Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوزخ کے لئے انیس فرشتے مقرر ہیں اور ان کا سردار مالک ہے۔(۱)
(۱) {سَأُصْلِیْہِ سَقَرَہ۲۶ وَمَآ أَدْرٰئکَ مَا سَقَرُہط ۲۷ لَا تُبْقِيْ وَلَا تَذَرُہج ۲۸ لَوَّاحَۃٌ لِّلْبَشَرِ ہجصلے ۲۹ عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَہط ۳۰}(المدثر: ۲۶ -۳۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص257
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصافحہ فی نفسہٖ سنت ہے(۱) مگر نیا چاند دیکھ کر مبارکبادی کے وقت کی خصوصیت اور نماز جمعہ وعیدین کے بعد کی خصوصیت، بے اصل اور بے دلیل ہے؛ کیونکہ فقہاء کرام نے اس کو مکروہ لکھا ہے؛ اس لیے اس کا التزام بدعت ہے، جو قابل ترک ہے ورنہ باعث گناہ ہے۔(۲)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا الخ۔ (أخرجہ الطبراني، في المعجم الأوسط: ج ۱، ص: ۴۱، رقم: ۹۷)
(۲) أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض إلخ۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ: أنہا بدعۃ مکروہۃ، لا أصل لہا في الشرع۔ وقال ابن الحاج: إنہا من البدع، وموضع المصافحۃ في الشرع، إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوات إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص509
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/1004
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احد کی دال پر تنوین ہے اور تنوین میں نون ساکن ہوتا ہے اور ساکن کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر اس کو اگلے حرف سے ملانا ہو تو اس ساکن پر کسرہ پڑھاجاتا ہے(الساکن اذا حرک حرک بالکسر)۔ اس لئے احدُنِ اللہ پڑھنے سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ نماز درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ٹائی عیسائیوں کے مذہبی شعار کی حیثیت سے وجود میں آئی تھی پھر عیسائی اس کو پوری دنیا میں عام کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بلا تفریقِ مذہب اکثریت نے اس کااستعمال شروع کردیا، ہوتے ہوتے وہ ایک فیشن بن گیا، آج بہت سے ٹائی لگانے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کس کی ایجاد اور کس کا شعار ہے؛ لہٰذا ٹائی کے استعمال کرنے والوں کے احوال وکوائف سے ٹائی کا حکم مختلف ومتعدد ہو جاتا ہے۔
(۱) کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ یہ عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور جس عقیدہ کی بناپر انہوں نے اس کو شعار بنایا اس عقیدہ کو بھی یہ شخص درست سمجھتا ہے اور اسی کے اثبات کے طور پر یہ شخص ٹائی استعمال کرتا ہے تو یہ شخص خارج از اسلام ہے۔
(۲) کوئی شخص یہ سمجھے کہ یہ آج بھی عیسائیوں کا شیوہ ہے اور ان کی مشابہت کو باعث فخر سمجھ کر اس کو استعمال کرتا ہے ایسا شخص کراہت تحریمی کا مرتکب ہے۔
(۳) کوئی شخص یہ جانے کہ یہ ان کا شعار تھا؛ لیکن اب ان کے شعار کے ساتھ مخصوص نہیں رہا؛ بلکہ ایک فیشن ہے اور صرف فیشن کے طور پر استعمال کرے، ان کے عقیدے سے بیزار ہو، تو جائز ہے لیکن ترک اولیٰ ہے۔
(۴) کوئی شخص یہ نہ جانے کہ یہ کس کا شعار تھا؟ کیوں تھا؟ بس دیکھا دیکھی ویسے ہی استعمال کرتا ہے، تو اس کے لئے اس کا استعمال جائز ہے؛ لیکن خلاف اولیٰ ہے، پس بہتر یہ ہے کہ اس کا استعمال ترک کردے۔(۱)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (من تشبّہ بقومٍ فہو منہم) رواہ أحمد، وأبوداود۔
(وعنہ): أي عن ابن عمر (قال: قال رسول اللہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- (من تشبّہ بقومٍ): أي من شبَّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف، والصلحاء الأبرار (فہو منہم): أي في الإثم والخیر۔ قال الطیبي: ہذا عامٌ في الخلق والخُلُق والشعارِ، ولما کان الشعارُ أظہر في التشبہ ذکِرَ في ہذ الباب قلت: بل الشعار ہو المراد بالتشبُّہ لا غیر فإنَّ الخُلْق الصوري لا یتصوّرُ في التشبّہ، والخلق المعنويِّ لا یقال في التشبُّہِ بل ہو التخلُّقُ، ہذا وقد حکي حکایۃ غریبۃً ولطیفۃً عجیبۃً، وہي أنَّہُ لما اغرق اللّٰہ -سبحانہُ- فرعونَ وأٓلہ لم یغرق مسخرتہُ الذي کان یحاکي بسیدنا موسیٰ -علیہ الصلاۃ والسلام- في لبسہ وکلامہ ومقالاتہ، فیضحک فرعون وقومُہُ من حرکاتہ وسکناتہ؛ فتضرع موسیٰ إلي ربہ: یا ربِّ! ہذا کان یؤذي أکثر من بقیۃ آلِ فرعون، فقال الرَّبُّ تعالیٰ: ما أغرقنا؛ فإنہ کان لابساً مثل لباسِک، والحبیبُ لا یعذبُ من کان علی صورۃ الحبیب، فانظر من کا متشبہاً بأہل الحق علی قصد الباطل حصل لہ نجاۃ صوریَّۃٌ، وربما أدت إلی النجاۃِ المعنویۃ، فکیف بمن تشبَّہُ بأنبیائہ و أولیائہِ علی قصدِ التشرف والتعظیم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المصابیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۲۲۲، رقم: ۴۳۴۷)
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عیدالفطر کے دن میٹھی چیز کھانا مستحب ہے۔ خواہ کوئی بھی چیز ہو چھوارے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس کا درجہ صرف استحباب کا ہے جب کہ سوئیوں کا استحباب بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ان کو بھی ثواب سمجھا جائے اور لازم سمجھا جائے، تو بدعت ہوگا؛ لیکن ہمارے علاقے میں اس کو بالکل لازم نہیں سمجھا جاتا، بلکہ امر مباح سمجھا جاتا ہے؛ اس لیے اس صورت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ (۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یغد ویوم الفطر حتی یأکل تمراتٍ۔ وقال مرجَّأ بن رجائٍ حدثني عبید اللّٰہ قال: حدثني أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویأکلہن وتراً۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العیدین: باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۹۵۳)
ویستحب کون ذلک المطعوم حلواً۔ (ابن نجیم، بحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص510
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کے کلام میں صراحت ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان واسلام کا ہو، تو ایک احتمال کو ترجیح دی جائے گی، اگر کسی درجہ میں بھی اسلام کا پہلو سامنے رہے، تو اس کو ہی اختیار کیا جائے، حدیث شریف سے بھی اس کی نزاکت معلوم ہوتی ہے کہ کفر ایسی چیز ہے، اگر کسی نے کسی کو کافر کہہ دیا، تو یا تو وہ کافر ہے، جس کو کافر کہا گیا ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے، تو یہ کفر قائل کی طرف لوٹ جائے گا؛ اس لئے کسی کو کافر کہنے سے قبل خود اسی سے اس کے عقیدے کی وضاحت طلب کر لینی بہتر ہے۔ (۱)
عن عبد اللّٰہ بن دینار أنہ سمع ابن عمر -رضي اللّٰہ عنہما- یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما إمرئ قال لأخیہ: یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال و إلا رجعت علیہ: (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۶۰)
قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ کما صرّحَ بہ في الخانیۃ، و من تکلم بہا مُخطِئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عامداً عالماً کفر عند الکلِّ، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلافٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:معتبر کتب تفاسیر میں متعدد اقوال منقول ہیں، ابلیس دوبارہ جنت میں داخل نہیں ہوا؛ بلکہ ابلیس نے باہر ہی رہتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسے ڈالے، شیطان اس طرح وسوسے ڈالنے پر قادر ہے، جس کی وجہ سے کھانے کا عمل سرزد ہوا، ایک قول یہ بھی ہے کہ سانپ کے منھ میں بیٹھ کر گیا اور سانپ مور کی ٹانگوں میں لپٹ گیا اس طرح اندر داخل ہوا اور ایک قول یہ ہے کہ اندر داخل نہیں ہوا، جنت کے کنارے پر آدم وحوا سے اس نے باہر سے بات کی یہی قول قوی معلوم ہوتا ہے۔(۱)
(۱) إن إبلیس أراد أن یدخل الجنۃ لیوسوس آدم وحواء فمنعتہ الخزنۃ فأتتہ الحیۃ وکانت صدیقۃ لإبلیس (وکانت من أحسن الدواب لہا أربع قوائم کقوائم البعیر وکانت من خزان الجنۃ)، فسألہا إبلیس أن تدخلہ في فمہا فأدخلتہ فمرت بہ علی الخزنۃ وہم لا یعلمون فأدخلتہ الجنۃ، … وقال الحسن: إنما رأہما علی باب الجنۃ لأنہما کانا یخرجان منہا۔ (أبو محمد حسین بن مسعود البغوي، تفسیر البغوي، سورۃ البقرہ: ۳۶، ج ۱، ص: ۱۰۵؛ التفسیر المظہري: ۳۶؛ ج ۱، ص: ۶۶)
دخل الجنۃ في فم الحیۃ وہي ذات أربع کا لبختیۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ البقرہ: ۳۶‘‘؛ ج ۱، ص: ۲۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص259
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کا ختم عبادت ہے، اور بڑی نیکی ہے، اس پر جس قدر خوشی ہو اچھی بات ہے ختم قرآن، بچہ پیدا ہونے اسی طرح عیدین کی خوشیوں کے مواقع پر شادی کرلی جائے اور ایک ہی تقریب میں دوسری تقریب کو بھی شامل کر دیا جائے، تو اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے؛ اس لئے جائز ودرست ہے، دعوت کرنے اور دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) وفي روایۃ لابن عدي، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: ’’تہادوا الطعام بینکم، فإن ذلک توسعۃ لأرزاقکم‘‘ وروي الطبراني عن أم حکیم بنت وداع: ’’تہادوا، فإن الہدیۃ تضعف الحب وتذہب بغوائل الصدور‘‘۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب: باب المصافحۃ والمعانقۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۸، ص: ۵۰۶، رقم: ۴۶۹۳)
وإجابۃ کل داع مستحبۃ لہذا الخبر، ولأن فیہ جبر قلب الداعي، وتطییب قلبہ، وقد دعي أحمد إلی ختان، فأجاب وأکل۔ فأما الدعوۃ في حق فاعلہا، فلیست لہا فضیلۃ تختص بہا؛ لعدم ورود الشرع بہا، ولکن ہي بمنزلۃ الدعوۃ لغیر سبب حادث، فإذا قصد فاعلہا شکر نعمۃ اللّٰہ علیہ، وإطعام إخوانہ، وبذل طعامہ، فلہ أجر ذلک، إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۸، ص: ۱۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص511