اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء کے کلام میں صراحت ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان واسلام کا ہو، تو ایک احتمال کو ترجیح دی جائے گی، اگر کسی درجہ میں بھی اسلام کا پہلو سامنے رہے، تو اس کو ہی اختیار کیا جائے، حدیث شریف سے بھی اس کی نزاکت معلوم ہوتی ہے کہ کفر ایسی چیز ہے، اگر کسی نے کسی کو کافر کہہ دیا، تو یا تو وہ کافر ہے، جس کو کافر کہا گیا ہے اور اگر وہ کافر نہیں ہے، تو یہ کفر قائل کی طرف لوٹ جائے گا؛ اس لئے کسی کو کافر کہنے سے قبل خود اسی سے اس کے عقیدے کی وضاحت طلب کر لینی بہتر ہے۔ (۱)

عن عبد اللّٰہ بن دینار أنہ سمع ابن عمر -رضي اللّٰہ عنہما- یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما إمرئ قال لأخیہ: یا کافر فقد باء بہا أحد ہما إن کان کما قال و إلا رجعت علیہ: (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان حال إیمان من قال لأخیہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۶۰)

قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلاً أو لاعباً کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ کما صرّحَ بہ في الخانیۃ، و من تکلم بہا مُخطِئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہا عامداً عالماً کفر عند الکلِّ، ومن تکلم بہا اختیاراً جاہلاً بأنہا کفرٌ ففیہ اختلافٌ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:معتبر کتب تفاسیر میں متعدد اقوال منقول ہیں، ابلیس دوبارہ جنت میں داخل نہیں ہوا؛ بلکہ ابلیس نے باہر ہی رہتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسے ڈالے، شیطان اس طرح وسوسے ڈالنے پر قادر ہے، جس کی وجہ سے کھانے کا عمل سرزد ہوا، ایک قول یہ بھی ہے کہ سانپ کے منھ میں بیٹھ کر گیا اور سانپ مور کی ٹانگوں میں لپٹ گیا اس طرح اندر داخل ہوا اور ایک قول یہ ہے کہ اندر داخل نہیں ہوا، جنت کے کنارے پر آدم وحوا سے اس نے باہر سے بات کی یہی قول قوی معلوم ہوتا ہے۔(۱)

(۱) إن إبلیس أراد أن یدخل الجنۃ لیوسوس آدم وحواء فمنعتہ الخزنۃ فأتتہ الحیۃ وکانت صدیقۃ لإبلیس (وکانت من أحسن الدواب لہا أربع قوائم کقوائم البعیر وکانت من خزان الجنۃ)، فسألہا إبلیس أن تدخلہ في فمہا فأدخلتہ فمرت بہ علی الخزنۃ وہم لا یعلمون فأدخلتہ الجنۃ، … وقال الحسن: إنما رأہما علی باب الجنۃ لأنہما کانا یخرجان منہا۔ (أبو محمد حسین بن مسعود البغوي، تفسیر البغوي، سورۃ البقرہ: ۳۶، ج ۱، ص: ۱۰۵؛ التفسیر المظہري: ۳۶؛ ج ۱، ص: ۶۶)
دخل الجنۃ في فم الحیۃ وہي ذات أربع کا لبختیۃ۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ البقرہ: ۳۶‘‘؛ ج ۱، ص: ۲۱۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص259

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کا ختم عبادت ہے، اور بڑی نیکی ہے، اس پر جس قدر خوشی ہو اچھی بات ہے ختم قرآن، بچہ پیدا ہونے اسی طرح عیدین کی خوشیوں کے مواقع پر شادی کرلی جائے اور ایک ہی تقریب میں دوسری تقریب کو بھی شامل کر دیا جائے، تو اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے؛ اس لئے جائز ودرست ہے، دعوت کرنے اور دعوت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) وفي روایۃ لابن عدي، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: ’’تہادوا الطعام بینکم، فإن ذلک توسعۃ لأرزاقکم‘‘ وروي الطبراني عن أم حکیم بنت وداع: ’’تہادوا، فإن الہدیۃ تضعف الحب وتذہب بغوائل الصدور‘‘۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب: باب المصافحۃ والمعانقۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۸، ص: ۵۰۶، رقم: ۴۶۹۳)
وإجابۃ کل داع مستحبۃ لہذا الخبر، ولأن فیہ جبر قلب الداعي، وتطییب قلبہ، وقد دعي أحمد إلی ختان، فأجاب وأکل۔ فأما الدعوۃ في حق فاعلہا، فلیست لہا فضیلۃ تختص بہا؛ لعدم ورود الشرع بہا، ولکن ہي بمنزلۃ الدعوۃ لغیر سبب حادث، فإذا قصد فاعلہا شکر نعمۃ اللّٰہ علیہ، وإطعام إخوانہ، وبذل طعامہ، فلہ أجر ذلک، إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ (ابن قدامۃ، المغني: ج ۸، ص: ۱۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص511

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مذکورہ فی السوال باتیں صحیح اور سچ ہیں تو مذکورہ شخص فاسق فاجر ہے قطعی طور پر لائق اتباع نہیں ہے۔ جیسی رواداری سوال میں مذکور ہے اسلام میں ایسی رواداری کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اور اگر اس نے واقعۃً غیر اللہ کے سامنے سرجھکایا اور اس کو سجدہ کیا تو پھر وہ اسلام سے خارج ہوگیا ہے۔ تجدید ایمان اور تجدید نکاح اس پر لازم ہے۔ (۱)

(۱) ویکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علي رأسہ علي الصحیح إلا لضرورۃ  دفع الحرِّ والبرد وبشد الزنار في وسطہ إلا إذا فعل ذلک خدیعۃً في الحرب وطلیعۃ المسلمین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنوع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

ومن ہزل بلفظ کفر إرتد و إن لم یعتقد للاستخفاف فہو ککفر العناد۔

قولہ (من ہزل بلفظ کفر) أي تکلم بہ باختیارہ غیر قاصد معناہ، وہذا لا ینافي مأمر من أن الإیمان ہو التصدیق فقط أو مع الإقرار: لأن التصدیق وإن کان موجوداً حقیقۃ لکنہ زائل حکما: لأن الشارع جعل بعض المعاصي إمارۃ علي عدم وجودہ کالہزل المذکور، وکما لو سجد لصنم أو وضع مصحفاً في قاذورۃ فإنہ یکفر وإن کان مصدقاً: لأن ذلک في حکم التکذیب کما أفادہ في شرح العقائد، وأشار إلي ذلک بقولہ: للاستخفاف، فإن فعل ذلک استخفافاً واستہانۃ بالدین فہو أمارۃ عدم التصدیق۔(ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز کے بعد مصافحہ کا رواج مکروہ ہے، اس لیے کہ اس کو لازم اور ضروری سمجھ لیا حالاںکہ صحابہ کرامؓ نے نماز کے بعد مصافحہ کبھی نہیں کیا ہے اور کراہت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اہل سنت والجماعت کے طریقہ کے خلاف ہے،نیز ابن حجر شافعیؒ فرماتے ہیں کہ لوگ پنجگانہ نماز کے بعد مصافحہ کرتے ہیں، وہ مکروہ ہے، شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن الحاج مکی رحمۃ اللہ علیہ کتاب ’’المدخل‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام صاحب کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں نے نماز پنجگانہ اور صلوٰۃ العیدین کے بعد مصافحہ کا جو طریقہ ایجاد کیا ہے اس سے لوگوں کو منع کرے کہ یہ بدعت ہے۔(۱) شریعت میں مصافحہ کسی مسلم سے ملاقات کرتے وقت ہے نہ کہ نمازوں کے بعد۔ لہٰذا شریعت نے جو محل مقرر کیا ہے اسی جگہ اس کو بجالائیں اور مصلحت کے خلاف کرنے کو روکیں۔(۲)
’’أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم، ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض إلخ۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ: أنہا بدعۃ مکروہۃ، لا أصل لہا في الشرع۔ وقال ابن الحاج: إنہا من البدع، وموضع المصافحۃ في الشرع، إنما ہو عند لقاء المسلم لأخیہ لا في أدبار الصلوات إلخ‘‘۔(۳)
’’و أما في غیر حال الملاقات مثل کونھا عقیب صلوٰۃ الجمعۃ والعیدین کذا ھو العادۃ في زماننا فالحدیث ساکت عنہ فیبقی بلا دلیل وقد تقرر في موضعہ أن مالا دلیل علیہ فھو مردود، ولا یجوز التقلید فیہ‘‘۔(۴)


(۱) وقد یکون جماعۃ یتلاقون من غیر مصافحۃ ویتصاحبون بالکلام ومذاکرۃ العلم وغیرہ مدۃ مدیدۃ، ثم إذا صلوا یتصافحون، فأین ہذا من السنۃ المشروعۃ، ولہذا صرح بعض علمائنا …بقیہبأنہا مکروہۃ حینئذ، وأنہا من البدع المذمومۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب، باب المصافحۃ والمعانقۃ‘‘: ج ۹، ص: ۷۴، رقم: ۴۶۷۷)
(۲) عن أنس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا تلاقوا تصافحوا الخ۔ (المعجم الأوسط: ج ۱، ص: ۴۱، رقم: ۹۷)
(۳)  ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸۔
(۴) مجالس الأبرار ضمیمہ،ص: ۲۰۸

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص512

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام اور کفر دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی ضد ہیں، مذکورہ الفاظ کفریہ ہیں اور ایسا اعتقاد رکھنے والا کافر اور مرتد ہے۔ (۱) اس شخص کی کفریہ باتوں کو نہ سنا جائے اور نہ ان کو قبول کیا جائے اگر وہ اپنی جہالت کی وجہ سے ایسی غلطی کرتا ہے، تو حقیقت اس کے سامنے آشکارا کی جائے اس پر تجدید ایمان اور توبہ لازم ہے۔(۱)

(۱) ومن أعتقد أن الإیمان والکفر واحدٌ فہو کافر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، و منہا: ما یتعلق بالإیمان‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)

(۱) أن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلاۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1985/44-1932

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  وساوس کیا تھے اور جواب میں  آپ نے کیا کلمات کہے؟ ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد ہی حکم بتایاجاسکتاہے۔البتہ 'لعنت ہو' کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص کافر و مرتد ہے اس کے ساتھ مسلمانوں کو ملنا اور اس سے محبت رکھنا، اس کی اعانت کرنا حرام ہے اور جو لوگ اس کو بزرگ اور واجب التعظیم سمجھیں اوراس کی تصدیق کریں وہ بھی کافر ہیں۔ (۲) ’’قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ إِنِّيْ إِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَھَنَّمَ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ ہع۲۹}(۱)

(۲) ومن ہنا ینص الفقہاء علی أن من أدّی أنہ شریک لمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الرسالۃ أو قال: بجواز اکتسابہا بتصفیۃ القلب وتہذیب النفس فہوکافرٌ، وکذا إن ادّعی أنہ یوحي إلیہ وإن لم یدّعی النبوۃ۔ قال قاضي عیاضٌ: لا خلاف فی تکفیر مدّعي الرسالۃ۔ (وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیہ -الکویت- الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’حکم من أدعی النبوۃ أو صدق مدعیا لہا‘‘: ج ۴۰، ص: ۳۹)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ … ومن تکلم بہا عالماً عامداً کفر عندالکُلِّ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علي الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

رجل کفر بلسانہ طائعاً وقلبہ مطمئنٌ بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً کذا في فتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1983/44-1930

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ایسا کوئی واقعہ  ہماری نظر سے نہیں گزرا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں اس کو چاہئے کہ کھڑے ہوتے ہی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ ضم کرے۔(۱)

(۱) ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ فمدرک رکعۃ من غیر فجر یأتي برکعتین بفاتحۃ وسورۃ وتشہد بینہما، وبرابعۃ الرباعي بفاتحۃ فقط ولا یقعد قبلہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۷، زکریا دیوبند)
ولو أدرک رکعۃ من الرباعیۃ فعلیہ أن یقضي رکعۃ یقرأ فیہا الفاتحۃ والسورۃ، ویتشہد ویقضي رکعۃ أخریٰ کذلک، ولا یتشہد، وفي الثالثۃ بالخیار، والقراء ۃ أفضل، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع: في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص31