اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلا اورتیسرا عمل تو وہم ہے، اور دوسرا عمل یقینی طور پر بدعت و ضلالت ہے،(۱) ایسے اعمال سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ في النار‘‘(۲)

(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو کنت اٰمر أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۹، رقم: ۳۲۵۵)
(۲)  إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم مثل یا سیدی فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷ إلی ۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص377

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اسلام میں بارات کی کوئی اصل نہیں ہے،(۳) اس وقت شادی میں مختلف قسم کی رسوم اور اسراف داخل ہوگئے ہیں ان ہی میں سے ایک گھوڑے پر بارات جانا ہے، گھوڑا بھی ایک عام سواری ہے؛ لیکن شادی کے موقعہ پر اس کا استعمال یا تو رسم کے طور پر یا فخر ومباہات کے طور پر ہوتا ہے، اس لیے بارات کے لیے گھوڑے کی سواری مناسب نہیں ہے(۱) ہاں اگر کسی جگہ اس کا رواج نہ ہو اور نہ ہی یہ اسراف اور فخر ومباہات کے طو رپر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) شادی کے موقعہ پر دعوت میں شریک لوگوں کا پیسہ،کپڑا یا دوسرے تحفے دینا یہ نیوتہ کی ایک رسم ہے جس میں بہت سے مفاسد ہیں،(۲) اس لیے یہ رسم قابل ترک ہے،(۳) (اصلاح الرسوم) ہاں اگر اتفاقی طور پر کسی کی شادی میں جائے اور ہدیہ وغیرہ دے کر آئے جب کہ واپس لینے کی نیت نہ ہو تو یہ نہ صرف درست ہے، بلکہ مستحب اور پسندیدہ عمل ہے؛ اس لیے کہ حدیث میں ہدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (۴)

(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
(۲) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ الحدیث (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، رقم: ۹۷۱؛ مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الغضب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۴) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وغر الصدر۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۱، رقم: ۹۲۵۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص467
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں خوشی منانے کے لیے حدود اور طریقے ہیں، عیدین اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی نعمتوں کے اظہار اور خوشی کے مواقع ہیں؛ لیکن غیروں کے طریقوں سے احتراز ضروری ہے، مشرکین جو طریقہ اختیار کرتے ہیں، جھالر اور چراغاں وغیرہ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں؛ بلکہ غیروں کا طریقہ(۱) اور اسراف ہے؛ اس لیے اس سے بچنا چاہئے۔(۲)

(۱) (۱) لا بأس بہ إذا فعلہ من مال نفسہ ولا یستحسن من مال الوقف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص513

اسلامی عقائد

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیروں کی مشابہت کی وجہ سے ممنوع قرار پائے گا، احتجاج کے دیگر طریقے  اختیارکرناجن میں کسی قوم کی مشابہت نہ پائی جائے درست ہے؟اس میں  آتش پرستوں کی مشابہت بھی ہے، اورفضول خرچی بھی  ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان اور اسلام میں داخل ہونے کے لئے دل سے اسلامی عقائد قبول کرنا اور زبان سے کلمہ طیبہ پڑھنا ضروری ہے، مگر زندگی کو مکمل طور پر دائرہ اسلام میں  داخل کرنے کے لئے صرف زبان سے اقرار کرنا کافی نہیں ہے، اس بارے میں خدا تعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (۱) اے ایمان والو: اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، یعنی محض دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے یقینا کلمہ طیبہ کا اقرار شرط ہے، لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ وہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار کرنے کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے اور اسلام کے تمام عقائد کی تصدیق کرے اور کفر وشرک کے تمام شعائر سے اظہار برأت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایمان اور کفر کی جو حدود متعین کردی ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے پوری زندگی ایمان اور اسلام کا ایسا مظاہرہ کرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ گزرے کہ جس پر کفر اور منافقت کا شائبہ ہو، ’’وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام‘‘(۲) نیز بہتر ہے کہ اسلام لانے سے پہلے غسل کر کے اچھی طرح طہارت حاصل کرلے۔’’عن خلیفۃ بن حصین عن جدہ قیس بن عاصم قال: أتیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أرید الإسلام، فأمرني أن اغتسل بماء وسدر‘‘(۳) مذکورہ صورت میں وہ عورت مسلمان ہو گئی ہے۔(۴)

(۱) سورۃ البقرۃ: ۲۰۸۔

(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: الطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۷۔

(۳) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یسلم فیؤمر بالغسل‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۵۔

(۴) لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلما وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیۃ، ’’کتاب السیر: باب الإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)

عن الحسن بن زیاد: إذا قال الرجل لذمي: أسلم فقال أسلمت کان إسلاماً،کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القیال‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۲)

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جمہور علماء کے مطابق ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں اپنی لطافت ونورانیت کے باعث مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ ’’فذہب أکثر المسلمین إلی أنہا أجسام لطیفۃ قادرۃ علی التشکل بأشکال مختلفۃ‘‘(۱) فرشتے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں، لہٰذا ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا غلط ہے کہ ان کی پیدائش انسانوں کی طرح ہوتی ہے، نیز فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں، مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خلقت الملائکۃ من نور وخلق الجان من مارج من نار، وخلق آدم مما وصف لکم‘‘ (۲) فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے شعلہ سے اور آدم علیہ السلام کو اس شئی سے پیدا کیا گیا ہے جس کی صفت اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔ (۱) ناصر الدین عبد اللّٰہ، تفسیر البیضاوي، ’’سورۃ البقرۃ: ۳۰‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲۔ (۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الزہد والرقائق، باب في أحادیث متفرقۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۳، رقم: ۲۹۹۶۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص261

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بزرگوں سے محبت، دین کی علامت ہے، دینی تقاضا یہ ہے کہ اللہ والوں سے محبت کی جائے، اللہ والوں سے محبت، نیکی اس لیے ہے کہ ان سے تعلق اللہ کی وجہ سے ہے؛ لیکن وہ قابل محبت اور محبوب اس لیے بنتے ہیں کہ اللہ کو مانتے تھے اور اللہ کی مانتے تھے؛ اس لیے اللہ والوں سے سچی محبت یہی ہے کہ ان کے طریقے پر چلا جائے ان کی تعلیمات اور ارشادات پر عمل کیا جائے(۱) یہ طاق وغیرہ بنوانا بطور یادگار جائز نہیں ہے آئندہ لوگ بدعتیں کرنے لگیں گے؛ بلکہ اپنے دل کے طاق میں ان کے طریقوں کو سجایا جائے۔(۲)

(۱) {فَبَشِّرْ عِبَادِ ہلا ۱۷الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ أَحْسَنَہٗط} (سورۃ الزمر: ۱۷)
(۲)من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص378

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عدت پوری ہونے پراس طرح کی رسمیں غیروں سے مسلمانوں میں آئی ہیں جو کہ غیر شرعی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
قال القاري: أي من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء والأبرار فہو منہم، أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ۔ (بذل المجہود، ’’کتاب اللباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۵، ص: ۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص469

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں،(۱) اس کا نہ ماننے والا بلا شبہ حق پر ہے۔(۲)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
(۲) کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم مکروہا۔ (سیاحۃ الفکر لمولانا، عبد الحي: ص: ۷۲)
وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
من أحدث في الإسلام حدثاً۔ فعلیہ {لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَہلا  ۱۶۱}۔ (ابن حجر العسقلاني، المطالب العالیہ، رقم: ۲۹۸۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص514

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے گھر کے قریب کسی جگہ دینی بات اس انداز پر سننے کے لئے جانا کہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور پردہ وغیرہ کا پورا انتظام ہو اس میں کوئی حرج نہیں(۱)، لیکن عفت وپاکدامنی کی حفاظت بہر حال مقدم ہے۔(۲)

(۱) قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلب علینا الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لقیہن فیہ فوعظہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العلم: باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۱)
(۲) {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی} (سورۃ الأحزاب: ۳۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص318