اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے، اس کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار الرجوع عن ذلک۔ (۱) قال رجل: یا رب أین ستم مبسند۔ قال بعضہم: یکفر والأصح أنہ لا یکفر الخ‘‘۔ (۲)

لیکن ایسے الفاظ کا استعمال کرنا غلط ہے، پریشانی کی حالت میں بھی صبر کے دامن کو تھامے رکھنا ایک مؤمن کی شان ہے؛ لہٰذا احتیاط کے طور پر تجدید نکاح بھی کر لینا چاہئے۔

’’وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح، وفي الشامي:

وتجدید النکاح أي احتیاطاً کما في الفصول العمادیۃ الخ‘‘ (۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

(۲) أیضاً: ’’منہا ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰۔

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷۔

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1982/44-1926

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  سوال میں ذکر کردہ جملے کفریہ جملے ہیں، اس لئے عورت پر تجدید ایمان و تجدید نکاح  ضروری ہے ۔ بندوں پر لازم ہے کہ  مشکلات اور مصائب میں مزید اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔ مگر اس عورت نے  اللہ پر الزام لگاکر مسئلہ کو اور سنگین بنادیا ۔ دنیا دارالاسباب ہے اور بندوں کو ایک گونہ اختیار دیاگیاہے ، اگر کوئی  چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ لے تو اسباب کے درجہ میں ہاتھ کٹ جائے گا، اس میں اللہ پر الزام لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان کفریہ جملوں کی وجہ سے تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہوگیا، اور توبہ کرے کہ آئندہ پھر کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گی۔ اللہ ہم سب کا ناصر ومددگار ہو۔  

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ". (شامی 4/ 224)

 ’’وفي الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمداً لكنه لم يعتقد الكفر، قال بعض أصحابنا: لايكفر؛ لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر، وهو الصحيح عندي؛ لأنه استخف بدينه (البحرالرائق19/488)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے انسان کے بارے میں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ فلاں انسان کب برا کام کرے گا کب نیکی کرے گا کب توبہ کرے گا کس عمل پر اس کو اچھا بدلہ دینا ہے اور کس پر اس کو سزا دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر بات ازل ہی سے ہے، اللہ

تعالیٰ نے ہر انسان کے ہر عمل کو اپنے علم کی وجہ سے پہلے ہی لکھ دیا ہے اب وہ جو بھی کرے گا وہ اس لکھے ہوئے کے مطابق کرے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو لکھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے میں وہ آزاد ہے جو چاہے اپنے اختیار سے کرے؛ لیکن جو بھی وہ عمل کرے گا وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اس کو لکھ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ خالد نے مثلاً کل اپنے اختیار سے سفر کیا اخبار والوں کو اس کا سفر معلوم ہوگیا انہوں نے اخبارات میں شائع کردیا کہ کل خالد سفر کرے گا انہوں نے اپنے علم کی وجہ سے لکھ دیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ کل خالد جو سفر کرے گا وہ اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر کرے گا سفر اس کا اپنے اختیار سے ہوگا البتہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سفر نہیں بھی ہوسکتا اخبارات کی خبر خلاف واقعہ ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے علم کی کمی ہے۔ ان کو حادثہ کا ہونا یا نہ ہونا معلوم نہیں اس لئے وہ اس کی خبر نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ کو وہ حادثہ بھی معلوم ہے بہر حال تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہئے نیز مسئلہ ذرا باریک ہے۔ اور غور طلب ہے۔ اور سمجھنے کا ہے اس لئے اس میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں {مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَاط} (۱) دوسری جگہ ہے: {إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍہ۴۹} (۲)

(۱) سورۃ الحدید: ۲۲۔

(۲) سورۃ القمر: ۴۹۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص 188)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں پر اگر بتی جلانا یا پھول ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اس لیے بدعت کہا جائے گا جو قابل ترک ہے، دفن کرنے کے بعد قبر پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کرنا جائز اور درست ہے؛ البتہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا مناسب نہیں ہے کہ اس میں اشتباہ ضرور ہے۔
اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعاء ہی کرنی ہو تو قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کی جائے۔(۱)

(۱) فما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت وغیرہا وینقل إلی ضرائح الأولیاء تقربا إلیہم فحرام بإجماع المسلمین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصوم: باب الاعتکاف‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۱)
ویستحب …… بعد دفنہ لدعاء وقراء ۃ بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فقد یثبت أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قرأ أول سورۃ البقرۃ عند رأس میت وآخرہا عند رجلیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہر فاطمی مقرر کرنا مستحب؛ بلکہ مسنون اور باعث خیر وبرکت ہے،(۱) جن لوگوں نے مہر فاطمی مقرر کیا ہو، ان کا بائکاٹ یہ کہہ کر کرنا کہ ہمارے مقرر کردہ ضابطوں کے خلاف ہے اور برادری کے خلاف کیا ہے، یہ بہت ہی غلط ہے، ایسا کرنے والے ظالم اور سخت گنہگار ہیں ان کو اپنا ضابطہ ہی ایسا مقرر کرنا چاہئے تھا، جو کہ شریعت کے مطابق ہو اور شریعت میں اس کی نظیر موجود ہو ایسا عرف ورواج جو شرعی اصولوں سے ٹکراتا ہو قابل رد اور قابل ترک ہے۔ البتہ اگر اتنی وسعت نہ ہو تو مہر اس سے کم حسب حیثیت مقرر کر لیا جائے؛ لیکن برادرانہ طور پر عرف نہ بنایا جائے۔(۲)

(۱) یستحب کون الصداق خمسمائۃ درہم۔ (النووي، شرح المسلم، ’’کتاب النکاح: باب الصداق، وجواز کونہ تعلیم قرآن‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۷)
(۲) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)


فتاوی  دار العلوم وقف دیوبندج1 ص461

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش یا فرق ضالہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے واقعات اور کہانیاں گڑھ کے پیش کردیتے ہیں، جو سنہرے نظر آتے ہیں؛ لیکن براہِ راست عقائد پر ان کی زد پڑتی ہے جیسا کہ ایک نصیحت بھی سالہا سال سے چلی آرہی ہے اور لوگ چھپوا چھپوا کر تقسیم کرتے ہیں؛ لیکن وہ ایک یہودی کی ایجاد ہے جس نے مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کے لئے خواب گھڑا۔ سوال میں تحریر کردہ صورت اس سے ملتی جلتی ہے جس پریقین نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ صورت حال واقعی من گھڑت ہے۔ رہی روٹی سے شفا ہوجانے کی بات تو اس میں بڑا دخل قوت ارادی کو بھی ہوتا ہے، یقین کے ساتھ یہ کہنا کہ یہ روٹی ہی باعث شفا بنی مشکل ہوگا اور شرعی ضابطہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اس پر عمل کیا جائے، بلکہ اس کو پھیلنے سے روکا جائے۔(۱

(۱) نیز ایسی باتوں کی اشاعت نہ کی جائے اس سے فتنہ کا اندیشہ ہے اور ہر وہ چیز جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو وہ قابل اشاعت نہیں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب قائم کیا ہے ’’باب من خص بالعلم قوماً دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘ اس باب کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر کو نقل کیا ہے ’’وقال علي -رضي اللّٰہ عنہ- حدثوا الناس بما یعرفون أتحبون أن یکذب اللّٰہ ورسولہ‘‘ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب من خص بالعلم قوماً دون قوم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴، رقم: ۱۲۷)

وقال العیني: أي کلموا الناس بما یعرفون أي بما یفہمون والمراد کلموہم علي قدر عقولہم وفي کتاب العلم لآدم بن أبي إیاس عن عبد اللّٰہ بن داود عن معروف فما آخرہ ودعوا ما ینکرون أي ما یشتبہ علیہم فہمہ۔

أن یکذب: وذلک لأن الشخص إذا سمع مالا یفہمہ ومالا یتصور إمکانہ یعتقد استحالتہ جہلا فلایصدق وجودہ فإذا أسند إلی اللّٰہ ورسولہ یلزم تکذیبہا۔ (بدر الدین العینی، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ’’باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراہیۃ أن لا یفہموا‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تو حسب وضاحت مفسرین و متکلمین اس کے شقی و سعید یعنی جنتی و جہنمی ہونے کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کو مجبور محض کردیا جاتا ہو کہ وہ جو چاہے کرے جہنمی ہی ہوگا اس کا عمل کارآمد نہ ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جو کام ہوگا اللہ تعالیٰ کو اس کے بارے میں پورا علم ہے کہ بندہ دنیا میں کیا کرے گا۔

اچھے کام کرے گا یا برے کام کرے گا اس کا علم خدا تعالیٰ کو بدرجہ اتم ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اپنی عقل وسمجھ سے برے کام کرے یا بھلے، جنت حاصل کرنے کے لئے عبادت و ریاضت کرے یا جہنم کی طرف لے جانے والے کفر وشرک یا گناہ کا ارتکاب کرے بندہ کو اس میں پورا اختیار ہے وہ جو بھی کرنے کا ارادہ کرے گا اس کو اس کے لئے سہل کردیا جائے گا لیکن بندہ اپنے اختیار سے اچھا برا جوبھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم پہلے سے ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے ہی لکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں جہل و خطاء کا شائبہ بھی ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے باخبر ہوتے ہوئے جو لکھ دیا ہے وہی ہوگا الحاصل بندہ مجبور محض نہیں یہ معمولی  وضاحت آپ کے سمجھنے کے لیے کردی گئی ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کے مسئلہ پر بہت زیادہ تفصیل کو پسند نہیں فرمایا ہے اور اگر آپ طالب علم ہیں تو معتبر کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)

۱) سأل (رجل) علي بن أبي طالب، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

وعن سہل بن سعد رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: إن العبد لیعمل عمل أہل النار، وإنہ من أہل الجنۃ، ویعمل عمل أہل الجنۃ، وإنہ من أہل النار، وإنما الأعمال بالخوا تیم، متفق علیہ۔ (أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۰رقم: ۸۳)

وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، وہو الصادق المصدوق: إن خلق أحدکم یجمع في بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یبعث اللّٰہ إلیہ ملکا بأربع کلمات: فیکتب عملہ، وأجلہ، ورزقہ، وشقيّ، أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فوالذي لا إلہ غیرہ إن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل النار فیدخلہا۔ وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل الجنۃ فیدخلہا، متفق علیہ۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۸۲)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص190)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بزرگ کے محض قیام پر وہاں ان کا مزار بنا لینا سخت گناہ ہے(۱) اور پھر وہاں پر چڑھاوے، نذر ونیاز وغیرہ بھی سخت گناہ ہیں(۲) البتہ اس جگہ پر جو مسجد ہے اس میں نماز پڑھنا درست ہے، لیکن وہ عام مسجد کی طرح ہے اس میں نماز پڑھنے پر کسی مخصوص ثواب کا استحقاق نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ صرف تین مساجد کی فضیلت حدیث سے ثابت ہے ان کے علاوہ کسی بھی مسجد کی کوئی مخصوص فضیلت نہیں ہے۔

(۱) من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
قال الکمال: لا یدفن صغیر ولا کبیر في البیت الذي مات فیہ فإن ذلک خاص بالأنبیاء علیہ السلام بل یدفن في مقابر المسلمین۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۱۲)
(۲) بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کر کے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلۂ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے ہیں یہ اصلی مرض یہود ونصاری کا ہے۔ (مفتی محمد شفیع عثمانی، معارف القرآن ، ج:۱، ص: ۳۳۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص373

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مہر عورت کا حق ہے جو کہ شوہر پر واجب ہوتا ہے۔ شوہر کو تو کم کرنے کا یا معاف کرنے کا حق ہی نہیں اس پر تو ادائے گی واجب ہوتی ہے جس کے لئے اصول و ضابطہ مقرر ہے، عورت اگر بغیر کسی دباؤ اور جبر کے کچھ کم کردے تو اس کو اختیار ہوتا ہے وہ کم کر سکتی ہے لیکن اگر جبراً کم کرایا جائے تو کم نہیں ہوگا۔ ایسے ہی ایک ناجائز طریقہ یہ بھی ہے کہ بعض نا اہل اور بے غیرت آدمی پہلی رات کو بیوی سے مہر معاف کراتے ہیں یا کم کراتے ہیں۔ تو عورت اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے دباؤ محسوس کرتی ہے اور مہر معاف کرتی ہے یا کم کرتی ہے تو اس طرح بھی مہر قطعاً معاف نہیں ہوتا نہ ہی کم ہوتا ہے بلکہ شوہر پر مکمل کی ادائے گی واجب رہتی ہے۔(۱)

(۱) والمہر یتأکد بأحد معان ثلاثۃ: الدخول، والخلوۃ الصحیحۃ وموت أحد الزوجین سواء کان مسمی أو مہر المثل حتی لا یسقط منہ شیء بعد ذلک إلا بالإبراء من صاحب الحق کذا في البدائع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب السابع: في المہر، الفصل الثاني: فیما یتأکد بہ المہر والمتعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص462

اسلامی عقائد

Ref. No. 2556/45-3912

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے لئے تمام طرح کی تیاریاں ہورہی ہیں، رشتہ داروں  کی آمد ورفت جاری ہے، ہر طرف شادی کا چرچہ ہے، پھر لڑکی نے نانا کے سامنے  نکاح نامہ پر انگوٹھا لگایا ، لڑکی دولہن کے طور پر سنگھار کرہی ہے، یہ سب کچھ  اس بات کی علامت ہے کہ لڑکی کو نکاح کا علم ہے اور لڑکی نے نکاح کی اجازت دیدی ہے،  مزید یہ کہ لڑکی کے باپ نے اپنی موجودگی میں نکاح کرایا ہے۔ اس لئے یہ نکاح درست ہوگیا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند