اسلامی عقائد
ہمارے ایک مربی ومشفق عالم باعمل کا انتقال ہوگیا ہے اور میں نے جوش عقیدت ومحبت میں آپ کی شان میں چند کلمات لکھے، جن پر ہمارے بعض احباب کا کہنا ہے کہ ایسا لکھنا جائز نہیں حرام ہے، تم نے کفر شرک والا کام کیا ہے، وہ کلمات یہ ہیں ’’یعقوب علیہ السلام نے {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (سورۃ یوسف: ۸۶) کی دھیمی دھیمی صدا بلند کی، ایوب علیہ السلام نے {رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ } (سورۃ الأنبیاء: ۸۳) کا ورد کیا، آدم ثانی سیدنا نوح علیہ السلام نے {رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًاہ۲۶} (سورۃ نوح: ۲۶) کا نعرہ لگا کر ظالمین کی صفوں کو درھم برھم کردیا۔ مگر یہ انسان عجیب وغریب تھا، جس کی زبان پر نہ رنجوری کا شکوہ، نہ دشمنوں کے لئے دعاء بد، نہ خلوتوں میں خدائے قہار کے سامنے شر پسندوں کی شکایت؛ بلکہ صبر ورضا کا پیکر، سکوت کا لق ودق صحراء، سوز وساز کا خاموش دریا، بن کر اپنے قلب پر آلام واحزان کا بوجھ لیے ہوئے دنیا سے چلاگیا۔ {فإنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون} تو شرع کی روشنی میں کہاں تک میرے لیے ان الفاظ کا لکھنا درست ہے۔ یا اس کا کیا حکم ہے بالبسط جواب تحریر فرمائیں نوازش ہوگی ۔ فقط: والسلام المستفتی: نظام الدین خاں، پرتابگڑھی

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ بات صحیح نہیں ہے کہ فرشتے اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرتے ہیں؛ بلکہ فرشتوں کوتو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے ، فرشتے ہر وقت اللہ تعالی کی عبادت میں لگے رہتے ہیں؛ اللہ تعالی کی بالکل نافرمانی نہیں کرتے ہیں،بلکہ نافرنی فرشتوں کی طبیعت اور خلقت میں ہے ہی نہیں {لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ أَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَہ۶}(۱)  فرشتے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام کرتے ہیں جن کا ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ فرشتے تمام قسم کی عبادت انجام دیتے ہیں، قرآن وحدیث میں ان کی مختلف عبادت کا تذکرہ ہے، مختلف خدمتوں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات وتعلیمات کو نافذ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تعلیمات اور احکامات کی با لکل مخالفت نہیں کرتے ہیں، فرشتوں کی عبادت کا یہ بھی حصہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے آگے نہیں بڑھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے امر پر کوئی اعتراض کرتے ہیں؛ بلکہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اسے کر گزرتے ہیں، {لا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَہ۲۷}(۲) فرشتے باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ سے سبقت نہیں کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ خاص طور پر فرشتوں کی جن عبادتوں کا تذکرہ ہے، اس میں تسبیح ہے، فرشتے کثرت سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں {یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لا یَفْتُرُوْنَہ۲۰}(۳) فرشتے رات دن اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ نہیں تھکتے۔ اسی طرف فرشتے صف لگا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اس طرح صف لگاؤ جس طرح صحابہؓ صف لگا تے ہیں صحابہؓ نے پوچھا کہ صحابہؓ کس طرح صف لگاتے ہیں تو آپ نے فرمایا صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور مل مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔(۴) اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر ایک کعبہ بنایا ہے جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے، مشہور روایت معراج کے سلسلے میں ہے کہ آپ نے فرمایا پھر مجھے ساتویں آسمان پر بیت المعمور لے جایا گیا یہ وہ جگہ ہے جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جو ایک مرتبہ داخل ہوتا ہے اس کو دوبارہ موقع نہیں ملتا ہے اس کے ضمن میں ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فرشتے بیت المعمور میں عبادت کرتے ہیں اور طواف کرتے ہیں جس طرح خانہ کعبہ کا مسلمان طواف کرتے ہیں۔(۱)

(۱) التحریم: ۶۔                 (۲) الانبیاء: ۲۷۔        (۳) الانبیاء:۲۰۔
(۴) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب إقامۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸، رقم: ۹۹۱۔
(۱) تفسیر ابن کثیر، في ضمن آیۃ ، والبیت المعمور‘‘: ج ۷، ص: ۴۲۹۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص262
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بھات میں اگر غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ ہو اور ماموں کی طرف سے شادی کے موقع پر تعاون ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن اس کا التزام بھی درست نہیں ہے کہ اگر ماموں یہ تعاون نہ کرسکے، تو اسے مطعون ومتہم کیا جائے۔ یہ ایک رسم ہے جس کا ترک کرنا لازم ہے۔(۱)

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص469

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دینی کام کرنے کی تو غیر شادی شدہ کو بھی اجازت ہے(۳) لیکن پردہ کا پورا لحاظ رہے بغیر محرم یا غیر محرم کے ساتھ سفر نہ ہو(۴) اور کسی طرح بھی کسی فتنہ کا گمان نہ ہو، شرعی حدود میں رہ کر دین کا کام کیا جائے، مثلاً: گھر میں بچوں کو پڑھانا یا وہ قریبی عورتیں جو حدود شرع میں رہ کر آسکیں انھیں دین کی دیگر باتیں بتانا وغیرہ، لیکن واضح رہے کہ عورت کی عفت کی حفاظت شرعاً انتہائی اہمیت کی حامل ہے، عفت کو خطرہ میں ڈال کر کسی کام کی شریعت اجازت نہیں  دیتی خواہ وہ کام بظاہر کتنا ہی بہتر معلوم ہو۔(۱)

(۳) {مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج} (سورۃ النحل: ۹۷)
(۴) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)
(۱) {وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْأُوْلٰی} (سورۃ الأحزاب: ۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص318

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردوں سے کوئی چیز مانگنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر یہ دعا کی جائے کہ اے اللہ اپنے نیک بندوں اور ان کے اعمال خیر کی برکت سے دعا قبول فرما اور دعا صرف اللہ تعالیٰ سے ہو، تو جائز ہے۔(۱)

(۱) إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر اللّٰہ تعالیٰ من الأولیاء الأحیاء منہم والأموات وغیر ہم، مثل یا سیدي فلان أغثني، ولیس ذلک من التوسل المباح في شيء، …… وقد عدہ أناس من العلماء شرکاً۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ المائدۃ: ۲۷-۳۷‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸) {وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَایَضُرُّکَج فَاِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَہ۱۰۶} (سورۃ یونس: ۱۰۶)

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتوں کی تعداد بے شمار ہے لیکن ان کی صحیح تعداد کا علم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو نہیں ہے {وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَط}(۲) اورآپ کے پروردگار کی فوج کا کسی کو علم نہیں ہے سوائے آپ کے رب کے۔ ترمذی کی روایت میں ہے کہ آسمان چرچراتاہے اور اس کا حق ہے کہ چرچرائے کیوں کہ وہاں تو چار انگلی کی جگہ نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی نہ کوئی فرشتہ وہاں سجدے میں پڑا ہے(۳) بیت المعمور کے متعلق حدیث میں ہے کہ ہر روز ستر ہزار فرشتے وہاں نماز پڑھتے ہیں اور جو ایک دفعہ نماز پڑھ لیتا ہے پھر اس کی دوبارہ باری نہیں آتی ہے(۴) بعض روایات میں ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے کے لئے مقرر ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جہنم کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگام ہوں گی اور ہر لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے(۱)۔ غور کریں تو فرشتوں کی کثرت کا اندازا نہیں لگا سکتے ہیں ،ہر نطفہ پر فرشتہ مقررہے، ہر انسان کی نگرانی کے لئے فرشتہ متعین ہے، ہر انسان کے نامہ اعمال لکھنے کے لئے فرشتے مقررہیں اس لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت ہے؛ لیکن ان کی صحیح تعداد کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ (۲) سورۃ المدثر: ۳۱۔ (۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو تعلمون ما أعلم لضحکتم قلیلا‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، رقم: ۲۳۱۲۔ (۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب بدء الخلق: باب ذکر الملائکۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۵، رقم: ۳۲۰۷۔ (۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجہاد والسیر: باب من حدث بمشاہدہ في الحرب‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۱، رقم: ۲۸۲۴۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص263

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس تقریب میں رسم ورواج کو بڑا دخل ہے، ایصال ثواب کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تداعی غیر مقصود کے لیے ہے خود پڑھ کر بخش سکتے ہیں یہ طریقہ نام ونمود سے دور اور اموات کے لیے زیادہ نفع بخش ہے۔(۲)

(۲) إن ختم القرآن جہراً بالجماعۃ ویسمي بالفارسیۃ ’’ستپارہ خواندن مکروہ‘‘۔ (تالیفات رشیدیہ: ص: ۱۴۳)
وعن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یوشک أن یأتي علی الناس زمان لا یبقی من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقی من القرآن إلا رسمہ۔ مساجدہم عامرۃ وہي خراب من الہدیٰ، علمائہم أشر من تحت أدیم السماء، مَن عندہم یمدح الفتنۃ۔ (شعب الإیمان للبیہقي، ’’فصل قال وینبغي لطالب العلم أن یکون تعلمہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص470

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا جس طرح مردوں پر فرض ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی دین کا سیکھنا فرض ہے، عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آتی تھیں اور دین کی باتیں سیکھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے ایک دن مخصوص کردیا تھا جس میں آپ ان سے خطاب کرتے تھے،(۱) جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہمیں عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت کے حوالے سے حساس رہنا چاہیے غافل نہیں اور ایسا نظام جو مناسب اور قابل عمل ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے، اس لیے تبلیغی جماعت کے جو اصول ہیں ان کی رعایت کے ساتھ تبلیغی جماعت میں سفر کرنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اپنی اصلاح کی کوشش کرنا یہ ضرورت میں داخل ہے جس کے لیے محرم کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے(۲) جہاں تک یہ سوال ہے کہ عورتوں کا تبلیغ کے لیے سفر کرنا ثابت نہیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ سفر تبلیغ کے لیے نہیں؛بلکہ تعلیم و تربیت کے لیے ہے، اور عہد نبوی میں عورتوں کاجہاد کے لیے سفر کرنااور پانی وغیرہ کا نظم کرنا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا؛ بلکہ بسا اوقات جنگ میں حصہ لینا بھی ثابت ہے جب کہ جہادکا سفرجہا داور تبلیغ دونوں کے لیے ہوتاتھا یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء کرام نے شرائط کے ساتھ عورتوں کے تبلیغ میں جانے کو جائزقرار دیا ہے۔ حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی فرماتے ہیں: تبلغی جماعت کا مقصد دین سیکھنا، اس کو پختہ کرنا اور دوسروں کو دین سیکھنے، پختہ کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہے اور اس جذبہ کو عام کرنے کے لیے طویل طویل سفر بھی اختیار کیے جاتے ہیں جس طرح مرد اپنے دین کو سمجھنے اور پختہ کرنے کے محتاج ہیں عورتیں بھی محتاج ہیں اور گھروں میں عامۃ اس کا انتظام نہیں ہے اس لیے اگر لندن یا کسی بھی دور دراز مقام پر محرم کے ساتھ حدود شرع کی پابندی کا لحاظ رکھتے ہوئے جائیں اور کسی کے حقوق تلف نہ ہوں تو شرعا اس کی اجازت ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے مفید اور اہم ہے۔(۳)

مفتی احمد خاں پوری صاحب نے اپنے ایک فتوی میں مطلقا جواز نقل کیا ہے اور ایک دوسرے تفصیلی فتوی میں دونوں آراء کو نقل کرنے کے بعد جواز کے پہلو کو راجح قرار دے کر حضرت مولانا یوسف صاحب کی ایک تحریر نقل کی ہے: مستورات کی تبلیغی جماعت میں مجھے بذات خود اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ شرکت کا موقع ملا، مستورات کے تبلیغی عمل کا میں نے خود مشاہدہ کیا جس میں شریعت کے تمام احکام کی مکمل پابندی کی جاتی ہے اور پردے کے تمام احکامات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے مستورات کی تبلیغ کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کے ا کابرین نے جو شرائط رکھے ہیں وہ مکمل شریعت کے مطابق ہیں اور ان شرائط کی پابندی نہ کرنے والی مستورات کو تبلیغی عمل میں شرکت کی اجازت نہیں ہے ان تمام امور کے بعد میری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ مستورات کی تبلیغی جماعت میں شرکت کے عدم جواز کا فتوی کیوں دیا جاتا ہے میری رائے میں مستورات کا اس طرح تبلیغ کے لیے جانا درست ہے، مستورات کی جماعتوں کی وجہ سے ہزاروں عورتوں کی اصلاح ہوگئی ہے اور بہت سی عورتیں جو بے حجاب کھلے بندوں بے پردہ نکلتی تھیں اور قرآن کریم نے جس کوتبرج الجاہلیۃ کہا ہے اس کا پورا پورا مظاہرہ کرتی تھیں الحمد للہ مستورات کو دیکھ کر ان کے پاس بیٹھ کر اور ان کی دینی باتیں سن کر ان کی اصلاح ہوگئی ہے؛ اس لیے اس ناکارہ کے نزدیک تو شرائط مرتبہ کے مطابق نہ صرف مستورات کا تبلیغ میں نکلنا جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
مفتی رشید احمد صاحب طویل بحث کرکے ’’بصیرت فقیہ‘‘ عنوان قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں؛

بصیرت فقہیہ:
حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ امور دینیہ کے لئے خواتین کے خروج کی ممانعت قرآن وحدیث میں منصوص نہیں؛بلکہ ان حضرات نے اپنے زمانے کے حالات اور شیوع فتن و فسادات کی وجہ سے اصول شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء وانظار کا اظہار فرمایا ہے؛ لہٰذا ان حضرات کا فیصلہ کوئی نص قطعی اور حرف آخر نہیں؛ بلکہ تغیر زمانہ سے اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
دور حاضر میں غلبہ جہل اور دین سے بے اعتنائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کے لئے ضروریات شرعیہ سے خروج کو مطلقاً ممنوع و حرام قرار دینا اور کسی بھی ضرورت شرعیہ کے لئے خروج کی اجا زت نہ دینا اقامت دین کی بجائے ہدم دین ہے؛چنانچہ اسی کے پیش نظر مجموع النوازل میں مسائل شرعیہ معلوم کرنے کی ضرورت سے خروج کی اجازت دی گئی ہے۔(۱)
 

(۱) قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غلب علینا الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لقیہن فیہ فوعظہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب العلم: باب ہل یجعل للنساء یوم علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۱۰۱)
(۲) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تسافر إمرأۃ مسیرۃ یوم ولیلۃ إلا ومعہا ذو محرم۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الحج: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۱، رقم: ۲۵۱۵)

(۳) فتاوی محمودیہ، ’’عورتوں کے لیے تبلیغی سفر‘‘: ج ۴، ص: ۲۶۶۔
(۱) محمود الفتاویٰ: ج ۲، ص: ۲۰۷۔
(۱) احسن الفتاویٰ: ج ۸، ص: ۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص319

اسلامی عقائد

Ref. No. 2762/45-4311

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ محض صدقے کی نیت کرنے سے جانور متعین نہیں ہوتا جب تک خریدتے وقت صدقہ کی نیت نہ کی ہو مذکورہ صورت میں آپ جانور کو اپنے استعمال میں بھی لا سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے، اگر وسعت ہو تو صدقہ کر دینا ثواب ہوگا تاہم آپ صدقہ ہی کرنا لازم نہیں ہے۔

قولہ شراہا لہا) لوجوبہا علیہ ...... فلو کانت فی ملکہ فتوی أن یضحی بہا أو اشتراہا ولم یتوا لاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذلک لا یجب لأن النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر، بدائع۔ (رد المحتار: ٦، ص: ٣٢١، دار الفکر بیروت)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرشتوں پر ایمان کا مطلب ہے کہ اس بات کا عقیدہ رکھا جائے کہ فرشتے اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، جن کو اللہ تعالی نے نور سے پیدا کیا ہے ،وہ نہ مذکر ہیں نہ مؤنث ،نہ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں ،شادی بیاہ نہیں کرتے ، ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ نہیں چلتا ہے ، بشری ضرورتوں سے پاک ہیں ، وہ ہر وقت اللہ تعالی کی عبادت و اطاعت میں لگے رہتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں اور نہ ہی اکتاتے ہیں ، وہ اللہ تعالی کی ذرہ برابر نافرمانی نہیں کرتے ،ان کے اعمال لکھے نہیں جاتے اس لئے کہ وہ خود لکھتے ہیں ، ان کا حساب نہیں ہوگا؛ اس لئے کہ وہ حساب لیتے ہیں ان کے اعمال تولے نہیں جاتے اس لئے کہ وہ صرف نیکی کرتے ہیں کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں۔ بندوں میں اور فرشتوں میں یہی فرق ہے کہ انسان نیکی اور برائی دونوں کرتے ہیں، جبکہ صرف نیکی کرتے ہیں برائی کا ان سے صدور نہیں ہوتا ہے ،ان کی صحیح تعداد کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ فرشتوں پر ایمان لانا ایمان کے لئے ضروری ہے اس کے بغیر ایمان معتبر نہیں ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {أٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَط کُلٌّ أٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖقف}(۱) پیغمبر ایمان لائے اس پر جو ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر نازل ہوا ہے اور مومنین بھی یہ سب ایمان رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر۔ سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلامً بَعِیْدًاہ۱۳۶}(۲) جو انکار کرے اللہ تعالی کا اور فرشتوں کا اور ان کتابوں کا اور ان کے رسولوں کا اور قیامت کے دن کا تو وہ بہت بڑی گمراہی میں جا گرا۔ اور سورہ بقرہ میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ أٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَج} (۳) بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اورنبیوں پر ایمان لائے۔ (۱) سورۃ البقرۃ: ۲۸۵۔ (۲) سورۃ النساء: ۱۳۶۔ (۳) سورۃ البقرۃ: ۱۷۷۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص265