اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور خیر القرون سے اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ آپ نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر یا حضرت خدیجہ، حضرت زینب دختر رسول کی قبروں پر یا حضرات صحابہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر یا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبروں پر پھول چڑھائے ہوں ان میں تو عشق ومحبت حقیقی اور جبلّی تھی، وہ ثواب اور خیر کے کاموں میں سبقت بھی کرنے والے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ انہوں نے قبروں پر پھول نہیں چڑھائے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کھجور کی دو ٹہنیاں گاڑدی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پھول ڈالے جاسکتے ہیں، اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ امت کو بھی قبر پرکھجور کی ٹہنی ہی گاڑنی چاہئے جو حدیث سے ثابت ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جن کی قبروں پر کھجور کی ٹہنیاں گاڑی گئی اس میں ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا، حدیث کے الفاظ ہیں: ’’إني مررت بقبرین یعذبان فأحببت بشفاعتي أن یرفہ ذاک عنہما مادام الغصنان رطبین‘‘(۱) کہ میں دو قبروں کے پاس سے گزرا ان دونوں میتوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ میں نے اپنی شفاعت کے ذریعہ یہ پسند کیا کہ جب تک ٹہنیاں تر رہیں ان دونوں سے عذاب کی کمی ہو۔
اس صحیح روایت سے بصراحت معلوم ہوا کہ عذاب ہلکے ہونے کا اصل سبب آپ کی شفاعت تھی، ٹہنیاں تو صرف ایک علامت کے طورپر تھیں۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ عذاب کے ہلکے ہونے کا اصل سبب ٹہنیوں کا سبز ہونا تھا، اور یہی چیز پھولوں میں بھی پائی جاتی ہے، تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوسکتا ہے کہ جن کو قبروں میں عذاب ہو رہا ہو، جیسے گنہگار اور فاسق وفاجر لوگوں کی قبروں پر سبز شاخیں کھجور کی گاڑی جائیں، اولیاء اللہ کی قبروں کے ساتھ یہ معاملہ (نعوذ باللہ) رکھنے والوں کا کیا یہ عقیدہ ہوسکتا ہے؟ ہم تو اہل اللہ کو جنتی سمجھتے ہیں جو جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے معطر ہیں۔(۲)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الزہد والرقاق، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ أبي الیسر‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، رقم: ۳۰۱۳۔
(۲) إعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقرباً إلیہم فہو باطل وحرامٌ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ طحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصوم: باب ما یلزم الوفاء بہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۹۳)

قبر پر پھول چڑھانا نادرست ہے۔ (فتاوی رشیدیہ: ص: ۲۶۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص374

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شادی کے موقع پر یا اسی طرح دیگر کسی تقریب کے موقع پر پھولوں کا ہار ڈالنے کی گنجائش ہے کہ اس سے خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے؛ نیز یہ کسی قوم کا تہذیبی شعار نہیں ہے ہاں اس میں اسراف فضول خرچی اور ریا ونمود سے پرہیز کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کو لازم وضروری سمجھنا غلط ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقومٍ فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب ما جاء في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹)
قال القاري: أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم، أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ (بذل المجہود، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص463

اسلامی عقائد

Ref. No. 1049/41-210

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زیرناف اور بغلوں کی صفائی  اور ناخن کاٹنا امور فطرت میں سے ہیں۔ ہر ہفتہ اس کا اہتمام کرنا مستحب  ہے اور چالیس دن کے اندر کرنا  مسنون  ہے، اور چالیس دن سے زیادہ باقی رکھنا مکروہ تحریمی اور گناہ کا موجب ہے۔  عشرہ  ذی الحجہ میں قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے بال وناخن وغیرہ نہ کاٹنا صرف مستحب ہے لیکن وہ بھی  اس شرط کے ساتھ  کہ غیرضروری بالوں کی صفائی کے چالیس دن نہ پورے ہوئے  ہوں۔ لہذا جو شخص  عشرہ ذی الحجہ شروع ہونے سے قبل  کسی بھی وجہ سے زیر ناف اور بغلوں کی صفائی  نہیں کرسکا اور چالیس دن گزرچکے ہیں تو  اس  کو چاہئے  کہ  اب صفائی کرلے؛ مزید تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔   

عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :اذادخل العشرواراد بعضکم ان یضحی فلایمسن من شعرہ شیئا وفی روایۃ فلایأخذن شعراولایقلمن ظفراوفی روایۃ من رأی ھلال ذی الحجۃ واراد ان یضحی فلایأخذن من شعرہ ولامن اظفارہ ۔رواہ مسلم۔

ویستحب حلق عانۃ وتنظیف بدنہ بالاغتسال فی کل اسبوع مرۃ والأفضل یوم الجمعۃ وجازفی کل خمسۃ عشر وکرہ ترکہ وراء الأربعین مجتبی۔ (ردالمحتار 5/261)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر جن بصورت انسان آجائے اور حاکم یا قاضی کو بالکل اس کا علم نہ ہوسکے کہ یہ جن ہے، اور قاضی اس کی شہادت پر فیصلہ کردے، تو قاضی علم نہ ہونے کی وجہ سے معذور ہوگا، ماخوذ نہ ہوگا۔ اور فیصلہ اس کا نافذ ہوگا۔ (۲)
البتہ اگر کسی طرح اس کا جن ہونا محقق ہوجائے، تو پھر اس کی شہادت شرعاً مقبول نہ ہوگی۔ (۳)
(۲) والطریق فیما یرجع إلی حقوق العباد المحضۃ عبارۃ عن الدعوی والحجۃ وہي أما البینۃ أو الإقرار أو الیمین أو النکول عنہ أو القسامۃ أو علم القاضي إلخ۔ (ابن عابدین،الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب القضاء، مطلب: الحکم الفعلي‘‘: ج ۸، ص: ۲۳)
(۳) {وَاسْتَشْہِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَإِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآئِ} (سورۃ البقرہ: ۲۸۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص255

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دفن میت کے بعد اذان دینے کا ثبوت نہیں ہے، یہ عمل بدعت ہے؛ لہٰذا تخفیف عذاب کا سوال ہی نہیں ہے۔(۱)

(۱) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ لما ہو المعتاد الآن وقد صرح ابن حجر في فتاواہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱؛ کذا في البحر الرائق: ج ۲، ص: ۲۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص376

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کا لال خط کو رسم قرار دینا اور اس میں شرکت نہ کرنا بالکل درست ہے، لال خط محض ایک رسم ہے جس کو ترک کردینا لازم ہے۔(۱)

(۱) سرخ خط کا التزام درست نہیں، تاریخ کی اطلاع ضروری ہے۔ (کتاب المفتی، ’’باب البدعات والرسومات‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۹)
فکم من مباح یصیر بالإلتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکنوي، سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص464

اسلامی عقائد

Ref. No. 1988/44-1935

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مروجہ تمام بینک سودی نظام پرقائم ہیں، اور شریعت میں سودی حسابات کے تمام کام حرام ہیں، اس لئے بینک میں سودی لین دین  سے متعلق جملہ امور ناجائز ہیں ۔ تاہم اگر کوئی پہلے سے بینک میں ملازمت پر ہے تو اس  کے لئے بہتر ہے کہ دوسری ملازمت  کی تلاش بھی کرتارہے۔  

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ  فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}[البقرة:278، 279] {وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}[المائدة:2]

’’عن جابر رضي الله عنه، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء».‘‘ (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:دار احیاء التراث-بیروت) (مشکاة المصابیح، باب الربوا، ص:243، ط:قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ ساتویں آسمان پر ہیں اور سب فرشتے اس کے لیے نماز پڑھتے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتوں کی نماز کیسی ہوتی ہے؟ تو اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا سلام فرمادیجئے اور بتلادیجئے کہ آسمان دنیا کے فرشتے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہیں گے اور بس ’’سبحان ذي الملک والملکوت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور دوسرے آسمان والے فرشتے رکوع میں رہیں گے اور ’’سبحان ذي العزۃ والجبروت‘‘ پڑھتے رہیں گے اور تیسرے آسمان کے فرشتے حالت قیام میں رہیں گے اور کہتے رہیں گے ’’سبحان الحي الذي لایموت‘‘(۱)

(۱) علاء الدین بن حسام الدین، الہندي، کنزالعمال، ’’کتاب العظمۃ: من قسم الأفعال‘‘: ج ۱۰،ص: ۱۶۵، رقم: ۲۹۸۱۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص256

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:منڈھا کرنا درحقیقت ایک ہندوانہ رسم ہے جس میں شادی سے ایک دن پہلے لڑکے والوں اور لڑکی والوں کی طرف سے نائی جوڑا او رمہندی لے کر ایک دوسرے کی طرف بھیجاجاتا ہے اور اس کی آمدکے اہتمام میں دعوت ہوتی ہے اگر اس طرح کی چیز یں اور رسمیں شامل ہوں تو یہ ناجائز ہے(۱) اور اگر ان رسوم ورواج کے طور پر نہ ہو؛ بلکہ شادی سے پہلے ہی مہمان آجاتے ہیں؛ اس لیے کہ مزید کچھ قریبی رشتہ داروں کی دعوت کر دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲) بارات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، یہ بھی زمانہ قدیم کی رسم ہے جب راستے پر خطر ہوا کرتے تھے اس وقت کی ضرورت تھی جس میں خاندان اورمحلہ کے ایک ایک آدمی شریک ہوتے تھے، اب ایسا کچھ نہیں ہے، بارات کا ثبوت احادیث سے نہیں ہے بس چند لوگ جائیں اور رخصتی لے کر آجائیں، اتنے زیادہ لوگوں کا جانا جس کی وجہ سے لڑکی والوں پر بوجھ پڑ جائے درست نہیں ہے(۳) کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مہذب تہذیب کی بد تہذیبی ہے جس میں کھانے کا احترام مفقود ہو جاتا ہے اور انسان او رحیوان کی تمیز ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ کھڑے ہو کر اور چل پھر کر کھانا درحقیقت جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے کھڑے ہو کر کھانا کھلانا اور کھانا مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے (۴) ولیمہ مسنون ہے جس میں کوئی تعداد مسنون نہیں ہے اس لیے جس قدر افراد کی دعوت کی جائے ولیمہ ادا ہو جائے گا اس میں غرباء ومساکین کی دعوت ضروری نہیں ہے ہاں ایسے موقع پر غرباء مساکین کو بھی شریک کرنا باعث خیر ہے؛ لیکن ان کی دعوت نہ کرنے کی وجہ سے ولیمہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے لیکن اگر وہ غرباء رشتہ دارہوں تو محض ان کی غریبی کی وجہ سے ان کو نظر انداز کردینا ناپسندیدہ عمل ہے۔(۵) ماقبل کے جواب سے وضاحت ہوگئی ہے۔

’’أن جاء عبد الرحمن علیہ أثر صفرۃ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تزوجت؟، قال: نعم، قال: ومن؟، قال: امرأۃ من الأنصار، قال: کم سقت؟، قال: زنۃ نواۃ من ذہب -أو نواۃ من ذہب-، فقال لہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أولم ولو بشاۃ(۲) عن عبد اللّٰہ بن عمرو، أن رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم - قال: من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ،(۳) عن أنس، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی أن یشرب الرجل قائما فقیل: الأکل؟ قال: ذاک أشر: ہذا حدیث صحیح۔(۱)

(۱) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۲) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃٍ ضلالۃ۔وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃٍ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۳، ص: ۲۴۱، رقم: ۱۴۹۸۳)
 أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ ولو بشاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۷، رقم: ۵۱۶۸۔
(۳) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادي عشر، مسند عبد اللّٰہ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۶۶۲۱۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الأشربۃ، باب ما جاء في النہي عن الشرب قائماً‘‘: ج ۲، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۷۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص465
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عید مبارک‘‘ لفظ کے ساتھ عید کے دن کسی کو مبارکباد دینا مباح ہے،(۳) اگرچہ اس بارے میں اقوال مختلف ہیں ’’واختلف في قول الرجل لغیرہ یوم العید: تقبل اللّٰہ منا ومنک الخ‘‘(۴)

۳) إن من المستحبات التزین وأن یظہر فرحا وبشاشۃ ویکثر من الصدقۃ حسب طاقتہ وقدرتہ، وزاد في القنیۃ استحباب التختم والتبکیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار، وہو المسارعۃ إلی المصلی وصلاۃ الغداۃ في مسجد حیہ والخروج إلی المصلی ماشیا والرجوع في طریق آخر والتہنئۃ بقولہ: تقبل اللّٰہ منا ومنکم إلخ۔ (إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
(۴)حلبي کبیر: ص :۵۷۳


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص508