اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کفریہ منتر پڑھنا حرام ہے اور کفر تک پہونچانے والا ہے؛ اس لئے ایسے کلمات سے احتراز اور اپنے ایمان کی حفاظت ازحد لازمی اور ضروری ہے۔ (۱)

(۱) فما یکون کفراً بالاتفاق یوجب احتیاط العمل کما في المرتدِّ، وتلزم إعادۃ الحجِّ إن کان قد حج، ویکون وطؤہ حینئذٍ مع إمرأتہ زناً، والولد الحاصل منہ في ہذہ الحالۃ ولد الزِّنا، ثم إن أتی بکلمۃ الشہادۃِ علی وجہ العادۃ لم ینفعہ ما لم یرجع عما قالہ لأنہ بالإتیان بکلمۃ الشہادۃ لا یرتفع الکفر، وما کان في کونہ کفراً اختلاف یؤمر قائلہ بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک احتیاطا، وما کان خطأ من الألفاظ لا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفاروالرجوع عن ذلک، ہذا إذا تکلم الزوج فإن تکلمت الزوجۃ ففیہ اختلافٌ في إفساد النکاح، وعامَّۃ علمائِ بخاري علی إفسادہ لکن یجبر علی النکاح ولو بدینارٍ وہذا بغیر الطلاق۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقي الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ، ولا اعتبار باعتقادۃ، ومن تکلم بہا خطأً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عالماً عامداً کفر عند الکل، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلاف، والذي تجود أنہ لا یفتی بتکفیر مسلمٍ أمکن حمل کلامہ علی محملٍ حسن أو کان في کفرہ اختلاف۔ (ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا: ج ۶، ص: ۳۵۸)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1780/43-1519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نمازیں شب معراج میں فرض ہوئیں، البتہ معراج کا واقعہ کب پیش آیا اس سلسلہ میں راجح  قول یہ ہے کہ ماہ رجب سنہ 12 نبوی میں یہ واقعہ پیش آیا۔

 وفرضت فی الاسراء (الدر المختار مع رد المحتار  1/352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقدیر کی بحث وتحقیق میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں؛ بلکہ بچنا چاہئے۔(۱) مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔ تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے۔(۲)

۱) عن أبي  ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فُقِئ في وجنتیہ حب الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۷، رقم: ۹۸)

(۲) المعلق والمبرم کل منہما مثبت في اللوح غیر قابل للمحو، نعم المعلق فيالحقیقۃ مبرم بالنسبۃ إلی علمہ تعالیٰ۔ (أیضاً: ’’الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

 

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

اسلامی عقائد

 Ref. No. 2385/44-3602

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی غالبا اپنے شوہر کو طعنہ دے رہی ہے کہ تم دینداری کا ڈھونگ کرتے ہو، اگر یہی دینداری ہے تو اس سے اچھا جاہل رہنا ہے، اس لئے میں اپنے بچوں کو آوارہ بناؤں گی، ظاہر ہے کہ کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو آوارہ کیونکر بنانا چاہے گی، اس لئے یہ محض ایک دھمکی ہے، اور غصہ کا اظہار معلوم ہوتاہے، اس میں دین کی تخفیف درحقیقت نہیں ہے۔ اس لئے عورت کے مذکورہ جملوں سے کفر لازم نہیں آئے گا۔ البتہ بظاہر دین سے بیزاری کی بات ہے، اس لئے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور آئندہ اس طرح کی بات سے گریز کرنا چاہئے جس سے بظاہر بھی دین کا استخفاف معلوم ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کہنا یا عقیدہ رکھنا حرام ہے، ایسا شخص ایمان سے خارج ہوجاتاہے، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، ایسے شخص پر توبہ اور تجدید ایمان لازم ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کرنے کی ان کے اندرقطعا استطاعت نہیں ہے۔ اور اگر عقیدہ درست ہو؛ لیکن زبان سے یوں ہی کہہ دیا تو بھی گناہ ہے، لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔ (۲)

(۱) الرجل إذا ابتلیٰ بمصیبات متنوعۃ فقال: أخذت مالي وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فماذا تفعل وما بقي لم تفلعہ وما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، قبیل ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۶)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء کے معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا، اور انجام دینا ہے۔ اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کار خانۂ قدرت وجود میں لایا گیا، قدر اور تقدیر کے معنی ہیں اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے (۱) جن امور کا اللہ تعالیٰ ازل میں فیصلہ کر چکا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم لگ چکا اسی کو شریعت میں قضاء وقدر سے بھی تعبیر کرتے ہیں، تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اب تک ہوا ہے اور آئندہ ہونے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اندازے اور فیصلۂ ازل کے مطابق ہے، ہر چیز اسی کے ارادہ اور حکم کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہے، اس کی مرضی ومشیت کے خلاف ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ہے، ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، نیز قضاء وقدر میں فرق یہ ہے کہ احکام اجمالیہ کلیہ جو ازل میں ہیں وہ قضاء ہے اوراحکام جزئیہ تفصیلہ ہیں جو کلی کے موافق ہوں وہ قدر ہے، قضاء اور قدر ’’سر من أسرار اللّٰہ‘‘ میں سے ہیں جس کی پوری حقیقت کی اطلاع نہ کسی مقرب فرشتہ کو دی گئی اور نہ کسی نبی اور رسول کو؛ اس لئے اس میں زیادہ بحث ومباحثہ اور غور وفکر کرنا عام آدمی کے لئے درست نہیں، حدیث پاک میں اس پر بحث ومباحثہ کرنے سے سخت ممانعت آئی ہے۔

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم ألا تنازعوا فیہ‘‘(۲)

جہاں تک قرآن وحدیث میں اجمالاً مذکور ہے اسی پر ایمان لانا چاہئے کما حقہ اس کو سمجھنا انسانی طاقت وعقل سے باہر ہے، اسی کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا: جب ایک سائل نے

 ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔

’’سأل (رجل) علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ، وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال‘‘(۱) لہٰذا اس کے بارے میں بحث ومباحثہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

۱) راغب أصفھاني، المفردات: ج۱، ص:۶۰۴، ۷۰۴

(۲)  أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء من  التشدید في الخوض في القدر، باب منہ‘‘: ج ۴، ص:

۴۴۳رقم: ۲۱۳۴)

(۳) أیضاً:، رقم: ۲۱۳۳۔

۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹۔

وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (أیضاً:، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروّجہ عرس اور مذکورہ سوال کا حکم تو عدم جواز ہی کا ہے اور اس کی اتباع نہیں کرنی چاہئے، منکرات پر عمل کرنا باعث گناہ ہے اور بعض صورتوں میں وہ منکرات میں شمار ہوتا ہے۔(۱) ایسے مجامع کی رونق کے لیے شرکت کر نے کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
امام صاحب اگر دل سے برا جانتے ہیں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور وہ شرکت کے لیے مجبور ہیں تو ان کے پیچھے پڑھی گئی نماز بلاشبہ ادا ہوگئی امامت کو صورت مسئول عنہا میں ناجائز کہنا درست نہ ہوگا؛ لیکن ان کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ اصلاح کی سعی کرتے رہیں مناسب وقت میں لوگوں کو سمجھاتے رہیں اور منکرات پر عمل کرنے کی دنیاء و آخرت میں ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے رہیں اور ایسا طریقہ اختیار کرنا جو کہ باعث فتنہ و فساد بن جائے اور نفرت کا اضافہ ہوجائے کہ اصل حکم سے ہی اعراض کرنے لگیں (جیسا کہ ہوتا ہے کہ نمازی آپ کی حق بات کو نہیں مانتے) تو اس طریقہ سے اسلام کا راستہ محدود ہوجاتا ہے اس لئے اس سے احتراز ہی کرنا ہوگا۔ نیز امام صاحب کے عقائد اگر اسلام کے خلاف اور کفریہ ہوں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی ہے اور جن کے اعمال فسقیہ ہوں ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ دل سے ہوتا ہے، لیکن ظاہری اعمال سے ہی باطن پر حکم لگایا جاتا ہے۔(۱)
(۱) {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰیص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (سورۃ المائدہ: ۲)
(وفاسق وأعمیٰ) ونحوہ الأعشي، نہر، (إلا أن یکون) أي غیر الفاسق (أعلم القوم) فہو أولی (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ: إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وہي اعتقاد إلخ) عزاہ ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸ - ۳۰۰)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص372

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے، اس کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا۔

وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح ولکن یؤمر بالاستغفار الرجوع عن ذلک۔ (۱) قال رجل: یا رب أین ستم مبسند۔ قال بعضہم: یکفر والأصح أنہ لا یکفر الخ‘‘۔ (۲)

لیکن ایسے الفاظ کا استعمال کرنا غلط ہے، پریشانی کی حالت میں بھی صبر کے دامن کو تھامے رکھنا ایک مؤمن کی شان ہے؛ لہٰذا احتیاط کے طور پر تجدید نکاح بھی کر لینا چاہئے۔

’’وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح، وفي الشامي:

وتجدید النکاح أي احتیاطاً کما في الفصول العمادیۃ الخ‘‘ (۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

(۲) أیضاً: ’’منہا ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰۔

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷۔

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1982/44-1926

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  سوال میں ذکر کردہ جملے کفریہ جملے ہیں، اس لئے عورت پر تجدید ایمان و تجدید نکاح  ضروری ہے ۔ بندوں پر لازم ہے کہ  مشکلات اور مصائب میں مزید اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔ مگر اس عورت نے  اللہ پر الزام لگاکر مسئلہ کو اور سنگین بنادیا ۔ دنیا دارالاسباب ہے اور بندوں کو ایک گونہ اختیار دیاگیاہے ، اگر کوئی  چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ لے تو اسباب کے درجہ میں ہاتھ کٹ جائے گا، اس میں اللہ پر الزام لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ بہرحال ان کفریہ جملوں کی وجہ سے تجدید ایمان و تجدید نکاح لازم ہوگیا، اور توبہ کرے کہ آئندہ پھر کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لائے گی۔ اللہ ہم سب کا ناصر ومددگار ہو۔  

قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ". (شامی 4/ 224)

 ’’وفي الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمداً لكنه لم يعتقد الكفر، قال بعض أصحابنا: لايكفر؛ لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر، وهو الصحيح عندي؛ لأنه استخف بدينه (البحرالرائق19/488)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے انسان کے بارے میں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ فلاں انسان کب برا کام کرے گا کب نیکی کرے گا کب توبہ کرے گا کس عمل پر اس کو اچھا بدلہ دینا ہے اور کس پر اس کو سزا دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہر بات ازل ہی سے ہے، اللہ

تعالیٰ نے ہر انسان کے ہر عمل کو اپنے علم کی وجہ سے پہلے ہی لکھ دیا ہے اب وہ جو بھی کرے گا وہ اس لکھے ہوئے کے مطابق کرے گا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو لکھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے؛ بلکہ مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے میں وہ آزاد ہے جو چاہے اپنے اختیار سے کرے؛ لیکن جو بھی وہ عمل کرے گا وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اس کو لکھ دیا گیا ہے۔ جیسے کہ خالد نے مثلاً کل اپنے اختیار سے سفر کیا اخبار والوں کو اس کا سفر معلوم ہوگیا انہوں نے اخبارات میں شائع کردیا کہ کل خالد سفر کرے گا انہوں نے اپنے علم کی وجہ سے لکھ دیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ کہ کل خالد جو سفر کرے گا وہ اخبارات میں شائع ہونے کی وجہ سے مجبور ہوکر کرے گا سفر اس کا اپنے اختیار سے ہوگا البتہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو سفر نہیں بھی ہوسکتا اخبارات کی خبر خلاف واقعہ ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے علم کی کمی ہے۔ ان کو حادثہ کا ہونا یا نہ ہونا معلوم نہیں اس لئے وہ اس کی خبر نہیں دے سکتے اللہ تعالیٰ کو وہ حادثہ بھی معلوم ہے بہر حال تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہئے نیز مسئلہ ذرا باریک ہے۔ اور غور طلب ہے۔ اور سمجھنے کا ہے اس لئے اس میں زیادہ بحث نہیں کرنی چاہئے۔ قرآن کریم میں {مَآ أَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ  فِي الْأَرْضِ وَلَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ إِلَّا فِيْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَھَاط} (۱) دوسری جگہ ہے: {إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍہ۴۹} (۲)

(۱) سورۃ الحدید: ۲۲۔

(۲) سورۃ القمر: ۴۹۔

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج 1 ص 188)