ولعل المراد كل متق وإلا فالتخصيص غير ظاهر. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، فصل فی التعزیر 1/612)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 898

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے پُرفتن دور میں مناسب نہیں۔گھر میں تربیت کا ماحول بنائیں تو بہت بہتر ہے اور ثواب بھی زیادہ ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق:(۱) اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ? کے لیے حیات برزگی ثابت ہے،آپ? قبراطہر میں اپنے جسد مبارک کے ساتھ تشریف فرماں ہیں۔الحاوی للفتاوی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔حَیَاۃُ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَبْرِہِ ہُوَ وَسَاءِرِ الْاَنْبِیَاء ِ مَعْلُومَۃٌ عِنْدَنَا عِلْمًا قَطْعِیًّا لِمَا قَامَ عِنْدَنَا مِنَ الْاَدِلَّۃِ فِی ذَلِکَ وَتَوَاتَرَتْ (بِہِ) الْاَخْبَارُ، وَقَدْ اَلَّفَ الْبَیْہَقِیُّ جُزْء ًا فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ فِی قُبُورِہِمْ، فَمِنَ الْاَخْبَارِ الدَّالَّۃِ عَلَی ذَلِکَ مَا اَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْلَۃَ اُسَرِیَ بِہِ مَرَّ بِمُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرِ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَہُوَ قَاءِمٌ یُصَلِّی فِیہِ، وَاَخْرَجَ ابو یعلی فِی مُسْنَدِہِ، وَالْبَیْہَقِیُّ فِی کِتَابِ حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ عَنْ اَنَسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْاَنْبِیَاء ُ اَحْیَاء ٌ فِی قُبُورِہِمْ یُصَلُّونَ، وَاَخْرَجَ ابو نعیم فِی الْحِلْیَۃِ عَنْ یوسف بن عطیۃ قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِیَّ یَقُولُ لحمید الطویل: ہَلْ بَلَغَکَ اَنَّ اَحَدًا یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ إِلَّا الْاَنْبِیَاء َ؟ قَالَ: لَا، وَاَخْرَجَ ابو داود وَالْبَیْہَقِیُّ عَنْ اوس بن اوس الثقفی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہُ قَالَ: مِنْ اَفْضَلِ اَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ فَاَکْثِرُوا عَلَیَّ الصَّلَاۃَ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تُعْرَضُ عَلَیَّ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ تُعْرَضُ عَلَیْکَ صَلَاتُنَا وَقَدْ اَرِمْتَ؟ یَعْنِی: بَلِیتَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَامَ الْاَنْبِیَاء ِ، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی شُعَبِ الْإِیمَانِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِی سَمِعْتُہُ وَمَنْ صَلَّی عَلَیَّ نَاءِیًا بُلِّغْتُہُ.

وَاَخْرَجَ الْبُخَارِیُّ فِی تَارِیخِہِ عَنْ عمار سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ لِلَّہِ تَعَالَی مَلَکًا اَعْطَاہُ اَسْمَاعَ الْخَلَاءِقِ قَاءِمٌ عَلَی قَبْرِی فَمَا مِنْ اَحَدٍ یُصَلِّی عَلَیَّ صَلَاۃً إِلَّا بُلِّغْتُہَا، وَاَخْرَجَ الْبَیْہَقِیُّ فِی حَیَاۃِ الْاَنْبِیَاء ِ، والاصبہانی فِی التَّرْغِیبِ عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ مِاءَۃً فِی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَلَیْلَۃِ الْجُمُعَۃِ، قَضَی اللَّہُ لَہُ مِاءَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الْآخِرَۃِ وَثَلَاثِینَ مِنْ حَوَاءِجِ الدُّنْیَا، ثُمَّ وَکَّلَ اللَّہُ بِذَلِکَ مَلَکًا یُدْخِلُہُ عَلَیَّ فِی قَبْرِی کَمَا یُدْخِلُ عَلَیْکُمُ الْہَدَایَ(حاوی للفتاوی،انباء الاذکیا بحیاۃ الانبیاء،۲/۸۷۱)(۲)آپ? کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا مانگنا احادیث سے ثابت ہے بلکہ خود حضو ر? نے اس طرح دعا مانگنے کی ترغیب و تعلیم دی ہے،اس لیے آپ کے وسیلے سے دعا مانگنے کا انکار اور اسے شرک قرار دینا غلط ہ۔\ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَیْفٍ، اَنَّ رَجُلًا ضَرِیرَ البَصَرِ اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّہَ اَنْ یُعَافِیَنِی قَالَ: إِنْ شِءْتَ دَعَوْتُ، وَإِنْ شِءْتَ صَبَرْتَ فَہُوَ خَیْرٌ لَکَ. قَالَ: فَادْعُہْ، قَالَ: فَاَمَرَہُ اَنْ یَتَوَضَّاَ فَیُحْسِنَ وُضُوء َہُ وَیَدْعُوَ بِہَذَا الدُّعَاء ِ: اللَّہُمَّ إِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ، إِنِّی تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ: ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ(سنن الترمذی حدیث نمبر؛3578)وَمن آدَاب الدُّعَاء تَقْدِیم الثَّنَاء علی اللہ والتوسل بِنَبِی اللہ، لیستجاب الدُّعَاء (حجۃ اللہ البالغۃ 2/10)(3)صحابہ کرام تمام کی تمام عادل اور معیار حق ہیں صحابہ کرام نے حضرت نبی کریم? سے جس قدر دین برحق سیکھا دو دوسروں کو اسی طرح پہنچایا اس میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا،کوء ی حکم نہیں بدلا،کوئی بات آنحضرت? کی طرف غلط منسوب نہیں کی جس بات کو صحابہ کرام نییہ فرمایا کہ یہ حضور? کا ارشاد ہے وہ بالکل صحیح ہے اس کو صحیح ماننا لازم ہے،صحابہ کرام پراگر اعتماد نہ ہو او ران کینقل دین کو حق تسلیم نہ کیا جاء ے تو پھر سارے دین سے اعتماد ختم ہوجائے گااور صحیح دین دوسرے تک پہونچانے کی صورت نہیں رہے گی جیسا کہ روافض نے صحابہ کرام پر اعتماد نہیں کیا تو ان کینزدیک نہ احادیث قابل اعتماد ہیں اور نہ قرآن پر ان کو اعتماد ہے،اۃن کے پاس دین  برحق پہنچنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور وہ اس نعمت الہی اور ذریعہ نجات سے محروم ہیں لہذا عقل دین میں صحابہ معیار حق ہیں (فتاوی محمودیہ۲/۵۰۲)جن حضرات کے یہ خیالات ہیں وہ غلط ہیں ان کو اس سے توبہ کرنا چاہیے تاہم وہ مسلمان ہیں ان کو سلام کرنا،ان کی دعوت قبول کرنا،ان کی پیچھے نماز پڑھنا درست ہے اسی طرح نکاح بھی درست ہے تاہم اگر مصلحت نکاح کے خلاف ہوتو احتراز بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1680/43-1298

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کے سابق استفتاء کے جواب میں یہ تحریر کیا گیاتھا کہ جب تک حرمت کی کوئی دلیل نہیں مل جاتی اس وقت تک ہر چیز پاک شمار ہوگی۔ اور اس کا استعمال بھی جائز ہوگا، کیونکہ حلت کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ حرمت کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو چیز حرام ہوگی اس کی دلیل اور وجہ حرمت کا پایا جانا ضروری ہے۔  البتہ اگر کسی چیز کے سلسلہ میں حلال و حرام کا شبہہ ہو تواس سے احتراز کرنا بہتر ہے اور احوط ہے۔   آج کے دور میں ہر سامان کے اجزائے ترکیبی کوڈ کے ساتھ لکھے ہوتے ہیں ان کو آن لائن چیک کیاجاسکتاہے۔ اگر ان میں کوئی غیرشرعی اجزاء نہ ہوں تو اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

[قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة] (91) قوله: الأصل في الأشياء الإباحة إلخ ذكر العلامة قاسم بن قطلوبغا في بعض تعاليقه أن المختار أن الأصل الإباحة عند جمهور أصحابنا، وقيده فخر الإسلام بزمن الفترة فقال: إن الناس لن يتركوا سدى في شيء من الأزمان، وإنما هذا بناء على زمن الفترة لاختلاف الشرائع ووقوع التحريفات، فلم يبق الاعتقاد، والوثوق على شيء من الشرائع فظهرت الإباحة بمعنى عدم العقاب، بما لم يوجد له محرم ولا مبيح انتهى. (غمز عیون البصائرفی شرح الاشباہ والنظائر 1/223)

ترجيحُ ما يقتضي الحظر على ما يقتضي الإباحة: لأنه أحوطُ، ولقوله صلى الله عليه وسلم: «دعْ ما يَرِيبُك إلى ما لا يَريبُك» (أحمد والترمذي والنسائي وابن حبان عن الحسن بن علي رضي الله عنهما).ـ (اصول الفقہ الذی لایسع الفقیہ جھلہ، ترجیح المثبت علی النافی 1/437)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2321/44-3482

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے مہمل  لوگ پہلے سے کسی کے بارے میں کسی دوسرے سے  کچھ جانکاری حاصل کرلیتے ہیں، اور پھر اس کو اس انداز سے بیان کرتےےہیں کہ جیسے ان کو غیب کی خبر ہو، حالانکہ جوکچھ اس طرح کے پنڈت اور نجومی کسی کے بارے میں بتاتے ہیں، وہ محض ایک اندازہ ہے جو اکثر جھوٹ ثابت ہوتاہے، نیزبعض علامتوں سے کسی چیز کے بارے میں تخمینی بات کہنا غیب کی خبر کے مترادف نہیں ہے، اس لئے عالم الغیب صرف اور صرف حق  جل مجدہ کی ذات ہے،حق تعالی ہی  تمام چیزوں کی پوری پوری خبررکھنے والے ہیں،  اور ہر ایک کے مستقبل سے پوری طرح واقف ہیں۔   جو لوگ ان جھوٹے اور مکار نجومیوں کی  باتوں پر یقین کرکے ان کے پاس جاتے ہیں ان کا ایمان سلب ہوجاتاہے۔ اس لئے  مسلمانوں کو  چاہئے کہ اس طرح کے ڈھونگیوں سے ہوشیار رہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔

- "وعن عائشة قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الملائكة تنزل في العنان - وهو السحاب - فتذكر الأمر قضي في السماء، فتسترق الشياطين السمع فتسمعه فتوحيه إلى الكهان، فيكذبون معها مائة كذبة من عند أنفسهم» ". رواه البخاري".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2904)  ط: دار الفكر، بيروت)

- "وعن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «سأل أناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكهان، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنهم ليسوا بشيء. قالوا: يا رسول الله، فإنهم يحدثون أحياناً بالشيء يكون حقاً. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تلك الكلمة من الحق، يخطفها الجني، فيقرها في أذن وليه قر الدجاجة، فيخلطون فيها أكثر من مائة كذبة» . متفق عليه".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  (7 / 2903) ط: دار الفكر، بيروت)

"وعن حفصة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من أتى عرافاً فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلةً» ". رواه مسلم". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2905) ط: دار الفكر، بيروت)

وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من أتى كاهناً فصدقه بما يقول، أو أتى امرأته حائضاً، أو أتى امرأته في دبرها فقد برئ مما أنزل على محمد» ". رواه أحمد، وأبو داود". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2907) ط: دار الفكر، بيروت)

" باب الكهانة، بفتح الكاف، وكسرها كذا في النسخ، وفي القاموس كهن له كمنع، ونصر، وكرم كهانة بالفتح قضى له بالغيب، وحرفته الكهانة بالكسر اهـ. والمراد بها هنا الأخبار المستورة من الناس في مستقبل الزمان". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (7 / 2902) ط: دار الفكر، بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2560/45-3907

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غیرماکول اللحم جانور کا بول و براز ناپاک ہے، چھپکلی بھی غیرماکول اللحم جانور ہے، لہذا اس کی بیٹ ناپاک ہے، اگر وضوخانہ کی نالی میں پانی جمع رہتاہے اور اس میں چھپکلی کی بیٹ پڑی ہوتو وہ پانی ناپاک ہے، اگر دوران وضو اس کی چھینٹیں بدن یا کپڑے پر لگ جائیں  تو ناپاک ہوں گے۔

وبول غیرماکول اللحم  ولو من صغیر لم یطعم ۔ ۔ ۔ وروث وخثی افاد بھما نجاسۃ خرء کل حیوان غیرالطیور ۔ وقال ابن عابدین (قولہ افاد بھما) اراد بالنجاسۃ المغلظۃ  (رد المحتار مع الدرالمختار- باب الانجاس  ج1ص523 تا 525) واشار بالروث والخثی الی نجاسۃ خرء کل حیوان غیرالطیور (البحر الرائق 2/242 دارالکتاب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1781/43-1520

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت ابوبکر ؓکے بارے میں مذکورہ واقعہ مجھے نہیں ملا، البتہ یہ روایت نو صحابہ سے منقول ہے جن کے اسماء گرامی یہ ہیں: جابر بن عبداللہ ؓ، ابوذرغفاری ؓ، حبیب بن سلمہ فہری ؓ، عبداللہ بن عمر بن الخطاب ؓ، عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ، علی بن ابی طالب ؓ، معاویہ بن دیدہ ؓ ، ابوہریرہ  ؓ، اور حضرت عائشہ  ؓ رضی اللہ عنھا وعنھم اجمعین۔  ان میں حضرت ابوبکر کے واقعہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ ولید بن محمد الکندری  نے حدیث 'زرغبا تزدد حبا دراسۃ حدیثیۃ نقدیۃ ' کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ہے اس میں تمام روایتوں کو جمع کیا ہے لیکن اس میں یہ واقعہ نہیں ہے۔ زیادہ تر کتابوں میں حضرت ابوہریرہ ؓ کا واقعہ ملتاہے۔  

عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يا أبا هريرة أين كنت أمس؟ قال: زرت ناسا من أهلي. وفي لفظ قال زرت ناسا من أهلي من المسلمين. قال: " زر غبا تزد حبا ".

اور بعض میں یہ واقعہ ہے:  

عن أبي هريرة قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من بيت عائشة، فتبعته ثم خرج من بيت أم سلمة فتبعته فالتفت إلي ثم قال يا أبا هريرة: " زر غبا تزدد حبا ". (اللمع فی اسباب ورود الحدیث 1/66)

اکثر محدثین نے حدیث پر کلام کیا ہے ، بعض نے موضوعات میں بھی شمار کیا ہے، اکثر کی سند میں کلام ہے، مگر تعدد طرق کی بناء پر حسن درجہ تک پہونچ کر قابل عمل ہے، اس لئے حضرات محدثین نے واقعہ ہجرت جس میں حضور ﷺ صبح و شام حضرت ابوبکر کے گھر آتے تھے (جو زرغبا تزدد حبا کے خلاف معلوم ہوتاہے)  اس  حدیث کو ذکر کرکے اس کا جواب دیا ہے ، مطلقا وہاں لکھ کر جواب نہیں دیاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند