Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی کام کرنے کی تو غیر شادی شدہ کو بھی اجازت ہے(۳) لیکن پردہ کا پورا لحاظ رہے بغیر محرم یا غیر محرم کے ساتھ سفر نہ ہو(۴) اور کسی طرح بھی کسی فتنہ کا گمان نہ ہو، شرعی حدود میں رہ کر دین کا کام کیا جائے، مثلاً: گھر میں بچوں کو پڑھانا یا وہ قریبی عورتیں جو حدود شرع میں رہ کر آسکیں انھیں دین کی دیگر باتیں بتانا وغیرہ، لیکن واضح رہے کہ عورت کی عفت کی حفاظت شرعاً انتہائی اہمیت کی حامل ہے، عفت کو خطرہ میں ڈال کر کسی کام کی شریعت اجازت نہیں دیتی خواہ وہ کام بظاہر کتنا ہی بہتر معلوم ہو۔(۱)
(۳) {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج} (سورۃ النحل: ۹۷)
(۴) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)
(۱) {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی} (سورۃ الأحزاب: ۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص318
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردوں سے کوئی چیز مانگنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ اپنے نیک بندوں اور ان کے اعمال خیر کی برکت سے دعا قبول فرما اور دعا صرف اللہ تعالیٰ سے ہو، تو جائز ہے۔(۱)
(۱) إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیر ہم، مثل یا سیدي فلان أغثني، ولیس ذلک من التوسل المباح في شيء، …… وقد عدہ أناس من العلماء شرکاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷-۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸) {وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَج فَاِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَہ۱۰۶} (سورۃ یونس: ۱۰۶)
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں رسم ورواج کو بڑا دخل ہے، ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تداعی غیر مقصود کے لیے ہے خود پڑھ کر بخش سکتے ہیں یہ طریقہ نام ونمود سے دور اور اموات کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔(۲)
(۲) إن ختم القرآن جہراً بالجماعۃ ویسمي بالفارسیۃ ’’ستپارہ خواندن مکروہ‘‘۔ (تالیفات رشیدیہ: ص: ۱۴۳)
وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یوشک أن یأتي علی الناس زمان لا یبقی من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقی من القرآن إلا رسمہ۔ مساجدہم عامرۃ وہي خراب من الہدیٰ، علمائہم أشر من تحت أدیم السماء، مَن عندہم یمدح الفتنۃ۔ (شعب الإیمان للبیہقي، ’’فصل قال وینبغي لطالب العلم أن یکون تعلمہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص470
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا جس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی دین کا سیکھنا فرض ہے، عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آتی تھیں اور دین کی باتیں سیکھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے ایک دن مخصوص کردیا تھا جس میں آپ ان سے خطاب کرتے تھے،(۱) جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہمیں عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت کے حوالے سے حساس رہنا چاہیے غافل نہیں اور ایسا نظام جو مناسب اور قابل عمل ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے، اس لیے تبلیغی جماعت کے جو اصول ہیں ان کی رعایت کے ساتھ تبلیغی جماعت میں سفر کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اپنی اصلاح کی کوشش کرنا یہ ضرورت میں داخل ہے جس کے لیے محرم کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے(۲) جہاں تک یہ سوال ہے کہ عورتوں کا تبلیغ کے لیے سفر کرنا ثابت نہیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ سفر تبلیغ کے لیے نہیں؛بلکہ تعلیم و تربیت کے لیے ہے، اور عہد نبوی میں عورتوں کاجہاد کے لیے سفر کرنااور پانی وغیرہ کا نظم کرنا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا؛ بلکہ بسا اوقات جنگ میں حصہ لینا بھی ثابت ہے جب کہ جہادکا سفرجہا داور تبلیغ دونوں کے لیے ہوتاتھا یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء کرام نے شرائط کے ساتھ عورتوں کے تبلیغ میں جانے کو جائزقرار دیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی فرماتے ہیں: تبلغی جماعت کا مقصد دین سیکھنا، اس کو پختہ کرنا اور دوسروں کو دین سیکھنے، پختہ کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہے اور اس جذبہ کو عام کرنے کے لیے طویل طویل سفر بھی اختیار کیے جاتے ہیں جس طرح مرد اپنے دین کو سمجھنے اور پختہ کرنے کے محتاج ہیں عورتیں بھی محتاج ہیں اور گھروں میں عامۃ اس کا انتظام نہیں ہے اس لیے اگر لندن یا کسی بھی دور دراز مقام پر محرم کے ساتھ حدود شرع کی پابندی کا لحاظ رکھتے ہوئے جائیں اور کسی کے حقوق تلف نہ ہوں تو شرعا اس کی اجازت ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے مفید اور اہم ہے۔(۳)
مفتی احمد خاں پوری صاحب نے اپنے ایک فتوی میں مطلقا جواز نقل کیا ہے اور ایک دوسرے تفصیلی فتوی میں دونوں آراء کو نقل کرنے کے بعد جواز کے پہلو کو راجح قرار دے کر حضرت مولانا یوسف صاحب کی ایک تحریر نقل کی ہے: مستورات کی تبلیغی جماعت میں مجھے بذات خود اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ شرکت کا موقع ملا، مستورات کے تبلیغی عمل کا میں نے خود مشاہدہ کیا جس میں شریعت کے تمام احکام کی مکمل پابندی کی جاتی ہے اور پردے کے تمام احکامات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے مستورات کی تبلیغ کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کے ا کابرین نے جو شرائط رکھے ہیں وہ مکمل شریعت کے مطابق ہیں اور ان شرائط کی پابندی نہ کرنے والی مستورات کو تبلیغی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہے ان تمام امور کے بعد میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ مستورات کی تبلیغی جماعت میں شرکت کے عدم جواز کا فتوی کیوں دیا جاتا ہے میری رائے میں مستورات کا اس طرح تبلیغ کے لیے جانا درست ہے، مستورات کی جماعتوں کی وجہ سے ہزاروں عورتوں کی اصلاح ہوگئی ہے اور بہت سی عورتیں جو بے حجاب کھلے بندوں بے پردہ نکلتی تھیں اور قرآن کریم نے جس کوتبرج الجاہلیۃ کہا ہے اس کا پورا پورا مظاہرہ کرتی تھیں الحمد للہ مستورات کو دیکھ کر ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی دینی باتیں سن کر ان کی اصلاح ہوگئی ہے؛ اس لیے اس ناکارہ کے نزدیک تو شرائط مرتبہ کے مطابق نہ صرف مستورات کا تبلیغ میں نکلنا جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
مفتی رشید احمد صاحب طویل بحث کرکے ’’بصیرت فقیہ‘‘ عنوان قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں؛
بصیرت فقہیہ:
حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ امور دینیہ کے لئے خواتین کے خروج کی ممانعت قرآن وحدیث میں منصوص نہیں؛بلکہ ان حضرات نے اپنے زمانے کے حالات اور شیوع فتن و فسادات کی وجہ سے اصول شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء وانظار کا اظہار فرمایا ہے؛ لہٰذا ان حضرات کا فیصلہ کوئی نص قطعی اور حرف آخر نہیں؛ بلکہ تغیر زمانہ سے اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
دور حاضر میں غلبہ جہل اور دین سے بے اعتنائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کے لئے ضروریات شرعیہ سے خروج کو مطلقاً ممنوع و حرام قرار دینا اور کسی بھی ضرورت شرعیہ کے لئے خروج کی اجا زت نہ دینا اقامت دین کی بجائے ہدم دین ہے؛چنانچہ اسی کے پیش نظر مجموع النوازل میں مسائل شرعیہ معلوم کرنے کی ضرورت سے خروج کی اجازت دی گئی ہے۔(۱)
(۱) قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلب علینا الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لقیہن فیہ فوعظہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العلم: باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۱)
(۲) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)
(۳) فتاوی محمودیہ، ’’عورتوں کے لیے تبلیغی سفر‘‘: ج ۴، ص: ۲۶۶۔
(۱) محمود الفتاویٰ: ج ۲، ص: ۲۰۷۔
(۱) احسن الفتاویٰ: ج ۸، ص: ۵۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص319
اسلامی عقائد
Ref. No. 2762/45-4311
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ محض صدقے کی نیت کرنے سے جانور متعین نہیں ہوتا جب تک خریدتے وقت صدقہ کی نیت نہ کی ہو مذکورہ صورت میں آپ جانور کو اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے، اگر وسعت ہو تو صدقہ کر دینا ثواب ہوگا تاہم آپ صدقہ ہی کرنا لازم نہیں ہے۔
قولہ شراہا لہا) لوجوبہا علیہ ...... فلو کانت فی ملکہ فتوی أن یضحی بہا أو اشتراہا ولم یتوا لاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذلک لا یجب لأن النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر، بدائع۔ (رد المحتار: ٦، ص: ٣٢١، دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی حیثیت اور کوئی اصل نہیں ہے۔(۱)
(۱) من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص516
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس عورت نے تفسیر وحدیث کی کتابیں پڑھی ہوں اس کو اپنی معلومات کے تحت وعظ ونصیحت اور مسئلہ بتلانے کا حق ہے، ازواج مطہراتؓ میں سے بعض نے مسائل بھی بتلائے ہیں(۲) اور احادیث بھی بیان کی ہیں اور یہی معمول دیگر صحابیاتؓ کا رہا ہے اور صحابہؓ نے بھی ان سے مسائل معلوم کئے ہیں اور ان سے اخذ علم کیا ہے اور وہ مسائل آج بھی معمول بہا ہیں ان کے سوا بھی قرونِ ثلاثہ کے بعد عورتوں کے علم سے مردوں نے استفادہ کیا ہے، عورتوں نے بھی علوم دینیہ کے حصول میں بہت محنت کی(۱)۔ بدائع الصنائع جس کے بارے میں علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں اس کی نظیر نہیں ہے۔ صاحب بدائع جو فتوے لکھتے تھے ان کے فتووں پر ان کی لڑکی کے دستخط تصحیح کے لئے ہوتے تھے۔ اور قوم اسی کو زیادہ معتبر مانتی تھی؛ اس لئے سوال میں جو باتیں مذکورہ عالمہ کے بارے میں کہی گئی ہیں وہ غلط ہیں اور اس کی علمی استعداد وہی ہے جو سوال میں لکھی گئی ہے، تو بلا شبہ اس کو وعظ ونصیحت کرنے کا عورتوں کی مجلس میں حق ہے اور عورتوں کا اس اجتماع میں شرکت کرنا جائز ہے۔ فتویٰ میں ذاتی رائے کا استعمال کرنا (خصوصاً جب کہ وہ غلط پروپیگنڈے یا ذاتی عناد پر ہو) قطعاً جائز نہیں ہے۔ اور بغیر دلیل کے کسی کے قول کو صحیح اور معتبر نہیں مانا جاسکتا علوم دینیہ کا حصول عورتوں کے لئے ضروری ہے(۲) اگر کوئی عورت وعظ وتبلیغ کے ذریعہ سے علم دین کی اشاعت کا کام انجام دے رہی ہے، تو اس کو روکنا جائز نہیں ہے۔ (۳)
(۲) وکان النساء یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ من دم الحیض یسئلنہا عن الصلوٰۃ۔ (مؤطا إمام مالک ’’باب طہر الحائض‘‘: ص: ۲۰)
۱) إن إحدی بنات السمر قندي کانت تسمی فاطمۃ وکانت نسیج وحدہا في جمال صورتہا وسعۃ علمہا وفقہہا وکانت ثاقبۃ النظر مفرطۃ الذکاء حتی کانت تحفظ تحفۃ الفقہاء عن ظہر قلبہا۔ (أدلۃ الحنفیۃ: ج ۱، ص: ۷)
(۲) طلب العلم أي الشرعي فریضۃ أي: مفروض فرض عین علی کل مسلم أو کفایۃ والتاء للمبالغۃ أي ومسلمۃ کما في روایۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۴، رقم: ۲۱۸)
(۳) المؤمنون والمؤمنات بعضہم أولیاء بعض، یوید بعضہم بعضا في طاعۃ اللّٰہ وإعلاء دینہ یأ مرون بالمعروف بالإیمان والطاعۃ وینہون عن المنکر عن الشرک والنفاق ومعصیۃ الرسول واتباع الشہوات۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ التوبہ: ۷۱‘‘: ج ۴، ص: ۲۴۲)
-------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص322
اسلامی عقائد
الجواب و باللّٰہ التوفیق:یہ شخص کافر ہوگیا ہے، اس کے لئے تجدید ایمان اور تجدید نکاح ضروری ہے اور توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔ (۱
(۱) من قال: لا أدري صفۃ الإسلام فہو کافر، وذکر شمس الأمۃ الحلواني رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ہذہ المسئلۃ وبالغ فیہا، فقال: ہذا الرجل لیس لہ دین ولا صلوٰۃ ولا صیام ولا طاعۃ ولا نکاح، وأولادہ أو لاد الزنا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)
ولا بقولہ: ہذا مکان لا إلہ فیہ ولا رسول إلا إذا قصد بہ إنکار الدین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۰۴)
)