اسلامی عقائد

Ref. No. 1055/41-238

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    ایسا ہونا ممکن ہے اگر اللہ چاہے۔ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالی کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے گرچہ اب تک اس کا کبھی ظہور نہ ہوا ہو۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ضروریات دین اور قرآن کریم واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تواتر سے باجماع امت ثابت شدہ چیزوں اور احکام کا منکر عقیدۃً ہو وہ بلا شبہ کافر و مرتد ہے۔ شرعاً وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ فی السوال شخص بشرط صحت سوال اسلام سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں خارج اور کافر ہے

إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن أو خطئ أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ۵۰۷)

إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘ أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور ان جیسے جملوں میں کہیں تو اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے اور کہیں دین کی توہین ہے اور لوازمات دین پر عقیدہ کا انکار ہے(۳) اور ان چیزوں سے ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے(۱) ورنہ وہی حکم ہوگا جو لگایا گیا ہے۔ یہ مسائل صحیح ہیں اگر کہیں دشواری پیش آئے تو کسی اچھے عالم سے سمجھ لیا جائے۔

(۳) وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

رجل کفر بلسانہ طائفاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

() تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃالزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۷)

 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2282/44-3437

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھپکلی کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہذا اگر  چھپکلی کی بیٹ ماء قلیل میں گرجائے تو وہ پانی ناپاک  ہوجائے گا، اور اگر کسی شخص کے بدن یا کپڑوں پر لگ جائے تو اسے دھونا ضروری  ہوگا۔

واشار بالروث والخثي الي نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.  (البحر الرائق : ( 242/2، ط:دار الكتاب الاسلامي)

 (وخرء) كل لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج)... (وروث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.
(
قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها ولانصراف الإطلاق إليها كما يأتي. (الدر المختار مع رد المحتار: (320/1، ط: دار الفكر
)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکوربات اگر بالکل صحیح ہے تو مسجد کے متولی اور صدر کا یہ عمل قطعا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ولیمہ کرنا یا نہ کرنا یہ شادی کرنے والے کا اپنا عمل ہے، ولیمہ نہ کرنے پر بطور سزا کے زبردستی پیسہ وصول کرنا ناجائز ہے کسی کو بھی حق نہیں پہونچتا ہے کہ ولیمہ نہ کرنے والے سے پیسے کا مطالبہ کرے وہ بھی مسجد جیسی مقدس جگہ کے لیے جہاں صرف حلال اور پاک پیسہ استعمال ہونا چاہیے؛ اس لیے صدر وسکریٹری کا یہ عمل غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہے۔
’’اسمعوا مني تعیشوا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ،(۲) إن ہذا المال خضرۃ حلوۃ، فمن أخذہ
بطیب نفس بورک لہ فیہ، ومن أخذہ بإشراف نفس لم یبارک لہ فیہ، وکان کالذي یأکل ولا یشبع، والید العلیا خیر من الید السفلي السنن الکبری للنسائي،الید العلیا خیر من الید السفلي(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ طیب لا یقبل إلا الطیب، وإن اللّٰہ أمر المؤمنین بما أمر بہ المرسلین قال: {یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ} (المؤمنون: ۵۱) (۲)

(۲) أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵۔
(۱) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’مسألۃ الرجل في أمر لا بد لہ منہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۲۶۰۲۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۴، ص: ۳۳۵، رقم: ۶۳۹۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص466
 

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرض عین کا کا مطلب ہے تمام مکلفین پر اس کو انجام دینا لازم ہو ایسا نہ ہو کہ بعض ادا کردیں تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے جیسا کہ فرض کفایہ میں ہوتا ہے۔ مروجہ تبلیغی جماعت میں جانا نہ تو فرض عین ہے اور نہ ہی فرض کفایہ ۔ فرض کہنا ہی غلو ہے؛ تاہم اپنی اصلاح کے لئے اس میں  نکلنا اور مسجد میں دن رات رہ کر اپنے کو عبادت کا عادی بنانا محبوب عمل ہے۔     

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات کی زیادہ سے زیادہ عمر تو اللہ ہی کے علم میں ہے، البتہ اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنات کی عمریں بڑی لمبی ہوتی ہیں، جنات پہاڑ اور سمندر میں رہتے ہیں، اگرچہ زمینوں پر جس پر انسان آباد ہیں آجاتے ہیں اس میں بھی ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہے۔ اور ان کی خوراک لید اور ہڈی وغیرہ ہیں۔ (۱)

(۱) فسألوني الزاد فزودتہم العظم والبعر فلا یستطیبن أحدکم بعظم ولا بعر۔ (أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمدالقرطبي، تفسیر القرطبي، ’’سورۃ الجن: ۳‘‘: ج۲۰، ص: ۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص260

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلا اورتیسرا عمل تو وہم ہے، اور دوسرا عمل یقینی طور پر بدعت و ضلالت ہے،(۱) ایسے اعمال سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ ’’کل بدعۃ ضلالۃ وکل ضلالۃ في النار‘‘(۲)

(۱) عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو کنت اٰمر أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجہا۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الرضاع، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۹، رقم: ۳۲۵۵)
(۲)  إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیرہم مثل یا سیدی فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷ إلی ۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص377

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اسلام میں بارات کی کوئی اصل نہیں ہے،(۳) اس وقت شادی میں مختلف قسم کی رسوم اور اسراف داخل ہوگئے ہیں ان ہی میں سے ایک گھوڑے پر بارات جانا ہے، گھوڑا بھی ایک عام سواری ہے؛ لیکن شادی کے موقعہ پر اس کا استعمال یا تو رسم کے طور پر یا فخر ومباہات کے طور پر ہوتا ہے، اس لیے بارات کے لیے گھوڑے کی سواری مناسب نہیں ہے(۱) ہاں اگر کسی جگہ اس کا رواج نہ ہو اور نہ ہی یہ اسراف اور فخر ومباہات کے طو رپر ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) شادی کے موقعہ پر دعوت میں شریک لوگوں کا پیسہ،کپڑا یا دوسرے تحفے دینا یہ نیوتہ کی ایک رسم ہے جس میں بہت سے مفاسد ہیں،(۲) اس لیے یہ رسم قابل ترک ہے،(۳) (اصلاح الرسوم) ہاں اگر اتفاقی طور پر کسی کی شادی میں جائے اور ہدیہ وغیرہ دے کر آئے جب کہ واپس لینے کی نیت نہ ہو تو یہ نہ صرف درست ہے، بلکہ مستحب اور پسندیدہ عمل ہے؛ اس لیے کہ حدیث میں ہدیہ دینے کی ترغیب دی گئی ہے جس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ (۴)

(۳) ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
(۱) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’حدیث عقبۃ بن عامر -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
(۲) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا إنہ لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ الحدیث (أخرجہ أحمد بن حنبل، في مسندہ، ’’حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي‘‘: ج ۵، ص: ۷۳، رقم: ۹۷۱؛ مشکوۃ شریف، ’’کتاب البیوع: باب الغضب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۴)
(۳) لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰۶)
(۴) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تہادوا فإن الہدیۃ تذہب وغر الصدر۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۴۱، رقم: ۹۲۵۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص467
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں خوشی منانے کے لیے حدود اور طریقے ہیں، عیدین اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی نعمتوں کے اظہار اور خوشی کے مواقع ہیں؛ لیکن غیروں کے طریقوں سے احتراز ضروری ہے، مشرکین جو طریقہ اختیار کرتے ہیں، جھالر اور چراغاں وغیرہ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں؛ بلکہ غیروں کا طریقہ(۱) اور اسراف ہے؛ اس لیے اس سے بچنا چاہئے۔(۲)

(۱) (۱) لا بأس بہ إذا فعلہ من مال نفسہ ولا یستحسن من مال الوقف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مسند لہا في الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب التشدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص513